Tuesday, 26 May 2015

دیوان منصور (یونی کوڈ)




حضرت سلطان باھو ؒ کے نام



ردیف الف
جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا
دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا

آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر
اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا

ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیر تک
پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا

جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر
اک سفر زاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا

زندگی اک جُوا خانہ ہے جس کی فٹ پاتھ پر اپنا دل
اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا

تم جسے چاند کا دیس کہتے ہو منصور آفاق وہ
ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا
٭
بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا
نگار خانۂ جاں کا طلسم ایسا تھا

دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے
سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا

جگہ جگہ پہ دراڑیں تھیں ندّی نالے تھے
سوادِ چشم میں پانی کا رِسم ایسا تھا

کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ
تمام شہر تھا ساکت، طلسم ایسا تھا

ہر ایک چیز برہنہ تھی بے کے نقطے میں
الف فروزاں تھا جس میں وہ بسم ایسا تھا

یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور
چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا
٭
اسے بھی ربطِ رہائش تمام کرنا تھا
مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا

نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے
مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا

اسے بھی عارض و لب کے دئیے جلانے تھے
مجھے بھی چاند سے کوئی کلام کرنا تھا

بس ایک لنچ ہی ممکن تھا اتنی جلدی میں
اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا

مراقبہ کسی بگلے کا دیکھنا تھا مجھے
کنارِ آبِ رواں کچھ خرام کرنا تھا

گلی کے لڑکوں کو سچائیاں بتانی تھیں
کوئی چراغ اندھیروں میں عام کرنا تھا

یہ کیا کہ بہتا چلا جا رہا ہوں گلیوں میں
کہیں تو غم کا مجھے اختتام کرنا تھا

بلانے آیا تھا اقبال بزمِ رومی میں
سو حکم نامے کا کچھ احترام کرنا تھا

گزر سکی نہ وہاں ایک رات بھی منصور
جہاں جہاں مجھے برسوں قیام کرنا تھا
٭
یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا
یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا

مجھ سے لپٹی جا رہی ہے اک حسیں آکاس بیل
یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا

موت کی ٹھنڈی گلی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
کھڑکیوں کو بند کر، جلدی سے اور ہیٹر لگا

بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی
روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر، پتھر لگا

کیا بلندی بخش دی بس ایک لمحے نے اسے
جیسے ہی سجدے سے اٹھا، آسماں سے سر لگا

پھیر مت بالوں میں  میرے، اب سلگتی انگلیاں
مت کفِ افسوس میرے، مردہ چہرے پر لگا

گر محبت ہے تماشا تو تماشا ہی سہی
چل مکانِ یار کے فٹ پاتھ پر بستر لگا

بہہ رہی ہے جوئے غم، سایہ فگن ہے شاخِ درد
باغِ ہجراں کو نہ اتناآبِ چشمِ تر لگا

اتنے ویراں خواب میں تتلی کہاں سے آئے گی
پھول کی تصویر کے پیچھے کوئی منظر لگا

اک قیامت خیز بوسہ اس نے بخشا ہے تجھے
آج دن ہے، لاٹری کے آج چل نمبر لگا
٭
ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا
آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا

بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ
دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا

شام کا وقت فقط بھاری نہیں ہے ہم پر
پھول کا چہرہ بھی ہے درد کے مارے جیسا

لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا

ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا
قوس در قوس کوئی گھوم رہا ہے کیا ہے

رقص کرتی کسی لڑکی کے غرارے جیسا
شکر ہے ہم نے کما لی تھی اداسی ورنہ

ہے محبت میں منافع تو خسارے جیسا
کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور
اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا
٭
پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا

صبح کے ماتھے پہ آکر سج گیا تھا
وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں

رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا
کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے

شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا
پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے

رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا
مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں

کربلا کیا موسمِ ذوالحج گیا تھا
تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی

تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا
وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے

جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا
کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر

گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا
پائوں بڑھ بڑھ چومتے تھے اڑتے پتے

تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا
چاند تاروں نے خبر منصور دی ہے
رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا
٭
میں بدنصیب تھا احمق تھا پیش و پس میں رہا

تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا
میں ایک شیش محل میں قیام کرتے ہوئے

کسی فقیر کی کٹیا کے خار و خس میں رہا
سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی

سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا
کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں

کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا
گنہ نہیں ہے فروغ بدن کہ جنت سے

یہ آبِ زندگی، بس چشمۂ  ہوس میں رہا
مرے افق پہ رکی ہے زوال کی ساعت

یونہی ستارہ مرا، حرکتِ عبث میں رہا
کنارے ٹوٹ کے گرتے رہے ہیں پانی میں

عجب فشار مرے موجۂ نفس میں رہا
وہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میں

وہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا
قدم قدم پہ کہانی تھی حسن کی لیکن

ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے قصص میں رہا
جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور
تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا
٭
موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا

بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا
اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ

گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا
بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں

ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا
شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ

دیکھا تو میں نے آنکھ کو پتھر بنا لیا
ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ

اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا
پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں

میں نے اُس ایک فرد کو  لشکر بنا لیا
شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی

مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا
کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر

اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا
پھر عرصۂ دراز گزارا اسی کے بیچ

اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا
بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر

اپنا دماغ گنبدِ بے در بنا لیا
باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے

لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا
گم کربِ ذات میں کیا یوں کربِ کائنات

آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا
منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں
دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا
٭
اِس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا

ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف

اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا
آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی

اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا
اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب

تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا
ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو

دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا
گربہ صفت گلی میں کسی گھونسلے کے بیچ

میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا
ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول

لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا
پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے

کمرے میں ہے میڈونا کا بستر بنا ہوا
یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف

اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا
ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع
تھا انگ انگ کورٹ کا محشر بنا ہوا
٭
دیواروں پر تمام دروں پر بنا ہوا

ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا
بس زندگی ہے آخری لمحوں کے آس پاس

محشر کوئی ہے چارہ گروں پر بنا ہوا
آتا ہے ذہن میں یہی دستار دیکھ کر

اک سانپ کاہے نقش سروں پر بنا ہوا
ناقابلِ بیاں ہوئے کیوں اس کے خدو خال

یہ مسئلہ ہے دیدہ وروں پر بنا ہوا
کیا جانے کیا لکھا ہے کسی نے زمین کو

اک خط ہے بوجھ نامہ بروں پر بنا ہوا
اک نقش رہ گیا ہے مری انگلیوں کے بیچ
منصور تتلیوں کے پروں پر بنا ہوا
٭
آئے نظر جو روحِ مناظر بنا ہوا

ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا
یہ کون جا رہا ہے مدینے سے دشت کو

ہے شہر سارا حامی و ناصر بنا ہوا
پر تولنے لگا ہے مرے کینوس پہ کیوں

امکان کے درخت پہ طائر بنا ہوا
یہ اور بات کھلتا نہیں ہے کسی طرف

ہے ذہن میں دریچہ بظاہر بنا ہوا
آغوشِ خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں

پھرتا ہے وہ جہاں میں مسافر بنا ہوا
فتویٰ دو میرے قتل کا فوراً جنابِ شیخ

میں ہوں کسی کے عشق میں کافر بنا ہوا
کیا قریہء کلام میں قحط الرجال ہے
منصور بھی ہے دوستو شاعر بنا ہوا
٭
ہاتھ سے ہنگامِ محشر رکھ دیا

گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا
اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے

بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا
پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں

آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا
اور پھر تازہ ہوا کے واسطے

ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا
ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر

پاؤں میں اس کے مقدر رکھ دیا
دیکھ کر افسوس تارے کی چمک

اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا
ایک ہی آواز پہنی کان میں

ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا
نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر

خواب کو بستر سے باہر رکھ دیا
دیدئہ تر میں سمندر دیکھ کر

اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا
اور پھر جاہ و حشم رکھتے ہوئے

میں نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا
میری مٹی کا دیا تھا سو اسے

میں نے سورج کے برابر رکھ دیا
خانہء دل کو اٹھا کر وقت نے

بے سرو ساماں، سڑک پر رکھ دیا
جو پہن کرآتی ہے زخموں کے پھول

نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا
کچھ کہا منصور اس نے اور پھر
میز پر لا کر دسمبر رکھ دیا
٭
ریل کی پٹڑی پہ تارہ رکھ دیا

یعنی میرا استعارہ رکھ دیا
کھینچ کر اس نے نظر کی ایک حد

آنکھ میں شوقِ نظارہ رکھ دیا
خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر

میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا
بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے

چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا
دور تک نیلا سمندر دیکھ کر

میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا
انتظار آباد یوں رکھا بدن

ہر روئیں پر ایک تارہ رکھ دیا
دیکھا جو سوکھی ہوئی لکڑی کا دل

اس میں خواہش کا شرارہ رکھ دیا
پہلے رکھا یاد نے منصور ہاتھ
رفتہ رفتہ بوجھ سارا رکھ دیا
٭
یاد کے طاقچہ میں بجلیاں رکھنے والا

میں نہیں دیر تلک تلخیاں رکھنے والا
مجھ کو اس وقت بھی ہے تیز بہت تیز بخار

اورمرا کوئی نہیںپٹیاں رکھنے والا
چیرتا جاتا ہے خود آپ کنارے اپنے

ساحلوں پہ وہی مرغابیاں رکھنے والا
دھول سے کیسے بچا سکتا ہے اپنی چیزیں

دل کے کمرے میں کئی کھڑکیاں رکھنے والا
پال بیٹھا ہے پرندوںکی رہائی کا جنون

جار میں اپنے لئے تتلیاں رکھنے والا
بزم میں آیا نہیں کتنے دنوں سے منصور
وہ پیانو پہ حسیں انگلیاں رکھنے والا
٭
ایسی بے رحم خواہش ملی ایسا سفاک سپنا ملا

عمر بھرپھڑپھڑاتے بدن کے قفس میں تڑپناملا
وہ چراغوں سے کیسے تعلق رکھیںکیسے ہم سے ملیں

وہ جنہیں دستِ تقدیر سے تیرگی میںپنپنا ملا
کس کی آغوش کے ہیںالائو کہانی میںپھیلے ہوئے

برف جیسی شبوں کوکہاں سے بھلا دن کا تپنا ملا
وہ دوبارہ لے آیا ہمیں پُر سکوں پستیوں کی طرف

اک پہاڑی سفر میںعجب خیراندیش اپنا ملا
ان بزرگوںکے نقشِ کفِ پا پہ آنکھیں رکھوں چوموں انہیں
جن بزرگوں سے ورثے میں اسمِ محمدﷺ کو جپنا ملا
٭
ایک کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی کی تڑپ نے دیا

ولولہ کیسا حیرت زدہ دید کی ایک لپ نے دیا
اس لڑائی سے پچھلی لڑائی کا کوئی تعلق نہ تھا

 اِس لڑائی کو لیکن بڑھاوا گذشتہ جھڑپ نے دیا
تیرے جیسی کئی اور تھیںتجھ سے بہتربھی مل سکتی تھی

تیرے غم کایونہی کینسردل میں برسوں پنپنے دیا
میں نے سورج کو پھراک کرشمہ کہا اس پہ نظمیں کہیں

پہلے کچھ دیرآتی شعاعوں سے کمرے کو تپنے دیا
برف کی رات میںتم ہمیشہ رہو یہ دعادی اسے
جس ڈرنک کارنر کاپتہ چائے کے گرم کپ نے دیا
٭
تری طلب نے ترے اشتیاق نے کیا کیا

فروزاں خواب کیے تیرہ طاق نے کیا کیا
میں جا رہا تھا کہیں اور عمر بھر کے لیے

بدل دیا ہے بس اک اتفاق نے کیا کیا
عشائے غم کی تلاوت رہے تہجد تک

سکھا دیا ہے یہ دینِ فراق نے کیا کیا
نری تباہی ہے عاشق مزاج ہونا بھی

دکھائے غم ہیں دلِ چست و چاق نے کیا کیا
وہ لب کھلے تو فسانہ بنا لیا دل نے

گماں دیے ترے حسنِ مذاق نے کیا کیا
مقامِ خوک ہوئے دونوں آستانِ وفا

ستم کیے ہیں دلوں پر نفاق نے کیا کیا
ہر ایک دور میں چنگیزیت مقابل تھی

لہو کے دیپ جلائے عراق نے کیا کیا
ہر اک شجر ہے کسی قبر پر کھڑا منصور
چھپا رکھا ہے زمیں کے طباق نے کیا کیا
٭
خوابِ وصال میں بھی خرابہ اتر گیا

گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا
میں نے شبِ فراق کی تصویر پینٹ کی

کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا
کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً

افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا
رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دبائو سے

اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا
اس خواب کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں

سارا بخار روح و بدن کا اتر گیا
کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے

ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا
منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی
پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا
٭
زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا

فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا
میں بھر لایا ہوں مشکیزہ دکھوں سے

کنویں کی تہہ میں صحرا گر پڑا تھا
سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن

ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا
مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر

کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا
کھلی تھی اک ذرا بس چونچ اس کی

کہیں چاول کا دانہ گر پڑا تھا
مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں

اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا
مری سچائی میں دہشت بڑی تھی

کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا
بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے

ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا
مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں

نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا
اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں

بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا
نظر منصور گولی بن گئی تھی
ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا
٭
اتنا تو تعلق کو نبھاتے ہوئے کہتا

میں لوٹ کے آئوں گا وہ جاتے ہوئے کہتا
پہچانو مجھے، میں وہی سورج ہوں تمہارا

کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا
یہ صرف پرندوں کے بسیرے کے لیے ہے

آنگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا
ہر شخص مرے ساتھ ’’انا الحق‘‘ سرِ منزل

آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا
اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے

پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا
اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو

وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا
یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے

تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا
موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی

دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا
عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو

کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا
میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور
محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا
٭
تمہیں یہ پائوں سہلانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا

سفر رستہ رہے گا بس، کبھی منزل نہیں ہو گا
مجھے لگتا ہے میری آخری حد آنے والی ہے

جہاں آنکھیں نہیں ہوں گی دھڑکتا دل نہیں ہو گا
محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے

وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا
مری جاں ویری سوری اب کبھی چشمِ تمنا سے

یہ اظہارِ محبت بھی سرِ محفل نہیں ہو گا
سکوتِ دشت میں کچھ اجنبی سے نقشِ پا ہوں گے

کوئی ناقہ نہیں ہو گا کہیں محمل نہیں ہو گا
ذرا تکلیف تو ہو گی مگر اے جانِ تنہائی

تجھے دل سے بھلا دینا بہت مشکل نہیں ہو گا
یہی لگتا ہے بس وہ شورشِ دل کا سبب منصور
کبھی ہنگامہء تخلیق میں شامل نہیں ہو گا
٭
کب اپنا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا

یہ انتظار کدہ ہے، یہ گیٹ پر لکھا
پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں

مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا
وہ انتظار تھا بگلے کی بند آنکھوں میں

میں دستیاب ہوں مچھلی نے پیٹ پر لکھا
لکھا ہوا نے ’’یہ بس میری آخری حد ہے

"اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر" لکھا
جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں

ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا
جنابِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت

سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا
ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور
یہی فلک نے کری کی پلیٹ پر لکھا
٭
پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ، کہیں کا تھا

وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا
پھر اک فریبِ ذات ہوا اپنا شاٹ کٹ

پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا
جبہ تھا ’دہ خدا‘ کا تو دستار سیٹھ کی

حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا
آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنی ہے ملکیت

منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا
جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا

میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا
حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف

کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ، کہیں کا تھا
سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار

پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا
بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے

دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا
وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی میری تھیں

چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا
کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے

آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا
شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں

وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا
صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب

بہنا کہیں پڑا اسے، دریا کہیں کا تھا
تاروں بھری وہ رات بھی کچھ کچھ کمینی تھی

کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا
گاہے شبِ وصال تھی گاہے شبِ فراق

آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا
اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے

وہ آسماں پہ ابر کا ٹکڑا کہیں کا تھا
جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم

پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا
پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر

تحریر تھی کہیں کی، حوالہ کہیں کا تھا
اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان
منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا
٭
جب قریہء فراق مری سرزمیں ہوا

برقِ تجلیٰ اوڑھ لی سورج نشیں ہوا
جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی

اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا
میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی

یہ حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا
ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے

اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا
ہمت ہے میرے خانہء دل کی کہ بار بار

لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا
منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے

ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا
کھڑکی سے آرہا تھا ابھی تو نظر مجھے

یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا
چھونے لگی ہے روح کا پاتال کوئی سانس
منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا
٭
اس نے پہلے مارشل لاء میرے آنگن میں رکھا

میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا
صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند

جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا
جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی

آنسوئوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا
ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کی یادوں پر نہیں

تھا جہنم خیز موسم غم کے جوبن میں رکھا
سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی

گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا
میں اسے منصور بھیجوں کس لیے چیتر کے پھول
جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا
٭
پیڑ پر شام کھلی، شاخ سے ہجراں نکلا

پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا
رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی

اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا
نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے

کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا
خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے

رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا
لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر

والیء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا
صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ

جانے کس کھوج میں پھر شہرِ پریشاں نکلا
وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے

اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا
زخمِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن

چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا
تیرے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں

یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا
زخم کیا داد وہاں تنگیء دل کی دیتا

تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا
رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور
جو شبِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا
٭
آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا

ورنہ ہر زخم نصیبِ سر مژگاں نکلا
اور کیا چیز مرے نامہء اعمال میں تھی

آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا
محشرِ نور کی طلعت ہے، ذرا حشر ٹھہر

آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا
آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی

چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا
ظن و تخمینِ خرد اور مقاماتِ حضور؟

شیخ کم بخت بھی کس درجہ ہے ناداں نکلا
جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور
غور کرنے پہ وہی آپﷺ کا احساں نکلا
٭
درد مرا شہباز قلندر، دکھ ہے میرا داتا

شام ہے لالی شگنوں والی، رات ہے کالی ماتا
اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے

ہجر کے کالے چرخِ کہن پر شب بھر سورج کاتا
پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں

اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا
شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے

بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا
ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا

پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا
مادھو لال حسین مرا دل، ہر دھڑکن منصوری

ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا
وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی

کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا
ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے

بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا
میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا

باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا
ذات محمد بخش ہے میری۔۔۔ شجرہ شعر ہے میرا

اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا
میں موہن جو داڑو،  مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں

ظلم بھری تاریخیں مجھ میں، مجھ سے وقت کا ناتا
ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر
شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا
٭
پیر فرید کی روہی میں ہوں، مجھ میں پیاس کا دریا

ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا
عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے

صبح ، طلب کی بہتی کشتی، شب ،وسواس کا دریا
سورج ڈھالے جا سکتے تھے ہر قطرے سے لیکن

یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا
جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی

میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا
ہم ہیں آبِ چاہ شباں کے ہم حمام سگاں کے

شہر میں پانی ڈھونڈ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا
تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر

سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا
سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن
رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا
٭
میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا

مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا
مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک

میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا
میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ

یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا
کرے آ کے گفت و شنید مجھ سے کوئی چراغ

کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا
میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں

کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا
مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے

میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا
شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک

کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا
مجھے جلتی کشتیاں دیکھنے کی طلب نہیں

میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا
مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا

مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا
انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے
ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا
٭
تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا

میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا
اسے رقص گاہ میں دیکھنا کبھی مست مست

مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا
کسی ذہن میں، کسی خاک پر یا کتاب میں

میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا
مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی

میں سدھارتھا، ترے خال و خط نہیں چاہتا
فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں

سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا
مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے
میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا
٭
شکستِ جاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا

ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا
یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے

لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا
قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی

اسی قرابتِ مے نے قسم کو توڑ دیا
قدم قدم پہ دلِ مصلحت زدہ رکھ کر

کسی نے راہِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا
ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے

دعا کی ضرب سے دستِ ستم کو توڑ دیا
سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر
نکل پڑا میں تلاشِ یزید میں اک دن

وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا
اور احتجاج کے کالے علم کو توڑدیا
یہ انتہا ہے دماغِ خراب کی منصور
دھرم کو چھوڑ دیا اور صنم کو توڑ دیا
٭
وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا

کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا
بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا

میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا
کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا

پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا
رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش

اْس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا
اب سامنے سورج کے برسات نہیں ہوتی

دکھ آنکھ نہیں بھرتے غم کام نہیں دیتا
موتی میری پلکوں کے بازار میں رُلتے ہیں
اوراقِ گل و لالہ لکھے ہوئے لے جائے
کرداروں کے چہروں پر چھریاں ہیں ابھر آئیں

کوئی بھی جواہر کے اب دام نہیں دیتا
جو صبحِ غزل جیسی اک شام نہیں دیتا
پھر بھی وہ کہانی کو انجام نہیں دیا
بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے
یہ خواب دکھاتا ہے، آرام نہیں دیتا
٭
کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا

نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا
خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں

کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا
ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشمِ سیہ

جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دیتا
تُو وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن

تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا
دوستو آگ بھری رات کہاں لے جائوں

کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا
میرا کردار کہانی میں جہاں ہیرو ہے

تیرے ناول کا وہی باب دکھائی دیتا
دل میں چونا پھری قبروں کی شبہیں منصور
کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا
٭
گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا

پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا
خوشبو پہن کے نکلا میں دل کے موسموں میں

اور جنگ کی رُتوں میں وردی پہن کے نکلا
*کیسا یہ ’’ گے ادب ‘‘ کا اِفتی مباحثہ تھا

ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا
لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر

ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا
تم جس کو دیکھتے ہو کھلتے ہوئے ، وہ چہرہ

افلاک سے نمو کی مٹی پہن کے نکلا
کہتے ہیں چشم و لب کی بارش میں وسوسے ہیں
منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا
* افتخار نسیم (اِفتی نسیم)
٭
موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا

پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا
اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمر آور ہوئے

پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا
اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں

پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا
میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال

آسمانوں  سے  کلامِ  محترم نازل ہوا
لاکھ اترے یار کے غم، لاکھ لوگوں کے مگر

اپنے غم سے خوبصورت کوئی کم نازل ہوا
میری صورت پر ہوئی تخلیق آدم کی شبیہ

پھر اسی مٹی کے بت پر میرا دم نازل ہوا
یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ
مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا
٭
اک مسلسل رتجگا سورج کے گھر نازل ہوا

یعنی ہجراں کا بدن مثلِ سحر نازل ہوا
زندگی میری رہی مثبت رویوں کی امیں

میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا
اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن

مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا
کوئی رانجھے کی خبر دیتی نہیں تھی لالٹین

خالی بیلا رات بھر بس ہیر پر نازل ہوا
اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ

اک گلی میں سینکڑوں دن کا سفر نازل ہوا
وقت کی اسٹیج پر بے شکل ہو جانے کا خوف

مختلف شکلیں بدل کر عمر بھر نازل ہوا
جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک
یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہو
٭
توحید پرستوں کے جو ہونٹوں سے بھرا تھا

نسبت تھی کہ پتھر کوئی بوسوں سے بھرا تھا
ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیںتھی

مسجد کا سپیکر تھا صدائوں سے بھرا تھا
بارود کی بارش ابھی بادل میںبھری تھی

وہ باغ ابھی بھاگتے بچوں سے بھرا تھا
جس رات لہو چلتا تھا پلکوں کے کنارے

اُس رات فلک سرخ ستاروں سے بھرا تھا
آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی
منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا
٭
اک دل تھا مرا ، پیار کے بولوں سے بھرا تھا

اک ذہن تھا جو توپ کے گولوں سے بھرا تھا
کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر

اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا
اک یاد تھی گزرے ہوئے معصوم دنوں کی

کمرہ کوئی گڑیا کے پٹولوں سے بھرا تھا
چھت ہی نہیں ٹوٹی تھی کسی کچے مکاں کی

چاول کا کوئی کھیت بھی اولوں سے بھرا تھا
بازوں کے تسلط میں فضائیں تھیں چمن کی

محفوظ تھا پنجرہ سو ممولوں سے بھرا تھا
منصور کی چیخیں تھیں کہ سینے میں دبی تھیں
کمرہ تھا کہ بجتے ہوئے ڈھولوں سے بھرا تھا
٭
پیچوں سے اٹا دل مرا ، جنگوں سے بھرا تھا

یعنی کہ فلک سارا پتنگوں سے بھرا تھا
داتا علی ہجویری کا تھا عرس مبارک

لاہور محمد ﷺ کے ملنگوں سے بھرا تھا
نکلا تھا گلستاں سے مگرخار کے ہمراہ

خوشبو کا وہ جھونکا کئی رنگوں سے بھرا تھا
اک، پائوں کسی جنگ میں کام آئے ہوئےتھے

اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا
اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی

اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا
منصور فقط ہم ہی نہیں بہکے ہوئے تھے
بازارِ غزل سارا تلنگوں سے بھرا تھا
٭
یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا

نیند کی نوٹ بک میں تھا، کچھ تھا
میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا

ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا
چاند کچھ اور کہتا جاتا تھا

دلِ  وحشی  پکارتا کچھ تھا
اس کی پائوں کی چاپ تھی شاید

یا یونہی کان میں بجا کچھ تھا
میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے

میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا
کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی

یاد پڑتا ہے کچھ، کہا کچھ تھا
پھرفلک سے بھی ہوگئے مایوس

پہلے پہلے تو آسرا کچھ تھا
ہے گواہی کو اک سیہ پتھر

آسماں سے کبھی گرا کچھ تھا
لوگ بنتے تھے گیت پہلے بھی

مجھ سے پہلے بھی سلسلہ کچھ تھا
موسمِ گل سے پہلے بھی موسم

گلستاں میں بہار کا کچھ تھا
اس کی آنکھیں تھیں پُر خطر اتنی

کہہ دیا کچھ ہے مدعا کچھ تھا
آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور
خواب میں تو معاملہ کچھ تھا
٭
سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا

سفید رنگ کا دستور کج کلاہ ہوا
زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں

ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا
کئی دنوں سے زمیں دھل رہی ہے بارش سے

امیر شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا
شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے

دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا
وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد

سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا
جلے جو خیمے تو اتنا دھواں اٹھا منصور
ہمیشہ کے لیے رنگِ علَم سیاہ ہوا
٭
دائروں کی آنکھ دی، بھونچال کا تحفہ دیا

پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا
رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی

برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا
سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں

پائوں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا
’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں

ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا
رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک

ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا
کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل

کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا
پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو

دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا
وقت آگے تو نہیں پھر بڑھ گیا منصور سے
یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا
٭
پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا

اور پھر شہر کے پائوں میں سفر باندھ دیا
چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے

وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا
وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے

میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا
میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے

اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا
لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر

وسعتِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا
ایک تعویز جسے میں نے اتارا تھا ابھی

اس نے بازو پہ وہی بارِ دگر باندھ دیا
پھر وہ چڑھنے لگی تیزی سے بلندی کی طرف

پہلے رسہ کہیں تا حدِ نظر باندھ دیا
چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور
آنکھ کی پوٹلی میں دیدۂ تر باندھ دیا
٭
کھینچ لی میرے پائوں سے کس نے زمیں، میں نہیں جانتا

میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں، میں نہیں جانتا
کیوں نہیں کانپتا بے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے

کس لیے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں، میں نہیں جانتا
ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں

خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں، میں نہیں جانتا
کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں

کس طرح، کب ہوا، کون مسند نشیں، میں نہیں جانتا
لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر
اس کے بے مہر دوزخ میں اپنی تو گزری ہیں تنہائیاں

تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں، میں نہیں جانتا
اُس مبارک گلی کا بہشتِ بریں ، میں نہیں جانتا
کیا مرے ساتھ منصور چلتے ہوئے راستے تھک گئے
کس لیے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں، میں نہیں جانتا
٭
اب تک انا سے ربطِ مسلسل نہیں ہوا
وحشت وہی مزاج کی رونے کے بعد بھی

شاید مرا جمال مکمل نہیں ہو
بارش ہوئی ہے شہر میں جل تھل نہیں ہوا
پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں

مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا
ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ

میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا
ہر چیز آشنائے تغیر ہوئی مگر

قانونِ ہست و بود معطل نہیں ہوا
دستِ اجل نے کی ہے تگ و دو بڑی مگر

دروازۂ حیات مقفل نہیں ہوا
برسوں سے ڈھونڈتا ہوں کوئی اور شخص میں

اِس ہجر کا معمہ کبھی حل نہیں ہوا
منصور اپنی ذات شکستہ کیے بغیر
پانی کا بلبلا کبھی بادل نہیں ہوا
٭
مری بد لحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا

وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا
مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی

مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرا دیا
مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو

کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا
ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی

کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا
میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوفِ جاں کے خیال سے
کسی نے یہاں سے گرا دیا کسی نے وہاں سے گرا دیا
٭
وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا

وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا
ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو

آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا
کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کیے

پھر اپنے لہو سے اپنا تماشا میں نے کیا
صد شکر دیے کی آخری لو محفوظ ہوئی

ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا
منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی
سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا
٭
خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا

قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا
یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے

یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا
مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں

محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘
سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا

کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا
سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج

لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا
یہی منصور حاصل زندگی کا
خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا
٭
مدت کے بعد گائوں میں آیا ہے ڈاکیا

لیکن اٹھی نہیں کوئی چشمِ سوالیا
رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر

دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا
جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی

اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا
پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند

آہستگی سے اس نے مرا نام لے لیا
تارے بجھے تمام، ہوئی رات راکھ راکھ

لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا
تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعرِ فراق
منصور موتیوں سے محبت کا مرثیہ
٭
ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا

میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا
اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں

ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا
دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن

کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا
اے بجھتی ہوئی شام ! محبت کے سفر میں

اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا
نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے

ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا
شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد ﷺ

لولاک سے آگے ہے مدینہ اسے کہنا
منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن
اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا
٭
عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا

دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا
بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی

اپنے گھر کا پرنالا آبشار لگتا تھا
منچلوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی

کوچہء  رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا
ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر

بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا
ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی

اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا
ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں

لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا
قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی

جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا
باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی

ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا
ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور
اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا
٭
شہد ٹپکا، ذرا سپاس ملا

اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا
سوکھ جائیں گی اس کی آنکھیں بھی

جا کے دریا میں میری پیاس ملا
خشک پتے مرا قبیلہ ہیں

دل جلوں میں نہ سبز گھاس ملا
آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور

بس مرے خوف میں ہراس ملا
آ، مرے راستے معطر کر

آ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا
نسخہء دل بنا مگر پہلے

اس میں امید ڈال آس ملا
ہے خداوند کے لیے منصور
سو غزل میں ذرا سپاس ملا
٭
خاک کا ایک اقتباس ملا

آسماں کے مگر ہے پاس ملا
اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں

جن کو وکٹوریہ کراس ملا
دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو

اپنے ہی قتل کا قصاص ملا
جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے

ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا
میز پر اہلِ علم و دانش کی

اپنے بھائی کا صرف ماس ملا
کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو

کیا نگر کا نگر خلاص ملا
اس میں خود میں سما نہیں سکتا

کیسا یہ دامنِ حواس ملا
چاند پر رات بھی بسر کی ہے

ہر طرف آسمانِ یاس ملا
گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے

شیلف سے کیا ابو نواس ملا
جب مجھے حسنِ التماس ملا

تیرا فیضان بے قیاس ملا
جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا

تیرے قدموں کے آس پاس ملا
تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی

جب کہیں کوئی بھی اداس ملا
تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے

بس وہی مرتبہ شناس ملا
یوں بدن میں سلام لہرایا

جیسے کوثر کا اک گلاس ملا
تیری کملی کی روشنائی سے

زندگی کو حسیں لباس ملا
ابنِ عربی کی بزم میں منصور
کیوں مجھے احترامِ خاص ملا
غزلِ مقطعات
بجا ہے دوستو منصور کا گلہ کرنا

مگر کچھ اس کے مسائل کا بھی پتہ کرنا
بڑا ضروری ہے عشقِ مجاز میں منصور

خود اپنے آپ پہ خود کو فریفتہ کرنا
نگارِ لوح و قلم کا ہے مشورہ منصور

ہر ایک شے کا مکمل مطالعہ کرنا
بھلا دیا ہے فروغِ شعور نے منصور

لبوں سے قوسِ قزح کا تبادلہ کرنا
بس اپنی آنکھ سے اک بار دیکھنا منصور

پھر اس کے حسنِ مکمل پہ تبصرہ کرنا
یہ عمر ایک ہی پہلو میں کاٹ دے منصور

غلط ہے روز تعلق کا تجربہ کرنا
بس ایک کام نہیں آسکا مجھے منصور

شبِ فراقِ مسلسل کا خاتمہ کرنا
پھر اس کے بعد بدلنا اسے عجب منصور

تمام عمر میں بس ایک فیصلہ کرنا
جلا کے راکھ نہ کر دے کہیں تجھے منصور

یہ برقِ طور سے شب بھر معانقہ کرنا
مرے رسول کی سنت مرے لیے منصور

زمیں پہ رہ کے فلک سے مکالمہ کرنا
جنابِ شیخ کو اچھا نہیں لگا منصور

خدا کی ذات سے اپنا مصافحہ کرنا
یہ پانچ وقت جماعت کہے مجھے منصور

نماز کیا ہے زمانے سے رابطہ کرنا
یہ کیا کہ وہ جو دھڑکتا بدن میں ہے منصور
اس ایک شخص کا ہر شخص سے پتہ کرنا
٭
شعورِ عشقِ محمد ﷺ مری نماز ہوا

گماں یقین کی ساعت سے سرفراز ہوا
تُو کائنات کا خالق ہے مانتا ہوں مگر

مرا وجود تری ذات کا جواز ہوا
ترے لبوں کی کرم بار مسکراہٹ سے

نیاز مند خدائی سے بے نیاز ہوا
میں رک گیا تھا جدائی کے جس جہنم میں

وہ انتظارِ قیامت سے بھی دراز ہوا
مرے سجود کی منزل ہے میری تنہائی

میں اپنی ذات کا خود ہی حریمِ ناز ہوا
پلک پلک پہ سجاتا ہے آنسوئوں کے چراغ

مزاجِ چشم سراپا مری بیاض ہوا
پڑی نگاہِ محمد جہاں کہیں منصور
ہر ایک ذرہ وہیں زندگی نواز ہوا
٭
کبھی بارشوں سے بہنا، کبھی بادلوں میں رہنا

یہی زندگی ہے اپنی، یونہی آنسوئوں میں رہنا
کبھی یونہی بیٹھے رہنا تری یاد کے کنارے

کبھی رات رات بہتے ہوئے پانیوں میں رہنا
کبھی سات رنگ بننا کسی ابرِ خوشنما کے

کبھی شاخ شاخ گرتی ہوئی بجلیوں میں رہنا
مجھے یاد آ رہا ہے ترے ساتھ ساتھ شب بھر

یونہی اپنے اپنے گھر کی کھلی کھڑکیوں میں رہنا
مجھے لگ رہا ہے جیسے کہ تمام عمر میں نے

ہے اداس موسموں کے گھنے جنگلوں میں رہنا
یہ کرم ہے دلبروں کا، یہ عطا ہے دوستوں کی

مرا زاویوں سے ملنا یہ مثلثوں میں رہنا
ابھی اور کچھ ہے گھلنا مجھے ہجر کے نمک میں
ابھی اور آنسوئوں کے ہے سمندروں میں رہنا
٭
دل کو یارِ بے وفا کا درد تھا

راکھ کو یعنی ہوا کا درد تھا
موت کی ہچکی مسیحا بن گئی

رات کچھ اِس انتہا کا درد تھا
ننگے پائوں تھی ہوا کی اونٹنی

ریت تھی اور نقشِ پا کا درد تھا
کائناتیں ٹوٹتی تھیں آنکھ میں

عرش تک ذہنِ رسا کا درد تھا
میں جسے سمجھا تھا وحشت ہجر کی

زخم پروردہ انا کا درد تھا
رات کی کالک افق پر تھوپ دی
مجھ کو سورج کی چتا کا درد تھا
٭
آسمانوں کو الہ کا درد تھا

مجھ کو خاکِ کربلا کا درد تھا
اس کو خالی صحن کی تکلیف تھی

مجھ کو اندر کے خلا کا درد تھا
اب تلک احساس میں موجود ہے

کتنا حرفِ برملا کا درد تھا
رات تھی روتی ہوئی کوئل کہیں

اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا
رو رہا تھا آسماں تک ساتھ ساتھ

ایسا تیرے مبتلا کا درد تھا
اب بھی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے دل
کیسا پہلی ابتلا کا درد تھا
٭
مضمحل ہوتے قویٰ کا درد تھا

خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا
جان لیوا بس وہی ثابت ہوا

جو مسیحا کی دوا کا درد تھا
رک گیا، آہیں سُروں پر دیکھ کر

ساز کو بھی ہم نوا کا درد تھا
کچھ برس پہلے مرے احساس میں

تھا، سلوکِ ناروا کا درد تھا
مجھ کو دکھ تھا کربلائے وقت کا
اس کو خاکِ نینوا کا درد تھا
٭
اک مقامِ پُر فضا کا درد تھا

اس کی آنکھوں میں عزا کا درد تھا
وقت کی قربان گاہ تھی دور تک

اور ازل بستہ قضا کا درد تھا
بات مجبوراً روابط کی تھی اور

مجھ کو رغبت اور رضا کا درد تھا
ہجر کے کالک بھرے ماحول سے

مجھ کو صحبت کی سزا کا درد تھا
اک طرف شہد و شراب و لمس تھے
اک طرف روزِ جزا کا درد تھا
٭
آخرش ہجراں کے مہتابوں کا مد فن ہو گیا

آنکھ کا تالاب بد روحوں کا مسکن ہو گیا
دھوپ در آئی اچانک رات کو برسات میں

اس کا چہرہ آنسوئوں میں عکس افگن ہو گیا
دل چرا کر جا رہا تھا میں دبے پائوں مگر

چاند نکلا اور سارا شہر روشن ہو گیا
رو پڑا تھا جا کے داتا گنج کے دربار پر

یوں ہوا پھر راہ میں سانول کا درشن ہو گیا
بجلیاں ہیں بادلوں کے بین ہیں کمرے کے بیچ

اور کیلنڈر کہے ہے، ختم ساون ہو گیا
کیوں سلگتی ریت نے سہلا دیے تلووں کے پھول

یہ اذیت کیش دل صحرا کا دشمن ہو گیا
جھلملا اٹھتا تھا برتن مانجھنے پر جھاگ سے

اس کلائی سے جو روٹھا زرد کنگن ہو گیا
تیری میری زندگی کی خوبصورت ساعتیں

تیرا بچپن ہو گیا یا میرا بچپن ہو گیا
ایک جلوے کی قیامت میں نے دیکھی طور پر

دھوپ تھی ایسی کہ سورج سوختہ تن ہو گیا
بے خدا ہوں سوچتا ہوں شکر کس کا ہو ادا
میں نے جو چاہا وہی منصور فوراً ہو گیا
٭
مرکوز رکھ نگاہ کو، پھر نین مت لگا

فرمانِ چشمِ یار پہ واوین مت لگا
زردار! یہ جو تُو نے کیے ہیں ہزار حج

اس پر امیدِ رحمتِ دارین مت لگا
جس سے تُو دیکھتا ہے ابو جہل کے قدم

اُس آنکھ سے رسول کے نعلین مت لگا
خطرہ ہے انعدام کا میرے وجود کو

باہوں سے اپنی محفلِ قوسین مت لگا
دونوں طرف ہی دشمنِ جاں ہیں خیال رکھ

اتنے قریب حدِ فریقین مت لگا
کوئی تماشا اے مرے جدت طراز ذہن

تُو عرش اور فرش کے مابین مت لگا
جائز ہر ایک آنکھ پہ جلوے بہار کے

اپنی کتابِ حسن پہ تُو بین مت لگا
دیوارِ قوس رکھ نہ شعاعوں کے سامنے

لفظِ طلو کے بعد کبھی عین مت لگا
دشمن کے ہارنے پہ بھی ناراض مجھ سے ہے

مجھ کو تو اپنا دل بھی کوئی’ جین مت‘ لگا
ادراک سلسلہ ہے، اسے مختصر نہ کر

اپنے سکوتِ فہم کو بے چین ’مت‘ لگا
جس نے تمام زندگی بجلی چرائی ہے

اس کو تو واپڈا کا چیرمین مت لگا
لگتا ہے یہ مقدمہ یک طرفہ عشق کا
منصور شرطِ شرکتِ ’طرفین‘ مت لگا
٭
مرے نصیب پہ رو دے، کسی کا گھر نہ دکھا

تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج… اور در نہ دکھا
تُو اپنی شام کے بارے کلام کر مجھ سے

کسی کے بام پہ ابھری ہوئی سحر نہ دکھا
ابھی تو وصل کی منزل خیال میں بھی نہیں

شبِ فراق! ابھی سے یہ چشمِ تر نہ دکھا
گزار آیا ہوں صحرا ہزار پت جھڑ کے

فریبِ وقت! مجھے شاخِ بے ثمر نہ دکھا
میں جانتا ہوں قیامت ہے بیچ میں منصور
مجھے یہ راہ میں پھیلے ہوئے خطر نہ دکھا
٭
آسرا کس وقت مٹی کے کھلونے پر رکھا

وقت پر پائوں کہانی ختم ہونے پر رکھا
دیکھتا کیا میں تری دنیا کہ ہجرِ یار میں

دیدہ و دل کو ہمیشہ وقف رونے پر رکھا
پانیوں کو ساحلوں میں قید کر دینے کے بعد

موج کو پابند ساحل کے ڈبونے پر رکھا
چاہتا تو وقت کا ہم رقص بن سکتا تھا میں

خود سے ڈر کر خود کو لیکن ایک کونے پر رکھا
اپنی آنکھیں چھوڑ آیا اس کے دروازے کے پاس

اور اس کے خواب کو اپنے بچھونے پر رکھا
سونپ کر منصور دل کو آگ سلگانے کا کام
آنکھ کو مصروف دامن کے بھگونے پر رکھا
٭
ٹوٹے ہوئے کواڑ کے منظر نے آ لیا

آوارگی کی شام مجھے گھر نے آ لیا
میں جا رہا تھا زخم کا تحفہ لیے بغیر

پھر یوں ہوا کہ راہ کے پتھر نے آ لیا
میں سن رہا ہوں اپنے ہی اندر کی سسکیاں

کیا پھر کسی عمل کے مجھے ڈرنے آ لیا
گزرا کہیں سے اور یہ آنکھیں چھلک پڑیں

یادش بخیر ! یادِ ستم گر نے آ لیا
وہ جس جگہ پہ اُس سے ملاقات ہونی تھی

پہنچا وہاں تو داورِ محشر نے آ لیا
منصور چل رہا تھا ابھی کہکشاں کے پاس
یہ کیا ہوا کہ پائوں کی ٹھوکر نے آ لیا
٭
یوں خیالوں نے بد حواس کیا

ہجر کو وصل پر قیاس کیا
اپنی پہچان کے عمل نے مجھے

روئے جاناں سے روشناس کیا
کچھ فسردہ زمیں سے تھے لیکن

آسماں نے بہت اداس کیا
ہم نے ہر اک نماز سے پہلے

زیبِ تن خاک کا لباس کیا
بھول آئے ہیں ہم وہاں منصور
کیا بسیرا کسی کے پاس کیا
٭
اے چاند پتہ تیرا کسی سے نہیں ملتا

رستہ کوئی جا تیری گلی سے نہیں ملتا
او پچھلے پہر رات کے، جا نیند سے کہہ دے

اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا
کیوں وقتِ مقرر پہ ٹرام آتی نہیں ہے

کیوں وقت ترا میری گھڑی سے نہیں ملتا
میں جس کے لیے عمر گزار آیا ہوں غم میں

افسوس مجھے وہ بھی خوشی سے نہیں ملتا
یہ ایک ریاضت ہے خموشی کی گپھا میں

یہ بختِ ہنر نام وری سے نہیں ملتا
وہ تجھ میں کسی روز ضرور آ کے گرے گی

دریا تو کبھی جا کے ندی سے نہیں ملتا
دہلیز پہ رکھ جاتی ہے ہر شام جو آنکھیں
منصور عجب ہے کہ اسی سے نہیں ملتا
٭
مل گئے مجھ کو بھی جینے کے بہانے کیا کیا

رنگ بکھرا دیے پھر تازہ ہوا نے کیا کیا
کیسی خوشبوئے بدن آتی ہے کمرے سے مجھے

پھول وہ چھوڑ گئی میرے سرہانے کیا کیا
میں تجھے کیسے بتائوں مری نازک اندام

مجھ پہ گزرے ہیں مصائب کے زمانے کیا کیا
میری خاموشی پہ الزام لگانے والی

کہتی پھرتی ہیں تری آنکھیں نجانے کیا کیا
کیا غزل چھیڑی گئی سانولے رخساروں کی

شام کے گیت کہے بادِ صبا نے کیا کیا
میرے پہلو میں نئے پھول کھلے ہیں کتنے

مجھ کو شاداب کیا دستِ دعا نے کیا کیا
یونہی بے وجہ تعلق ہے کسی سے لیکن
پھیلتے جاتے ہیں منصور فسانے کیا کیا
٭
سینہء ہجر میں پھر چیر لگا

رات بھر نعرئہ تکبیر لگا
دھجیاں اس کی بکھیریں کیا کیا

ہاتھ جب دامنِ تقدیر لگا
وہ تو بے وقت بھی آسکتا ہے

خانہء دل پہ نہ زنجیر لگا
میں نے کھینچی جو کماں مٹی کی

چاند کی آنکھ میں جا تیر لگا
اس سفیدی کا کوئی توڑ نکال

خالی دیوار پہ تصویر لگا
کیوں سرِ آئینہ اپنا چہرہ

کبھی کابل کبھی کشمیر لگا
سر ہتھیلی پہ تجھے پیش کیا

اب تو آوازئہ تسخیر لگا
آسماں گر نہ پڑے، جلدی سے

اٹھ دعا کا کوئی شہتیر لگا
رہ گئی ہے یہی غارت گر سے

دائو پہ حسرتِ تعمیر لگا
پھر قیامت کا کوئی قصہ کر

زخم سے سینہء شمشیر لگا
بند کر پاپ کے سرگم منصور
کوئی اب نغمہ دلگیر لگا
٭
کنارِ صبحِ امکاں اک تبسم بار چہرہ تھا

سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا
مری نظریں اٹھیں تو پھر پلٹ کر ہی نہیں آئیں

عجب سندر سی آنکھیں تھی عجب دلدار چہرہ تھا
سنا ہے اس لیے اس نے تراشے خال و خد میرے

اسے پہچان کو اپنی کوئی درکار چہرہ تھا
ہوا کی آیتوں جیسی تکلم کی بہشتیں تھیں

شراب و شہد بہتے تھے وہ خوش گفتار چہرہ تھا
جہاں پر دھوپ کھلتی تھی وہیں بادل برستے تھے

جہاں پُر خواب آنکھیں تھیں وہیں بیدار چہرہ تھا
شفق کی سر خ اندامی لب و رخسار جیسی تھی

چناروں کے بدن پر شام کا گلنار چہرہ تھا
جسے بتیس برسوں سے مری آنکھیں تلاشے ہیں

بس اتنا جانتا ہوں وہ بہت شہکار چہرہ تھا
جہاں پر شمع داں رکھا ہوا ہے یاد کا منصور
یہاں اس طاقچے میں کوئی پچھلی بار چہرہ تھا
٭
میں زندگی ہوں وہ جانے لگا تو اس نے کہا

وہ میرے ساتھ کوئی دن رہا تو اس نے کہا
مجھے زمین سے رکھنے ہیں اب مراسم بس

جب آسماں نے فسردہ کیا تو اس نے کہا
میں تتلیوں کے تعاقب میں جانے والا ہوں

کسی نے ماتھے پہ بوسہ دیا تو اس نے کہا
اداس رہنے کی عادت ہے مجھ کو ویسے ہی

گلی میں اس کی کوئی مرگیا تو اس نے کہا
مجھے بھی شام کی تنہائی اچھی لگتی ہے

مری اداسی کا قصہ سنا تو اس نے کہا
خیال رکھنا تجھے دل کا عارضہ بھی ہے

جب اس کے سامنے میں رو پڑا اس نے کہا
مجھے تو رات کی نیت خراب لگتی ہے

چراغ ہاتھ سے میرے گرا تو اس نے کہا
کوئی فرشتوں کی مجھ سے تھی دشمنی منصور
پڑھا نصیب کا لکھا ہوا تو اس نے کہا
٭
ناریل کے درختوں کی شاخوں میں بادام کا پیڑ تھا

یاد ہے وصل کی سبز اتوار تھی شام کا پیڑ تھا
قمقموں سے پرویا ہوا، روشنی سے بھگویا ہوا

برف کے ڈھیر میں سرخ سا زخمِ ناکام کا پیڑ تھا
شاعری نہر کے ساتھ چلتی ہوئی چاپ تھی خواب کی

رات نظموں کی فٹ پاتھ تھی چاند الہام کا پیڑ تھا
میں ثمر باریوں کی توقع لئے دیکھتا تھا اسے

جو کرائے کے گھر میں لگایا ابھی آم کا پیڑ تھا
ایک دہکی ہوئی آگ کے تھے شمالی پہاڑوں پہ پھول

اک دہکتے چناروں میں کشمیر کے نام کا پیڑ تھا
جس کے پتوں سے تصویر کھینچی گئی میرے کردار کی

ٹہنیوں سے کئی جھوٹ لٹکے تھے، الزام کا پیڑ تھا
اک طرف نیکیوںکا شجر تھا سفیدی پھری قبر سا

اک طرف لمس افزا گناہِ سیہ فام کا پیڑ تھا
زلزلے بھی وبائیں بھی سیلاب بھی شاخ درشاخ تھے

ساری بستی پہ پھیلا ہوا کوئی آلام کا پیڑ تھا
سب پھلوںکے مگر مختلف ذائقے ، مختلف رنگ تھے

اپنی تفہیم کے باغ میں تازہ افہام کا پیڑ تھا
جس شجر کی جوانی کومیں چھوڑ آیا بہاروںکے بیچ

گالیاں چھائوں میں چہچہاتی تھیں دشنام کا پیڑ تھا
کوئی انبوہ تھا اہلِ اسباب کا اس کی آغوش میں

کیا ہوس کار گلزار میں درہم و دام کا پیڑ تھا
برگ و بار اس پہ آئے ہوئے تھے نئی شاعری کے بہت

ایک دریا کے مبہم کنارے پہ ابہام کا پیڑ تھا
آگ ہی آگ تھی اس کی شاخوں میں پھیلی ہوئی لمس کی

باغِ فردوس میں ایک ممنوعہ مادام کا پیڑ تھا
اک جڑوں سے لپیٹی ہوئی موت کی بیل کی چیخ تھی

زندگی ، شورِ واہی تباہی تھی ، سرسام کا پیڑ تھا
جس سے منصور گنتے پرندے پھریں اپنی تنہائیاں
حسنِ تقویم کے صحن میں ایک ایام کا پیڑ تھا
٭
سین ستو میں پڑ گیا ہو گا

ملک اردو میں پڑ گیا ہو گا
گر پڑا ہے افق کے شعلوں میں

دل پکھیرو میں پڑ گیا ہو گا
بے خیالی میں چھو گئے تھے لب

نیل بازو میں پڑ گیا ہو گا
اس طرف جھک گئی ہے سب دنیا

کچھ ترازو میں پڑ گیا ہو گا
ایک گجرے کے ٹوٹ جانے سے

داغ خوشبو میں پڑ گیا ہو گا
ایسا لگتا ہے عمر کا دریا

ایک آنسو میں پڑ گیا ہو گا
کتنی مشکل سے روکی ہے گالی

چھالا تالو میں پڑ گیا ہو گا
ہجر کی رات شور تھا کوئی

درد پہلو میں پڑ گیا ہو گا
شام سے جا گرا تھا کچھ باہر

نور جگنو میں پڑ گیا ہو گا
ہاتھ چھلکا نہیں یونہی منصور
چاند دارو میں پڑ گیا ہو گا
٭
جب بھی میں کشفِ ذات سے گزرا

اک نئی کائنات سے گزرا
ہاتھ میں لالٹین لے کر میں

جبر کی کالی رات سے گزرا
آتی جاتی ہوئی کہانی میں

کیا کہوں کتنے ہاتھ سے گزرا
موت کی دلکشی زیادہ ہے

میں مقامِ ثبات سے گزرا
جستہ جستہ دلِ تباہ مرا

جسم کی نفسیات سے گزرا
لمحہ بھر ہی وہاں رہا لیکن

میں بڑے واقعات سے گزرا
لفظ میرا ترے تعاقب میں

حوضِ آبِ حیات سے گزرا
ایک تُو ہی نہیں ہے غم کا سبب

دل کئی حادثات سے گزرا
یہ بھی اِنکار کی تجلی ہے

ذہن لات و منات سے گزرا
دستِ اقبال تھام کر منصور
کعبہ و سومنات سے گزرا
٭
رنگ اپنے محاط سے گزرا

روح کے اختلاط سے گزرا
عشق ڈھائیں قیامتیں کیا کیا

دل کئی پل صراط سے گزرا
روزمحشر بھی اسکے پہلو سے

میں بڑی احتیاط سے گزار
ہر جگہ نقشِ پا ہیں کیوںمیرے

کب میںشہرِ رباط سے گزرا
پھول سے قمقمے تھے پانی میں

جب میں نہرِ نشاط سے گزرا
نور کی پتیوں کی بارش میں

دل شبِ انبساط سے گزرا
میں الف کی شبیہ بنانے میں

بے کے کتنے نقاط سے گزرا
  ہائے وہ جو تراشنے کے بعد

ایک سو دس قراط سے گزرا
شب گزرتی ہے جیسے یوں منصور
زندگی کی بساط سے گزرا
٭
کیسے وہم و قیاس سے گزرا

خواب میں بھی ہراس سے گزرا
ہر عمارت بہار بستہ ہے

کون چیرنگ کراس سے گزرا
رات اک کم سخن بدن کے میں

لہجہ ء  پُر سپاس سے گزرا
پھر بھی صرفِ نظر کیا اس نے

میں کئی بار پاس سے گزرا
رو پڑی داستاں گلے لگ کر

جب میں دیوانِ خاص سے گزرا
عمر بھر عشق ،حسن والوں کی

صبحتِ ناشناس سے گزرا
کیا کتابِ وفا تھی میں جس کے

ایک ہی اقتباس سے گزرا
مثلِ دریا ہزاروں بار بدن

اک سمندر کی پیاس سے گزرا
ہجر کے خارزار میں منصور
وصل کی التماس سے گزرا
٭
دونوں طرف ذرا ذرا تقسیم ہو گیا

چلنے لگے تو راستہ تقسیم ہو گیا
کچھ دیدئہ سیاہ میں کچھ تیرہ بخت میں

کاجل شب ِ فراق کا تقسیم ہو گیا
پہلے پہل تو ہنس پڑے سن کر کسی کی بات

پھر آنسوئوں میں حوصلہ تقسیم ہو گیا
خود کو کیا تھا جمع بڑی مشکلوں کے ساتھ

پھر کرچیوں میں بٹ گیا تقسیم ہو گیا
محسوس یوں ہوا کسی زلف ِ سیہ کا لمس

شانوں پہ جیسے ابر سا تقسیم ہو گیا
منصور یاد ِ یار کے انبوہ میں کہیں
وہ دل جو دوست اپنا تھا تقسیم ہو گیا
٭
کہ جو فقر نے ہے عطاکیا وہی چاک چاک پہن لیا

سوحریر سرخ اتار دی ،ہے لباسِ ِخاک پہن لیا
لیا ڈھانپ ننگ نصیب کااسی جامہ ء شبِ تار سے

جو جلادیا تھا فقیر نے وہی راکھ راکھ پہن لیا
کبھی سردمہر ہوئے کہیںتو سیاہ چین زمین تھی

گریں دوپہر میں بھی بجلیاںجو کبھی تپاک پہن لیا
کبھی شہر کے کسی موڑپریونہی خالی ہاتھ بڑھا دئیے

کبھی ذکر و فکر کی غار میںتراانہماک پہن لیا
جو مٹھائیوں کی طلب اٹھی توزمیں کی خاک ہی پھانک لی

جو سفید سوٹ کو جی کیا تو سیہ فراک پہن لیا
جہاں یاد آئیں حکومتیں وہیں ہم برہنہ ہوگئے
جہاں حرف زاد کوئی ملا وہیںملکِ پاک پہن لیا
٭
جو خط لکھا نہیں اسے رسوا کرو گے کیا

سادہ دلوں کا نامہ ء قسمت بھرو گے کیا
کیا دیکھتے ہو مردہ بدن کو اے زندہ دل

پھر نفس کے محاذ پہ جا کر مرو گے کیا
رہنے دو میری قبر کو بے نام ، بے نشاں

اس نور کے وجود پہ پتھرو دھرو گے کیا
تم تو سگ مدینہ ہو ، باہو کے شیر ہو

بدشکل مولوی کی زباں سے ڈرو گے کیا
اے صاحب خرد! تری کامل سہی دلیل
بعد از ممات وہ جو ہوا تو کرو گے کیا
٭
ہے اضطراب زیادہ ، قرار تھوڑاسا

قریب آیا ہے میرے وہ یار تھوڑا سا
میں جانتا ہوں کہ مصروف ہے کوئی کچھ دن

مگر یہ ہوتا نہیں انتظار تھوڑا سا
اُسی نے دست درازی کی تیری قدرت پر

جسے بھی تُونے دیا اختیار تھوڑا سا
الرجی ہے نا تجھے خاک کے مسائل سے

تُو آسماں پہ زمانہ گزار تھوڑا سا
اُسی نے روشنی لے کراُسے بجھایا ہے

دئیے نے جس پہ کیا انحصار تھوڑا سا
نمی بھی پونچھ لی قرب و جوار ِدیدہ سے

اب اور کیسے کروںاختصار تھوڑا سا
وہ مسکرائی مرے التماس پر منصور
نگارِ شہر ہوا خوشگوار تھوڑا سا
٭
ہوا تھی تیز مگر ، پُرسکوت پانی تھا

 سرابِ ذات کا کیسا سموتھ پانی تھا
وہاں پہ آگ کو کیا سرخروئی ملنی تھی

جہاں حیات کا پہلا ثبوت پانی تھا
وہ تشنہ لب رہا دریا کے پاس آکر بھی

مرے کنارے کا شاید اچھوت پانی تھا
کئی ہزار برس پہلے میرے پائوں میں

بشکل ِ برف زمیں پر حنوط پانی تھا
اکیلگی تھی جزیرے پہ اور ہوائیں تھیں

گرے ہوئے تھے کئی شہ بلوط ، پانی تھا
ہر اک خیال کے اس انجماد میں منصور
حدِ نگاہ کا بے شکل بھوت پانی تھا
٭
فراق و رابطہ کا احتمال ختم ہوا

طلب شکستہ کا آخر ملال ختم ہوا
وہ بجھ گئی ہے تمناجو آگ رکھتی تھی

وہ ہجر راکھ ہوا، وہ وصال ختم ہوا
کوئی بھی اپنے مقاصد میں پیش رفت نہیں

یونہی حیات کا اک اور سال ختم ہوا
ہم اس کی سمت چلے وہ کسی کی سمت چلا

سوال کرنے سے پہلے سوال ختم ہوا
چلی تو جھونک گئی دھول ساری آنکھوں میں

رکی ہوا تو چمن کا جمال ختم ہوا
بجھی ہوئی ہے انگیٹھی سیہ دسمبر میں

اے چوبِ سوختہ تیرا کمال ختم ہوا
کسی کے واسطے افلاک پستیاں منصور
بلندیوں پہ کسی کا زوال ختم ہوا
٭
سورج نکل پڑا ہے گھوڑے پہ زین رکھنا

میںآئوں گا پلٹ کر، میرایقین رکھنا
شیوہ یہی رہا ہے اپنے حسب نسب میں

اچھی شراب پینا ، ساتھی حسین رکھنا
بے شک روایتوں سے کرنا گریز لیکن

نازک خیال رکھنا،لہجہ متین رکھنا
کس کو بتایا جائے اِس اجنبی نگر میں

خالی مکان میں ہے کوئی مکین رکھنا
میں جارہا ہوں آگے ،دشمن پہاڑیوں پر

میرے لئے وطن میں دوگز زمین رکھنا
فنِ سپہ گری ہے دونوں طرف برابر

تلوار ہاتھ میں تم بس بہترین رکھنا
منصور ڈوب جانا دریا میں فلسفوں کے
لیکن بچا کے اپنا دینِ مبین رکھنا
٭
تبصرہ اس کے بدن پر بس یہی کرتا رہا

آسماںتجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا
میں ابوجہلوں کی بستی میں اکیلا آدمی

چاہتے تھے جو،وہی پیغمبری کرتا رہا
نیند آجائے کسی صورت مجھے، اس واسطے

میں، خیالِ یار سے پہلو تہی کرتا رہا
کھول کر رنگوںبھرے سندر پرندوں کے قفس

میں بہشت ِ دید کے ملزم بری کرتا رہا
جانتا تھا باغِ حیرت کے وہی ساتوںسوال

اک سفر تھا میں جسے بس ملتوی کرتا رہا
تھی ذرا سی روشنی سواحتیاطً بار بار

پوٹلی میں بند پھر میںپوٹلی کرتا رہا
سارادن اپنے کبوتر ہی اڑاکردل جلا

آسماں کا رنگ کچھ کچھ کاسنی کرتا رہا
 دیدہ ء گرداب سے پہچان کر بحری جہاز

اک سمندرگفتگو کچھ ان کہی کرتا رہا
دشت میں موجودگی کے آخری ذرے تلک

ریت کا ٹیلاہوا سے دوستی کرتا رہا
رات کی آغوش میں گرتے رہے ، بجھتے رہے

میں کئی روشن دنوں کی پیروی کرتا رہا
اپنی ہٹ دھرمی پہ خوش ہوں اپنی ضد پر مطمئن

جو مجھے کرنا نہیں تھا میں وہی کرتا رہا
میں کہ پانچوں کا ملازم میں کہ چاروں کا غلام
حسبِ فرمانِ خدا ، وردِ نبیﷺ کرتا رہا
٭
اک چراغِ معتبر میں لگ گیا تھا

تیر سورج کی نظر میں لگ گیا تھا
اس پہ بچپن میں کہانی کھل گئی تھی

دکھ کا پتھر اس کے سر میں لگ گیا تھا
وہ کہیں رہتی تھی تاروں کے نگر میں

سارا دن بس کے سفر میں لگ گیا تھا
پہلے لکھے تھے ستاروں کے قصیدے

پھر قلم کارِ سحر میں لگ گیا تھا
رفتہ رفتہ چھائوں میٹھی ہوگئی تھی

شہد کا چشمہ شجر میں لگ گیا تھا
پچھلے دکھ منصور جندڑی سہہ گئی تھی
زخم اک تازہ جگر میں لگ گیا تھا
٭
تیرے ماتھے کی جو محراب سے تشکیل ہوا

وہی فانوس مری صبح کی قندیل ہوا
نامکمل تھی ابھی مرے خدا کی تخلیق

وہ ترا نام تھا جو باعث تکمیل ہوا
میرے دامن میں بکھرنے لگے لاکھوں سورج

کوئی آنسو جو تری یاد میں تحلیل ہوا
تیرے انداز تمدن بھری تاریخ ہوئے

تیرا چلنامری تہذیب میں تبدیل ہوا
تیری رحمت کی بشارت سے بھرا رہتا تھا

ایک عیسیٰ جو کبھی صاحبِ انجیل ہوا
اس کے قدموں کی کرم باری کے صدقے منصور
میرا ہر لفظ مرے دور کا جبریل ہوا
٭
کچھ پھول کھلانا خوشبو کے، کچھ نورکے رنگ گرا جانا

ہے لاج تمہیں اے ابرِ کرم دو بوندیں تو برسا جانا
باطل کی یہ وحشت سامانی مرعوب کرے حق بازوں کو

یہ رسم نہیں پروانوں کی یوں شعلوں سے گھبرا جانا
منجدھار ہے اور طوفانِ بلا،ساحل کا تصور ڈوب چلا

بس آس تمہاری ہے آقا اب نیا پار لگا جانا
ہر بے بس کی فریاد رسی ہر بے کس دل کی چارہ گری

تائیدِ محمد صل علیٰ وہ ریت ذرا دھرا جانا
مقصود نہیں ہے عیش و طرب ہلکا سا تموج کافی ہے

ہے شوق یہی دیوانوں کو کچھ پی کے ذرا لہرا جانا
جب شہرِ مدنیہ آجائے جب گنبدِ خضرا سامنے ہو

اے خوابِ تخیل رک جانا اے چشمِ طلب پتھرا جانا
منصور مدنیہ کے سپنے پلکوں پہ اٹھائے پھرتا ہے
خوشبو کی طرح اے بادصبا ہر سمت اسے بکھرا جانا
٭
نیند کی ناراضگی کو کم کیا

آیت الکرسی پڑھی اور دم کیا
اس نے شانوں پر بکھیرے اپنے بال

اور شیتل شام کا موسم کیا
پہلے رنگوں کو اتارا اور پھر

اس نے ہیٹر کو ذرا  مدہم کیا
ایک آمر کی ہلاکت پر کہو

سرنگوں کیوں ملک کا پرچم کیا
صبح آنسو پونچھ کے ہم سو گئے

روشنی کا رات بھر ماتم کیا
مان لی ہم نے کہانی رات کی

اس نے پلکوں کو ذرا سانم کیا
عاشقی کی داد چاہی شہر سے

ہیٹ اتارا اور سر کو خم کیا
دار پر کھینچا مرے منصور کو
اور سارے شہر کو برہم کیا
٭
پانیوں میں رقص کر، تالاب سے باہر نہ آ

چاند ہے تُو رات کے اسباب سے باہر نہ آ
سرسراتے سانپ ہیں گہری سنہری گھاس میں

جنگلوں میں پابرہنہ خواب سے باہر نہ آ
ہجر کے تاریک منظر میں یہی امکان گاہ

چاندنی سے قریہ ء مہتاب سے باہر نہ آ
اک وہی رہنے دے اپنی آنکھ میں تصویر بس

ساعتِ بھرپور سے شاداب سے باہر نہ آ
آگ دوزخ کی ہے سورج کی نگاہِ ناز میں

اور کچھ دن حجلہ ء برفاب سے باہر نہ آ
لاکھ دے دشنام شیخِ بدنسب کے کام کو

زندگی تُو ، منبر و محراب سے باہر نہ آ
ذات کی پاتال میں ہوگی بلندی عرش کی
ڈوب جا منصور کے گرداب سے باہر نہ آ
٭
فائروں کا ہدف نہیں ہونا

تم نے میری طرف نہیں ہونا
نام میرا مٹا دے ہر شے سے

میں نے دل سے حزف نہیں ہونا
ایک موتی ہی پاس ہے اس کے

مجھ سے خالی صدف نہیں ہونا
تم پیو گے تو میں بھی پی لوں گا

یونہی ساغر بکف نہیں ہونا
دیکھتی کیا ہو سوٹ کھدرکا

میں نے اندر سے رف نہیں ہونا
عشق کرنا خیال سے منصور
حسن نے باشرف نہیں ہونا
٭
چاروں اور پہاڑ لگا

کوئی طلسمی باڑ لگا
غم کا کاٹھ کباڑ لگا

سارا شہر اجاڑ لگا
دنیا ایک مثلث ہے

دل میں تین کواڑ لگا
ہر اک عشق کی بستی کا

اشک شمار کراڑ لگا
چل منصور محبت کے
دل میں ایک دراڑ لگا
٭
دیکھنا منکسف نہیں ہونا

عکس میں متصف نہیں ہونا
شہر میں معتبر تو ہونا ہے

شہر سے مختلف نہیں ہونا
وقت نے دیکھنا ہے آنکھوں سے

بس یونہی معترف نہیں ہونا
دل میں بس اعتکاف کرنا ہے

کعبہ میں معتکف نہیں ہونا
ہر طرف سولیاں سجی ہونگی

وقت پر منکشف نہیں ہونا
چوم لینی ہے دار بھی منصور
بات سے منحرف نہیں ہونا
٭
کبھی غم سے کبھی آزار سے مل کر رویا

کبھی گھر کے درویوار سے مل کر رویا
کبھی تصویریں اٹھائیں کبھی رکھ دیں میں نے

کبھی کپڑوں کے میں انبار سے مل کر رویا
کبھی انگن سے اٹھا لایا میں یادیں اس کی

کبھی باغیچے کے اشجار سے مل کر رویا
جسے پائوں میں بچھایا تھا گذشتہ رت میں

کبھی اُس منزلِ مسمار سے مل کر رویا
کبھی ہم بھیگتے تھے جس کی سروں سے مل کر

اُسی بارش اُسی ملہار سے مل کررویا
کبھی اشعار کہے اشک گزیدہ دل کے

کبھی اندر کے میں فنکار سے مل کر رویا
کہا کرتا تھا جسے پیار کا دن وہ منصور
اسی روتی ہوئی اتوار سے مل کر رویا
٭
جسم دو لخت ہواجب سے جدا شانہ ہوا

یہ مرا دیس مصیبت زدہ کاشانہ ہوا
وقت پھر ایسابھی آیا کہ اسے ملتے ہوئے

کوئی آنسو نہ گرا کوئی تماشا نہ ہوا
میں نے بھی وزن کیا لوگ جہاں تلتے تھے

ڈیڑھ سرسائی ہوا ،پورا میں ماشا نہ ہوا
یہ تری جنگ ہوئی امن و اماں کی تحریک

میرے آغشتہ ء خوں عہد کا لاشہ نہ ہوا
میری بستی میں رہی جسم کی اردو رائج

بولنے والا کوئی روح کی بھاشا نہ ہوا
تھانہ ء حسن میں تفتیش ابھی جاری ہے

ابر آلود کہانی میں مرا شانہ ہوا
یہ صحیفہ ہوا، منصور کوئی میرے خلاف
کسی بدنام رسالے کا تراشا نہ ہوا
٭
نیندجگاکر رقص کیا

خواب میں جاکر رقص کیا
خوشبو کے اکتارے پر

 رنگ بجاکر رقص کیا
آبِ رواں کے پہلو میں

گیت بہاکر رقص کیا
نرم پروں پہ تتلی کے

شام بناکر رقص کیا
ابر ِ سیہ کی بوندوں میں

شور مچاکر رقص کیا
دھوپ کے ننگے سینے پر

پیٹر جھکا کر رقص کیا
رات کے کالے شیشے سے

دن ٹکرا کر رقص کیا
خواب بھری آوازوں سے

لطف اٹھا کر رقص کیا
بزم سخن میںرومی سے

ہاتھ ملا کر رقص کیا
برف بھری منصور رُتیں
آگ بجھا کر  رقص کیا
٭
موج بن کر کہیںہاتھوں کی لکیروں میں نہ آ

اے سمندر ! مرے آباد جزیروں میں نہ آ
خاک میں تجھ کوملادے گی کوئی تیز نظر

بادشاہوں کی طرح دیکھ فقیروں میں نہ آ
بند کردے گی تجوری میں تجھے تیری چمک

کنکروں میں کہیں رہ،قیمتی ہیروں میں نہ آ
جنگ شطرنج ہے ، چالوںکا سلیقہ ہے فقط

ہوش کر ، دیکھ برستے ہوئے تیروں میں نہ آ
عمر منصور اڑانوں میں فقط اپنی گزار
دام پہچان شکاری کے، اسیروں میں نہ آ
٭
 راکھ دل کا یہ پلازہ شاٹ سرکٹ سے ہوا

قریہ ء جاں میںاچانک ایک آہٹ سے ہوا
ختم ہونا چاہئے جا کر کہیں دریا کے پاس

اس تعلق کا اگر آغاز پنگھٹ سے ہوا
تم جسے کہتے ہو تاروں سے چمکتی داستاں

یہ شروع افسانہ تو سورج کے مرگھٹ سے ہوا
مجھ کو بھی ویزا دکھا کر اپنے گھر جانا پڑا

داخلہ سامان کا بھی ایک پرمٹ سے ہوا
گا رہے تھے ایک وحشت ناک لے میں ماہیے

میں فسردہ اور بھی بچوں کے جھرمٹ سے ہوا
خوبصورت ہٹ ہوا منصور اُس گلپوش سے
اور سمندر خوبرو، پھولوںبھرے ہٹ سے ہوا
٭
خوف پیدا جشن ہائے چودہراہٹ سے ہوا

بے تحاشا فائروں کی سنسناہٹ سے ہوا
شمع کا شعلہ ہوا کی تھرتھراہٹ سے ہوا

اک غضب کی چیز اپنی مسکراہٹ سے ہوا
موسم ِ گل کے دھڑکتے موسموں کا سلسلہ

اک دوپٹے کی ذراسی سرسراہٹ سے ہوا
راستے میں رک گئی ہے کیوں یہ چلتی روشنی

میں پریشاں کچھ زیادہ ہچکچاہٹ سے ہوا
اس قدر منصور موسم یخ ہوا ہے روح کا
سرد آتش دان میری کپکپاہٹ سے ہوا
٭
اک سیہ بھیڑ تھی اک سیہ شیر تھا

یعنی قربانی کرتا ہوا شیر تھا
بلی کوبادشہ کیسے مانے وہ شخص

جس کی آنکھوں میں شیرِ خدا شیر تھا
شہر میں ہوگیا ہے درندہ صفت

جنگلوں میں مہذب ذرا شیر تھا
نوکری پیشہ یعنی کہ سرکس زدہ

لومڑی کا کوئی دلربا شیر تھا
ایک گیڈر جو گلیوں سے گزرا مری

شور اٹھا شیر تھا شیر تھاشیر تھا
ڈھاڑتا تھاجو منصور کو دیکھ کر
آدمی تھا کوئی ناطقہ شیر تھا
٭
اک حبس کے مریض کو تازہ ہوا ملی

پڑھ کے کلامِ فیض جو پھونکا شفا ملی
کل رات باغ میں مجھے پتوںکے دکھ ملے

لیکن وہاںسے نکلا توبادِ صبا ملی
کیسے کروں وسیلے کی عظمت سے انحراف

مجھ کو خدا کی ذات بھی بل واسطہ ملی
اک دن ملا بہار میں ہنستا ہوا مجھے

اک شام غم کا کرتی ہوئی تجربہ ملی
بولیں گے جبرائیل بھی میرے وجود میں

مجھ کو کسی فقیر سے جس دن دعا ملی
شہرِ ابد نژاد ابھی کتنا دور ہے

پوچھوں گا کائنات کی جو ابتدا ملی
منصور میں نے بانٹ دی خستہ حروف میں
مجھ کو جو آسماں سے شرابِ بقا ملی
٭
روشنی سے بھر دے مولا

ایک جیسا کر دے مولا
بے سہاروں، بے کسوں کو

زندگی بہتر دے مولا
اچھی روٹی ،اچھے کپڑے

سب کو اچھے گھر دے مولا
ہرطرف دوزخ ہیں شر کے

خیر کے منظر دے مولا
بچے جتنے بھی ہیں ان کو

علم کا زیور دے مولا
ارتکازِ زر کے آگے

ہمتِ بوزر دے مولا
اِس معاشرتی گھٹن کو

نغمہ ِ صرصر دے مولا
نام پر اپنے نبیؐ کے

کٹنے والا سر مولا
شکل اچھی دی ہے لیکن

خوبرو اندر دے مولا
بس مدنیے کی گلی میں

نیکیوں کا در دے مولا
میرے پاکستان کو بھی

کوئی چارہ گر دے مولا
جان لوں منصور کو میں
چشمِ دیدہ ور دے مولا
٭
جس سے شاداب رہتا ہے جینا مرا

ہے بہاروں بھرااک مہینہ مرا
اس کی خوشنودیوں کی کہانی رہے

ہر عمل ہر ادا ہر قرینہ مرا
کعبہ ِ اسمِ کن کے کہیں آس پاس

آسمانو! زمیں پر خزنیہ مرا
جسم درجسم بس بھیڑیوں کی طرح

کس نے پنجوں سے چیرا ہے سینہ مرا
کس نے پھانسی چڑھایامرے خواب کی

کون ہے جس نے لوٹا مدنیہ مرا
حیف منصور !حاصل سے محروم ہے
خون کی طرح بہتا پسینہ مرا
٭
وہ ہے شکست مان کے پتھر پڑا ہوا

اک پہلوان رِنگ سے باہر پڑا ہوا
آگاہ بھلا ہو کیسے کہ کیا ہے فلک کے پار

وہ جو ہے کائنات کے اندرپڑا ہوا
ڈالی تھی ایک میں نے اچٹتی ہوئی نظر

میرے قریب تھا کوئی منظر پڑا ہوا
آرام کر رہا تھا ابھی تو یہ ریت پر

دریا کہاںگیا ہے برابر پڑا ہوا
یہ بادِ تند و تیز کی آغوش ِ گرم میں

خراٹے لے رہا ہے سمندر پڑا ہوا
وہ بھی گلی میں پھرتی ہے بے چین دیر سے

میں بھی ہوں گھر میںبلب جلاکر پڑا ہوا
منصور آسمان سے لے کر پہاڑ تک
کیا کیا اٹھانا پڑتا ہے سر پر پڑا ہوا
٭
صبح دم شہرِ مدنیہ کی ہوا احمد رضا

دشت ِکُن میں چشمۂ حمد و ثنا احمد رضا
حمد کی بہتی کرن وہ نعت کی اجلی شعاع

 مدحتوں کے باغ کی باد ِصبااحمد رضا
زندہ و جاوید رکھتا ہے انہیں عشقِ رسول

عشق کی بابت فنا نا آشنا احمد رضا
یہ سرِ فہرست عشاقِ محمدمیں ہے کون ؟

پوچھنے والے نے پھر خود ہی کہا احمد رضا
خانہ ء تاریک میں بھر دے اجالے لفظ سے

فیض کا سر چشمۂ صدق و صفا احمد رضا
کنزالایماں سے منور صحن ِ اردو ہو گیا

آیتوں کا اختتام ِ ترجمہ احمد رضا
روک دیتے ہیں بہارِ حکمت و عرفان سے

بد عقیدہ موسموں کا سلسلہ احمد رضا
آسماں کی بے کراں چھاتی پہ روز حشر تک

صبح نے کرنوں سے اپنی، لکھ دیا، احمد رضا
جل اٹھے ان سے سبھی علمِ عقائدکے چراغ

راستی کا روشنی کا راستہ احمد رضا
صاحب ِ علم الکلام و حامل ِ علم شعور

حاصلِ عہد علومِ فلسفہ احمد رضا
عالم ِ علم لدنی ، عامل ِ تسخیرِ ذات

روح و جاں میں قربِ احساسِ خدا احمد رضا
وہ صفاتِ حرف کی رو سے مخارج کے امیں

محرمِ احکامِ تجوید و نوا احمد رضا
بابت ِ تفسیر قرآں جانتے تھے ایک ایک

معنی و تفہیم ِ الہامِ الہ احمد رضا
وہ روایت اور درایت آشنا شیخ الحدیث

علمِ احوالِ نبی کے نابغہ احمد رضا
مالکی وشافعی ہوں یا کہ حنفی حنبلی

فقہ اربعہ پہ حرف انتہا احمد رضا
علم ِ استخراجیہ ہویا کہ استقرائیہ

دیدہ ء منطق میں ہے چہرہ نما احمد رضا
علم ہندسہ و ریاضی کے نئے ادوار میں

موئے اقلیدس کی اشکال و ادا احمد رضا
علم جامع و جفر کی ہر ریاضت گاہ میں

جو ہرِ اعداد کی صوت و صدا احمد رضا
وہ بروج فلکیہ میں انتقال شمس ہیں

صاحب ِعلم ِ نجوم و زائچہ احمد رضا
وقت کی تاریخ ان کے ہاتھ پر تحریر ہے

جانتے ہیں سرگزشتِ ماجرا احمد رضا
روشنی علمِ تصوف کی انہی کی ذات سے

کثرتِ جاں میں لب ِ وحدت سرا احمد رضا
حرف ِ آخر تھے وہی عربی ادب پر ہند میں

والی ء تختِ علوم عربیہ احمد رضا
علمِ جاں ، علم ِ فضائل ِ علم ِ لغت ،علم سیر

در علوم ِ خیرتجسیمِ ضیا احمدرضا
آسمان ِ معرفت ، علم  ِ سلوک وکشف میں

منظرِبدرالدجیٰ ، شمس الضحیٰ احمد رضا
صبح ِ عرفان ِ الہی ، عابد شب زندہ دار

مسجدِ یاد خدا و مصطفی احمد رضا
عجز کا پندار ہے میرے قلم کی آنکھ میں

جو کچھ لکھا میںنے، کہیں اُس سے سوا احمد  رضا
ٹوٹے پھوٹے لفظ تیری بارگاہ میں پیش ہیں

گرقبول افتدزہے عزوعطا احمد رضا
اعلی حضرت اہلِ سنت کے امام و پیشوا
اک نگہ مجھ پہ کرم کی اک نگہ احمد رضا
٭
کوئی یہاں پہ بورڈ تھا پیتل کا کیا ہوا

اس پرلکھا تھا نام بھی چرچل کا کیا ہوا
اس جگہ پہ تھا پارک جہاں پر مکان ہیں

اس موڑ پہ درخت تھا پیپل کا کیا ہوا
ہوتی تھی اس گلی میں کتابوں کی اک دکان

اسکول تھا یہاں پہ جو شیتل کا کیا ہوا
شیشم کے اس مقام پہ لاکھوں درخت تھے

جنگل یہاں پہ ہوتاتھا، جنگل کا کیا ہوا
قوسِ قزح کہاں گئی وہ آسمان سے

وہ دوپہر کے سرمئی بادل کا کیا ہوا
منصورہر گلی میں اڑے موسموں کی گرد
بارش کہاں چلی گئی جل تھل کا کیا ہوا
٭
سید نصیر شاہ کا جو گھر تھا کیا ہوا

وہ علم و آگہی کا جو منظر تھا کیا ہوا
کہتا تھا جو خدا سے کہ اک جیساکر ہمیں

مشہور شہر میں وہ جو کافر تھا کیا ہوا
وہ جس بلند طرے سے ڈرتے تھے کجکلاہ

وہ جو غریب چلتا اکٹر کر تھا کیا ہوا
ہوتے مشاعرے تھے جو اکثر وہ کیا ہوئے

وہ شاعروں کا ایک جو لشکر تھا کیا ہوا
وہ شام کیا ہوئی جو سٹیشن کے پاس تھی

وہ شخص جو مجھے کبھی ازبر تھا کیا ہوا
وہ ہار مونیم جو بجاتا تھا ساری رات

وہ ایک گانے والا یہاں پر تھا کیا ہوا
برگد ہزاروں سال سے سایہ فگن جہاں

وہ چشمہ جو پہاڑ کے اوپر تھا کیا ہوا
جلتے جہاں تھے دیپ وہ میلے کہاں گئے

آتا یہاں جو پھولوں کا چیتر تھا کیا ہوا
مکھن جو کھایا کرتے تھے وہ مرغ کیا ہوئے

ہر صبح وہ جو بولتا تیتر تھا کیا ہوا
عاجز کے وہ لہکتے ہوئے گیت کیا ہوئے

تنویر کچھ بتا وہ جو مظہر تھا کیا ہوا
چشمہ بیراج کیا ہوا منصور کچھ کہو
جو دیکھنے میں ایک سمندر تھا کیا ہوا
٭
روشنی آئندہ میں پھیلا رہا ہے نور سا

اک تغیر موسموں میں لا رہا ہے نور سا
دے رہا ہے موت کے قیدی کو شاید حوصلہ

ایک روزن سے ابھی تک آرہا ہے نور سا
دیکھتا ہوں اپنی امی کے قدم اٹھتے ہوئے

چل رہی ہیں وہ یا چلتا جا رہا ہے نور سا
شام ڈھلتی جارہی ہے اک جنازے کے قریب

موت کے دربار میں کچھ گا رہا ہے نور سا
برف کے منصور طوفاں میں کرم کا گرم غار
لکڑیوں سے آگ بھی دہکا رہا ہے نور سا
٭
برقی زینے پر مخالف سمت چلنا پڑگیا

حادثے سے پہلے ہوٹل سے نکلنا پڑگیا
ساحلوں کی ریت پر گرتے ہوئے آیا خیال

  کیا ہواکہ موج سے مل کر اچھلنا پڑگیا
آگیا پھر یاد کہ پستی نہیںمیرامقام

گرتے گرتے راستے میں پھر سنبھلنا پڑ گیا
دیکھ کر لاہور کو جاتا ہوا کوئی جہاز

ایک بچے کی طرح دل کو مچلنا پڑ گیا
درد تھا اس کی رگوں میں سلسلے تھے آگ کے
کار کے منصور انجن کو بھی جلنا پڑ گیا
٭
سفید طشت میں اک کاسنی گلاب ملا

مجھے سوال کا کیسا حسیں جواب ملا
ملی شرابِ کرم ہم گناہگاروں کو

جنابِ شیخ کو بس وعدۂ شراب ملا
یہ آنکھیں لیں جو دیکھنا نہیں ممکن

کسی مقام پہ سر چشمۂ غیاب ملا
میںسرخ سرخ رتوںسے بڑا الرجک ہوں

مجھے ہمیشہ لہو رنگ آفتاب ملا
مجھے چراغ کی خواہش ذرا زیادہ ہے

وہ رات ہوں جسے کوئی نہ ماہ تاب ملا
علوم وصل سے میرا بھی کچھ تعارف ہو

 کوئی بیاض دکھا دے کوئی کتاب ملا
سلگ اٹھی ہے تہجد میں وصل کی خواہش

خدائے پاک مجھے منزلِ ثواب ملا
تُو ہار جائے گی غم کا مقابلہ پگلی

شمارِ شامِ محرم سے نہ حساب ملا
ہزار ٹیکس دئیے روڈ کے مگر منصور
میں جس طرف بھی مڑا راستہ خراب ملا
٭
میں دیو کا قیدی ہوں پری زاد سے کہنا

جان اسکی ترے طوطے میں ہے، یاد سے کہنا
ممکن ہے ابابیلوں کے مالک سے ملاقات

اُس ہاتھیوں کے لشکرِ برباد سے کہنا
آنا ذرا خسروسے مگرآنکھ بچا کر

شیریں نے کیا یاد ہے فرہاد سے کہنا
کوہ قاف سے آیا ہے بلاوہ کسی رُت کا

تیار رہے اشہبِ شمشاد سے کہنا
میں بادِ زمانہ کا ازل سے ہوں مخالف

اے بادِ جہاں گیر ،شہِ باد سے کہنا
معلوم ہیں اسرار ہمیں تیرے کرم کے

طیاروں پہ آتی ہوئی امداد سے کہنا
حاکم تری گلیوں میں ہیں ابلیس کے بیٹے

یہ بات مرے ملکِ خداداد سے کہنا
منصور نہیں بھولا میانوالی کی گلیاں
اے باد صبا اُس دلِ ناشاد سے کہنا
٭
ہجوم عاشقاں میں اک شگاف ہوتا ہوا

یہ کون ہیں کہ رکا ہے طواف ہوتا ہوا
خیال آگیا لاکھوں کروڑوں تاروں کا

پلٹ پڑا میں کہیں انکشاف ہوتا ہوا
لے آیا ہے مجھے خوشبو بھری عمارت میں

کسی گلی سے مرا اختلاف ہوتا ہوا
طوافِ وجدِمسلسل سے عرش تک پہنچا

میں خانہ کعبہ کا روشن غلاف ہوتا ہوا
بس عین وقت پہ دستک ہوئی وہاں منصور
زباں پہ رہ گیا، پھر اعتراف ہوتا ہوا
٭
خواب اتنا زیادہ ابتر تھا

جیسے دوزخ میں میرا بستر تھا
میرے آنے پہ کیوں دھڑک اٹھا

تیرا دل تو ازل سے پتھر تھا
جس کو چاہا اسی کو جیت لیا

جانے کیا اس کے پاس منتر تھا
کوئی باہوںکی دائرے میںتھی

اور تعلق کا پہلا چیتر تھا
بند درزیں تھیں رابطوں والی

اس کی دیوار پر پلستر تھا
راستے کے بڑے مسائل ہیں

مجھ سے کچھ پوچھتے تو بہتر تھا
وردِ الحمد کی صدا منصور
صبح ابھری کہیں تو تیتر تھا
٭
ہجر تھل ریت کا سمندر تھا

تیرے بن باسیوں کا یہ گھر تھا
آدھے حصے میں رنگ تھے موجود

آدھا خالی گلی کا منظر تھا
چھت بھی بیٹھی ہوئی تھی کمرے کی

اور دل کا گرا ہوا در تھا
اک سلگتی سڑک پہ بچے کے

پائوں میں ایک ہی سلیپر تھا
مملکت کی خراب حالت تھی

میں اکیلا وہاں قلندر تھا
وہ تھی یونان کی کوئی دیوی

اور قسمت کا میں سکندر تھا
ایک بس وہ خدا نہ تھا منصور
ورنہ ہر چیز پہ وہ قادر تھا
٭
کرشمے تیری گرفتِ نظر کے دیکھوں گا

تجھے میں آنکھ کے دربندکرکے دیکھوں گا
پتہ کروں گا نہ ہونے میں کیسا ہونا ہے

مقامِ صفر پہ کچھ دن ٹھہر کے دیکھوں گا
نکل کے کمرے سے جائوں گا صحن میں اپنے

مناظر اپنے شکستہ سے گھر کے دیکھوں گا
رکھا درخت کے بالکل ہے سامنے سورج

ابھی میں پھیلتے سائے اُدھر کے دیکھوں گا
جہاں جہاں ترے پہلو میں کھل اٹھا تھا بدن

میں بار بار وہیں سے گزرکے دیکھوں گا
سہار د ستِ دعانے تو لی ہے چھت لیکن

مگر فلک کی طرف روز ڈر کے دیکھوں گا
ہے ہمکلام بھی مائل بھی اور اکیلا بھی

سوہاتھ زانوئے جاناںپہ دھر کے دیکھوں گا
سناہے اسکے لبوں سے جھڑے مسیحائی

سومیں بھی یار کی چوکھٹ پہ مر کے دیکھوں گا
اے چشمِ یار کی تیرہ سواد کاجلی شب

تجھے میں آنکھ میں مہتاب بھر کے دیکھوں گا
بنا ہوا ہوں ازل سے زمین کا قیدی

میں سارے دائرے دا مِ سفر کے دیکھوںگا
ذرا سی اور ٹھہر جائے رات پہلو میں

سبھی چراغ بجھا کر سحر کے دیکھوں گا
ہوا وصال میںمہکے توچاندنی !تجھ سے

میں کھول کھول کے سائے شجر کے دیکھوں گا
مجھے یقیں ہے کہ تیرا سروپ ہے اسمیں

اب آئینہ بھی ہمیشہ سنور کے دیکھوں گا
تم اپنے خول سے باہر نکل کے آ توتو

فرازِ عرش سے میں بھی اتر کے دیکھوں گا
مرے لبوں کو بھی تتلی کی نرمیاںچھو لیں

گلاب کی طرح میں بھی نکھر کے دیکھوں گا
خود اپنی آنکھ سے اپنی سویر کی کرنیں

کسی کے بامِ افق پر ابھر کے دیکھوں گا
یہ اور بات کہ موسم بدل نہیں سکتا

میںبرگ برگ ہوا میں بکھرکے دیکھوں گا
ابھی لکھوں گا قصیدہ کسی کے چہرے کا

تماشا اپنے ہی حسنِ نظر دیکھوں گا
وہ گنگنائے گی اک دن مری غزل منصور
عجب وصال میں اپنے ہنر کے دیکھوں گا
٭
کرم اسمِ محمدﷺکا فنا ہونے کہاں دیگا

مجھے بیدار طالع قبر میں سونے کہاں دیگا
اگرچہ ہوں ابھی بچپن کی کچی نیند میں لیکن

مرے اندر چھپا بوڑھا مجھے رونے کہاں دیگا
وہ جس کو خوف ہے دوزخ کہیں خالی نہ رہ جائے

وہی اشک ِ ندامت سے گنہ دھونے کہاں دیگا
جسے اپنی دھڑکتی زندگی سے خوف آتا ہے

وہی ،دل سینۂ مہتاب میں بونے کہاں دیگا
جمالِ اسم اعظم کے بہشت آباد میں منصور
وصالِ یار کا دوزخ مجھے کھونے کہاں دیگا
ردیف ب
ایک شرابی ہاتھ کی دستک اور شراب

جنت کے بنگلے کا پھاٹک اور شراب
پیاس ہوائے شام میں اپنے بین کرے

ابر ہے بامِ ذات کی حد تک اور شراب
مجھ سے تیری یادیں چھین نہیں سکتے

اُس بازار کے سارے گاہک اور شراب
سات سمندر پار کا ایک پرانا کوٹ

بیچ سڑک کے ٹوٹی عینک اور شراب
سناٹوں کی آوازوں کا ایک ہجوم

شور میں گم ہو جانے کا شک اور شراب
تیری گلی آوازِ سگاں، مجذوب ضمیر

ڈوب رہی ہے رات کی کالک اور شراب
عمر ہوئی میخانے کے دروازے پر

دست و گریباں میرا مسلک اور شراب
رات کے پچھلے پہر لہو کی صورت تھے

میری رگوں میں گھنگرو ڈھولک اور شراب
کھلتا سرخ سا فیتہ، دوشیزہ فائل

انٹر کام کی بجتی دستک اور شراب
دیکھ کے موسم خود ہی بچھتے جاتے ہیں

صحرا کی سہ پہر میں اجرک اور شراب
ایک گلی میں دو دیواریں ہیں منصور
ساتھ مری بے مقصد بک بک اور شراب
٭
منصور پر خدائی کے الزام کے سبب

مارا نہ جائوں میں بھی کہیں نام کے سبب
بس رہ گئی ہے یاد میں بجھتی سی ریل کار

میں لیٹ ہو گیا تھا کسی کام کے سبب
مہکا ہوا ہے دیر سے میری گلی کا موڑ

خوشبو پہن کے چلتی ہوئی شام کے سبب
کر لوں گا آسمانوں پہ آباد بستیاں

میں پُر یقیں ہوں زینہء ایام کے سبب
چہرے تک آ گئی تھیں شعاعوں کی ٹہنیاں

جاگا ہوں آفتابِ لبِ بام کے سبب
کتنے سفید کتنے حسین و جمیل لوگ

چھوڑ آیا ایک حسن سیہ فام کے سبب
انجامِ گفتگو ہوا پھولوں کے درمیان

آغازِ گفتگو ہوا دشنام کے سبب
بیٹھا ہوں کوہِ سرخ کے پتھر تراشتا

دریائے سندھ ! آپ کے پیغام کے سبب
صحرا نے صادقین کی تصویر اوڑھ لی

اک نظمِ گردباد کے الہام کے سبب
جس کی مجھے تلاش تھی وہ درد مل گیا

ہوں کامیاب صحبتِ ناکام کے سبب
سورج پلٹ گیا ہے ملاقات کے بغیر

زلف سیہ کے بسترِ بدنام کے سبب
پروردگارِ اول و آخر سے پانچ وقت

ملتے ہیں لوگ کمرئہ اصنام کے سبب
شب ہائے زخم زخم گزارے خوشی کے ساتھ

لندن کی ایک غم زدہ مادام کے سبب
دینا پڑے گا شیخ کو میرا حساب بھی
کافر ہوا ہوں چہرئہ اسلام کے سبب
٭
کچھ موتیے کے پھول ہوئے زرد بے سبب

ناراض ہو گئے مرے ہمدرد بے سبب
ویسے ہی محوِ آئینہ داری تھی میری آنکھ

پھیلی ہے میرے چاروں طرف گرد بے سبب
کرتا رہا ہے میرا تعاقب تمام دن

شہرِ شبِ سیہ کا کوئی فرد بے سبب
یہ سچ ہے اس سے کوئی تعلق نہیں مرا

پھرتا ہے شہر جاں میں کوئی درد بے سبب
شامِ وصال آئی تھی آ کر گزر گئی

جاگا ہے مجھ میں سویا ہوا مرد بے سبب
گرتی رہی ہے برف مگر بس خیال میں
منصور میرا کمرہ ہوا سرد بے سبب
٭
شاید وہ مانگتی ہے ملن کے نئے سبب

کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب
کچھ اس کے کار ہائے نمایاں بھی کم نہیں

دل نے بھی کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب
روشن ہے میرے صحن میں امید کا درخت

پچھلی گلی میں جلتے ہوئے بلب کے سبب
دیکھی کبھی نہیں تھیں یہ گلیاں بہار کی

جب چل پڑا تو راہ میں بنتے گئے سبب
کیا کیا نکالتی ہو بہانے لڑائی کے

آنسو کبھی سبب تو کبھی قہقہے سبب
منصور اتفاق سے ملتی ہیں منزلیں
بے رہروی کبھی تو کبھی راستے سبب
٭
غیب کا مدفن عینک اور کتاب

میرے کاہن عینک اور کتاب
ایک بہکتے حرف کے پہلو میں

رکھ دی فوراً عینک اور کتاب
ٹیرس پر تنہائی کی رم جھم

بھیگا ساون عینک اور کتاب
میر و غالب پھر مہمان ہوئے

چائے کے برتن عینک اور کتاب
یاد کی لائبریری زندہ باد

اپنا جیون عینک اور کتاب
برف بھری تنہائی میں منصور
یار کا درشن عینک اور کتاب
٭
بہتی بہار سپنا، چلتی ندی ہے خواب

شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب
ایسا نہ ہو کہ کوئی دروازہ توڑ دے

رکھ آئو گھر سے باہر بہتر یہی ہے خواب
تُو نے بدل لیا ہے چہرہ تو کیا کروں

میری وہی ہیں آنکھیں میرا وہی ہے خواب
میں لکھ رہا ہوں جس کی کرنوں کے سبز گیت

وہ خوبرو زمانہ شاید ابھی ہے خواب
ہر سمت سے وہ آئے قوسِ قزح کے ساتھ

لگتا ہے آسماں کی بارہ دری ہے خواب
اس کے لیے ہیں آنکھیں اس کے لیے ہے نیند

جس میں دکھائی دوں میں وہ روشنی ہے خواب
دل نے مکانِ جاں تو دہکا دیا مگر

اْس لمسِ اخگری کی آتش زنی ہے خواب
اک شخص جا رہا ہے اپنے خدا کے پاس

دیکھو زمانے والو! کیا دیدنی ہے خواب
تجھ سے جدائی کیسی ، تجھ سے کہاں فراق

تیرا مکان دل ہے تیری گلی ہے خواب
سورج ہیں مانتا ہوں اس کی نگاہ میں

لیکن شبِ سیہ کی چارہ گری ہے خواب
امکان کا دریچہ میں بند کیا کروں

چشمِ فریب خوردہ پھر بُن رہی ہے خواب
رک جا یہیں گلی میں پیچھے درخت کے

تجھ میں کسی مکاں کی کھڑکی کھلی ہے، خواب
منصور وہ خزاں ہے عہدِ بہار میں
ہنستی ہوئی کلی کی تصویر بھی ہے خواب
٭
لگتے ہیں خوبصورت گزری ہوئی کے خواب

کیا ہے جو دیکھتا ہوں پچھلی گلی کے خواب
ہیں بے چراغ دل کے جگنو قطار میں

پلکوں سے چُن رہا ہوں لا حاصلی کے خواب
آنسو بہا رہی ہیں آنکھیں فرات کی

پتھرا گئے ہیں جیسے تشنہ لبی کے خواب
ہے اجتماعی وحشت چشمِ شعور میں

اپنے خمیر میں ہیں کیا کیا کجی کے خواب
مجبور دل الگ ہے دل کی طلب الگ

بستر کسی کا بے شک دیکھے کسی کے خواب
منصور موتیوں سے جس کی بھری ہے جیب
تاریخ لکھ رہی ہے اک بس اسی کے خواب
٭
مرے دماغ کے سب عنکبوت آخرِ شب

بنے ہوئے ہیں بڑے راجپوت آخرِ شب
عشائے غم میری خیرہ سری میں گزری ہے

سو پڑھ رہا ہوں دعائے قنوت آخرِ شب
اداسیوں کے تنفس میں میرے اندر سے

نکل پڑا ہے عدم کا سکوت آخرِ شب
لکھا گیا تھا مجھے آسماں پہ کرنوں سے

ہوا ہے خاک پہ میرا ہبوط آخرِ شب
میں اپنے پاس تہجد کے وقت آیا ہوں

ملا ہے مجھ کو خود اپنا ثبوت آخرِ شب
دبا دیا تھا افق میں امید کا پتہ

نکل پڑا ہے کوئی شہ بلوط آخرِ شب
ہزار رنگ جہنم کے دیکھتا ہوں میں

کیا ہے موت کا منظر حنوط آخرِ شب
بدن پہ دھوپ کا آسیب دیکھ کر منصور
چرا کے برف کے لے آیا بھوت آخرِ شب
ردیف پ
کچھ تلاش آپ ہی کیے ہیں سانپ

کچھ نصیبوں نے بھی دیے ہیں سانپ
گفتگو زہر سے بھری ہی نہیں

سر پہ دستار بھی لیے ہیں سانپ
چھائوں کو ڈس رہے ہیں شاخوں سے

دھوپ کے سرخ زاویے ہیں سانپ
شام ہوتے ہی چاٹتے ہیں دل

بس وہ دوچار ثانیے ہیں سانپ
پھر کہا خواب سے سپیرے نے

اور اب کتنے چاہیے ہیں سانپ
بھر گیا زہرِ غم سے اپنا دل
یعنی یادوں کے بھی دیے ہیں سانپ
٭
یہ جو پندار کے پڑے ہیں سانپ

یہ ابھی جسم سے جھڑے ہیں سانپ
کیا خزانہ تلاش کرتے ہو

اس کنویں میں بڑے بڑے ہیں سانپ
ہر قدم پر خدا کی بستی میں

مسئلوں کی طرح کھڑے ہیں سانپ
کم ہوئی کیا مٹھاس پانی کی

کتنے دریائوں کو لڑے ہیں سانپ
اب بھی ڈرتا ہے آدمی ان سے

وہ جو تاریخ میں گڑے ہیں سانپ
ایک فوسل کی شکل میں منصور
کچھ مزاروں پہ بھی جڑے ہیں سانپ
٭
آستیں سے نکل پڑے ہیں سانپ

کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ
آ رہی ہیں جو اونی بھیڑیں ہیں

جا رہے ہیں جو وہ راستے ہیں سانپ
ہم لکیروں کو پیٹنے والے

جا رہے ہیں جہاں گئے ہیں سانپ
آسماں سے پہن کے تیرا روپ

دیکھ قوسِ قزح گرے ہیں سانپ
میرے پہلو میں جو پنپتے ہیں

یہ ترے انتظار کے ہیں سانپ
چل رہے ہیں سنپولیے ہمراہ

ہم بھی محسوس ہو رہے ہیں سانپ
شہر میں محترم نہیں ہم لوگ

صاحبِ عز و جہ ہوئے ہیں سانپ
اپنے جیون کی شاخِ جنت پر

موسم آیا تو کھل اٹھے ہیں سانپ
لالہ و گل کے روپ میں منصور
زندگی میں کئی ملے ہیں سانپ
٭
گزرا ہے مجھ میں ایک زمانہ بھی اپنے آپ

میں موت کی طرف ہوں روانہ بھی اپنے آپ
بے شکل صورتوں کا ٹھکانا بھی اپنے آپ

بننے لگا ہے آئینہ خانہ بھی اپنے آپ
جب دھوپ سے ہنسی ترے آنچل کی شوخ تار

روٹھا بھی اپنے آپ میں ، مانا بھی اپنے آپ
جاری ہے جس کے مرکزی کردار کی تلاش

لوگوں نے لکھ دیا وہ فسانہ بھی اپنے آپ
صرفِ نظر بھی آپ کیا بزم میں مگر

اس دلنواز شخص نے جانا بھی اپنے آپ
کتنا ابھی ابھی تر و تازہ تھا شاخ پر

یہ کیا کہ ہو گیا ہے پرانا بھی اپنے آپ
منصور کائنات کا ہم رقص کون ہے
یہ گھومنا بھی اور گھمانا بھی اپنے آپ
٭
غم کی طویل رات کا اک انتباہ دھوپ

صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ
احمق ہے جانتی ہی نہیں میری برف کو

جم جائے آپ ہی نہ کہیں بادشاہ دھوپ
میں چل رہا ہوں تیری تمنا کے دشت میں

میرے رفیق آبلے، میری گواہ دھوپ
پردے ابھی نہ کھینچ مری کھڑکیوں کے دوست

مجھ سے بڑھا رہی ہے ذرا رسم و راہ دھوپ
برطانیہ کی برف میں کتنی یتیم ہے

صحرائے تھل میں جو تھی بڑی کج کلاہ دھوپ
جھلسا دیا دماغ بھی چہروں کے ساتھ ساتھ

مشرق کے المیے میں نہیں بے گناہ دھوپ
منصور اپنی چھت سے رہو ہمکلام بس
تنہائیوں کی شہر میں ہے بے پناہ دھوپ
٭
بادِ صبا کے ساتھ صدائے فلاح دھوپ

منصور شامِ غم میں بھی کارِ مباح دھوپ
آنسو رکے ہوئے ہیں کہیں بادلوں کے بیچ

پھیلی ہے چشمِ یاد کے گرد و نواح دھوپ
فتووں کے ابر سے کسی پردے میں جا چھپی

رکھی ہوئی تھی گھر میں جو اک بے نکاح دھوپ
اندھی شبوں میں حضرتِ اقبال آفتاب

برفاب موسموں میں جنابِ جناح دھوپ
ہم لمس ہوں تو ذات کا دریا بہے کوئی

تیرا مذاق برف ہے میرا مزاح دھوپ
ہو جائوں ساحلوں پہ برہنہ، نہیں، نہیں
کیسی یہ دے رہی ہے مسلسل صلاح دھوپ
ردیف ت
کر کے آنکھوں سے بادہ خواری دوست

ہم نے تیری نظر اتاری دوست
اک تعلق ہے خواب کا اس سے

وہ زیادہ نہیں ہماری دوست
زد میں آیا ہوا نہیں نکلا

شور کرتے رہے شکاری دوست
اس کی اک اک نظر میں لکھا تھا

میں تمہاری ہوں بس تمہاری دوست
کیوں مہکتی ہے تیز بارش میں

اک دہکتی ہوئی کنواری دوست
راہ بنتی ہے آنے جانے سے

اور بناتے ہیں باری باری دوست
کچھ عجب ہے تمہارے لہجے میں

بڑھتی جاتی ہے بے قراری دوست
ہم اداسی پہن کے پھرتے ہیں

کچھ ہماری بھی غم گساری دوست
ہم اکیلے ہیں اپنے پہلو میں

ایسی ہوتی ہے دوست داری دوست
رات بھر بیچتے تھے جو سورج

اب کہاں ہیں وہ کاروباری دوست
کیا ہیں کٹھ پتلیاں قیامت کی

برگزیدہ ہوئے مداری دوست
حق ہمارا تھا جس کے رنگوں پر

تم نے وہ زندگی گزاری دوست
ہر طرف ہجرتیں ہیں بستی میں

کیا تمہاری ہے شہریاری دوست
دشتِ دل میں تمہاری ایڑی سے

ہو گیا چشمہ ایک جاری دوست
ہجر کی بالکونی کی شاید

میلوں لمبی ہے راہداری دوست
زندگی نام کی کہیں منصور
ایک ہے دوجہاں سے پیاری دوست
٭
چل رہے ہیں ایک ساتھ

میں خدا اور کائنات
عرش پر بس بیٹھ کر

کن فکاں کا چرخہ کات
مرد و زن کا اجتماع

بیچ صدیوں کی قنات
دو وجودوں  میں جلی

سردیوں کی ایک رات
بند ذرے میں کوئی

کائناتی واردات
آسیا میں قطب کی

سو گئیں سولہ جہات
پانیوں پر قرض ہے

فدیۂ نہر فرات
تُو پگھلتی تارکول

میں سڑک کا خشک پات
تیرا چہرہ جاوداں

تیری زلفوں کو ثبات
رحمتِ کن کا فروغ

جشن ہائے شب برات
شب تھی خالی چاند سے

دل رہا اندیشوں وات
نت نئے مفہوم دے

تیری آنکھوں کی لغات
آنکھ سے لکھا گیا

قصۂ نا ممکنات
گر پڑی ہے آنکھ سے

اک قیامت خیز بات
تیرے میرے درد کا

ایک شجرہ، ایک ذات
کٹ گئے ہیں روڈ پر
لکھ دی اک دیوار پر

دو ہوا بازوں کے ہاتھ
دل کی تاریخِ وفات
موت تک محدود ہیں
ڈائری کے واقعات
٭
گمانِ صبح ہے کافی، خیالِ نور بہت

مرے لیے یہ ذرا سا چراغِ طور بہت
میں بارگاہِ محبت میں کس طرح جائوں

مرے گناہ بہت ہیں مرے قصور بہت
یہی بہت کہ خزاں میں بہار ہے مجھ پر

ہے پھول پھول، یہی شاخ کو شعور بہت
تمام عہد نے آنکھوں پہ ہاتھ رکھے ہیں

ہوا ہے شعر میں شاید مرا ظہور بہت
یہ میرے بیگ میں رکھ دے نا کانچ کے ٹکڑے

میں بھیج دوں گا نئی چوڑیاں، ضرور، بہت
نصیب، نسبتِ دشتِ عرب جسے منصور
بروز حشر وہی سایۂ کھجور بہت
٭
اُس کی منزل تاریکی ہے،میری منزل رات۔ایک ہی بات

میرے ساتھ چلی جائو تم یا سورج کے ساتھ۔ایک ہی بات
موسم اور میں ایک ہی دریا کے دو پاگل فرد۔درد نورد

برکھا رت کے آنسو ہوںیاآنکھوں کی برسات۔ ایک ہی بات
تیز ہوا کی زد پر دونوں،ایک ہی پل کا روپ۔موت کی دھوپ

جیون سے آویختہ میں یا پیڑ سے مردہ پات۔ایک ہی بات
اس کے کنج ِ لب میںمیری مسکانوں کی دھول۔ ہجرکے پھول

یعنی جیت کسی کی اور مسلسل میری مات۔ ایک ہی بات
میں گمنام یہاں تو اس کا جانے کون مقام۔کون غلام

ملک سخن کامیںشہزادہ اور ہے وہ سادات۔ ایک ہی بات
تیز کراہیں ، آہیں ، چیخیں،گرمی اور سیلاب۔سانس عذاب

پاکستان کے منظر ہو ںیادوزخ کے حالات۔ ایک ہی بات
رنگ گریں گے قوسِ قزح سے،پھولوں سے سنگیت۔میت کے گیت

صبح ِ بدن پر میرا ہو یا بادصبا کا ہاتھ۔ ایک ہی بات
کیسے کہوںمیں باہو ، بلھا ، وارث ، شاہ حسین۔پیر فرید
کیسے کہوںمنصور کے یا اقبال کے فرمودات۔ ایک ہی بات
٭
روشنی کی روح میں مقیم رات

یک ہزار ماہ سے عظیم رات
سجدہِ گاہ ِ شام کی مجھے قسم

مہر نیم روز کی حریم رات
سہہ پہر نکھر رہی تھی ہر طرف

گار ہاتھا چاند راگ بھیم رات
نت نئی ترنگ سے کرے نزول

قرن ہا قرن سے قدیم رات
باغ میں گلاب بھی اداس تھا

چاند کے بغیر تھی یتیم رات
دل میں حمد حمد کے چراغ تھے

آنکھ میں تھی نور نور میم رات
بار بار آئے میرے صحن میں
وہ کریم اور وہ رحیم رات
٭
سندھ کے دریا میں گم تھی سانولی مہتاب رات

پانیوں کے جسم پر تھا یخ ہوا کا نرم ہات
یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے

یونہی بے مقصدکریں پرواز سارے خشک پات
کالے کاجل بادلو! روکو نہ اس کا راستہ

ایک دولہا آرہاہے لے لے تاروں کی برات
چاندنی! کیا روگ تھا اس موتیے کے پھول کو

رات بھر وہ جاگتا تھا سوچتا تھا کوئی بات
کوبرے کے روپ میں منصور بل کھاتی ہوئی
ساحلوںکو کاٹتی پھرتی ہے ندیا گھات گھات
ردیف ٹ
اپنے ہی کناروں کو مرے دیدئہ تر کاٹ

اڑنے کا وسیلہ ہیں امیدوں کے نہ پر کاٹ
اک بنک کے لاکر میں تری عمر پڑی ہے

شب کاٹ اگر لی ہے تو بے مہر سحر کاٹ
ہر سمت دماغوں کے شجر اگنے لگے ہیں

اس مرتبہ پودوں کے ذرا سوچ کے سر کاٹ
تُو ساعتِ سیّار کی تسخیر سے پہلے

آخانۂ درویش میں بس ایک پہر کاٹ
منصور نکلنا تو ہے مٹی کی گلی سے
لیکن ابھی کچھ اور یہ سورج کا سفر کاٹ
٭
گرفتِ زر کے گرفتاروں میں رہائی بانٹ

جو چار لوگوں کے گھر ہے وہ دو تہائی بانٹ
تُو مجھ کو چھوڑ، کسی اور سے تعلق رکھ

تمام شہر میں اپنی نہ بے وفائی بانٹ
مجھے بھی بخش تصرف کسی کے خوابوں پر

ذرا سی اپنے فقیروں میں بھی خدائی بانٹ
پلٹ پلٹ کے نہ دیکھ اُس کا دل ربا چہرہ

کسی فریب سے نکلا ہے جا مٹھائی بانٹ
یہ لوگ شعر کو دیکھیں تری بصارت سے

دیارِ حرف میں آنکھیں جلی جلائی بانٹ
کتابِ ذات کی بے چہرگی کو چہرہ دے

ہزار سال پہ تقریب رونمائی بانٹ
عجیب قحط ہے لوگوں کو عشق بھول گیا

تمام گائوں میں گندم کٹی کٹائی بانٹ
سنا ہے شہر میں تیری کئی دکانیں ہیں

مرے امام! ذرا زہد کی کمائی بانٹ
ترے لیے تو ہے بد، سات کا عدد منصور
تُو آٹھ روز پہ تقویم کی اکائی بانٹ
ردیف ث
خانقاہِ غم کا سجادہ نشیں ہوں میر کا وارث

ہے کوئی میرے علاوہ حرف کی جاگیر کا وارث
نظم تلوارِ علی ہے اور مصرع لہجہء زینب

کربلائے لفظ ! میں ہوں خیمہء شبیر کا وارث
چشمِ دانش کی طرح گنتا نہیں ہوں ڈوبتے سورج

میں ابد آباد تک ہوں شام کی تحریر کا وارث
کنٹرول اتنا ہے روز و شب پہ سرمایہ پرستی کا

کہ مرا بیٹا ہے میرے پائوں کی زنجیر کا وارث
نقش جس کے بولتے ہیں، رنگ جس کے خواب جیسے ہیں
حضرتِ غالب وہی ہے پیکرِ تصویر کا وارث
٭
ساحلِ یاد پہ آہوں کا دھواں کارِ عبث

بہتے پانی کی قسم، گریۂ جاں کارِ عبث
دھوپ میں ساتھ بھلا کیسے وہ دے سکتا تھا

ایک سائے کے لیے آہ و فغاں کارِ عبث
میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا

یہ فلک فہمی یہ تسخیرِ جہاں کارِ عبث
تیرے ہونے سے مہ و مہر مرے ہوتے تھے

اب تو ہے سلسلہء کون و مکاں کارِ عبث
یہ الگ چیختے رنگوں کا ہوں شاعر میں بھی

ہے مگر غلغلہء نام و نشاں کارِ عبث
ایک جھونکے کے تصرف پہ ہے قصہ موقوف

بلبلے اور سرِ آب رواں کار عبث
خیر باقی رہے یا شر کی عمل داری ہو

دونوں موجود ہوں تو امن و اماں کارِ عبث
کوئی انگلی، کوئی مضراب نہیں کچھ بھی نہیں

کھینچ رکھی گئی تارِ رگِ جاں کارِ عبث
رہ گئے جنت و دوزخ کہیں پیچھے منصور
اب جہاں میں ہوں وہاں سود و زیاں کارِ عبث
ردیف ج
کسی نے کچھ کہا ہے کیا، کہاں یہ چل دیا سورج

ابھی دیکھا تھا اپنی روشنی کے ساتھ تھا سورج
اسے معلوم تھی شاید مری راتوں کی برفابی

مری آنکھوں کے بالکل سامنے دن بھر رہا سورج
چپک جاتا ہے خاموشی سے میرے ساتھ بستر میں

یہ نم دیدہ دسمبر کی اداسی سے بھرا سورج
برہنہ پانیوں پر شام کی کرنیں ٹپکتی تھیں

مگر پھر یوں ہوا نیلا سمندر ہو گیا سورج
مرے دریا کے پانی کو ہوا ہونے نہیں دیتا

کہیں برفیلے کہساروں کو پگھلاتا ہوا سورج
یہ کافی دیر سے کھڑکی کھلی ہے میرے کمرے کی

ابھی نکلا نہیں ہے اِس گلی میں صبح کا سورج
ابھی کچھ دیر رہنا چاہتا ہوں میں اجالوں میں

بلاتا ہے مجھے اپنی طرف پھر ڈوبتا سورج
مجھے دل کی گلی میں بھی تپش محسوس ہوتی ہے

خود اپنے ہجر میں اتنا زیادہ جل بجھا سورج
اُدھر پوری طرح اترا نہیں وہ روشنی کا تھال

نکلتا آ رہا ہے یہ کدھر سے دوسرا سورج
رکھا ہے ایک ہی چہرہ بدن کے بام پر میں نے

کوئی  مہتاب کہتا ہے کسی کا تبصرہ سورج
نگاہوں کو شعاعوں کی ضرورت تھی بہت لیکن

کہاں تک میری گلیوں میں مسلسل جاگتا سورج
جہاں اس وقت روشن ہے تبسم تیرے چہرے کا

انہی راتوں میں برسوں تک یہ آوارہ پھرا سورج
اسے اچھے نہیں لگتے سلگتے رتجگے شاید

اکیلا چھوڑ جاتا ہے ہمیشہ بے وفا سورج
اجالے کا کفن بُننا کوئی آساں نہیں ہوتا

نظر آتا ہے شب کے پیرہن سے جا بجا سورج
ابھرنا ہی نہیں میں نے نکلنا ہی نہیں میں نے

اتر کر عرش کے نیچے یہی ہے سوچتا سورج
افق پر اک ذرا آندھی چلی تھی شام کی منصور
کہیں ٹوٹی ہوئی ٹہنی کی صورت گر پڑا سورج
٭
نصابِ درسِ حرم کی نظامتوں پر بھیج

تبرا مردہ، مخنث امامتوں پر بھیج
نماز پڑھ کے رسولِ زمیںکے کہنے پر

دو حرف زر کی فلک گیر قامتوں پر بھیج
جناب شیخ جو اتریں فقط غریبوں پر

ہزار لعنتیں ایسی قیامتوں پر بھیج
خبر نکال کوئی غیب کے اندھیرے سے

کوئی سراغ رساں تُو قدامتوں پر بھیج
یہی تو چیز بناتی ہے خوبرو دل کو

سلامتی کی دعائیں ، ندامتوں پر بھیج
وہی جو سنتِ نبوی پہ چلنے سے نکلیں

درود ایسی مقدس کرامتوں پر بھیج
دکھا جہاں کو مدنیہ کی امن زا تہذیب

بہار اپنی منور علامتوں پر بھیج
خود آپ چیر دے تاریک موسموں کی قبا

نوید صبح شبوں کی ضخامتوں پر بھیج
بدل دے لوح پہ لکھا مدینے کے صدقے

کرم شعور کا امت کی شامتوں پر بھیج
تُو آسمان سے رحمت کی پتیوں کے ڈھیر

شہیدوں پہ مرے زندہ سلامتوں پر بھیج
جو بھر دے روشنی روحِ سیاہ میں منصور
سلام ایسی مبارک ملامتوں پر بھیج
٭
یہی پیام فلک کی نہایتوں پر بھیج

جواب اپنا زمیں کی شکاتیوں پر بھیج
خطوطِ وصل کے اسباق یاد کرنے ہیں

کوئی کتاب بدن کی حکایتوں پر بھیج
تلاش لیتی ہیں ہر رات جو نیا کمرا

تف ایسی صبح سراپا عنایتوں پر بھیج
اخذ کروں میں ہوا کی تلاوتوں سے کیا

شعورِ ابر ، سمندر کی آیتوں پر بھیج
دیارِ میر کی آرائشیں سلامت رکھ

بہار ، حسنِ سخن کی روایتوں پر بھیج
کوئی اشارہ کوئی روشنی کوئی سگنل

کوئی سروش تو ہم بے ہدایتوں پر بھیج
یہ فتح مند نہ مظلوم ہوں کہیں تیرے

کمک تُو بھیج ستم کی حمایتوں پر بھیج
کوئی صحیفہ ء گل ، کوئی رنگ خیز نمو

درختِ جاں میں خزاں کی سرایتوں پر بھیج
ہزار مرتبہ بھیگی ہوئی نظر کے خطوط

بلند بام چراغوں کی غایتوں پر بھیج
پرندوں کی طرح اپنے گزار دن منصور
بچت کو چھوڑ دے لعنت کفایتوں پر بھیج
ردیف چ
دل کی بستی سوچتی ہے جاگتے رازوں کے بیچ

ایک ہی کیوں آدمی ہے سارے دروازوں کے بیچ
کھو گئیں میری سخن بستہ نوائیں درد میں

رہ گیا آہوں کا رقصِ مشتعل سازوں کے بیچ
ایک چڑیا سے تقاضائے وفا اچھا نہیں

جاں نثاری کی سعادت قرض شہبازوں کے بیچ
تم جسے کہتے تھے چرخ نیلگوں اک وہم تھا

گم ہوئی اس کی بلندی میری پروازوں کے بیچ
اپنے شانوں پر اٹھا رکھی تھی خود میں نے صلیب

ہے مگر تاریخ کا الزام ہمرازوں کے بیچ
ہر قدم پر کھینچ لیتا تھا کوئی اندھا کنواں

سو بسا لی اپنی بستی اپنے خمیازوں کے بیچ
شہر ہونا چاہیے تھا اس سڑک کے آس پاس

کوئی غلطی رہ گئی ہے میرے اندازوں کے بیج
سن رہا ہوں یاد کے پچھلے پہر کی ہچکیاں
دور سے آتی ہوئی بے مہر آوازوں کے بیچ
٭
ڈھونڈتی ہے آسماں پر در کوئی تاروں کے بیچ

نیند سے بولائی دستک تیری دیواروں کے بیچ
گفتگو کیا ہو مقابل جب ہیں خالی پگڑیاں

پہلے تو سر بھی ہوا کرتے تھے دستاروں کے بیچ
اے خدا میرا بھرم رکھنا، فراتِ وقت پر

اک انا کا بانکپن ہے کتنی تلواروں کے بیچ
ریل کی پٹری بچھائی جا رہی ہے اس کے ساتھ

ایک کاٹج کیا بنایا میں نے گلزاروں کے بیچ
جانتی تھی اور سب کو ایک بس میرے سوا

وہ کہیں بیٹھی ہوئی تھی چند فنکاروں کے بیچ
دھوپ بھی ہے برف تیری سرد مہری کے طفیل
رات بھی پھنکارتی ہے تیرے آزاروں کے بیچ
٭
رنگ تھے کچھ نیل پالش کے مری آنکھوں کے بیچ

اور کچھ ٹوٹے ہوئے ناخن بھی تھے زخموں کے بیچ
راکھ کے گرنے کی بھی آواز آتی تھی مجھے

مر رہا تھا آخری سگریٹ مرے ہونٹوں کے بیچ
ہاتھ میں تو لالہ و گل تھے مرے حالات کے

پشت پر کاڑھی ہوئی تھی کھوپڑی سانپوں کے بیچ
کون گزرا ہے نگارِ چشم سے کچھ تو کہو

پھر گئی ہے کون سی شے یاد کی گلیوں کے بیچ
دو ملاقاتوں کے دن تھے آدمی کے پاس بس

اور کُن کا فاصلہ تھا دونوں تاریخوں کے بیچ
گوشت کے جلنے کی بو تھی قریۂ منصور میں
کھال اتری تھی ہرن کی، جسم تھا شعلوں کے بیچ
٭
نقشے کچھ قریۂ سماکے کھینچ

گمشدہ بستیوںکے خاکے کھینچ
تیری آنکھوں میںکیا تناسب ہے

میرے فوٹو گراف آکے کھینچ
تیری خوشبو چرا لے آئی ہے

کان اڑتی ہوئی ہوا کے کھینچ
روند دے پائوںمیں کفن کی رات

چیتھڑے دامنِ فنا کے کھینچ
اچھی کرلی ہے خاک کی تقسیم

اب فلک پر لکیریں جا کے کھینچ
دیکھ کھڑکی میں آگیا ہے چاند

ہاتھ اپنا ذرا بڑھا کے کھینچ
دن کو پکڑا تو ہے کنارے سے

زور پورا مگر لگا کے کھینچ
بند کر دے یہ کیمرہ منصور
اس کا فوٹو اسے بتا کے کھینچ
ردیف ح
برف کی شال میں لپٹی ہوئی صرصر کی طرح

زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح
کس طرح دیکھنا ممکن تھا کسی اور طرف

میں نے دیکھا تھا اُسے آخری منظر کی طرح
ہاتھ رکھ ، لمس بھری تیز نظر کے آگے

چیرتی جاتی ہے سینہ مرا خنجر کی طرح
بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں

شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجر کی طرح
کچی مٹی کی مہک اوڑھ کے اِتراتی تھی

میں پہنتا تھا اسے گرم سمندر کی طرح
پلو گرتا ہوا ساڑھی کا اٹھا کر منصور
چلتی ہے چھلکی ہوئی دودھ کی گاگر کی طرح
٭
میرا اعجاز نہیں رنگ کے جادو کی طرح

مجھ کو محسوس کرودوستو خوشبو کی طرح
ذکر آیا جو کہیںبزمِ سخن میں میرا

چشمِ جاناںسے نکل آیا میں آنسو کی طرح
اچھے موسم کی دعا مانگی تو موجود تھا میں

خشک آنکھوں میں کہیں رنج کے پہلو کی طرح
دل نہ تھا دامنِ گل پوش میںآخر میں بھی

اڑ گیا پیڑ سے اک روز پکھیرو کی طرح
اس کی دہلیزسے طالب کو دعا بھی نہ ملی

سر پٹختا ہی رہاموجِ لبِ جو کی طرح
میرے سینے سے نکلتی ہیں الوہی کرنیں

جسم میں گونجتی ہے ایک صدا ہو کی طرح
پھر ہرے ہوگئے اس دل میں تری یاد کے زخم

پھر چلی سرد ہوا میگھ کے دارو کی طرح
قتل کرتا ہے تو آداب بجا لاتا ہے

یار ظالم نہیں چنگیز و ہلاکو کی طرح
پھر سنائی دی اناالحق کی صدا پتوں سے

لگ رہی ہے مجھے آوازِ صبا ہو کی طرح
کشمکش ایک حریفانہ سی اُس میں بھی ہے

کشمکش مجھ میں بھی تفریقِ من و تُو کی طرح
شہر میں ہوتا تو پھر پوچھتے عاشق کا مزاج

دشت میں قیس چہکتا پھرے آہو کی طرح
اس کی آسودہ نفاست پہ ہے قربان فرانس

کیسی کمخواب سی نازک سی ہے اردو کی طرح
یہ شہادت کا عمل ہے کہ قلم کے وارث

مر کے بھی مرتے نہیں وارث و باہو کی طرح
وقت، سچائی ،خدا ساتھ تینوں میرے
میں ہوں منصور مشیت کے ترازو کی طرح
٭
آدمی میں بھی ہوں آدمی کی طرح

جی رہا ہوں مگر بے کسی کی طرح
ہر قدم پر لہو کا تعاقب کرے

موت وحشت زدہ اونٹنی کی طرح
چار اطراف میں زندگی کی تڑپ

جسم کی آخری جھر جھری کی طرح
صرف حیرت تھی آنکھوںمیں پھیلی ہوئی

کوئی منظر تھا بے منظری کی طرح
آئینے میں کسی اور کو دیر تک

دیکھتا میں رہا اجنبی کی طرح
ایک تقریب ِصبح مسلسل ہے تُو

اور میں محفلِ ملتوی کی طرح
وقت کے کینوس پہ ادھورا سا میں

ایک تصویر بنتی ہوئی کی طرح
سانولی دھوپ آنکھوں میں پھرتی رہے

شام کی ساعتِ سرمئی کی طرح
عمر بھر اک سٹیشن پہ چلتے رہے

تیراساماں اٹھاکر قلی کی طرح
مصرعے اگلی کلاسوں کے بنتا ہوا

خواب کا جامعہ شاعری کی طرح
عمر منصور اس کی گلی میں کٹی
عشق میں نے کیا نوکری کی طرح
ردیف خ
آتشِ لمس سے جلتی ہوئی چیخ

ہاتھ تصویر پہ ملتی ہوئی چیخ
زخم پائوں میں کیے جاتی ہے

خشک پتوں سے نکلتی ہوئی چیخ
اک شکاری کے کفن سے ابھری

برف کے ساتھ پگھلتی ہوئی چیخ
کس نے چپکائی ہے دیواروں پر

خواب میں رنگ بدلتی ہوئی چیخ
میں طلسمات سے نکلا تو ملی

بابِ حیرت پہ مچلتی ہوئی چیخ
قاتلو! دھوتے رہو نقشِ قدم

چلتی جاتی ہے وہ چلتی ہوئی چیخ
اک تعلق کے گلے سے نکلی

در و دیوار نگلتی ہوئی چیخ
پھر وہی ڈوبتا سورج منصور

پھر وہی آگ اگلتی ہوئی چیخ
آخری سانس میں ڈھلتی ہوئی چیخ
گر پڑی ایک سنبھلتی ہوئی چیخ
٭
فلک سے بھی پرانی خاک کی تاریخ

محمد ﷺ کی زمینِ پاک کی تاریخ
مکمل ہو گئی ہے آخرش مجھ پر

جنوں کے دامن صد چاک کی تاریخ
ابھی معلوم کرتا پھر رہا ہوں میں

تری دستار کے پیچاک کی تاریخ
مری آنکھوں میں اڑتی راکھ کی صورت

پڑی ہے سوختہ املاک کی تاریخ
رگِ جاں میں اتر کر عمر بھر میں نے

پڑھی ہے خیمہء افلاک کی تاریخ
سرِ صحرا ہوا نے نرم ریشوں سے

پھٹا کویا تو لکھ دی آک کی تاریخ
مسلسل ہے یہ کیلنڈر پہ میرے

جدائی کی شبِ سفاک کی تاریخ
پہن کر پھرتی ہے جس کو محبت

مرتب کر تُو اُس پوشاک کی تاریخ
ہوائے گل سناتی ہے بچشمِ کُن

جہاں کو صاحبِ لولاک کی تاریخ
کھجوروں کے سروں کو کاٹنے والو

دکھائی دی تمہیں ادراک کی تاریخ
ہے ماضی کے مزاروں میں لکھی منصور
بگولوں نے خس و خاشاک کی تاریخ
ردیف د
زندگی! اب زندگانی ختم شد

فلم جاری ہے کہانی ختم شد
رو لیا ہے جتنا رو سکتا تھا میں

آنکھ میں جو تھا وہ پانی ختم شد
کر رہا ہوں شام سے فکرِ سخن

یعنی عہدِ رائیگانی ختم شد
میں بھی ہوں موجود اب افلاک پر

لامکاں کی لامکانی ختم شد
رک گیا میں بھی کنارہ دیکھ کر

پانیوں کی بھی روانی ختم شد
چھوڑ آیا ہوں میں شورِ ناتمام

گاڑیوں کی سرگرانی ختم شد
اور باقی ہیں مگر امید کی

اک بلائے ناگہانی ختم شد
آنے سے پہلے بتاتی ہیں مجھے

بارشوں کی بے زبانی ختم شد
دیکھتے ہیں آسماں کے کیمرے

اب گلی کی پاسبانی ختم شد
آ گئے جب تم تو کیا پھر رہ گیا

جو تھا سوچا ، جو تھی ٹھانی ختم شد
بھیج غالب آتشِ دوزخ مجھے

سوزِ غم ہائے نہانی ختم شد
اڑ رہی ہے راکھ آتش دان میں

یار کی بھی مہربانی ختم شد
اب مرے کچھ بھی نہیں ہے آس پاس

ایک ہی تھی خوش گمانی ختم شد
وہ سمندر بھی بیاباں ہو گیا

وہ جو کشتی تھی دخانی ختم شد
اک تکلم اک تبسم کے طفیل

میرا شوقِ جاودانی ختم شد
آہٹیں سن کر خدا کی پچھلی رات

میرے دل کی بے کرانی ختم شد
اک مجسم آئینے کے سامنے

آرزو کی خوش بیانی ختم شد
لفظ کو کیا کر دیا ہے آنکھ نے

چیختے روتے معانی ختم شد
کچھ ہوا ایسا ہوا کے ساتھ بھی

جس طرح میری جوانی ختم شد
اہم اتنا تھا کوئی میرے لیے

اعتمادِ غیر فانی ختم شد
دشت کی وسعت جنوں کو چاہیے
اپنے بارے میں کروں گا گفتگو

اس چمن کی باغبانی ختم شد
یار کی اب ترجمانی ختم شد
ذہن میں منصور ہے تازہ محاذ
سرد جنگ اپنی پرانی ختم شد
٭
کس طرف جائے گی اب راہ فنا میرے بعد

منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد
رات کا دشت تھا کیا میرے لہو کا پیاسا

آسماں کتنا سحر پوش ہوا میرے بعد
یہ تو ہر طرح مرے جیسا دکھائی دے گا

کوزہ گر چاک پہ کیا تو نے رکھا میرے بعد
"کون پھر ہو گا حریفِ مے مرد افگنِ عشق؟"

کون دنیا کے لیے قبلہ نما میرے بعد
لڑکھڑاتی ہوئی گلیوں میں پھرے گی تقویم

وقت کا خاکہ اڑائے گی ہوا میرے بعد
میں خدا تو نہیں اس حسن مجسم کا مگر

کم نہیں میرا کیا اس نے گلہ میرے بعد
میں وہ سورج ہوں کہ بجھ کر بھی نظر آتا ہوں

اب نظر بند کرو میری ضیا میرے بعد
دشت میں آنکھ سمندر کو اٹھا لائی ہے

اب نہیں ہو گا کوئی آبلہ پا میرے بعد
تیرے کوچہ میں بھٹکتی ہی رہے گی شاید

سالہا سال تلک شام سیہ میرے بعد
گر پڑیں گے کسی پاتال سیہ میں جا کر

ایسا لگتا ہے مجھے ارض و سما میرے بعد
بعد از میر تھا میں میرِ سخن اے تشبیب

’کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد‘
رات ہوتی تھی تو مہتاب نکل آتا تھا

اس کے گھر جائے گا اب کون بھلا میرے بعد
رک نہ جائے یہ مرے کن کی کہانی مجھ پر

کون ہو سکتا ہے آفاق نما میرے بعد
بزم سجتی ہی نہیں اب کہیں اہلِ دل کی

صاحبِ حال ہوئے اہل جفا میرے بعد
پھر جہالت کے اندھیروں میں اتر جائے گی

سر پٹختی ہوئی یہ خلق خدا میرے بعد
پہلے تو ہوتا تھا میں اوس بھی برگِ گل بھی

ہونٹ رکھے گی کہاں باد صبا میرے بعد
مجھ سے پہلے تو کئی قیس کئی مجنوں تھے

خاک ہو جائے گا یہ دشتِ وفا میرے بعد
بس یہی درد لیے جاتا ہوں دل میں اپنے

وہ دکھائے گی کسے ناز و ادا میرے بعد
جانے والوں کو کوئی یاد کہاں رکھتا ہے

جا بھی سکتے ہیں کہیں پائے حنا میرے بعد
زندگی کرنے کا بس اتنا صلہ کافی ہے

جل اٹھے گا مری بستی میں دیا میرے بعد
اس کو صحرا سے نہیں میرے جنون سے کد تھی

دشت میں جا کے برستی ہے گھٹا میرے بعد
میرے ہوتے ہوئے یہ میری خوشامد ہو گی

شکریہ ! کرنا یہی بات ذرا میرے بعد
میں ہی موجود ہوا کرتا تھا اُس جانب بھی

وہ جو دروازہ کبھی وا نہ ہوا میرے بعد
میرا بھی سر تھا سرِ صحرا کسی نیزے پر

کیسا سجدہ تھا… ہوا پھر نہ ادا میرے بعد
کاٹنے والے کہاں ہو گی یہ تیری مسند

یہ مرا سرجو اگر بول پڑا میرے بعد
پہلے تو ہوتی تھی مجھ پر یہ مری بزم تمام

کون اب ہونے لگا نغمہ سرا میرے بعد
میں کوئی آخری آواز نہیں تھا لیکن

کتنا خاموش ہوا کوہ ندا میرے بعد
میں بھی کر لوں گا گریباں کو رفو دھاگے سے

زخم تیرا بھی نہیں ہو گا ہرا میرے بعد
تیری راتوں کے بدن ہائے گراں مایہ کو

کون پہنائے گا سونے کی قبا میرے بعد
شمع بجھتی ہے‘  تو کیا اب بھی دھواں اٹھتا ہے

کیسی ہے محفلِ آشفتہ سرا میرے بعد
میں ہی لایا تھا بڑے شوق میں برمنگھم سے

اس نے پہنا ہے جو ملبوس نیا میرے بعد
عشق رکھ آیا تھا کیا دار و رسن پر منصور
کوئی سجادہ نشیں ہی نہ ہوا میرے بعد
٭
وہ خواب گاہِ عرش وہ باغِ جناں کی یاد

پھر مہرباں ہوئی کسی نا مہرباں کی یاد
آنکھوں میں کس کے عارض و لب کے چراغ ہیں

پھرتی ہے یہ خیال میں آخر کہاں کی یاد
پھر گونجنے لگی ہے مرے لاشعور میں

روزِ ازل سے پہلے کے کچھ رفتگاں کی یاد
میں آسماں نژاد زمیں پر مقیم ہوں

کچھ ہے یہاں کا درد تو کچھ ہے وہاں کی یاد
کوئی نہ تھا جہاں پہ مری ذات کے سوا

آئی سکوتِ شام سے اُس لا مکاں کی یاد
دیکھوں کہیں خلوص تو آتی ہے ذہن میں

پیچھے سے وار کرتے ہوئے دوستاں کی یاد
دریائے ٹیمز! اپنے کنارے سمیٹ لے

آئی ہے مجھ کو سندھ کے آبِ رواں کی یاد
منصور آ رہی ہے سرِ آئینہ مجھے
اِس شہرِ پُر فریب میں سادہ دلاں کی یاد
٭
ہے تیرا سامنا کرنا، شبِ زوال کے بعد

یہ یاد آئے گا شاید ہزار سال کے بعد
ترے زمانے میں ہوتا تو عین ممکن تھا

کھڑا غلاموں میں ہوتا کہیں بلال کے بعد
عجب حصار سا کھینچا ہے اسم نے تیرے

خیال کوئی نہ آیا ترے خیال کے بعد
تجھے ملے تو ملاقاتیں سب ہوئیں منسوخ

ہوئی تلاش مکمل، ترے وصال کے بعد
فرشتے ٹانکتے پھرتے ہیں پھول شاخوں پر

خدا بدل گیا اس کی بس ایک کال کے بعد
وہ جس نے مجھ سے کہا آپ کون ہیں منصور
سوال بن گیا وہ آئینہ سوال کے بعد
٭
ضمیرِ زمیں سے شعورِ سما تک محمد محمد محمد محمد ﷺ

دلِ آدمی سے دماغِ خدا تک محمد محمد محمد محمد ﷺ
جمودِ عدم سے نمودِ مکاں تک، سکوتِ ازل سے خرام جہاں تک

دیارِ فنا سے طلسمِ بقا تک محمد محمد محمد محمد ﷺ
درختوں کے پتوںکی حمد ونثامیں بہاروں کی پاکیزہ قوسِ قزح میں

چنبیلی کے پھولوں سے بادصبا تکمحمد محمد محمد محمد ﷺ
اے دنیا اے اعجازِ کن کی نمائش،ذرا تُو بھی صلِ علیٰ آج کہہ دے

تری ابتداء سے تری انتہا تکمحمد محمد محمد محمد ﷺ
خدا کے لبوں پر وہی ذکرِ اقدس ، وہ اسم گرامی ہے عرشِ علا پر
فضا سے خلا تک ، خلا سے ملا تک محمد محمد محمد محمد ﷺ
٭
ہر ایک جرم ، بنام شریف زندہ باد

بڑے ہی نیک خرابوں کے چیف زندہ باد
یہ خونخوار دھماکے تجھے مبارک ہوں

او دشمنانِ وطن کے حلیف زندہ باد
تباہ حال کرنسی پہ نعرۂ تکبیر

نئی معاش کی صبحِ لطیف زندہ باد
او بادشاہ سلامت تری حکومت میں

تمام ملکِ خدا کے حریف زندہ باد
مرے وطن کو تمنا سلامتی کی ہے

سلامتی کی صدائے نحیف زندہ باد
کہو دھواں دھواں لاہور پر غزل منصور
کہو یہ دھند کا شہرِ کثیف زندہ باد
٭
گلستاں کو بہارِ سبز گنبد پر مبارک باد

زمیں کو عیدِ میلادِ محمدﷺ پر مبارک باد
شعورِ ذہنِ انسانی جہاں منزل تلک پہنچا

دماغو! اُس خرد کی آخری حد پر مبارک باد
جہاں کو ہدیۂ تبریک کالی کملی پر میرا

جہاں کو آسمانِ شالِ اسود پر مبارک باد
زمیں پر نائب ِ اللہ ہونے کی نوید آئی

مقامِ جانشینِ کُن کی مسند پر مبارک باد
تجھے رحمت بھرے بارہ ربیع اول کے دن منصور
رسولِ اقدس و اعظم کی آمد پر مبارک باد
ردیف ڈ
اس کے لیے تھا باعثِ آزار عید کارڈ

بھیجا نہیں سو یار کو اس بار عید کارڈ
ایسا نہیں کہ بھول گیا ہے تمام شہر

آئے ہیں اپنے پاس بھی دوچار عید کارڈ
تیرہ برس کے بعد بھی اک یاد کے طفیل

میں نے اٹھایا تو لگا انگار عید کارڈ
ہر سال بھیجتا ہوں جسے اپنے آپ کو

اک ہے مری کہانی کا کردار عید کارڈ
کرنا ہے کب تلک شبِ انکار میں قیام

پچھلے برس کا آخری اقرار عید کارڈ
منصور سرورق پہ ہے تصویر شام کی
آیا ہے کیسا آئینہ بردار عید کارڈ
٭
بل کھاتے موڑ تیرے ، تیرا یہ مال روڈ

دیکھا ہوا ہے میں نے تیرامنال روڈ
 وہ وجد و حال و مستی جانے کہاں گئے ہیں

خالی پڑا ہوا ہے کب سے دھمال روڈ
رہ جائے گی یہ پندرہ منٹ کی ڈرائیونگ

اے زندگی یہاں سے کوئی نکال روڈ
بارش برس رہی ہے آنکھوں کے آس پاس

سیلاب میں گھری ہے اپنی کنال روڈ
نکلے نفی کے شہر سے اثبات کی سڑک

جائے جو آسماں کو من کی قتال روڈ
ناراض موسموں سے آئی ہے کوئی کال
منصور ہو گئی ہے گھر کی بحال روڈ
ردیف ذ
پڑے ہیں جو قلم کے ساتھ کاغذ

یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ
جلا آیا جلوسِ دانشِ دِین

شعورِ محترم کے ساتھ کاغذ
جڑے بس رہ گئے ہیں داستاں میں

ترے عہدِ ستم کے ساتھ کاغذ
یہی بس التماسِ دل کہ رکھنا

یہ دیوارِ حرم کے ساتھ کاغذ
پرندے بنتے جاتے ہیں مسلسل

ترے فضل و کرم کے ساتھ کاغذ
میانوالی میں آئے ہیں فلک سے

یہ امکانِ عدم کے ساتھ کاغذ
خود اپنے قتل نامے کا کسی کو

دیا پورے بھرم کے ساتھ کاغذ
کسی مبہم سی انجانی زباں میں

پڑے ہیں ہر قدم کے ساتھ کاغذ
الٹنے ہیں پلٹنے ہیں لحد تک

خیالِ بیش و کم کے ساتھ کاغذ
یہ وہ تہذیب ہے جو بیچتی ہے

ابھی دام و درم کے ساتھ کاغذ
کسی کو دستخط کرکے دیے ہیں

سرِ تسلیم خم کے ساتھ کاغذ
درازوں میں چھپانے پڑ رہے ہیں

کلامِ چشمِ نم کے ساتھ کاغذ
انہیں عباس نے لکھا ہے خوں سے

یہ چپکا دے علم کے ساتھ کاغذ
چمکتے پھر رہے ہیں آسماں کے

چراغِ ذی حشم کے ساتھ کاغذ
بدل جاتے ہیں اکثر دیکھتا ہوں

مری تاریخِ غم کے ساتھ کاغذ
ابد کے قہوہ خانے میں ملے ہیں

کسی تازہ صنم کے ساتھ کاغذ
ہوئے ہیں کس قدر منصور کالے
یہ شب ہائے الم کے ساتھ کاغذ
٭
ہجراں کے سیہ داغِ طلب سے ماخوذ

یہ شاعری ہے صحبت ِ شب سے ماخوذ
ہم چُنتے رہے فرش و فلک کے الہام

ہم دونوں جہانوں کے ادب سے ماخوذ
ہے رات تری زلف دوتا سے نکلی

ہے صبح ترے عارض و لب سے ما خوذ
دھڑکن کی طرح چیخ رہی ہیں کب سے

نظمیں ہیں دلِ مہر بلب سے ماخوذ
ہم رات کے پرودہ نہیں ہیں منصور
ہم خواب ہیں صبحوں کے نسب سے ماخوذ
ردیف ر
اب کوئی ایسا ستم ایجاد کر

اس کو بھی اپنی طرح برباد کر
روند کر رکھ دوں ترے سات آسماں

اک ذرا بس موت سے آزاد کر
اب مجھے تسخیر کرنے کے لیے

اسم اعظم روح میں آباد کر
میری باتیں میری آنکھیں میرے ہاتھ

بیٹھ کر اب رو مجھے اور یاد کر
قریہء تشکیک کی سرحد پہ ہوں

صاحبِ لوح و قلم امداد کر
خالق و مخلوق میں دے فاصلے

ہم خدا زادوں کو آدم زاد کر
خشک سالی آ گئی آنکھوں تلک

پانیوں کے واسطے فریاد کر
ہے رکا کوئی یہاں برسوں کے بعد

بس دعائے عمرِ ابر و باد کر
اک قیامت سے نکل آیا ہوں میں

اب کوئی نازل نئی افتاد کر
ہیں ہمہ تن گوش ساتوں آسماں
بول کچھ منصور کچھ ارشاد کر
٭
کچھ زخم دھنک خیز ہیں کچھ زخم لہو بار

دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار
کیا مانگنے آ سکتے ہیں پھر تیری گلی میں

ہم آخرِ شب، آخری سگریٹ کے طلب گار
یہ فلسفہ ہے یا کہ خرابی ہے خرد کی

ہونے سے بھی انکار ، نہ ہونے سے بھی انکار
اک زاویہ در زاویہ جذبوں کی ریاضی

اک لمس بھری قوسِ قزح ، بسترِ بیدار
رکھ ہاتھ نہ زانو پہ اے دہکے ہوئے موسم

اس وقت زیادہ ہے بہت کار کی رفتار
نازک ہے بہت، داغ نہ پڑ جائیں بدن پر

اُس حسنِ گنہ خیز کو مسواک سے مت مار
آنکھوں سے لپکتے ہیں یہاں برف کے طوفاں

ہرچند کہ مصنوعی نہیں گرمیِ بازار
بنیاد میں رکھا گیا تھا جس کو مکاں کی
منصور ہوا پھر اسی بھونچال سے مسمار
 قطعہ
وحدت کے ازل زار یہ کثرت کے ابد زار

ہم ہی سے دھنک رنگ ہیں ہم ہی سے کرم بار
ہم عالمِ لاہوت کی خوش بخت سحر ہیں

ہم حرکتِ افلاک ہیں ہم ثابت و سیار
ہم حسنِ نزاکت کی چہکتی ہوئی تاریخ

ہم قرطبہ اور تاج محل کے در و دیوار
ہم کاسہء مجذوب ہیں ہم دھجیاں دھج کی

ہم روند کے پائوں سے نکل آئے ہیں دستار
ہم کُن کی صدا ہیں ہمی لولاک کا نغمہ

ہم وقت کے گنبد ہمی بازیچہء اسرار
ہم لوگ سراپا ہیں کرامت کوئی منصور
ہم قربِ خداوندی کے احساس کا اظہار
٭
یہ دشتِ مغیلاں ہے، ثمرکوٹ کہیں اور

کیکر پہ لگا کرتے ہیں اخروٹ کہیں اور
اک پھول نے اب ہاتھ مرا تھام رکھا ہے

سردائی بدن بھنگ کی جا گھوٹ کہیں اور
اس ہاتھ پہ تقسیم کی اشکال بنا دیں

اقرارِ محبت کا لکھا نوٹ کہیں اور
سایوں کے تعاقب میں یہی ہوتا ہے شاید

میں اور کہیں، چاند بھری اوٹ کہیں اور
چلتے تھے پسینے کے مری جلد پہ قطرے

بم جیسے مرے پائوں میں ریموٹ کہیں اور
ہے اپنے مراسم میں کوئی اور بھی شامل

ہم ٹھیک ہی سمجھے تھے کہ ہے کھوٹ کہیں اور
اِس شہر کی گلیوں میں دھڑکتے ہوئے دل ہیں

اے حاکمِ جاں ! رہتے ہیں روبوٹ کہیں اور
اِس شہرِ منافق کو بھی کوفہ نہ کہیں کیوں

وعدہ تھا کسی اور سے اور ووٹ کہیں اور
ڈستی ہے مرے خواب کو پروازوں کی آواز

تعمیر کیا جائے ایئرپورٹ کہیں اور
ٹوٹا مرا دل تھا، جھڑی آنکھوں میں لگی تھی

احساس کہیں اور تھا اور چوٹ کہیں اور
اڑتا تھا تعلق کی کسی تیز ہوا میں
ٹائی کہیں جاتی تھی مری، کوٹ کہیں اور
٭
خالی پیٹ چلے مایوس سڑک پر

میلوں لمبا ایک جلوس سڑک پر
دیکھ کے پہلی بار دہکتا سورج

اس نے پھینک دیا ملبوس سڑک پر
برسوں پہلے میرا گھر ہوتا تھا

شہرِ فسوں کی اس مانوس سڑک پر
صرف یہ رستہ جانے والوں کا ہے

پہلی بار ہوا محسوس سڑک پر
میں نے آگ بھری بوتل کھولی تھی

اس نے پیا تھا اورنج جوس سڑک پر
چاند دکھائی دیتا تھا کھڑکی سے

دور لٹکتا اک فانوس سڑک پر
ننگے پائوں چلتے ہیں ہم منصور
آگ اگلتی اک منحوس سڑک پر
٭
دونوں بچھڑ کے چل دیئے راہِ ملال پر

ناموں کے زخم رہ گئے برگد کی چھال پر
شب کے سکوت میں لیا یوں اس نے کوئی نام

مندری بجی ہو جس طرح پیتل کے تھال پر
بارش میں بھیگتی چلی آئی تھی کوئی ہیر

بوندیں ٹھہر گئی تھیں دھنک رنگ شال پر
آتی تھی ٹیلی فون سے آوازِ لمسِ یار

بستر بچھا تھا فرشِ بہشتِ خیال پر
منصور کیا سفید کرسمس کی رات ہے
تارے مچل رہے ہیں زمیں کے وصال پر
ذرا بھی دھیان نہیں وصل کے فریضوں پر

یونہی وہ کاڑھتی پھرتی ہے دل قمیضوں پر
قیام کرتا ہوں اکثر میں دل کے کمرے میں

کہ جم نہ جائے کہیں گرد اس کی چیزوں پر
یہی تو لوگ مسیحا ہیں زندگانی کے

ہزار رحمتیں ہوں عشق کے مریضوں پر
کسی انار کلی کے خیال میں اب تک

غلام گردشیں ماتم کناں کنیزوں پر
جلا رہی ہے مرے بادلوں کے پیراہن

پھوار گرتی ہوئی ململیں شمیضوں پر
غزل کہی ہے کسی بے چراغ لمحے میں

شبِ فراق کے کاجل زدہ عزیزوں پر
وہ غور کرتی رہی ہے تمام دن منصور
مرے لباس کی الجھی ہوئی کریزوں پر
٭
فلم چلتی ہے مسلسل وہی اک سین پہن کر

کون عریاں ہے نگاہوں میں سیہ جین پہن کر
کوئی کمرہ مرے پائوں پہ اترتا ہی نہیں ہے

سیڑھیاں چلتی چلی جاتی ہیں قالین پہن کر
ہوتے رہتے ہیں جہازوں کے بڑے حادثے لیکن

کرتا رہتا ہوں سفر سورتِ یٰسین پہن کر
نرمگی اس کی ابھر آئی تھی ملبوس سے باہر

کتنی نازک سی سکرٹ آئی تھی نرمین پہن کر
تم مرے ہونٹوں کی کیا پیاس بجھا سکتی ہو وینس

میرا پیاسا ہے بدن، آبِ ابا سین پہن کر
ہیں خدائی کا مسائل کہ سرِ راہ پڑے ہیں
اک تماشے کا لبادہ سا فراعین پہن کر
٭
پار دریا کر رہی تھی سبز اونٹوں کی قطار

پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشار
دور تک کالی سڑک تھی اور پگھلتی تارکول

چل رہی تھی ٹائروں کا دکھ پہن کر ایک کار
رات ہجراں کی، سلو موشن میں صدیوں پر محیط

دن جدائی کا کہیں، جیسے ابد کا انتظار
کعبہء عشقِ محمد ابرہوں کی زد میں ہے

پھر ابابیلوں کا لشکر آسمانوں سے اتار
سندھ کی موجوں کے بوسے مضطرب ہیں دیر سے

کر رہا ہے تیرے نقشِ پا کا ساحل انتظار
دور تک منصور بستر سی وصال انگیز ریت
ایک گیلی رات،میں،اور تھل کا حسنِ خوشگوار
٭
چاندنی پھیلی ہوئی تھی ریت کی شہنیل پر

چاند کا دل جل رہا تھا دور لاکھوں میل پر
ایک اچھے دوست کے ہمراہ گزری تھی کبھی

فروری کی ایک اجلی پیر ’’چشمہ جھیل‘‘ پر
لمبی کر کے اپنی گردن گھولتی تھی زرد چونچ

کونج تھی مامور شاید درد کی ترسیل پر
اور پھر تصویر پر تاریک سائے رہ گئے

روشنی سی پڑ گئی تھی کیمرے کی ریل پر
مانگتی ہے زندگی پھر روشنی الہام کی

اور ابد کی خامشی ہے قریہء جبریل پر
آئینے سے پھوٹتی ہیں نور کی پرچھائیاں
کیا کہوں منصور اپنے عکس کی تمثیل پر
٭
کچھ اندھیرے جاگتے تھے کچھ اجالے میز پر

دو برہنہ شیڈ تھے اک لیمپ والے میز پر
آنکھ جھپکی تھی ذرا سی میں نے کرسی پر کہیں

وقت نے پھر بن دیے صدیوں کے جالے میز پر
صلح کی کوشش نہ کر ہابیل اور قابیل میں

کھول دیں گے فائلیں افلاک والے میز پر
آگ جلتے ہی لبوں کی مل گئیں پرچھائیاں

رہ گئے کافی کے دو آدھے پیالے میز پر
جسم استانی کا لتھڑا جا رہا تھا رال سے

چاک لکھتا جا رہا تھا نظم کالے میز پر
میری ہم مکتب نزاکت میں قیامت خیز تھی

چاہتا تھا دل اسے اپنی سجا لے میز پر
کوئی ترچھی آنکھ سے منصور کرتا تھا گناہ
سیکس کے رکھے تھے پاکیزہ رسالے میز پر
٭
جسم میں ٹھونکی ہوئی میخوں میں کیلوں میں گزار

یہ مثلث زندگی دو مستطیلوں میں گزار
جا کہیں آباد کر ٹوٹے ہوئے برباد دل

جا کوئی دن بے سہاروں،بے وسیلوں میں گزار
یاد کی تصویرسے باہر قدم رکھ ، جا کہیں

شہر کی شہلا شگن شامیں شکیلوں میں گزار
استراحت سایہ ء گل میں تجھے زیبا نہیں

عمر جاکر دشت کے آوارہ ٹیلوں میں گزار
قرب کی گرمی انوکھی ہی سہی لیکن یہ رات

ہے یہی بہتربہانوں اور حیلوں میں گزار
 خود اُسے ناراض کرکے تُونے بھیجا تھا سو اب

واہموں میں کاٹ راتیں ،دن دلیلوںمیں گزار
دید کے پیاسے پرندے اڑ رہے ہیں آس پاس

چاند کچھ دن،آنسوئوں کی گرم جھیلوں میں گزار
میری گردن پر جلاپھر اپنے بوسوں کے چراغ

پھر کوئی شب لمس کے پُر شوق نیلوں میں گزار
کوچہء جاناں ہی تیرا نقطہ ء پرکار ہے

زندگی اپنی انہی دوچار میلوں میں گزار
چاہیے ہے حسنِ مطلق کی اگر قربت تجھے

عمر اپنی خوبرووں میں جمیلوں میں گزار
خامہء دل !ہم سخن کر مثنوی مولائے روم

دن سروشوں میں کٹیں شب جبرئیلوں میں گزار
گر پڑا ہے تُو سفر میں دشت کے، سو زندگی

اب مثالِ استخوانِ تازہ چیلوں میں گزار
کچھ ہوا کے بول سن،پیڑوں کی بھیگی شام سے

سُن پرندوں کی سریں،کچھ دن سریلوں میں گزار
رات اس کے عارض و لب کے قصیدوں میں کٹے

دن پہاڑوں پر کہیں باغی قبیلوں میں گزار
تُو مذاہب سے نکل کر آبِ سادہ بانٹ بس

یہ فساد فی سبیل اللہ سبیلوں میں گزار
آدمی ہوں میں مرے گھر میں گنہ ممکن بھی ہے

رات جاتُو ذوالجلالوں ، ذوالجلیلوں میں گزار
اے سویٹر بننے والی، رنگوں کی آواز سن

سرخ دھاگے کھینچ، نیلا سوت پیلوں میں گزار
صحبتِ صالح تُرا صالح کند ، طالع کند

دوگھڑی ہم بے نظیروں بے مثیلوں میں گزار
جب تلک منصورپیچھے سے کمک آتی نہیں
وقت قلعہ بند ہو کر بس فصیلوں میں گزار
٭
ملال خانہء شب کو چراغ زاد نہ کر

یہ خامشی کی غزل سُن، کسی کو یاد نہ کر
خزانے درد کے دل میں سدا سلامت رکھ

تُو شہرِ سنگ میں تقسیم جائیداد نہ کر
بدن کی آگ جلا برف برف بنگلے میں

نگاہِ سرد سے یہ کارِ انجماد نہ کر
یہ خشک پتے پکڑتے ہیں آگ کو فوراً

بلند اتنا یہاں شعلہ ء عناد نہ کر
شبِ وصال پسندیدہ شب ہے مولا کی

زبانِ حضرتِ واعظ پہ اعتقاد نہ کر
کئی بگولوں میں ہوتی ہے دیکھ دکھ کی آنکھ

یہ دشت دشت تُو تسخیرِ گردباد نہ کر
بھلا دے بچھڑی ہوئی رت کا خوبرو چہرہ

مقام ِ یاد پہ جلسوں کا انعقاد نہ کر
یہ رات رات حریفانہ کشمکش کیا ہے

دل و دماغ میں پیدا کھلا تضاد نہ کر
ہر ایک شخص نے جینا ہے اپنی مرضی سے

بنامِ حرمتِ خلقِ خدا ، فساد نہ کر
یہ دور دل میں جہنم اٹھائے پھرتا ہے

بجز خدا تُو ، کسی پر بھی اعتماد نہ کر
ترے لیے ہے بدن کی گداز رعنائی

نفس نفس میں سلگتا ہوا جہاد نہ کر
بھروسہ کر تُو کمک پر عوام کی منصور
یزیدِ وقت کی فوجوں سے اتحاد نہ کر
٭
اک ایک ڈاٹ کام پہ رسوائی دیکھ کر

حیراں ہیں اپنی اتنی پذیرائی دیکھ کر
سگریٹ کی سمت بڑھ گیا پھر اس کا نرم ہاتھ

پہلے پہل ذرا ہمیں شرمائی دیکھ کر
یہ اور بات ڈوب گئے ہیں کہیں مگر

رکھا تھا پائوں پانی کی گہرائی دیکھ کر
ہم آ گئے وہاں کہ جہاں واپسی نہیں

اس کی ذرا سی حوصلہ افزائی دیکھ کر
افسوس صبحِ عمر جہنم میں جھونک دی

اک لمس پوش رات کی رعنائی دیکھ کر
دانتوں سے کاٹ کاٹ لیں اس نے کلائیاں

میری کسی کے ساتھ شناسائی دیکھ کر
ہم نے تمام رات جلائی ہیں خواہشیں

دل ڈر گیا تھا برف سی تنہائی دیکھ کر
آتے ہیں زندگی میں کچھ ایسے مقام بھی

جب رو پڑے تماشا ، تماشائی دیکھ کر
بس انتہائیں حسن کی معلوم ہوگئیں

زیبا علی ظہور کی زیبائی دیکھ کر
واپس پلٹ گئے جنہیں شوقِ وصال تھا

بس پہلے آسمان کی پہنائی دیکھ کر
ہم آئینے کے سامنے تصویر ہوگئے

آنکھوں میں اس کی انجمن آرائی دیکھ کر
پھر ایک اور شخص گلی سے گزر گیا

پھر بج اٹھا تھا دل کوئی پرچھائی دیکھ کر
اک دلنواز گیت سا مدہم سروں کے پیچ

برسات گنگناتی تھی پروائی دیکھ کر
معجز نما ہے صبحِ ازل سے وصالِ یار

حیراں نہ ہو بدن کی مسیحائی دیکھ کر
اندھی سڑک پہ بھاگ پڑی رات کی طرف

یک لخت اتنی روشنی بینائی دیکھ کر
کس کس کے ساتھ جنگ کریں گے دیار میں

ہم سوچتے ہیں تیرے تمنائی دیکھ کر
منصور زندگی کی کہانی سمجھ گئے
دریائے تند و تیز کی دارائی دیکھ کر
٭
اندھیری رات کے اے رہ روو،دعائے خیر

سفر بخیر ہو ، مل کر کرو دعائے خیر
مجھے سیاہی کی وحشت سے خوف آتا ہے

کہو چراغ صفت منظرو دعائے خیر
بنائے بت جو ہیں ہم نے خدا نہ بن بیٹھیں

بڑی ضروری ہے صورت گرو دعائے خیر
اب اس کے بعد لڑائی کبھی نہیں ہوگی

مری ہتھیلی پہ آئو دھرو دعائے خیر
الف میں صرف کروڑوں مقام آتے ہیں

طلسمِ اسم کے خیرہ سرو دعائے خیر
گلی گلی میں ہے منصور کا تماشا بھی
دیارِ نور کے دیدہ ورو دعائے خیر
٭
زنجیر بکف شہبازوں پر

امید غلط اندازوں پر
ہم لوگ سفر میں رہتے ہیں

منسوخ شدہ پروازوں پر
آسیب لکیریں کھینچ گیا

 دیوار صفت دروازوں پر
اب بین خموشی کرتی ہے

مصلوب شدہ آوازوں پر
کیا گفت و شنید ازل کی ہو
منصور ابد کے رازوں پر
٭
جاری ہے پھر حسین کا ماتم گزار خیر

پھر کربلا میں شامِ محرم گزار خیر
پھٹ ہی نہ جائے کوئی یہاںبم گزار خیر

اک چھت تلے ہے فیملی باہم گزار خیر
خودکش دھماکے ہونے لگے ہیں گلی گلی

برپا جگہ جگہ پہ ہے ماتم گزار خیر
پھرتی ہے موت ظلم کے گرد و غبار میں

آیا ہے خاک و خون کا موسم گزار خیر
میرے وطن میں آگ لگی ہے اک ایک کوس

  وہ سرنگوں ہے دین کا پرچم گزار خیر
منصور پہ کرم ہو خصوصی خدائے پاک
لگتی نہیں گزرتی شبِ غم گزار خیر
٭
میں جا رہا تھا دیکھنے فرودس ِ بے کنار

آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار
شادابیوں کی آخری حد، وادئ گریز

پائوں کے انتظار میںصدیوںسے اشکبار
ہلمت کی بے پناہ بلندی پہ تیز آب

پھرتا ہے بادلوں کے دریچوں میں بے قرار
لاکھوں برس قدیم گھنے جنگلوں کا کیل

اور اس کے بیچ زندگی باردو کا شکار
کیوںصحنِ شاردا میں ہوئی بدھ کی آتما

کتنے کروڑ لوگوںکے اشکوں سے داغدار
معصوم دائوکھن کی مقدس سفیدیاں

اک دورِ جاھلاں میں رسولوںمیں انتظار
شمشہ بری کے پیچھے چناروں کا سرخ روپ

بادل بھری شعاعوں کامقتل پسِ بہار
اڑتے ہیں دھیر کوٹ کی گلیوں میںبرگ و بار

جیسے بدلنے لگتی ہے تہذیبِ برف زار
شبنم کے موتیوں سے بھرا راولہ کا کوٹ

ہر سنگ میں دکھاتا ہے اک چشمِ آب دار
بنجوسہ جیسے آب درختوں کے تھال میں

بس گھومتی ہے روح میں خاموش سی پکار
دریائے تند سو گئے منگلا کی گود میں
منصور ڈھونڈتا رہا کشمیر کے سوار
٭
دشمناں را ، دوستاں را شب بخیر

جملہ ہائے عاشقاں را شب بخیر
در فلک مانند ِنجم آوارہ ام

چاکرِ حسنِ بتاں را شب بخیر
خواب را سرمایہ ء آشوبِ دل

ساغراں را ساحراں را شب بخیر
از رخ ام صبحِ آسودہ گرفت

زلف ِ دوتا دلبراں را شب بخیر
صحبتِ چشمِ سکوں تسخیر کرد

شورشِ سوداگراں را شب بخیر
چینِ ابرودل کتاں آید بروں

پیشِ مرغِ آشیاں را شب بخیر
دیدہِ منصور از چشمم تمام
دامنِ پُرحسرتاں را شب بخیر
٭
اپنے چہرے کی تشبیب منسوخ کر

رونمائی کی تقریب منسوخ کر
اپنا دکھ پیش کر سادہ الفاظ میں

اتنی مشکل تراکیب منسوخ کر
لفظ تیرے زمانے کے عکاس ہوں

اب گذشتہ اسالیب منسوخ کر
حدِ فاصل کوئی کھینچ دن رات میں

دوغلے پن کی تہذیب منسوخ کر
خون سے بھر گئی ہے مری ہر گلی

اپنا اب ذوقِ تخریب منسوخ کر
ظلم کو ظلم کہہ ، رات کو رات لکھ

ظالموں کی نہ تکذیب منسوخ کر
روشنی کے لگا پول ہر چوک میں

اب صلیبوں کی تنصیب منسوخ کر
عادتاً تُو مسلسل یہ لیکچر نہ دے

بے وجہ اپنی تادیب منسوخ کر
تیری منزل پہ رکنا نہیں ہے مجھے

یہ محبت کی ترغیب منسوخ کر
دارپر پہلے جانا ہے منصور نے
عاشقوںکی یہ ترتیب منسوخ کر
٭
وہ جو پھرتے ہیں کناروں پہ قلندر ہو کر

میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں سمندر ہوکر
انہی گلیوں میں ، ملا دیس نکالا جن سے

میں بھی پھرتا ہوں مقدر کا سکندر ہو کر
میں نے دیکھی ہے فقط ایک خدا کی تمجید

کبھی مسجد ، کبھی معبد ، کبھی مندر ہو کر
میں بہر طور تماشا ہوں تماشا گر کا

ڈگڈگی والا کبھی تو کبھی بندر ہو کر
مجھ کو معلوم دنیا کی حقیقت منصور
باہر آیا ہوں کئی بار میں اندر ہو کر
٭
تہذیب کانکھار محمد ﷺ کے نام پر

ہے بوسہ زن بہار محمد ﷺکے نام پر
بے عیب شاہکار ہے ربِ کریم کا

نقطہ بھی ناگوار محمد ﷺکے نام پر
لمحے اسی کے فیض کی زندہ امانتیں

یہ روز وشب نثار محمدﷺ کے نام پر
چودہ سو سال سے گل و گلزار کے تمام

موسم ہیں ساز گار محمد ﷺکے نام پر
ذرے ہوں مہر و ماہ اسی اسم کے طفیل

ذی حس ہوں ذی وقار محمدﷺ کے نام پر
منصور ان کے نام پہ مرنا عروجِ بخت
قرباں میں بار بار محمدﷺ کے نام پر
٭
پرودگار! حرفِ کمیت پہ رحم کر

اعمال چھوڑ تُو مری نیت پہ رحم کر
نیزے پہ سج گیا ہے وہ چہرہ حسین کا

اے بے نیاز اپنی مشیت پہ رحم کر
اک دھوپ سے بھرے ہوئے بے رحم پہر میں

کھلتی ہوئی کلی کی اذیت پہ رحم کر
کچھ دن مزارِ دل پہ جلا درد کے چراغ

کچھ مرنے والے کی بھی وصیت پہ رحم کر
اتنی اکیلگی میں بھی اپنی طلب کرے
منصور کچھ تو دل کی حمیت پہ رحم کر
٭
آدمی کے جدو اب معلوم کر

اپنے ہونے کا سبب معلوم کر
پوچھ شجرہ زندگی سے جا کہیں

 جاکے مٹی کا نسب معلوم کر
فیصلے یک طرفہ کرنے چھوڑ دے

مجھ سے بھی میری طلب معلوم کر
اپنی پہچانیں کہاں کھوئی گئیں

گم ہوئے کیوں چشم و لب معلوم کر
اور کتنے قوس جلنا ہے ہمیں

اے چراغ دشتِ شب معلوم کر
موت کے منصور شہرِ خوف میں
زندگی کا کوئی ڈھب معلوم کر
٭
پائوں سے دھرتی نکلی تو رکھے فلک پہ پیر

اے حادثاتِ وقت کے خالق گزار خیر
ہم لوگ ہیں زمیںپہ مسلسل کھڑی نماز

ہم نے رکھا نہیںہے کبھی آسماں سے بیر
اس کرۂ کشش کے طلسمات توڑ دے

اے دجلۂ زمیں کے شناور ، خلا میں تیر
دنیا میں مال و زر کے سجودو رکوع سے

مسلم گزیدہ کعبہ ہے کافر گزیدہ دیر
وہ جانتے ہیں رات کی ساری کہا نیاں

سانسوں کے پل صراط پر دن بھر کریں جو سیر
منصور کہہ رہے ہیں عمل سے فلک شناس
ابلیس رشتہ دار ہمارا ، خدا ہے غیر
ردیف ڑ
ساعتِ دیدۂ انکار کے سینے میں دراڑ

دیکھ پڑتی ہوئی دیوار کے سینے میں دراڑ
ایک ہی لفظ سے بھونچال نکل آیا ہے

پڑ گئی ہے کسی کہسار کے سینے میں دراڑ
کوئی شے ٹوٹ گئی ہے مرے اندر شاید

آ گئی ہے مرے پندار کے سینے میں دراڑ
چاٹتی جاتی ہے رستے کی طوالت کیا کیا

ایک بنتی ہوئی دلدار کے سینے میں دراڑ
تم ہی ڈالو گے مرے شاہ سوارو آخر

موت کی وادیِ اسرار کے سینے میں دراڑ
کھلکھلاتی ہوئی اک چشمِ سیہ نے ڈالی

آ مری صحبتِ آزار کے سینے میں دراڑ
رو پڑا خود ہی لپٹ کر شبِ غم میں مجھ سے

تھی کہانی ترے کردار کے سینے میں دراڑ
روندنے والے پہاڑوں کو پلٹ آئے ہیں

دیکھ کر قافلہ سالار کے سینے میں دراڑ
صبح کی پہلی کرن ! تجھ پہ تباہی آئے

ڈال دی طالعِ بیدار کے سینے میں دراڑ
کل شبِ ہجر میں طوفان کوئی آیا تھا

دیدۂ نم سے پڑی یار کے سینے میں دراڑ
غم کے ملبے سے نکلتی ہوئی پہلی کونپل

دیکھ باغیچہء مسمار کے سینے میں دراڑ
لفظ کی نوکِ سناں سے بھی کہاں ممکن ہے

وقت کے خانہء زنگار کے سینے میں دراڑ
بس قفس سے یہ پرندہ ہے نکلنے والا

نہ بڑھا اپنے گرفتار کے سینے میں دراڑ
شام تک ڈال ہی لیتے ہیں اندھیرے منصور
صبح کے جلوۂ زرتار کے سینے میں دراڑ
٭
وحشتیں اوڑھ، انتظاری چھوڑ

اب تعلق میں بردباری چھوڑ
دیکھنا چاند کیا سلاخوں سے

کج نظر سارتر سے یاری چھوڑ
دستِ ابلیس سے ثواب نہ پی

یہ تہجد کی بادہ خواری چھوڑ
زندہ قبروں پہ پھول رکھنے آ

مرنے والوں کی غم گساری چھوڑ
مردہ کتے کا دیکھ لے انجام

مشورہ مان، شہریاری چھوڑ
کچھ تو اعمال میں مشقت رکھ

یہ کرم کی حرام کاری چھوڑ
صبح کی طرح چل! برہنہ ہو

یہ اندھیرے کی پردہ داری چھوڑ
توڑ دے ہجر کے کواڑوں کو

اب دریچوں سے چاند ماری چھوڑ
بھونک اب جتنا بھونک سکتا ہے

ظلم سے التجا گزاری چھوڑ
آج اس سے تُو معذرت کر لے

یہ روایت کی پاس داری چھوڑ
رکھ بدن میں سکوت مٹی کا

یہ سمندر سی بے قراری چھوڑ
چھوڑ آسانیاں مصائب میں

دشت میں اونٹ کی سواری چھوڑ
یہ سفیدی پھری ہوئی قبریں

چھوڑ عیسیٰ کے یہ حواری چھوڑ
شہرِ غالب سے بھاگ جا منصور
میر جیسی غزل نگاری چھوڑ
ردیف ز
مٹی مرا وجود، زمیں میری جا نماز

پڑھتی ہے جن کو چوم کے بادِ صبا نماز
اک دلنواز شخص نے دیکھا مجھے تو میں

قوسِ قزح پہ عصر کی پڑھنے لگا نماز
پڑھتے ہیں سر پہ دھوپ کی دستار باندھ کر

سایہ بچھا کے اپنا ہم اہلِ صفا نماز
لات و منات اپنے بغل میں لیے ہوئے

کعبہ کی سمت پڑھتی ہے خلقِ خدا نماز
تیرا ہے کوئی اور تعین مرا میں آپ

تیری جدا نماز ہے میری جدا نماز
جانے کب آئے پھر یہ پلٹ کر شبِ وصال

ہو جائے گی ادا تو عشاء کی قضا نماز
میں نے کہا کہ صبح ہے اب تو افق کے پاس

اس نے کہا تو کیجیے اٹھ کر ادا نماز
مت پوچھ کیسی خواہشِ دیدار تھی مجھے

برسوں میں کوہِ طور پہ پڑھتا رہا نماز
قرباں خیالِ گنبدِ خضرا پہ ہیں سجود

اقرا مری دعا ، مری غارِ حرا نماز
اس مختصر قیام میں کافی یہی مجھے

میرا مکاں درود ہے میرا دیا نماز
پندارِ جاں میں آئی ہیں تجھ سے ملاحتیں

تجھ سے ہوئے دراز یہ دستِ دعا نماز
اے خواجہء فراق ! ملاقات کے لیے

پھر پڑھ کنارِ چشمۂ حمد و ثنا نماز
اے شیخ شاہِ وقت کے دربار سے نکل

دروازہ کر رہی ہے بغاوت کا وا نماز
اس کا خیال مجھ سے قضا ہی نہیں ہوا
لگتا ہے میرے واسطے منصور تھا نماز
٭
ہیں خوفناک ہجر کے یہ المیے پلیز

منہ کو کلیجہ آتا ہے کچھ کیجئے پلیز
باقی ہیں انتظار کی کچھ ساعتیں ابھی

جلنے دو بام پر ابھی سارے دئیے پلیز
اب کاٹنے لگی ہے خموشی کی تیز دھار

کہیے پلیز کچھ مجھے ،کچھ بولیے پلیز
رہتے نہیں ہمیشہ تو ایسے خراب دن

خود کو سنبھالئے یہ دوا لیجئے پلیز
پہلے بہت اداس ہے شب کاسیہ مزاج

ایسے میں یہ سنائیے نہ ماہیے پلیز
منصور آگئی ہے وہ باہر گلی میں صبح
جانے بھی دیجئے ہمیں اب دیکھئے پلیز
٭
جگمگاتی تھی جو طاقِ آسماں میں کوئی چیز

دیکھتا ہوں ویسی ہی آبِ رواں میں کوئی چیز
رات جیسا ساری دنیا میں نہیں ہے کوئی ظلم

اور دئیے جیسی نہیں سارے جہاں میں کوئی چیز
یہ بھی ہو سکتا ہے ممکن میں کوئی کردار ہوں

یا مرے جیسی کسی ہے داستاں میں کوئی چیز
دیکھنا میری طرف کچھ دن نہیں آنا تجھے

ایسا لگتا ہے کہ ہے میرے مکاں میں کوئی چیز
کوئی بے مفہوم نقطہ، کوئی مصرع کا فریب

ڈھونڈتی ہے رات پھر صبحِ بیاں میں کوئی چیز
لگتا ہے دشتِ جنوںکی آندھیوں کو دیکھ کر

 اہل غم نے سونپ دی میری کماں میں کوئی چیز
واہمہ ہے سانحہ کا،خدشہ اِن ہونی کاہے

خوف جیسی ہے مرے وہم وگماں میں کوئی چیز
آیت الکرسی کا کب تک کھینچ رکھوں گا حصار

جانے والا دے گیا میری اماں میں کوئی چیز
نام ہے دیوان ِ منصور اس کا، کل کی ڈاک میں
بھیج دی ہے صحبتِ آئندگاں میں کوئی چیز
ردیف ژ
اک راکھ کے بدن کو ہوا کی رپورتاژ

لکھ کر بکھیرنی ہے وفا کی رپورتاژ
میں کھڑکیوں سے صبح کی پہلی کرن کے ساتھ

پڑھتا ہوں روز باد صبا کی رپورتاژ
تشکیل کائنات کی رودادِ گم شدہ

ہو گی کہاں پہ لوحِ خدا کی رپورتاژ
شاید ہے مانگنے کی جبلت وجود میں

لمبی بہت ہے دستِ دعا کی رپورتاژ
تقسیم کیا کرو گے وسائل زمین کے

لکھتے رہو گے جرم و سزا کی رپورتاژ
لکھتے ہیں روز خونِ جگر کو نچوڑ کے

سورج کے ہاتھ شامِ فنا کی رپورتاژ
لاشوں بھری سرائے سے نکلے گی کب تلک

جانِ جہاں کے ناز و ادا کی رپورتاژ
پڑھتے بنام علم ہیں بچے سکول میں

بالِ ہما کے بختِ رسا کی رپورتاژ
شاید لبِ فرات لہو سے لکھی گئی

اس زندگی کی نشو و نما کی رپورتاژ
برسوں سے نیکیوں کا فرشتہ رقم کرے
منصور صرف آہ و بکا کی رپورتاژ
ردیف س
روشنی کے خواب، خوشبو کے دیے تھے آس پاس

گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس
آ گئے، اچھا کیا، بھیگی ہوئی اِس شام میں

ایسی رت میں آپ ہی بس چاہیے تھے آس پاس
اک رندھی آواز تھی میرے گلے میں ہجر کی

درد کے روتے ہوئے کچھ ماہیے تھے آس پاس
ہونٹ میرے رات بھر، یہ سوچیے، ہونٹوں پہ تھے

ہاتھ میرے، آپ اتنا جانیے، تھے آس پاس
جب بدن میں بادلوں کا شور تھا تم تھے کہاں

جب چمکتے بجلیوں کے زاویے تھے آس پاس
دیکھتی تھیں اس کی آنکھیں میرے چہرے کے نقوش

زندگی کے آخری جب ثانیے تھے آس پاس
اک فریبِ ذات تھا پھیلا ہوا صدیوں کے بیچ

چاند جیسے ناموں والے کالیے تھے آس پاس
رات کی دیوار پر فوٹو گراف اک چاند کا

اور کالے بادلوں کے حاشیے تھے آس پاس
نظم کی میت کوئی لٹکا رہا تھا پیڑ سے

اور پریشاں حال کچھ بالشتیے تھے آس پاس
اک سفر میں نے کیا تھا وادیِ تاریخ میں

بین تھے چیخوں بھرے اور مرثیے تھے آس پاس
جب مرا سر کٹ رہا تھا کربلائے وقت میں

اہل کوفہ اپنی دستاریں لیے تھے آس پاس
ہفتہ بھر سے ڈائری ملتیـ نہیں منصور کی
فون پر کچھ رابطے میں نے کیے تھے آس پاس
٭
سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس

پائوں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس
ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے

کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس
گھنٹیاں شور مچاتی ہیں مرے کانوں میں

فون مردہ ہے مگر بسترِ بیدار کے پاس
کس طرح برف بھری رات گزاری ہو گی

میں بھی موجود نہ تھا جسمِ طرح دار کے پاس
عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج

طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستار کے پاس
چشمِ لالہ پہ سیہ پٹیاں باندھیں منصور
سولیاں گاڑنے والے گل و گلزار کے پاس
٭
وہی رنگ رنگ کی اجرکیں، وہی خوشبوئیں نہیں آس پاس

وہ جو بولتی تھی سرائیکی بھری اردوئیں نہیں آس پاس
کہیں خشک سالی وصال کی کہیں آبِ لمس کا قحط ہے

وہ جو پیاس میری بجھاتے تھے وہی اب کنوئیں نہیں آس پاس
مرے دھوپ روپ دیار کے سبھی برف پوش مکان ہیں

وہ جو چمنیوں سے نکلتے تھے کبھی، وہ دھوئیں نہیں آس پاس
یہاں گرم ہاتھ کو پھیر مت، یہاں لمس لمس بکھیر مت

جو مچلتے تھے ترے قرب سے وہی اب روئیں نہیں آس پاس
سبھی شوخ و شنگ لباس ہیں کوئی لازوال بدن نہیں

جنہیں آنکھیں چومیں خیال میں جنہیں لب چھوئیں نہیں آس پاس
کوئی رات اجلی وصال کی کوئی گیت گاتی سی بالیاں
میرے سانس سے جو دہک اٹھیں وہی اب لویں نہیں آس پاس
٭
کس بھیانک زندگی کا رنج میرے آس پاس

اک سمندر میں بدلتی ہنج میرے آس پاس
کھوجتا پھرتا ہوں میں اسرار اپنی ذات کے

اور ان گلیوں میں داتا گنج میرے آس پاس
تھے مخالف بس مرے دونوں طرف کے لشکری

کیا عجب کھیلی گئی شطرنج میرے آس پاس
بہہ رہی تھی یاد کی سکرین پر دریا کے ساتھ

ناچتی گاتی ہوئی اک جنج میرے آس پاس
میرے ہونٹوں سے گرے جملے اٹھانے کے لیے

رہ رہے ہیں کتنے بذلہ سنج میرے آس پاس
آئینے کو دیکھ کر رویا تو ازراہِ مذاق
وقت نے پھیلا دیا اسفنج میرے آس پاس
٭
میرے سوا کسی کو بھی میسج ہوا تو بس

کردار ہم میں تیسرا حارج ہوا تو بس
آسیب سرسرائیں سمندر کی چاپ میں

لہروں سے ہمکلام یہ کاٹج ہوا تو بس
پانی میں بہہ گئے ہیں غریبوں کے صبح و شام

پھر آسماں زمیں کا معالج ہوا تو بس
تھوڑا سا دم چراغ کے چہرے میں رہ گیا

اس مرتبہ بھی صبح کو فالج ہوا تو بس
میں لکھ رہا ہوں گم شدہ قبروں کی ڈائری

ابدال ایسا کشفِ مدارج ہوا تو بس
برسوں پھر اس کے بعد مجھے جاگنا پڑے

اک خواب میری نیند سے خارج ہوا تو بس
یہ روشنی، یہ پھول، یہ خوشبو، یہ سات رنگ

جب بند لڑکیوں کا یہ کالج ہوا تو بس
میں جا رہا ہوں آپ کے کہنے پہ اس کے پاس

میرا خراب دوستو امیج ہوا تو بس
منصور گفتگو ہے یہ پہلی کسی کے ساتھ
اک حرف کا غلط جو مخارج ہوا تو بس
٭
وصل کی راتوں کا شب زندہ دار لباس

یار کا میں ہوں اور ہے میرا یار لباس
سوچ کی چِپ میں سمٹی ہوئی اس دنیا کی

ٹیلی ویژن آنکھیں ہیں اخبار لباس
آدھے بدن پر ٹیبل لیمپ کا نیلا شیڈ

آدھے بدن پر رات کا جالی دار لباس
خواب بہت بوسیدہ ہوتے جاتے ہیں

آئو بدل لیں نیندوں کے اس پار لباس
ننگ دکھائی دے جاتا ہے درزوں سے

کہنے کو ہے گھر کی ہر دیوار لباس
تنہائی کی ڈیٹوں میں منصور آفاق
تیرے میرے بیچ رہا ہر بار لباس
٭
اے زلفِ سیہ کچھ اور ذرا کچھ اور برس

یہ جام ہے برسوں بعد بھرا کچھ اور برس
محدود رہیں ہم خوابِ گہہِ فردوس تلک

اے حسن ِکرم کی کالی گھٹا کچھ اور برس
آ تشنہ بلب پر اور برس کچھ اور ذرا

اے ابرِبدن آ موج میں آ کچھ اور برس
تُو ایک سمندر میرے لئے ہے اڑتا ہوا

آدشتِ طلب کی پیاس بجھا کچھ اور برس
آ قوسِ قزح کے رنگ پہن کر چھیڑ مجھے
آ اپنا زمیں پر جسم بچھا کچھ اور برس
ردیف ش
تحیر خیز موسم کی ہوئی وجدان پر بارش

نظر دیوار سے گزری، رکی ڈھلوان پر بارش
ترے پاگل کی باتیں اتفاقاتِ جہاں ہیں کیا

ہوئی ہے یوں ہی برسوں بعد ریگستان پر بارش
سراپا آگ !دم بھر کو مرے چہرے پہ نظریں رکھ

تری آنکھوں سے ہو گی تیرے آتش دان پر بارش
گرے تو پھول بن جائے ترے چہرے پہ مہتابی

پڑے تو آگ بن جائے ترے دامان پر بارش
کتابِ غم کو کتنی بار برساتوں میں رکھا ہے

نہیں پڑتی جنابِ میر کے دیوان پر بارش
وہ برساتیں پہن کر گائوں میں پھرتی ہوئی لڑکی

مجھے یاد آتی ہے اس سے مہکتی دھان پر بارش
محبت جاگتی ہے جب تو پھر ہوتی ہے سپنوں کی

مقام یاد پر بارش، شبِ پیمان پر بارش
عدم آباد سے آگے خدا کی آخری حد تک

رہی ہے زندگی کی قریہء امکان پر بارش
گئے گزرے زمانے ڈھونڈتی بدلی کی آنکھوں سے

یونہی ہے اِس کھنڈر جیسے دلِ ویران پر بارش
کئی برسوں سے پانی کو ترستی تھی مری چوپال

کسی کا پائوں پڑتے ہی ہوئی دالان پر بارش
بڑی مشکل سے بادل گھیر لایا تھا کہیں سے میں

اتر آئی ہے اب لیکن مرے نقصان پر بارش
بہا کر لے گئی جو شہر کے کچے گھروندوں کو

نہیں ویسی نہیں ہے قصرِ عالی شان پر بارش
کہے ہے بادلو! یہ ڈوبتے سورج کی تنہائی

ذرا سی اہتمامِ شام کے سامان پر بارش
بدن کو ڈھانپ لیتی ہیں سنہری بھاپ کی لہریں

اثر انداز کیا ہو لمس کے طوفان پر بارش
جلایا کس گنہ گارہ کو معصوموں کی بستی نے

کہ اتری بال بکھرائے ہوئے شمشان پر بارش
کسی مشہور نٹ کا رقص تھا اونچی حویلی میں

ہوئی اچھی بھلی نوٹوں کی پاکستان پر بارش
مجھے مرجھاتے پھولوں کا ذرا سا دکھ ہوا منصور
مسلسل ہو رہی ہے کانچ کے گلدان پر بارش
٭
بر کتوں کا مطلع ء انوا ر نو شہ گنج بخش ؒ

ہند کی سب سے بڑی سر کا ر ۔ نو شہ گنج بخشؒ
جا نشین ِ غو ث اعظم ؒ ، افتخا ر ِ اولیا

وا قف اسرا ر د ر اسرا ر نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت  ، مالک ، شہر سلوک

در سعا د ت نقطہ ء پر کا ر نو شہ گنج بخشؒ
آفتا ب ِ فیض ِ عالم ہیں جہا ں  پر غو ث پاکؒ

اُس فلک پر ثا بت و سیا ر نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر

خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت با ر نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک

نیکیوں سے اک بھر ا گلز ا ر، نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں

محتر م اتنا سگ ِ در با ر ، نو شہ گنج بخشؒ
عالم ِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت

رو شنی کا نر م و حد ت زار ، نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے

ہم نہیں کہتے ہیںیہ ، او تا ر ،نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا

مہر با ں جس پہ ہو ئے اک با ر، نوشہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں

اک مجسم نو ر کا اظہا ر ، نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے

یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوا ر، نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک

کشف ِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کا ر ، نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح

مر دہ دل کر دیتے ہیں بید ار نو شہ گنج بخش ؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب

پانیوں کے جیسے ہیں مختا ر نو شہ گنج بخشؒ
غو ث ِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک

قا دری گلز ا ر کے پندا ر نو شہ گنج بخشؒ
شمع ِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی

سا عتِ پر نو ر سے سر شا ر نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر ید ِ با صفا ہیں آپ کے

صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دا ر نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں

آپ کے قد سی ہیں خد متگا ر نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت

سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخو ار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے

تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسا ر نو شہ گنج بخش ؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد

ہند سند ھ اور کا بل و قند ھا ر نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں

مو تیو ں والے سخی سردا ر نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے

یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پا ر نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں

کس تسلسل سے ہیں سایہ دا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے

نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوا ر ‘نوشہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں

قصرِ نو شا ہی کے ہیں معما ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء

لشکر ِ حق کے جو ہیں سا لا ر ‘نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں

کون عظمت سے کر ے انکا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم

کیا صبا حت خیز تھے رخسا ر‘نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیض ِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس

سب مسلما ں ہو گئے کفا ر ‘نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں

آپ کے دم سے کر امت با ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں

آپ ٹھہر ے سا یہء دیوا ر ‘نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں

ہیں عد م کا اک عجب اظہا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا

امتِ بیما ر کے عطار ‘نو شہ گنج بخش ؒ
سن رہا ہوں آج تک عشق ِ محمد ؐ کی اذا ں

مسجد نبوی کا اک مینا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا

ایک اک نو شا ہی کا پر چا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں

ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا

دل غلا می کا کر ے اقرا ر ‘نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی

ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی

آپ کا مجھ کو کر م در کا ر ‘نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر

میں بہت ہو ں مفلس و نا دار‘ نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے

خوا ب ہی میں بخش دے دیدا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی

پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعا ر ‘نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کا ر‘ نو شہ گنج بخشؒ
ردیف ص
فردوس سے آگے ہے وہ سرچشمہء مخصوص

جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص
اپنی تو رسائی نہیں اس بامِ فلک تک

معلوم کیا جائے کوئی بندۂ مخصوص
اے شہرِ گداگر ترے والی کے لیے کیا

بنوانا ضروری ہے کوئی کاسۂ مخصوص
انکارِ مسلسل کی فصیلیں ہیں جہاں پر

تسخیر کروں گا میں وہی رشتۂ مخصوص
اک نرم سے ریشے کی کسی نس کے نگر میں

بس دیکھتا پھرتا ہوں ترا چہرۂ مخصوص
کہتے ہیں کہ آسیب وہاں رہنے لگے ہیں

ہوتا تھا کسی گھر میں مرا کمرئہ مخصوص
سنتے ہیں نکلتا ہے فقط دل کی گلی سے

منزل پہ پہنچ جاتا ہے جو جادۂ مخصوص
لوگوں سے ابوزر کے روابط ہیں خطرناک

صحرا میں لگایا گیا پھر خیمۂ مخصوص
ہنستے ہوئے پانی میں نیا زہر ملا کر

بھیجا ہے کسی دوست نے مشکیزۂ مخصوص
آواز مجھے دیتا ہے گرداب کے جیسا
منصور سمندر میں کوئی دیدۂ مخصوص
٭
راتوں میں کھڑکیوں کو بجاتا تھا کون شخص

اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص
قوسِ قزح پہ کیسے مرے پائوں چلتے تھے

دھیمے سروں میں رنگ بہاتا تھا کون شخص
مٹی ہوں جانتا ہوں کہاں کوزہ گر کا نام

یہ یاد کب ہے چاک گھماتا تھا کون شخص
بادل برستے رہتے تھے جو دل کے آس پاس

پچھم سے کھینچ کر انہیں لاتا تھا کون شخص
ہوتا تھا دشت میں کوئی اپنا جنوں نواز

شب بھر متاعِ درد لٹاتا تھا کون شخص
کوئی دعا تھی، یا کوئی نیکی نصیب کی

گرتا تھا میں کہیں تو اٹھاتا تھا کون شخص
اس کہنہ کائنات کے کونے میں بیٹھ کر

کارِ ازل کے کشف کماتا تھا کون شخص
بہکے ہوئے بدن پہ بہکتی تھی بھاپ سی

اور جسم پر شراب گراتا تھا کون شخص
ہونٹوں کی سرخیوں سے مرے دل کے چاروں اور

داغِ شبِ فراق مٹاتا تھا کون شخص
پائوں سے دھوپ گرتی تھی جس کے وہ کون تھا

کرنوں کو ایڑیوں سے اڑاتا تھا کون شخص
وہ کون تھا جو دیتا تھا اپنے بدن کی آگ

بے رحم سردیوں سے بچاتا تھا کون شخص
ماتھے پہ رکھ کے سرخ لبوں کی قیامتیں

سورج کو صبح صبح جگاتا تھا کون شخص
منصور بار بار ہوا کون کرچیاں
مجھ کو وہ آئینہ سا دکھاتا تھا کون شخص
٭
صحرا کی سرخ آگ بجھاتا تھا کون شخص

دریا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص
تھا کون سوز سینہ ء صدیق کا امیں

خونِ جگر سے دیب جلاتا تھا کون شخص
تھامے ہوئے عدالت ِ فاروق کا علم

پھر فتح نو کی آس جگاتا تھا کون شخص
تھا کون شخص سنتِ عثمان کا غلام

تقسیم زر کا فرض نبھاتا تھا کون شخص
وہ کون تھا شجاعتِ حیدر کا جانثار

وہ آتشِ غرور بجھاتا تھا کون شخص
ہر سمت دیکھتا ہوں سیاست کی مصلحت

شبیریوں کی آن دکھاتا تھا کون شخص
ہم رقص میرا کون تھا شہرِ سلوک میں

رومی کی قبر پر اسے گاتا تھا کون شخص
صدیوں سے جس کی قبر بھی بستی ہے زندہ ہے

یہ کون گنج بخش تھا داتا تھا کون شخص
ہوتا تھا کون وہ جسے منصور کہتے تھے
دار و رسن کو چومنے جاتا تھا کون شخص
٭
آسیب میں چراغ جلاتا ہے کون شخص

تنہائی کے مکان میں آتا ہے کون شخص
جی چاہتا ہے اس سے ملاقات کو مگر

اجڑے ہووں کو پاس بٹھاتا ہے کون شخص
چلتا ہے کس کے پائوں سے رستہ بہار کا

موسم کو اپنی سمت بلاتا ہے کون شخص
جس میں خدا سے پہلے کا منظر دکھائی دے

وہ کافرانہ خواب دکھاتا ہے کون شخص
پھر اک ہزار میل سمندر ہے درمیاں

اب دیکھئے دوبارہ ملاتا ہے کون شخص
برسوں سے میں پڑا ہوں قفس میں وجود کے

مجھ کو چمن کی سیر کراتا ہے کون شخص
منصور صحن ِ دل کی تمازت میں بیٹھ کر
ہر روز اپنے بال سکھاتا ہے کون شخص
٭
تھا کون ، صبحِ طور کا مسکن تھا کون شخص

کچھ پہلے کائنات سے روشن تھا کون شخص
تحریکِ کن فکاں کا سلوگن تھا کون شخص

بعد از خدا وجود میں فوراً تھا کون شخص
کس کا کہا خدا کا کہا ہے اک ایک لفظ

لوح و قلم کا خاک پہ درشن تھا کون شخص
بہتا ہے کس کے نام سے بادِ ازل کا گیت

آوازِ کْن کی صبح شگفتن تھا کون شخص
گجرے پْرو کے لائی تھی کس کے لئے زمیں

چیتر کی پہلی عصر کا جوبن تھا کون شخص
صحرا کی پیاس کون بجھاتا ہے اب تلک
منصور ریگزار میں ساون تھا کون شخص
٭
دھکے ہوئے لحاف کا دامن تھا کون شخص

جاڑے میں رنگ و نور کا ایندھن تھا کون شخص
خود ہی میں گھیر لایا تھا اڑتا ہوا وہ تیر

میرے علاوہ زخم کا ساجن تھا کون شخص
کچھ یاد آرہا ہے محبت مجھے بھی تھی

مری نظر تھا کون وہ دھڑکن تھا کون شخص
ممکن نہیں ہے پھینکے وہ پتھر مری طرف

کھڑکی میں یار کی مرا دشمن تھا کون شخص
منصور بزمِ یار میں میری طرح وجیہہ
برخاستن سے پہلے وہ گفتن تھا کون شخص
ردیف ض
مٹی ذرا سی قریہء لولاک کے عوض

دو گز زمین چاہیے افلاک کے عوض
جاگیر بھی حویلی بھی چاہت بھی جسم بھی

تم مانگتے ہو دامنِ صد چاک کے عوض
اِس شہر میں تو ایک خریدار بھی نہیں

سورج کہاں فروخت کروں خاک کے عوض
وہ پیٹ برگزیدہ کسی کی نگاہ میں

جو بیچتے ہیں عزتیں خوراک کے عوض
مثلِ غبار پھرتا ہوں آنکھوں میں جھانکتا

اپنے بدن کی اڑتی ہوئی راکھ کے عوض
دے سکتا ہوں تمام سمندر شراب کے

اک جوش سے نکلتے ہوئے کاک کے عوض
بھونچال آئے تو کوئی دو روٹیاں نہ دے

میلوں تلک پڑی ہوئی املاک کے عوض
غالب کا ہم پیالہ نہیں ہوں، نہیں نہیں

جنت کہاں ملے خس و خاشاک کے عوض
ہر روز بھیجنا مجھے پڑتا ہے ایک خط

پچھلے برس کی آئی ہوئی ڈاک کے عوض
جاں مانگ لی ہے مجھ سے سرِ اشتیاقِ لمس

بندِ قبا نے سینہء بیباک کے عوض
کام آ گئی ہیں بزم میں غم کی نمائشیں

وعدہ ملا ہے دیدئہ نمناک کے عوض
آیا عجب ہے مرحلہ شوقِ شکار میں

نخچیر مانگتا ہے وہ فتراک کے عوض
نظارئہ جمال ملا ہے تمام تر

تصویر میں تنی ہوئی پوشاک کے عوض
منصور ایک چہرۂ معشوق رہ گیا
پہنچا کہاں نہیں ہوں میں ادراک کے عوض
ردیف ط
آنسوئوں کے عکس دیواروں پہ بکھرانا غلط

یہ دیئے بے فائدہ یہ آئینہ خانہ غلط
وہ پرندوں کے پروں سے نرم، بادل سے لطیف

یہ چراغِ طور کے جلووں سے سنولانا غلط
جاگ پڑتے ہیں دریچے اور بھی کچھ چاپ سے

اس گلی میں رات کے پچھلے پہر جانا غلط
درد کے آتش فشاں تھم، کانپتی ہیں دھڑکنیں

یہ مسلسل دل کے کہساروں کا پگھلانا غلط
کون واشنگٹن کو دے گا ایک شاعر کا پیام

قیدیوں کو بے وجہ پنجروں میں تڑپانا غلط
ان دنوں غم ہائے جاناں سے مجھے فرصت نہیں

اے غمِ دوراں ترا فی الحال افسانہ غلط
ایک دل اور ہر قدم پر لاکھ پیمانِ وفا

اپنے ماتھے کو ہر اک پتھر سے ٹکرانا غلط
ایک تجریدی تصور ہے یہ ساری کائنات

ایسے الجھے مسئلے بے کار۔ سلجھانا غلط
وقت کا صدیوں پرانا فلسفہ بالکل درست

یہ لب و عارض غلط، یہ جام و پیمانہ غلط
کیا بگڑتا اوڑھ لیتا جو کسی تتلی کی شال

شاخ پر کھلنے سے پہلے پھول مرجھانا غلط
کچھ بھروسہ ہی نہیں کالے سمندر پر مجھے

چاند کا بہتی ہوئی کشتی میں کاشانہ غلط
زندگی کیا ہے۔ ٹریفک کا مسلسل اژدہام

اس سڑک پر سست رفتاری کا جرمانہ غلط
جس کے ہونے اور نہ ہونے کی کہانی ایک ہے

اُس طلسماتی فضا سے دل کو بہلانا غلط
منہ اندھیرے چن کے باغیچے سے کچھ نرگس کے پھول

یار بے پروا کے دروازے پہ دھر آنا غلط
پھر کسی بے فیض سے کر لی توقع فیض کی

پھر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ پہچانا غلط
زندگی جس کے لیے میں نے لگا دی دائو پر

وہ تعلق واہمہ تھا، وہ تھا یارانہ غلط
میں انا الحق کہہ رہا ہوں اور خود منصور ہوں
مجھ سے اہل معرفت کو بات سمجھانا غلط
٭
اس قدر یہ انبساط

احتیاط و احتیاط
دو گھروں کے درمیاں

تیغ تیور پل صراط
شیشہء جاں پھوڑ کر

بہہ گیا آبِ نشاط
آ گرے ہیں سین پر

شین کے تینوں نقاط
دوست امریکا کا وہ

اور کیا میری بساط
بڑھ رہا ہے باغ میں

موسموں کا اختلاط
وہ شکاری وہ محیط
میں گرفتہ میں محاط
ردیف ظ
حسنِ خلدِبریں! خدا حافظ

ہم تمہارے نہیں خدا حافظ
موت کا وار کامیاب ہوا

خنجرِ آستیں ! خدا حافظ
جسم پر بار اب ہے زہرِ مگس

شہد کی سرزمیں خدا حافظ
دل مچلتاہے سجدہ کرنے کو

سرکشیدہ جبیں خدا حافظ
بھوک ہے قحط ہے، تمہارا بھی

پرورِ عالمیں خدا حافظ
ہم نے انگشتری بدل لی ہے

آسماں کے نگیں خداحافظ
ہم اِدھر بھی نہیں اُدھر بھی نہیں

اے چناں اے چنیں خدا حافظ
خوش رہو تم جہاں رہو ساتھی

کہہ رہے ہیں ہمیں، خداحافظ
چھوڑدی پوجا آفتابوں کی

دینِ مہرِ مبیں خدا حافظ
ہم حصارِ نظر سے باہر تھے

دیدہِ دل نشیں خدا حافظ
اس کو دیکھا بھی ہے ٹٹولا بھی

صحبتِ بے یقیں خدا حافظ
آرہا ہے قیام کو کوئی

اے غمِ جا گزیں خدا حافظ
ہے لبِ یار پر تبسم سا

سوزِ طبعِ حزیں خدا حافظ
زندگی سے لڑائی کیا کرنی

اے کمان و کمیں خدا حافظ
تم مخالف نہیں حکومت کے

حلقۂ مومنیں خدا حافظ
شاخ کی طرح خالی ہونا تھا

اے گلِ آخریں خدا حافظ
چھوڑ آئے ہیں ہم بھرا میلہ

نغمۂ آفریں خدا حافظ
یاد کے دشت نے پکارا ہے

چشمۂ انگبیں خدا حافظ
آگ تم سے بھی اب نہیں جلتی

اے مئے آتشیں خدا حافظ
تم کو بالشتیے مبارک ہوں

رفعتِ ملک و دیں خدا حافظ
یہ تعلق نہیں ، نہیں منصور

تم کہیں ، ہم کہیں ، خدا حافظ

٭

ہے وجہ کج کلاہی مرا ایک ایک لفظ

دائم مری گواہی مرا ایک ایک لفظ
اے حکمرانِ ملک خدا داد ، ظلم روک

تیرے لئے تباہی مرا ایک ایک لفظ
ہر چوک پر کھڑا ہے بڑے اعتماد سے

سچائی کا سپاہی مرا ایک ایک لفظ
رقصاں نئی شعاعیںمری چشمِ خواب میں

صبحوںکی خوش نگاہی مرا ایک ایک لفظ
لکھتا رہا ترے ہی قیصدے اے آفتاب

کرتا رہا ضیاہی مرا ایک ایک لفظ
تجھ سے ملا تو پھول بھی خوشبو بھی بن گیا

بادِ صبا تو تھا ہی مرا ایک ایک لفظ
تہذیبِ حسن باطنی مری غزل ہوئی

حیرت بھری صراحی مرا ایک ایک لفظ
منصور کی بھی بڑ یہی سرمد کا دھڑ یہی
تسلیم !خانقاہی مرا ایک ایک لفظ
٭
راکھ ہوئے ارمان، خدا حافظ

پیارے پاکستان! خدا حافظ
ایک بجا ہے رات کے چہرے پر

اچھا، میری جان! خدا حافظ
رختِ سفر میں باندھ نہیں سکتا

تتلی اور گلدان! خدا حافظ
جوشِ قدح سے آنکھیں بھر لی ہیں

اشکوں کے طوفان! خدا حافظ
رات کا خالی شہر بلاتا ہے

دہکے آتش دان! خدا حافظ
میں کیا جانوں میں کس اور گیا

اے دل اے انجان خدا حافظ
مان نہیں سکتا میں ہجر کی فال

حافظ کے دیوان خدا حافظ
تیرا قصبہ اب میں چھوڑ چلا

ساونت پوش مکان خدا حافظ
کالی رات سے میں مانوس ہوا

سورج کے امکان خدا حافظ
رات شرابی ہوتی جاتی ہے

اے میرے وجدان خدا حافظ
میں ہوں شہر سخن کا آوارہ

علم و قلم کی شان خدا حافظ
خود کو مان لیا پہچان لیا

اے چشمِ حیران خدا حافظ
دل منصور چراغِ طور ہوا
موسیٰ کے ارمان خدا حافظ
ردیف ع
صبح مانگی تو ملا تاریکیوں کا اجتماع

اور ان میں بھی کڑکتی بجلیوں کا اجتماع
میں، میانوالی، نظر کی جھیل، جاں کا ریگزار

یار کی تصویر میں تھا منظروں کا اجتماع
گفتگو میں گمشدہ اقدار کا دن بھر ملال

ذہن میں شب بھر برہنہ لڑکیوں کا اجتماع
جمع ہیں حکمت بھری دنیا کے سارے پیشہ ور

کابل و قندھار میں ہے قاتلوں کا اجتماع
یاد کی مرغابیاں، بگلے خیال و خواب کے

پانیوں پر دور تک اڑتے پروں کا اجتماع
ایک کافر کی زباں بہکی ہے میرے شہر میں

ہر گلی ہر موڑ پر ہے پاگلوں کا اجتماع
بس تمہی سے تھاپ پر بجتے دھڑکتے ہال میں

روشنی کے رقص کرتے دائروں کا اجتماع
جانتا ہوں دھوپ سے میرے تعلق کے سبب

آسماں پر ہے ابھی تک بادلوں کا اجتماع
بارشیں برساتِ غم کی، میری آنکھیں اور میں

کوچہء جاں میں عجب ہے رحمتوں کا اجتماع
مجلسِ کرب و بلا کے آج زیر اہتمام

ہو رہا ہے شہر دل میں آنسوئوں کا اجتماع
شہر میں بیساکھیوں کے کارخانے کے لیے

رات بھر ہوتا رہا بالشتیوں کا اجتماع
ہاتھ کی الجھی لکیریں کس گلی تک آ گئیں

ذہن کے دیوار پر ہے زاویوں کا اجتماع
چل پہن مایا لگا جوڑا، چمکتی کھیڑیاں

دشمنوں کے شہر میں ہے دوستوں کا اجتماع
ایک پاگل ایک جاہل اک سخن نا آشنا

مانگتا ہے حرف میں خوش بختیوں کا اجتماع
ہیں کسی کے پاس گروی اپنی آنکھیں اپنے خواب

کیا کروں جو شہر میں ہے سورجوں کا اجتماع
رات کا رستہ ہے شاید پائوں میں منصور کے
کر رہا ہے پھر تعاقب جگنوئوں کا اجتماع
ردیف غ
اتنی جمیل صبحِ شگفتن پہ ایسا داغ

ظلم عظیم… یار کے دامن پہ ایسا داغ
توبہ یہ وارداتِ فلسطین، کیا کہوں

اس عہدِ با شعور کے جوبن پہ ایسا داغ
ابھرا ہے آئینہ سے جو تیرے سلوک پر

لگتا ہے چشم مہر میں پھاگن پہ ایسا داغ
ایسا تو کچھ نہیں مرے دل کے مکان میں

کیسے لگا ہے دستِ نقب زن پہ ایسا داغ
حیرت ہے بارشوں کے مسلسل فروغ میں

رہ جائے آنسوئوں بھرے ساون پہ ایسا داغ
لگتا ہے انتظار کے چپکے ہیں خدو خال

دیکھا نہیں کبھی کسی چلمن پہ ایسا داغ
جس میں دھڑکتے لمس دکھائی دیں دور سے

اس نے بنا دیا میری گردن پہ ایسا داغ
ہونٹوں کے یہ نشان مٹا دو زبان سے

اچھا نہیں ہے دودھ کے برتن پہ ایسا داغ
جیسے پڑا ہوا ہے لہو میرا روڈ پر

کیسے لگا ہے رات کے مدفن پہ ایسا داغ
جس میں مجھے اترنا پڑے اپنی سطح سے

کیسے لگائوں دوستو دشمن پہ ایسا داغ
یہ کیا پرو دیا ہے پرندے کو شاخ میں

زیتون کے سفید سلوگن پہ ایسا داغ
بعد از بہار دیکھا ہے میں نے بغور دل

پہلے نہ تھا صحیفۂ گلشن پہ ایسا داغ
اب تو تمام شہر ہے نیلا پڑا ہوا

پہلے تھا صرف چہرئہ سوسن پہ ایسا داغ
شاید ہے بد دعا کسی مجذوب لمس کی
منصور میرے سینۂ روشن پہ ایسا داغ
ردیف ف
شبِ وصال پہ لعنت شبِ قرار پہ تف

ترے خیال پہ تھو تیرے انتظار پہ تف
وہ پائوں سو گئے جو بے ارادہ اٹھتے تھے

طواف کوچہء جاناں پہ، کوئے یار پہ تف
تجھ ایسے پھول کی خواہش پہ بار ہا لعنت

بجائے خون کے رکھتا ہوں نوکِ خار پہ تف
دلِ تباہ کو تجھ سے بڑی شکایت ہے

اے میرے حسنِ نظر ! تیرے اعتبار پہ تف
پہنچ سکا نہیں اس تک جو میرے زخم کا نور

چراغ خون پہ تھو سینہء فگار پہ تف
ہیں برگِ خشک سی شکنیں خزاں بکف بستر

مرے مکان میں ٹھہری ہوئی بہار پہ تف
کسی فریب سے نکلا ہے جا مٹھائی بانٹ

ترے ملالِ تری چشم اشکبار پہ تف
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ مرگیا ہوں میں

اے میرے دوست ترے جیسے غمگسار پہ تف
یونہی بکھیرتا رہتا ہے دھول آنکھوں میں

ہوائے تیز کے اڑتے ہوئے غبار پہ تف
خود آپ چل کے مرے پاس آئے گا کعبہ

مقامِ فیض پہ بنتی ہوئی قطار پہ تف
حیات قیمتی ہے خواب کے دریچوں سے

رہِ صلیب پہ لعنت، فراز دار پہ تف
صدا ہو صوتِ سرافیل تو مزہ بھی ہے

گلے کے بیچ میں اٹکی ہوئی پکار پہ تف
جسے خبر ہی نہیں ہے پڑوسی کیسے ہیں

نمازِ شام کی اُس عاقبت سنوار پہ تف
مری گلی میں اندھیرا ہے کتنے برسوں سے

امیرِ شہر! ترے عہدِ اقتدار پہ تف
ترے سفید محل سے جو پے بہ پے ابھرے

ہزار بار انہی زلزلوں کی مار پہ تف
ترے لباس نے دنیا برہنہ تن کر دی

ترے ضمیر پہ تھو، تیرے اختیار پہ تف
سنا ہے چادرِ زہرا کو بیچ آیا ہے

جناب شیخ کی دستارِِ بد قمار پہ تف
تُو ماں کی لاش سے اونچا دکھائی دیتا ہے

ترے مقام پہ لعنت ترے وقار پہ تف
مرے گھرانے کی سنت یہی غریبی ہے

ترے خزانے پہ تھو مالِ بے شمار پہ تف
یہی دعا ہے ترا سانپ پر قدم آئے

ہزار ہا ترے کردارِ داغ دار پہ تف
کسی بھی اسم سے یہ ٹوٹتا نہیں منصور
فسردگی کے سلگتے ہوئے حصار پہ تف
٭
چلتے رہتے ہیں لامکاں کی طرف

ہم جہاںسے چلے ، وہاں کی طرف
رحمت ِ ابر جب بھی گرتی ہے

پائوں اٹھتے ہیں سائباں کی طرف
چل پڑے واقعات بستی کو

اور کردار داستاں کی طرف
کمپنی کھولی ہے خسارے کی

فائدہ دیکھ کر زیاں کی طرف
ہم پکھیرو ہزاروں سالوں سے

روزجاتے ہیں آشیاں کی طرف
بھیگ جائوں کرم کی بارش سے

ہاتھ اٹھائوں جو آسماں کی طرف
آتے پولیس کے سپاہی ہیں
روز منصور کے مکاں کی طرف
٭
کیس ، ممکن ہے مکرو ریا کے خلاف

جاعدالت میں اُس بے وفا کے خلاف
یہ جنارہ بھی دراصل ہے اک جلوس

نیستی کے مقامِ فنا کے خلاف
 تیری آواز بھی سلب ہوسکتی ہے

گفتگو کر نہ قحطِ نوا کے خلاف
پھر رہا ہے برہنہ کوئی شہر میں

پھر رعونت زدہ بادشہ کے خلاف
یہ کرشمہ مسلسل گھٹن سے ہوا

ہوگئے پھول تازہ ہوا کے خلاف
اک یہی زندگی کا سہارا ہے بس

میں نہیں ہوں وجودِ خدا کے خلاف
خوشبوئے یارسے یہ معطر نہیں

بات کر کوئی بادِ صبا کے خلاف
خاک پر مجھ کو منصور بھیجا گیا
میری مرضی کے میری رضاکے خلاف
ردیف ق
قیام دار سہی آسمان پر آفاق

ملا ہوا ہے زمیں سے بھی یہ مگر آفاق
کسی نے آنا تھا لیکن بڑے مسائل تھے

بھرا ہوا تھا اجالوں سے رات بھر آفاق
کرن کی قوس افق در افق ملائے اسے

ہے آج اپنے ہی پہلو میں جلوہ گر آفاق
صراطِ سمت پہ رکھی ہوئی بصارت سے

تمام کیسے دکھائے مری نظر آفاق
بس اتنا ہے کہ بلندی پہ ہیں ذرا لیکن

ہمیشہ کھول کے رکھتا ہے اپنے در آفاق
نکالتا ہے مسلسل اسی کو دامن سے

ترے چراغ سے کرتا رہا سحر آفاق
یہ اور بات کہ سورج پہن کے رہتا ہے

مرے لیے میرا چھتنار سا شجر آفاق
ابھی بچھڑنے کی ساعت نہیں ڈیئر آفاق

ابھی تو پب میں پڑی ہے بہت بیئر آفاق
بس اس لیے کہ اسے دیکھنے کی عادت ہے

جلاتا روز ہے سورج کا لائیٹر آفاق
بدن نے آگ ابھی لمس کی نہیں پکڑی

ابھی کچھ اور کسی کا مساج کر آفاق
خدا سے کیوں نہ تعلق خراب میرا ہو

ہے ایک چھتری کی صورت اِدھر اُدھر آفاق
اُدھر پتہ ہی نہیں کچھ بہشت کا منصور
اِدھر زمیں کے نظاروں سے بے خبر آفاق
٭
میں کُن کی کہانی سے سنوں شورِ انا الحق

الفاظ و معانی سے سنوں شورِ اناالحق
پانی بھی علیحدہ نہیںسر چشمہ ء کل سے

دریا کی روانی سے سنوں شورِ اناالحق
اڑتے ہوئے پتے بھی تو ہیں پیڑ کا حصہ

موسم کی جوانی سے سنوں شور اناالحق
کثرت کو میں وحدت سے جدا کر نہیں سکتا

تخلیقِ جہانی سے سنوں شورِ اناالحق
آواز سے لفظوں کی جدائی نہیں ممکن

آیاتِ قرانی سے سنوں شورِاناالحق
منصور زمانے کو خدا کہتی ہے دانش
تقویمِ زمانی سے سنوں شورِ اناالحق
ردیف ک
ہونٹوں بھری رکھ دی درِ انکارِ پہ دستک

دی ہم نے زبردستی لبِ یار پہ دستک
اک شام پلٹ آئے ہیں یہ بات الگ ہے

دی پائوں نے برسوں رہِ پُر خار پہ دستک
پھر رات کی رانی کا محل سامنے مہکے

پھر صبح کی چڑیوں بھری چہکار پہ دستک
کاندھے پہ کوئی بھیدوں بھری پوٹلی رکھ کر

دیتا ہے پھر امکان ابد زار پہ دستک
دم بھر کو نئی صبح کا اعلانیہ سن کر

دی اہلِ قفس نے گل و گلزار پہ دستک
بازار سے گزرا تو چہکتی ہوئی رت کی

تصویر نے دی جیبِ خریدار پہ دستک
کچھ ہاتھ کہیں اور سے آیا ہی نہیں ہے

دینا پڑی پھر عرشِ کرم بار پہ دستک
ممکن ہے ملاقات ہو آسیبِ بدن سے

اچھی طرح دے کمرئہ اسرار پہ دستک
ہے فرض یہی تجھ پہ یہی تیری عبادت

دے خاک نسب ! خانہء سیار پہ دستک
درویش فقیری ہی کہیں بھول نہ جائے

یہ کون ہے دیتا ہے جو پندار پہ دستک
وہ دیکھیے دینے لگا پھر اپنے بدن سے

اک تازہ گنہ، چشم گنہگار پہ دستک
اٹھ دیکھ کوئی درد نیا آیا ہوا ہے

وہ پھر ہوئی دروازئہ آزار پہ دستک
دشنام گلابوں کی طرح ہونٹوں پہ مہکیں

درشن کے لیے دے درِ دلدار پہ دستک
برسوں سے کھڑا شخص زمیں بوس ہوا ہے

یہ کیسی سمندر کی تھی کہسار پہ دستک
پانی مجھے مٹی کی خبر دینے لگے ہیں

اک سبز جزیرے کی ہے پتوار پہ دستک
افسوس ضروری ہے مرا بولنا دو لفظ

پھر وقت نے دی حجرۂ اظہار پہ دستک
مایوسی کے عالم میں محبت کا مسافر

در چھوڑ کے دینے لگا دیوار پہ دستک
دی جائے سلگتی ہوئی پُر شوق نظر سے

کچھ دیر تو اس کے لب و رخسار پہ دستک
اب اور گنی جاتی نہیں مجھ سے یہ قبریں

اب دینی ضروری ہے کسی غار پہ دستک
منصور بلایا ہے مجھے خواب میں اس نے
دی نیند نے پھر دیدۂ بیدار پہ دستک
٭
ہجر کی رات بھری قبر کے سر ہونے تک

بلب جلتا رہے اذانِ سحرہونے تک
دفن ہو جائیںگے بنیادمیں دیواروں کی

 بامِ ابلاغ کی ہم پہلی خبر ہونے تک
برف بستی میں گری ہے کوئی بارہ فٹ تک

لوگ محفوظ ہیں بس جسم پہ فر ہونے تک
خواب ہو جاتی ہیںرنگوں بھری بندر گاہیں

پھرتے رہتے ہیںجہاں گرد سفر ہونے تک
آنکھ تعبیر کی منزل پہ پہنچ جائے گی

منتظر خواب رہیں عمر بسر ہونے تک
کتنے جانکاہ مراحل سے گزرنا ہوگا

ایک معصوم کوپنل کو ثمر ہونے تک
اس کی فٹ پاتھ بسیرا ہے قیامت کی نوید
حشر آجائے گا منصور کا گھر ہونے تک
٭
وقت کی فاختہ اڑتی نہیں پر ہونے تک

رات خاموش ہے تکمیلِ ہنر ہونے تک
ختم ہوجائے گی منزل پہ تری بانگِ درا

گرمی ء ذوق عمل ہوگا سفر ہونے تک
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں

یہ تو وقفہ ہے فقط ان کو خبر ہونے تک
ایک لمحہ ہے قیامت کا بس اپنے ہمراہ

دیر کتنی ہے جہان زیر و زبر ہونے تک
قتل گہ میں ہیںچراغوں کی کروڑوں لاشیں

کتنے مصلوب دئیے ہونگے سحر ہونے تک
کوئی حرکت ہی دکھائی نہیں دیتی منصور
راکھ ہوجائیں گے ہم رات بسر ہونے تک
ردیف گ
شب زندہ دار خواب، عشائے نماز لوگ

آئے نہیں دعائے تہجد کے بعض لوگ
کھلنے لگے تھے پھول گریباں کے چاک سے

لوٹ آئے دشتِ یاد سے ہم بے نیاز لوگ
دونوں کا ایک بیج ہے دونوں کی اک نمو

یونہی یہ خار و گل میں کریں امتیاز لوگ
کیسی عجیب چیز ہیں چہرے کے خال و خد

دل میں بسے ہوئے ہیں کئی بد لحاظ لوگ
پہلے پہل تھے میرے اجالے سے منحرف

کرتے ہیں آفتاب پہ اب اعتراض لوگ
ہر شخص بانس باندھ کے پھرتا ہے پائوں سے

نکلیں گھروں سے کس طرح قامت دراز لوگ
صبحوں کو ڈھانپتے پھریں خوفِ صلیب سے

کالک پرست عہد میں سورج نواز لوگ
پتھر نژاد شہر! غنیمت سمجھ ہمیں

ملتے کہاں ہیں ہم سے سراپا گداز لوگ
منصور اب کہاں ہیں ہم ایسے ، دیار میں
غالب مثال آدمی، احمد فراز لوگ
٭
آگئے ہیں نیاگرے ہم لوگ

زندگی پہ جہاں مرے ہم لوگ
چہچہاتی تھیں چار سو چڑیاں

ہوتے تھے جب ہرے بھرے ہم لوگ
اُس جگہ کچھ ہمارے جیسا ہے

جاتے رہتے ہیں آگرے ہم لوگ
رقص ِ سرمد کا موسم آیا ہے

اب پہن لیں نا گھاگرے ہم لوگ
اے خداوندِ جادہ و منزل

چل پڑے تیرے آسرے ہم لوگ
سارا منظراسی کا ہے منصور
ہیں ازل سے بے منظرے ہم لوگ
٭
وہ نیلی روشنی وہ سرائے وہ نرم آگ

بہتی سپردگی بھری ہائے وہ نرم آگ
وہ موسم ِ بہار کا ساحل پہ پہلادن

وہ گرم گرم شام کی چائے وہ نرم آگ
وہ تیز دھن وصال کی وہ روشنی کے گیت

وہ چار ناچتے ہوئے سائے وہ نرم آگ
ہرسمت حسن ِ لمس کی بہکی ہوئی کشش

عریانیوں کو رقص میں لائے وہ نرم آگ
حسن ِ طلب کی آخری حد پہ کھڑی ہوں میں

لائو کہیں سے ڈھونڈھ کے مائے وہ نرم آگ
منصور کیا بتائوں میں خوابوںکی داستاں
بعداز وصال کیسے سلائے وہ نرم آگ
٭
ہم بدن ہوتے ہی بستر اور رنگ

چار سو فوراً سراسر اور رنگ
بھر گیا ہوں میں ترے انوار سے

بھیج دے بس اک دیابھر اور رنگ
اترا ہوں قوس ِ قزح سے میں ابھی

ہیں مگر تیرے لبوں پراور رنگ
روشنی تھوڑی سی بہتر جب ہوئی

ہوگئے یکدم اجاگر اور رنگ
کینوس منصور صبحوں کا کہے
اک تناسب میں ہیں منظر اور رنگ
ردیف ل
بڑی سست رفتاریوں سے بھلے چل

محبت کے ٹھہرے ہوئے سلسلے چل
وہاں گھر ہے دریا جہاں ختم ہو گا

چلے چل کنارے کنارے چلے چل
خدا جانے کب پھر ملاقات ہو گی

ٹھہر مجھ سے جاتے ہوئے تو ملے چل
میں تیرے سہارے چلا جا رہا ہوں

ذرا اور ٹوٹے ہوئے حوصلے چل
نئے ساحلوں کے مسائل بڑے ہیں

تُو پچھلی زمیں کی دعا ساتھ لے چل
اکیلا نہ منصور رہ کیرواں میں
محبت کے چلنے لگے قافلے چل
٭
یہ تیرا خار بھی ہے محوِ خواب شاخِ گل

ذرا سمیٹ بدن کے گلاب شاخِ گل
مرے نصیب میں کانٹوں کی فصل آئی تھی

نہ مانگ مجھ سے گلوں کا حساب شاخِ گل
مری بہار کے بارے نہ پوچھا کر مجھ سے

ہے جھوٹ بولنا مجھ پہ عذاب شاخِ گل
کنارِ آب رواں ہمسفر زمانوں سے

خرامِ زندگی، موجِ کتاب، شاخِ گل
ورق ورق پہ پڑی ہیں شعاعیں خوشبو کی

کتاب زیست کا ہے انتساب شاخِ گل
خزاں کی شام ملی ہے مجھے تو گلشن میں

کہاں پہ آتا ہے تجھ پر شباب شاخِ گل
تلاش میں ہیں ہوائیں بہار کی منصور
کہاں لہکتی ہے خانہ خراب شاخ گل
٭
اے میری نرم گرم بہشتِ جوان سال

چہرے کے ڈوبتے ہوئے فردوس کو اجال
ہنزہ کے نور سیبو ! دسمبر کی نرم دھوپ

نارنجی کر رہی ہے تمہارے سفید گال
کچھ فیض قربتوں کے بھی ہوتے تو ہیں مگر

ہے بند پارٹنر سے ابھی تک تو بول چال
لب پر ہیں قہقہے کسی ناکام ضبط کے

دل میں بھرا ہوا ہے قیامت کا اک ملال
ہر چند گفتگو ہے توسط سے فون کے

لیکن نگاہ میں ہیں خیالوں کے خدو خال
کیا کھولتی ہو پوٹلی ان پڑھ فقیر کی

بازار سے خرید کے لایا ہوں کچھ سوال
منصور احتیاط سے چاہت کے بول، بول
لڑکوں سے اس کے کام ہیں مردوں سے اس کے بال
٭
جانِ جاںہے مرے ساتھ ، آہستہ چل

چاند تاروں کی بارات آہستہ چل
یہ محبت کا رستہ خطرناک ہے

اے دلِ غیر محتاط ، آہستہ چل
اتنی رسوائیاں ٹھیک ہوتی نہیں

اے مرے عشق کی بات ، آہستہ چل
کتنی مشکل سے آئے ہیںوہ بزم میں

کچھ تو وقتِ ملاقات ، آہستہ چل
اس کی لافانی تصویر تخلیق کر

کینوس پہ مرے ہاتھ آہستہ چل
پھر یہ لمحے کہاں دستِ منصور میں
جتنا ممکن ہے اے رات آہستہ چل
٭
روشن چراغ کر کوئی ، شب خانہ ، آنکھ کھول

میں آگیا ہوں مجلسِ جانانہ ، آنکھ کھول
اے چشمۂ کلام ابل۔۔ اے شعوربول

میرے قلم کی جراتِ رندانہ ۔۔آنکھ کھول
میدانِ کار زار ترا منتظر ہے ۔ جاگ

حرف و ہنر کی صبح ِ شہیدانہ ۔آنکھ کھول
سب لے گیا معاش ترا عہدِ بدمعاش

لاہورکے شعورِ شریفانہ ، آنکھ کھول
تبدیل ہو چکی ہے زمانے کی کیفیت
منصور کی اے روحِ فقیرانہ، آنکھ کھول
ردیف م
اب آسماں نژاد بلائوں کا خوف ختم

بجلی کے ہیں چراغ، ہوائوں کا خوف ختم
تلووں تلے لگا لیے سیارے وقت نے

ہر لمحہ سوچتے ہوئے پائوں کا خوف ختم
بادل بڑے گرجتے ہیں باراں بکف مگر

سینہ نہیں دھڑکتا، خدائوں کا خوف ختم
اک چشمہء شعور پہ اپنی رگوں کے بیچ

ہم شیر مار آئے ہیں، گائوں کا خوف ختم
سورج تراش لائے ہیں صحنِ علوم سے

سہمی ہوئی سیاہ فضائوں کا خوف ختم
ہم نے طلسم توڑ لیا ہے نصیب کا

جادو نگر کی زرد دعائوں کا خوف ختم
اب شرم سار ہوتی نہیں ہے سنہری دھوپ

پلکوں پہ سرسراتی گھٹائوں کا خوف ختم
میلوں تلک زمیں میں آنکھیں اتر گئیں

اندھے کنووں میں لٹکی سزائوں کا خوف ختم
کوہ ندا کے کھل گئے اسرار آنکھ پر

آسیبِ آسماں کی صدائوں کا خوف ختم
اپنالی اپنے عہد نے تہذیب جین کی

اکڑی ہوئی قدیم قبائوں کا خوف ختم
ہم رقص کائنات ہے منصور ذات سے
اندر کے بے کنار خلائوں کا خوف ختم
٭
وہ غم وہ بے کسی وہ لہو کا سفر وہ شام

بازارِ شام پر نہ ہو بارِ دگر وہ شام
ظالم شکاریوں کے نئے فائروں کی گونج

سہمے ہوئے پرندوں کا وہ مستقر وہ شام
وہ ساعتِ جدائی وہ ہجراں نگر وہ شام

اس دل میں حوصلہ تو بہت تھا مگر وہ شام
شانوں پہ اک خیال کے گیسو گرے ہوئے

وہ باغِ خامشی وہ عدم کا ثمر وہ شام
رکھے ہیں بام چشم پہ میں نے بھی کچھ چراغ

پھرآ رہی ہے درد پہن کر اگر وہ شام
شانوں پہ پھر فراق کی زلفیں بکھیر کر

افسردہ سی اداس سی آئی ہے گھر وہ شام
گرنی تو تھی افق میں گلابوں کی سرخ شاخ

لیکن گری کہیں بہ طریق دگر وہ شام
مژگاں کی نوک نوک پہ آویختہ کرے
منصور کاٹ کاٹ کے لختِ جگر وہ شام
٭
صبحِ انساں کے منظر پہ لاکھوں سلام

زندگی کے پیمبر پہ لاکھوں سلام
جس میں رہتی تھی عرشِ کرم کی بہشت

کچی اینٹوں کے اُس گھر پہ لاکھوں سلام
جس پہ آرام کرتے تھے شاہِ عرب

اُس کھجوروں کے بستر پہ لاکھوں سلام
جس سے پیتے تھے پانی شہء دوسرا

اس گھڑے کے لبِ تر پہ لاکھوں سلام
جس نے کیڑوں مکوڑوں کا رکھا خیال

اُس حسیں پائے اطہر پہ لاکھوں سلام
جس کے گھر مال و زر کا چلن ہی نہ تھا

ایسے نادار پرور پہ لاکھوں سلام
جس قناعت نے بدلا نظامِ معاش

اس شکم پوش پتھر پہ لاکھوں سلام
اک ذرا سی بھی جنش نہیں پائوں میں

استقامت کے پیکر پہ لاکھوں سلام
زر ضرورت سے زائد تمہارا نہیں

کہنے والے کرم ور پہ لاکھوں سلام
جس کے مذہب میں ہے مالِ ساکت حرام

اُس رسولِ  ابوزر پہ لاکھوں سلام
جس نے اسراف و تبذیر تک ختم کی
اُس غریبوں کے سرور پہ لاکھوں سلام
٭
کنارِآب ِ رواں سے نکل نکل کے ہم

سپردِ ریگ ہوئے ریت پر اچھل کے ہم
ملازمت سے نکالے گئے مگر خوش ہیں

کسی کو دیکھتے دفتر میں تھے مچل کے ہم
ہمیں تلاشتے رہنا اسی خرابے میں

دکھائی دیں گے کسی اورسمت چل کے ہم
ندی کے ساتھ اترنے لگے سمندر میں

کسی پہاڑ کی چوٹی سے پھرابل کے ہم
سیہ نصیب ہیں سو دیکھتے ہیں خوابوں میں

چراغِ صبح ہی منظر بدل بدل کے ہم
مہکنے لگتے ہیںکیسی الوہی خوشبو میں

کسی مزار کی مٹی بدن پہ مل کے ہم
دکھائیں کیسے کسی کو ، دکھائیں کیا منصور
شب ِسیاہ سے باہر کہیں پہ جل کے ہم
٭
سچ کہوں کیا کہ موسیٰ عصا دار ہم

عہدِ فرعون کے بھی فسوں کا ہم
ہم خذف ریزے مٹی کے ہم ٹھیکرے

نقشِ تہذیب کے کہنہ آثار ہم
ہم ہی تختِ سلیماں کی تاریخ ہیں

اشک آباد ہیکل کی دیوار ہم
ہم حسن کوزہ گر ہم ہی بغداد ہیں

اک گذشتہ خلافت کی دستار ہم
ہم ہیں خاک نگاراں کی تشکیل گاہ

موت کی گرد سے لکھے کردار ہم
ہر طرف سرخ پانی کے سیلا ب میں

تربتر،ٹوٹے کوزوں کے انبار ہم
ٹوٹنے کی صدائے ستم،ہرطرف

ایک آوازِ تخریب کا وار ہم
جو صلیبوں کی میخوں میں مردہ ہوا

اُس خدا زاد عیسیٰ کا انکار ہم
اک طرف ہم ہی منصور گرداب ہیں
اک طرف بہتی کشتی کے پتوار ہم
٭
اپنے بدن کو آگ کامدفن بنائیں ہم

بہتر ہے بجلیوںکو نشیمن بنائیں ہم
کس واسطے سنائیں تباہی کی پھر وعید

سارا دیار کس لئے دشمن بنائیں ہم
بدذات شہر رہنے کے قابل نہیں رہا

ویرانے میں کہیں جا مسکن بنائیں ہم
کالے سمندروں کے زمانے گزر گئے

تاریک سب جزیرے روشن بنائیں ہم
منصور جس کے ساتھ منورہے سارا شہر
اُس خوبرو چراغ کوساجن بنائیں ہم
ردیف ن
چل پڑے دار و رسن کو ہنستے ہنستے سینکڑوں

دل شکستے جاں الستے سبز مستے سینکڑوں
یہ پہنچ جاتے ہیں کیسے خاکِ طیبہ کے غلام

آسمانوں تک بیک براق جستے سینکڑوں
روک سکتی ہیں یہ کانٹے دار باڑیں کیا مجھے

چلنے والے کے لیے ہوتے ہیں رستے سینکڑوں
میرے صحرا تک پہنچ پائی نہ بدلی آنکھ کی

تیرے دریا پر رہے بادل برستے سینکڑوں
دل کی ویرانی میں اڑتا ہے فقط گرد و غبار
کیسے ممکن تھا یہاں بھی لوگ بستے سینکڑوں
٭
میں لگا دوں آئینے گلیوں میں کیسے سینکڑوں

عکس ابھریں گے وہاں ہر ایک شے سے سینکڑوں
کم نہیں دکھ تیرے جانے کا مگر جانِ بہار

زخم میرے دل میں پہلے بھی ہیں ایسے سینکڑوں
اس کی آنکھوں نے کسے لوٹا ہے اس کو کیا خبر

اس کو رستے میں ملیں گے میرے جیسے سینکڑوں
روح کی حیرت زدہ آواز آتی ہی نہیں

وائلن کے تار لرزاں مجھ میں ویسے سینکڑوں
اک اکیلا تشنہ لب ہوں میں کنویں کے آس پاس
پھرتے ہیں منصور بے خود تیری مے سے سینکڑوں
٭
روشنی کے، رنگ و بو کے آستانے سینکڑوں

اے زمیں! ترکِ تعلق کے بہانے سینکڑوں
اک ترے بالوں کی وہ دو چار میٹر لمبی لٹ

اک ترے شاداب جوبن کے فسانے سینکڑوں
صبح تازہ دودھ جیسی رات قہوے کی طرح

روٹی جیسے چاند پر گزرے زمانے سینکڑوں
چھین کے گل کر دیے بامِ خیال و خواب سے

تیری یادوں کے دیے پاگل ہوا نے سینکڑوں
صرف تیرے قرب کا پل دسترس سے دور ہے
زندگی میں آئے ہیں لمحے سہانے سینکڑوں
٭
میرے ساتھی میرے پیارے میرے اپنے سینکڑوں

مجھ میں پھر بھی دکھ کسی کے ہیں پنپنے سینکڑوں
اور کیا حاصل ہوا ہے روز و شب کی نیند سے

چند تعبیریں غلط سی اور سپنے سینکڑوں
یہ بھی میرا مسئلہ ہے لوگ اچھے کیوں نہیں

دکھ دیے ہیں رحم پروردہ تڑپ نے سینکڑوں
گل کیے پھر اپنے آسودہ گھروندوں کے چراغ

دو ممالک کی کسی تازہ جھڑپ نے سینکڑوں
رات کے دل میں لکھیں نظمیں بیاضِ صبح پر
بھاپ اٹھتی چائے کے بس ایک کپ نے سینکڑوں
٭
پل صراطِ آسماں پر چل رہے تھے سینکڑوں

ایک چہرے کے پسِ منظر میں چہرے سینکڑوں
جمع ہیں نازل شدہ انوار کتنے شیلف میں

معجزے حاصل ہوئے لا حاصلی کے سینکڑوں
چاند پہ ٹھہرو، کرو اپنے ستارے پر قیام

رات رہنے کے لیے سورج پہ خیمے سینکڑوں
صفر سے پہلا عدد معلوم ہونا ہے ابھی

ہیں ریاضی میں ابھی موجود ہندسے سینکڑوں
میں کہاں لاہور بھر میں ڈھونڈنے جائوں اسے

لال جیکٹ میں حسین ملبوس ہوں گے سینکڑوں
شہر کی ویراں سڑک پر میں اکیلا رتجگا

سو رہے ہیں اپنی شب گاہوں میں جوڑے سینکڑوں
مال و زر، نام و نسب، حسن و ادا، دوشیزگی

میں بڑا بے نام سا، تیرے حوالے سینکڑوں
کیوں بھٹکتی پھر رہی ہے میرے پتواروں کی چاپ

خامشی ! تیرے سمندر کے کنارے سینکڑوں
کوئی بھی آیا نہیں چل کر گلی کے موڑ تک
دیکھنے والوں نے کھولے ہیں دریچے سینکڑوں
٭
مرے نہیں تو کسی کے ملال گھٹ جائیں

کہیں تو بلب جلے اور اندھیرے چھٹ جائیں
تمہارے ظرف سے ساتھی گلہ نہیں کوئی

پہاڑ مجھ سے محبت کریں تو پھٹ جائیں
ترے بدن پر لکھوں نظم کوئی شیلے کی

یہ زندگی کے مسائل اگر نمٹ جائیں
میں رہ گیا تھا سٹیشن پہ ہاتھ ملتے ہوئے

مگر یہ کیسے کہانی سے دو منٹ جائیں
اے ٹینک بان یہ گولان کی پہاڑی ہے

یہاں سے گزریں تو دریا سمٹ سمٹ جائیں
زمینیں روندتا جاتا ہے لفظ کا لشکر

نئے زمانے مری گرد سے نہ اٹ جائیں
چرا لوں آنکھ سے نیندیں مگر یہ خطرہ ہے

کہ میرے خواب مرے سامنے نہ ڈٹ جائیں
گھروں سے لوگ نکل آئیں چیر کے دامن

جو اہل شہر کی آپس میں آنکھیں بٹ جائیں
اب اس کے بعد دہانہ ہے بس جہنم کا

جنہیں عزیز ہے جاں صاحبو پلٹ جائیں
ہزار زلزلے تجھ میں سہی مگر اے دل

یہ کوہسار ہیں کیسے جگہ سے ہٹ جائیں
مرا تو مشورہ اتنا ہے صاحبانِ قلم

قصیدہ لکھنے سے بہتر ہے ہاتھ کٹ جائیں
وہ اپنی زلف سنبھالے تو اس طرف منصور
کھلی کتاب کے صفحے الٹ الٹ جائیں
٭
مسلسل چاک کے محور پہ میں ہوں

اے حرفِ کُن تری ٹھوکر پہ میں ہوں
تُو مجھ کو دیکھ یا صرفِ نظر کر

مثالِ گل ترے کالر پہ میں ہوں
سبھی کردار واپس جا چکے ہیں

اکیلا وقت کے تھیٹر پہ میں ہوں
صلائے عام ہے تنہائیوں کو

محبت کے لیے منظر پہ میں ہوں
پھر اس کے بعد لمبا راستہ ہے

ابھی تو شام تک دفتر پہ میں ہوں
اٹھو بیڈ سے چلو گاڑی نکالو

فقط دو سو کلو میٹر پہ میں ہوں
مجھے بھی رنگ کر لینا کسی دن

ابھی کچھ دن اسی نمبر پہ میں ہوں
بجا تو دی ہے بیل میں نے مگر اب

کہوں کیسے کہ تیرے در پہ میں ہوں
ازل سے تیز رو بچے کے پیچھے

کسی چابی بھری موٹر پہ میں ہوں
پڑا تمثیل سے باہر ہوں لیکن

کسی کردار کی ٹھوکر پہ میں ہوں
کہے مجھ سے شبِ شہر نگاراں

ابھی تک کس لیے بستر پہ میں ہوں
یہی ہر دور میں سوچا ہے میں نے

زمیں کے آخری پتھر پہ میں ہوں
ہلا منصور مت اپنی جگہ سے
پہاڑ ایسا خود اپنے سر پہ میں ہوں
٭
ڈال دی اس نے محبت کی نئی سم مجھ میں

ایک ہی رابطہ رہنے لگا قائم مجھ میں
اس کی آنکھوں سے مجھے ہوتا ہے کیا کیا معلوم

کون کرتا ہے یہ جذبوں کے تراجم مجھ میں
روح تک جکڑی ہوئی ہے میری زنجیروں میں

کم نہیں ایک تعلق کے مظالم مجھ میں
گھونٹ دیتا ہے گلا روز مرے خوابوں کا

کوئی رہتا ہے خطرناک سا مجرم مجھ میں
بخش کے مجھ کو تہی دامنی دنیا بھر کی

رکھ دیا درد بھرا سینہء حاتم مجھ میں
چھو کے دیکھوں تو مرے ہاتھ پہ رہ جاتی ہیں

اس قدر خواہشیں ہیں نرم و ملائم مجھ میں
جانے کب آتا ہے ہونٹوں پہ کرامت بن کر

کروٹیں لیتا ہے اک نغمہء خاتم مجھ میں
اس کے آنسو مری بخشش کے لیے کافی ہیں

وہ جو بہتا ہے کوئی چشمہء  نادم مجھ میں
میں نے چپکائی ہے کاغذ پہ سنہری تتلی

اب بھی پوشیدہ ہے شاید کوئی ظالم مجھ میں
کتنی قبروں پہ کروں فاتحہ خوانی منصور
مر گئے پھر مرے کچھ اور مراسم مجھ میں
٭
جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں

برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں
ایک آسیب ہے اس شخص کی رعنائی بھی

خوشبوئیں بولتی ہیں رنگ وہاں سنتے ہیں
ایک ویرانہ ہے، قبریں ہیں، خموشی ہے مگر

دل یہ کہتا ہے کہ کچھ لوگ یہاں سنتے ہیں
زندگی ان کی شہیدوں کی طرح ہے شاید

آنکھ رکھتے ہیں شجر، بات بھی، ہاں ! سنتے ہیں
تخت گرتے ہیں تو یاد آتی ہے اپنی ورنہ

ہم فقیروں کی کہاں شاہ جہاں سنتے ہیں
بیٹھ کر ہم بھی ذرا ذاتِ حرا میں منصور
وہ جو آواز ہے سینے میں نہاں، سنتے ہیں
٭
رات کا شور، اندھیروں کی زباں سنتے ہیں

نور کے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں
ایک سقراط نے زنجیر بپا آنا ہے

دوستو آئو عدالت میں بیاں سنتے ہیں
کیوں پلٹتی ہی نہیں کوئی صدا کوئی پکار

یہ تو طے تھا کہ مرے چارہ گراں سنتے ہیں
اب بدلنی ہے شب و روز کی تقویم کہ لوگ

شام کے وقت سویرے کی اذاں سنتے ہیں
ایسے منفی تو لب و دیدہ نہیں ہیں اس کے

کچھ زیادہ ہی مرے وہم و گماں سنتے ہیں
بات کرتی ہے ہوا میری نگہ سے منصور
اور رک رک کے مجھے آبِ رواں سنتے ہیں
٭
کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں

تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں
عجیب رابطہ اپنے وجود رکھتے تھے

نکل کے تجھ سے تو خود میں بھی ہم رہے نہ کہیں
اسے تو پردے کے پیچھے بھی خوف ہے کہ مری

نظر نقاب پہ چہرہ لکیر لے نہ کہیں
بس اس خیال سے منزل پہن لی پائوں نے

ہمارے غم میں زمانہ سفر کرے نہ کہیں
تمام عمر نہ دیکھا بری نظر سے اسے

یہ سوچتے ہوئے دنیا برا کہے نہ کہیں
اے آسمان! ذرا دیکھنا کہ دوزخ میں

گرے پڑے ہوں زمیں کے مراسلے نہ کہیں
ڈرا دیا کسی خودکُش خیال نے اتنا

ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں
کئی دنوں سے اداسی ہے اپنے پہلو میں

ہمارے بیچ چلے آئیں دوسرے نہ کہیں
ہر اک مقام پہ بہکی ضرور ہیں نظریں

تری گلی کے علاوہ قدم رکے نہ کہیں
ہم اپنی اپنی جگہ پر سہی اکائی ہیں

ندی کے دونوں کنارے کبھی ملے نہ کہیں
ترے جمال پہ حق ہی نہیں تھا سو ہم نے

کیے گلاب کے پھولوں پہ تبصرے نہ کہیں
کبھی کبھار ملاقات خود سے ہوتی ہے

تعلقات کے پہلے سے سلسلے نہ کہیں
ہر ایک آنکھ ہمیں کھینچتی تھی پانی میں

بھلا یہ کیسے تھا ممکن کہ ڈوبتے نہ کہیں
اداس چاندنی ہم سے کہیں زیادہ تھی

کھلے دریچے ترے انتظار کے نہ کہیں
بس ایک زندہ سخن کی ہمیں تمنا ہے

بنائے ہم نے کتابوں کے مقبرے نہ کہیں
بدن کو راس کچھ اتنی ہے بے گھری اپنی

کئی رہائشیں آئیں مگر رہے نہ کہیں
دھواں اتار بدن میں حشیش کا منصور
یہ غم کا بھیڑیا سینہ ہی چیر دے نہ کہیں
٭
پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں

پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں
جانتا ہوں منافقت کے گُر

شہر میں معتبر رہا ہوں میں
رابطے سانپ بنتے جاتے تھے

رخنے مٹی سے بھر رہا ہوں
رات کچھ اور انتظار مرا

آسماں پر ابھر رہا ہوں میں
ایک اندھا کنواں ہے چاروں اور

زینہ زینہ اتر رہا ہوں میں
آخری بس بھی جانے والی ہے

اور تاخیر کر رہا ہوں میں
ساتھ چھوڑا تھا جس جگہ تُو نے

بس اسی موڑ پر رہا ہوں میں
جانتا ہے تُو میری وحشت بھی

تیرے زیرِ اثر رہا ہوں میں
تتلیاں ہیں مرے تعاقب میں

کیسا گرمِ سفر رہا ہوں میں
کچھ بدلنے کو ہے کہیں مجھ میں
خود سے منصور ڈر رہا ہوں میں
٭
ہم چوک چوک سرخ اشاروں میں قید ہیں

قانون کے جدید دیاروں میں قید ہیں
جنگل میں لومڑی کی شہنشاہی ان دنوں

بیچارے شیر اپنے کچھاروں میں قید ہیں
یہ سبز میز پوش پہ بکھرے ہوئے خیال

دراصل چند فرضی بہاروں میں قید ہیں
بے حد و بے کراں کا تصور بجا مگر

سارے سمندر اپنے کناروں میں قید ہیں
منصور زر پرست ہیں فالج زدہ سے جسم
یہ لوگ زرق برق سی کاروں میں قید ہیں
٭
آخرِ شب کی بے کلی اور میں

تیرا وعدہ تری گلی اور میں
دل سے اٹھتے ہوئے دھویں کے قریب

ایک لکڑی سی ادھ جلی اور میں
منتظر ہیں جنابِ جبرائیل

گفتگو میں مگن علی اور میں
رات کو کاٹتے ہیں چاقو سے

شہر کی ایک باولی اور میں
شام کے ساتھ ساتھ بہتے تھے

ایک سپنے میں سانولی اور میں
عارض و لب کی دلکشی اور لوگ

ایک تصویر داخلی اور میں
حاشیوں سے نکلتا اک چہرہ
چند ریکھائیں کاجلی اور میں
٭
مائی بھاگی کی گائیکی اور میں

رو رہے ہیں سرائیکی اور میں
مسکراہٹ سے کانپ جاتے ہیں

میری افسردہ سائیکی اور میں
آم کے پیڑ لے کے پھرتا ہوں

ایک کوٹھی کرائے کی اور میں
کتنے کپڑوں کے جوڑے لے آیا

اس نے دعوت دی چائے کی اور میں
زلف کی دوپہر کے سائے میں

شام عبرت سرائے کی اور میں
کتنی صدیوں سے ہوں تعاقب میں
ایک آواز سائے کی اور میں
٭
آسماں کی برابری اور میں

رو پڑے میری کافری اور میں
چار سو ہیں دعا کے گلدستے

بیچ میں آخری جری اور میں
لفظ کی بے بسی کی بستی میں

چشم و لب کی سخن وری اور میں
اپنی اپنی تلاش میں گم ہیں

عمر بھر کی مسافری اور میں
مر گئے اختتام سے پہلے

اک کہانی تھی متھ بھری اور میں
کچھ نہیں بانٹتے تناسب سے

میرا احساس برتری اور میں
ایک فیری کے خالی عرشے پر

رقص کرتی تھی جل پری اور میں
فہمِ منصور سے تو بالا ہے
یہ تری بندہ پروری اور میں
٭
ریگِ صحرا کی سنسنی اور میں

اک تھکی ہاری اونٹنی اور میں
تیرے نقش قدم کی کھوج میں ہیں

آج بھی تھل میں چاندنی اور میں
تیرا کمرہ، دہکتی انگیٹھی

برف پروردہ روشنی اور میں
چند فوٹو گراف آنکھوں کے

دیکھتے ہیں شگفتنی اور میں
لائٹیں آف، لائنیں انگیج

ایک کمرے میں کامنی اور میں
گنگ بیٹھا ہوا ہوں پہروں سے
ایک تصویر گفتنی اور میں
٭
اک لباسِ نمائشی اور میں

تازہ چھلکوں کی دلکشی اور میں
ایک اجڑی ہوئی گلی میں چپ

کچھ پرانے رہائشی اور میں
جانے کس سمت چلتے جاتے ہیں

قبر سی رات، خامشی اور میں
خاک کی جستجو میں پھرتے ہیں

ایک اڑتا ہوا رشی اور میں
نامراد آئے کوچہء جاں سے

میرا ہر اک سفارشی اور میں
اپنے اپنے محاذ پر منصور
ایک ملعون سازشی اور میں
٭
غم کی تقریبِ ملتوی اور میں

ایک مرحوم آدمی اور میں
اک پہاڑی درے میں مل بیٹھے

شہر والوں کا ایلچی اور میں
اپنا ماضی تلاش کرتے ہیں

تیری آنکھوں میں زندگی اور میں
بات کرتی ہوئی اندھیرے سے

ایک لڑکی حرام کی اور میں
اپنی بستی کے گارہاہوںگیت

اینٹ سے اینٹ بج چکی اور میں
پڑھ رہا ہوں کتابِ دل منصور
وقت کی آنکھ لگ گئی اور میں
٭
تاریخ ساز ’’لوٹ‘‘ کوئی دیکھتا نہیں

بندوق کے سلوٹ کوئی دیکھتا نہیں
رقصاں ہیں ایڑیوں کی دھنوں پر تمام لوگ

کالے سیاہ بوٹ کوئی دیکھتا نہیں
انصاف گاہ ! تیرے ترازو کے آس پاس

اتنا سفید جھوٹ کوئی دیکھتا نہیں
چکلالہ چھائونی کی طرف ہے تمام رش

اسلام آباد روٹ کوئی دیکھتا نہیں
طاقت کے آس پاس حسینائوں کا ہجوم

میرا عوامی سوٹ کوئی دیکھتا نہیں
سب دیکھتے ہیں میری نئی کار کی طرف
چہرے کی ٹوٹ پھوٹ کوئی دیکھتا نہیں
٭
وہ آنجہانی پائوں وہ مرحوم ایڑیاں

رقاصہ کی دکھائی دیں منظوم ایڑیاں
ہر انچ دکھ پڑے ہیں گئی گزری دھول کے

ہر فٹ زمیں کے ماتھے کا مقسوم ایڑیاں
ہر روز تارکول کی سڑکیں بناتی ہیں

ہاری ہوئی پھٹی ہوئی محروم ایڑیاں
غالب تھا ہمسفر سو اذیت بہت ہوئی

کہتی ہیں دو اٹھی ہوئی مظلوم ایڑیاں
سنگیت کے بہائو پہ شاید صدا کا رقص

گوگوش کی سٹیج پہ مرقوم ایڑیاں
پیاسا کہیں فرات کا ساحل پڑا رہے

چشمہ نکال دیں کہیں معصوم ایڑیاں
چلنے لگے ہیں پنکھے ہوائوں کے دشت میں

ہونے لگی ہیں ریت پہ معدوم ایڑیاں
پاتال کتنے پائوں ابھی اور دور ہیں

ہر روز مجھ سے کرتی ہیں معلوم ایڑیاں
لکھنے ہیں نقشِ پا کسی دشتِ خیال میں

تانبا تپی زمین ! مری چوم ایڑیاں
منصور میرے گھر میں پہنچتی ہیں پچھلی رات
اڑتی ہے جن سے دھوپ وہ مخدوم ایڑیاں
٭
اِدھر نہ آئیں ہوائوں سے کہہ رہا ہوں میں

کہ راکھ راکھ تعلق میں رہ رہا ہوں میں
طلوعِ وصل کی خواہش بھی تیرہ بخت ہوئی

فراقِ یار کے پہلو میں گہہ رہا ہوں میں
مرا مزاج اذیت پسند ہے اتنا

ابھی جو ہونے ہیں وہ ظلم سہہ رہا ہوں میں
یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے

کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں
مجھے بھلانے کی کوشش میں بھولتے کیوں ہو

کہ لاشعور میں بھی تہہ بہ تہہ رہا ہوں میں
گھروں کے بیچ اٹھائی تھی جو بزرگوں نے

کئی برس سے وہ دیوار ڈھ رہا ہوں میں
کنارِ اشکِ رواں توڑ پھوڑ کر منصور
خود آپ اپنی نگاہوں سے بہہ رہا ہوں میں
٭
بارش سے سائیکی کے سخن دھو رہا ہوں میں

بادل کے ساتھ ساتھ یونہی رو رہا ہوں میں
دیکھا ہے آج میں نے بڑا دلربا سا خواب

شاید تری نظر سے رہا ہو رہا ہوں میں
اچھے دنوں کی آس میں کتنے برس ہوئے

خوابوں کے آس پاس کہیں سو رہا ہوں میں
میں ہی رہا ہوں صبح کی تحریک کا سبب

ہر دور میں رہینِ ستم گو رہا ہوں میں
لایا ہے کوئی آمدِ دلدار کی نوید

اور بار بار چوم کسی کو رہا ہوں میں
ابھرے ہیں میری آنکھ سے فرہنگِ جاں کے رنگ
تصویر کہہ رہی ہے پکاسو رہا ہوں میں
٭
سرکا دیا نقاب کو کھڑکی نے خواب میں

سورج دکھائی دے شبِ خانہ خراب میں
تجھ ایسی نرم گرم کئی لڑکیوں کے ساتھ

میں نے شبِ فراق ڈبو دی شراب میں
آنکھیں، خیال، خواب، جوانی، یقین، سانس

کیا کیا نکل رہا ہے کسی کے حساب میں
قیدی بنا لیا ہے کسی حور نے مجھے

یوں ہی میں پھر رہا تھا دیار ثواب میں
مایوس آسماں ابھی ہم سے نہیں ہوا

امید کا نزول ہے کھلتے گلاب میں
دیکھوں ورق ورق پہ خدوخال نور کے

سورج صفت رسول ہیں صبحِ کتاب میں
سیسہ بھری سماعتیں بے شک مگر بڑا
شورِ برہنگی ہے سکوتِ نقاب میں
٭
جسم پر نقش گئے وقت کے آئے ہوئے ہیں

عمر کی جیپ کے ٹائر تلے آئے ہوئے ہیں
ہم سمجھتے ہیں بہت، لہجے کی تلخی کو مگر

تیرے کمرے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں
دیکھ مت بھیج یہ میسج ہمیں موبائل پر

ہم کہیں دور بہت روٹھ کے آئے ہوئے ہیں
ہم نہیں جانتے روبوٹ سے کچھ وصل وصال

ہم ترے چاند پہ شاید نئے آئے ہوئے ہیں
پھر پگھلنے کو ہے بستی کوئی ایٹم بم سے

وقت کی آنکھ میں کچھ سانحے آئے ہوئے ہیں
ڈھونڈنے کے لیے گلیوں میں کوئی عرش نشیں

تیرے جیسے تو فلک سے بڑے آئے ہوئے ہیں
ہم سے چرواہوں کو تہذیب سکھانے کے لیے
کیا کریں اپنی رندھی ، زرد ، فسردہ آواز
تجھ سے کچھ لینا نہیں ، دیکھ ! پریشان نہ ہو
تھوڑی تھوڑی سی خوشی بانٹنے والے شاید
اتنا کافی ہے تجھے بات سمجھنے کیلئے

دشت میں شہر سے کچھ بھیڑیے آئے ہوئے ہیں
غول کے غول یہاں بھونکنے آئے ہوئے ہیں
ہم یہاں گزری رتیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں
کوئی تبدیلی بڑی روکنے آئے ہوئے ہیں
ہم یہاں آئے نہیں ہیں بھلے آئے ہوئے ہیں
ہم محبت کے کھلاڑی ہیں سنوکر کے نہیں
کھیل منصور یونہی کھیلنے آئے ہوئے ہیں
٭
تیرے دن جو مری دہلیز پہ آنے لگ جائیں

ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں
سچ نکلتا ہی نہیں لفظ کے گھر سے ورنہ

چوک میں لوگ کتابوں کو جلانے لگ جائیں
یہ عجب ہے کہ مرے بلب بجھانے کے لیے

آسماں تیرے ستاروں کے خزانے لگ جائیں
خوبصورت بھی، اکیلی بھی، پڑوسن بھی ہے

لیکن اک غیر سے کیاملنے ملانے لگ جائیں
نیک پروین ! تری چشمِ غلط اٹھتے ہی

مجھ میں کیوں فلم کے سنسر شدہ گانے لگ جائیں
پل کی ریلنگ کو پکڑ رکھا ہے میں نے منصور
بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں
٭
کھلا گیا کوئی آسیب زار کمرے میں

سنائی دیتا ہے اب تک گٹار کمرے میں
یہ شیمپین یہ کینڈل یہ بے شکن بستر

پڑا ہوا ہے ترا انتظار کمرے میں
یہ رات کتنے نصیبوں کے بعد آئی ہے

ذرا ذرا اسے دن بھر گزار کمرے میں
دکھائی دی تھی مجھے ایک بار پرچھائیں

پلٹ پلٹ کے گیا بار بار کمرے میں
جو میں نے کروٹیں قالین پر بچھائی تھیں

وہ کر رہی ہے انہیں بھی شمار کمرے میں
تمام رات تعاقب کریں گی دیواریں

نہیں ہے قید سے ممکن فرار کمرے میں
چھپا رہا تھا کسی سے دھویں میں اپنا آپ
میں پی رہا تھا مسلسل سگار کمرے میں
٭
کون ٹینس کھیلتی جاتی تھی وجد و حال میں

کورٹ سمٹا جا رہا تھا اک ذرا سی بال میں
جانے کس نے رات کا خاکہ اڑایا اس طرح

چاند کا پیوند ٹانکا اس کی کالی شال میں
ایک کوا پھڑ پھڑا کر جھاڑتا تھا اپنے پر

تھان لٹھے کے بچھے تھے دور تک چترال میں
لوگ مرتے جا رہے تھے ساحلوں کی آس پر

نائو آتی جا رہی تھی پانیوں کے جال میں
کوئی پتھر کوئی ٹہنی ہاتھ آتی ہی نہیں

گر رہا ہوں اپنے اندر کے کسی پاتال میں
جن گناہوں کی تمنا تنگ کرتی تھی مجھے

وہ بھی ہیں تحریر میرے نامہء اعمال میں
میں نے یہ منصور دیکھا اس سے مل لینے کے بعد
اپنی آنکھیں بچھ رہی تھیں اپنے استقبال میں
٭
باقی سب چیزیں تو رکھی ہیں اٹیچی کیس میں

میں جوانی بھول آیا ہوں کہیں پردیس میں
زندگی کی دوڑ ہے اور دوڑنا ہے عمر بھر

شرط گھوڑا جیت سکتا ہی نہیں ہے ریس میں
رقص کرتی لڑکیاں میوزک میں تیزی اور شراب

نیکیاں ملتی ہیں مجھ سے کیوں بدی کے بھیس میں
میں برہنہ گھومتا تھا ہجر کی فٹ پاتھ پر

رات جاڑے کی اکیلی سو گئی تھی کھیس میں
کیوں بدلتا جا رہا ہے روح کا جغرافیہ
کون سرحد پار سے آیا بدن کے دیس میں
٭
بلا کا ضبط تھا دریا نے کھو دیا مجھ میں

مجھے جو ولولے دیتا تھا رو دیا مجھ میں
شبِ سیاہ کہاں سے رگوں میں آئی ہے

تڑپ رہا ہے کوئی آج تو دیا مجھ میں
عجیب کیف تھا ساقی کی چشم رحمت میں

شراب خانہ ہی سارا سمو دیا مجھ میں
رکھا ہے گنبدِ خضرا کے طاق میں شاید

بلا کی روشنی کرتا ہے جو دیا مجھ میں
ہزار درد کے اگتے رہے شجر منصور
کسی نے بیج جو خواہش کا بو دیا مجھ میں
٭
من و سلویٰ لیے ا فلاک سے بم گرتے ہیں

شہر میں گندم و بارود بہم گرتے ہیں
فتح مندی کی خبر آتی ہے واشنگٹن سے

اور لاہور کے ۸۷یہر روز علم گرتے ہیں
زرد پتے کی کہانی تو ہے موسم پہ محیط

ٹوٹ کے روز کہیں شاخ سے ہم گرتے ہیں
رقص ویک اینڈ پہ جتنا بھی رہے تیز مگر

طے شدہ وقت پہ لوگوں کے قدم گرتے ہیں
شہر کی آخری خاموش سڑک پر جیسے

میرے مژگاں سے سیہ رات کے غم گرتے ہیں
جانے کیا گزری ہے اس دل کے صدف پر منصور
ایسے موتی تو مری آنکھ سے کم گرتے ہیں
٭
اور جینے کا سبب کوئی نہیں

پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں
صرف اک جاں سے گزرنا ہے مجھے

مجھ سا بھی سہل طلب کوئی نہیں
خواہشِ رزق درندوں کی طرح

جیسے اس شہر کا رب کوئی نہیں
وقت کیفیتِ برزخ میں ہے

کوئی سورج، کوئی شب، کوئی نہیں
ایک تعزیتی خاموشی ہے
وصل کی رات بھی تنہا میں تھا

شہر میں مہر بلب کوئی نہیں
میرے جیسا بھی عجب کوئی نہیں
کیوں گزرتا ہوں وہاں سے منصور
اس گلی میں مرا جب کوئی نہیں
٭
تیرا چہرہ کیسا ہے میرے دھیان کیسے ہیں

یہ بغیر تاروں کے بلب آن کیسے ہیں
خواب میں اسے ملنے کھیت میں گئے تھے ہم

کارپٹ پہ جوتوں کے یہ نشان کیسے ہیں
بولتی نہیں ہے جو وہ زبان کیسی ہے

یہ جو سنتے رہتے ہیں میرے کان کیسے ہیں
روکتے ہیں دنیا کو میری بات سننے سے

لوگ میرے بارے میں بد گمان کیسے ہیں
قطعہ
کیا ابھی نکلتا ہے ماہ تاب گلیوں میں

کچھ کہو میانوالی آسمان کیسے ہیں
کیا ابھی محبت کے گیت ریت گاتی ہے

تھل کی سسی کیسی ہے پنوں خان کیسے ہیں
کیا قطار اونٹوں کی چل رہی ہے صحرا میں

گھنٹیاں سی بجتی ہیں، ساربان کیسے ہیں
چمنیوں کے ہونٹوں سے کیا دھواں نکلتا ہے

خالی خالی برسوں کے وہ مکان کیسے ہیں
دیکھتا تھا رم جھم سی بیٹھ کر جہاں تنہا

لان میں وہ رنگوں کے سائبان کیسے ہیں
اب بھی وہ پرندوں کو کیا ڈراتے ہیں منصور
کھیت کھیت لکڑی کے بے زبان کیسے ہیں
٭
میں اپنی فیملی کے ساتھ کچھ دن… پُر سکوں کچھ دن

سمندر کے کنارے ایک کاٹج میں رہوں کچھ دن
کہیں ڈھلتی ہوئی شب کو بھی ورزش کی ضرورت ہے

میں اپنے دوستوں کے ساتھ جاگنگ چھوڑ دوں کچھ دن
ابھی کچھ دن پلیٹوں میں رکھوں جذبے قیامت کے

سلاخوں میں دہکتے گوشت پر نظمیں لکھوں کچھ دن
مرے ہم عصر پیرس اب اداسی چھوڑ دے اپنی

جدا ہونا تو ہے لیکن ابھی میں اور ہوں کچھ دن
ابھی اس لمس تک شاید کئی ہفتوں کا رستہ ہے

رگوں میں تیز رہنی ہے ابھی رفتارِ خوں کچھ دن
بدن کے شہر کو جاتی سڑک پہ کوئی خطرہ ہے ؟

مجھے حیرت سرائے روح میں رہنا ہے کیوں کچھ دن
بہت ہی سست ہیں نبضیں مرے شہرِ نگاراں کی
اضافہ خود سری میں کچھ، چلے رسمِ جنوں کچھ دن
٭
میں موسیٰ میں فرعون

ہے علم مجھے میں کون
میں ازلوں سے موجود

میں کُن کا آواگون
میں آپ خداکا ہاتھ

میںآپ الہی عون
پوری کب کوئی چیز

ہر ایک حقیقت پون
لیکھ بھوانی جنگشن

وقت پرانا بھون
شاعر ہوسکتا تھا

بدقسمت بھائی جون
میں بلھا میں منصور
میں کون سنو میں کون
٭
ایٹمی جنگ میں سوختہ خواب تسخیر کے ہیں

خوف دونوں طرف ایک لمحے کی تا خیر کے ہیں
وقت کی گیلری میں مکمل ہزاروں کی شکلیں

صرف ٹوٹے ہوئے خال و خد میری تصویر کے ہیں
شہر بمبار طیارے مسمار کرتے رہیں گے

شوق دنیا کو تازہ مکانوں کی تعمیر کے ہیں
ایک مقصد بھری زندگی وقت کی قید میں ہے

پائوں پابند صدیوں سے منزل کی زنجیر کے ہیں
ایک آواز منصور کاغذ پہ پھیلی ہوئی ہے
میرے سناٹے میں شور خاموش تحریر کے ہیں
٭
سبز سر چھیڑ خشک سالی میں

چوڑیاں ڈال مردہ ڈالی میں
کوئی دریا گرا تھا پچھلی شب

تیری کچی گلی کی نالی میں
لمس ہے تیرے گرم ہونٹوں کا

ویٹرس… چائے کی پیالی میں
جو ابھی ہونا ہے پڑوسن نے

واقعہ لکھ دیا ہے گالی میں
اپنے دانتوں سے کس لیے ناخن

کاٹتا ہوں میں بے خیالی میں
وہ چہکتی ہے میرے مصرعے میں

میں دمکتا ہے اس کی بالی میں
بھوک بہکی ہوئی تھی برسوں کی

 اور چاول تھے گرم ، تھالی میں
گم ہے دونوں جہاں کی رعنائی

سبزروضے کی جالی جالی میں
عمر ساری گزار دی منصور
خواہشِ ساعتِ وصالی میں
٭
قرباں جواہرات پہ ہیں، زر پرست ہیں

یہ برگزیدہ لوگ بھی پتھر پرست ہیں
کچھ ہیں اسیرِ عشوہ ِحسنِ سفید فام

باقی جو اہل ِ زرہیں وہ ڈالر پرست ہیں
تجھ سے معاملہ نہیں اپنا، ہوائے شام

پانی ہیں ہم ، ازل سے سمندر پرست ہیں
ہم دوپہر میں مانتے سورج کو ہیں خدا

صحرا کی سرد رات میںاختر پرست ہیں
الٹا ئیںجن کا نام تو لکھیں وہاب ہم

تنظیمِ اسم ذات کے وہ سرپرست ہیں
منصور جبر و قدر کی ممکن نہیں ہے بحث
ہم بولتے نہیں ہیں ، مقدر پرست ہیں
٭
اوڑھ لیتی ہیں ستاروں کا لبادہ آنکھیں

اب تو کرتیں ہی نہیں خواب کا وعدہ آنکھیں
کوئی گستاخ اشارہ نہ کوئی شوخ نگہ

اپنے چہرے پہ لیے پھرتا ہوں سادہ آنکھیں
دھوپ کا کرب لیے کوئی افق پر ابھرا

اپنی پلکوں میں سمٹ آئیں کشادہ آنکھیں
ایک دہلیز پہ رکھا ہے ازل سے ماتھا

ایک کھڑکی میں زمانوں سے ستادہ آنکھیں
آنکھ بھر کے تجھے دیکھیں گے کبھی سوچا تھا

اب بدلتی ہی نہیں اپنا ارادہ آنکھیں
شہر کا شہر مجھے دیکھ رہا ہے منصور
کم تماشا ہے بہت اور زیادہ آنکھیں
٭
تم ایسے لوگوں کا رستہ میں چھوڑ دیتا ہوں

پر اپنے ساتھ گلی کو بھی موڑ دیتا ہوں
 میں اس مقام پہ پہنچا ہوں عشق میں کہ جہاں

فراق و وصل کو آپس میں جوڑ دیتا ہوں
مجھے مزاج کی وحشت نے فتح مند رکھا

کہ ہار جائوں تو سر اپنا پھوڑ دیتا ہوں
 ابھی دھڑکتا ہے دل بھیڑیے کے سینے میں

ابھی غزال پکڑتا ہوں، چھوڑ دیتا ہوں
ڈرا ہوا ہوں میں اپنے مزاج سے منصور
جو میری ہو نہ سکے، شے وہ توڑ دیتا ہوں
٭
یاد کے گلی میں دو اجنبی مسافر ہیں

میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافر ہیں
گھر میں کمپیوٹر کی صرف ایک کھڑکی ہے

ورنہ قیدیوں کے دل ہر گھڑی مسافر ہیں
چند ٹن بیئر کے ہیں چند چپس کے پیکٹ

رات کی سڑک ہے اور ہم یونہی مسافر ہیں
کون ریل کو سگنل لالٹین سے دے گا

گائوں کے سٹیشن پر اک ہمی مسافر ہیں
نیند کے جزیرے پر، آنکھ کی عمارت میں

اجنبی سے لگتے ہیں، یہ کوئی مسافر ہیں
شب پناہ گیروں کے ساتھ ساتھ رہتی ہے

روشنی کی بستی میں ہم ابھی مسافر ہیں
اور اک سمندر سا پھر عبور کرنا ہے

خار و خس کی کشتی ہے کاغذی مسافر ہیں
چند اور رہتے ہیں دھوپ کے قدم منصور
شام کی گلی کے ہم آخری مسافر ہیں
٭
گھلی تھی ایک ویراں چرچ کی گھمبیر تا رب میں

مگر دو ہاتھ پیچھے دیویوں کا رقص تھا پب میں
خدا جانے کہانی کار کتنا دلربا ہو گا

عجب رومان پرور لمس کی دھڑکن ہے مذہب میں
مجھے اکثر وہ ہجراں کی سیاہی میں دکھائی دی

سلگتے گھائو کی صورت ہے کوئی سینہء شب میں
خدا کے قید خانے سے کوئی باہر نہیں نکلا

اگرچہ ہے بلا کی قوتِ پرواز ہم سب میں
ازل کی شام سے آنکھیں کسی کی خوبصورت ہیں
رکا ہے وقت صدیوں سے کسی کے عارض و لب میں
٭
مخبری کے غیر مرئی ڈاکیے موجود ہیں

جسم کی ہر اک سڑک پر کیمرے موجود ہیں
کھل نہیں سکتے اگر بابِ نبوت کے کواڑ

سینکڑوں جبریل مجھ میں کس لیے موجود ہیں
بس صدا ڈی کوڈ کرنی ہے خموشی کی مجھے

کتنے سگنل عرش سے آئے ہوئے موجود ہیں
چاند شاید پیڑ کی شاخوں میں الجھا ہے کہیں

صحن میں کچھ روشنی کے شیڈ سے موجود ہیں
قیمتی سوٹوں کی جلسہ گاہ میں خاموش رہ

کرسیوں پر کیسے کیسے نابغے موجود ہیں
کھول کر اپنے گریباں کے بٹن ہم سرفروش
موت کی بندوق کے پھر سامنے موجود ہیں
٭
ذہن میں جمع ڈر کیے جائیں

آسماں معتبر کیے جائیں
جتنے لمحے بھی ہو سکیں ممکن

روشنی میں بسر کیے جائیں
پھول جیسے قلم قیامت ہیں

وار ، تلوار پر کئے جائیں
موسم آنے پہ باغ میں روشن

قمقموں سے شجر کیے جائیں
آسمانوں کو جاننے کے لیے
حیف ! بدنامیاں محبت میں

اپنے پاتال سر کیے جائیں
چاک سب پوسٹر کئے جائیں
وقت کے سائیکل پہ ہم منصور
اک کنویں میں سفر کیے جائیں
٭
شعر کچھ موت پر کہے جائیں

شام کے شعلے بھی گنے جائیں
اس سے، آٹو گراف بک پہ نہیں

دستخط ہاتھ پر لیے جائیں
رفتگاں کا خیال آتا ہے

روح سے رابطے کئے جائیں
ہم کوگوتم بھی زخم دیتا ہے

شاردا سے کہاں پرے جائیں
پانیوں کو زمیں پہ آنا ہے

جتنی اونچائی پر چلے جائیں
دو وجودوں کی ایک آہٹ سے

خواب کچھ ریت پر بنُے جائیں
بانسری کی سریں کہیں منصور
گیت  دریا کے بھی سنے جائیں
٭
خاک پر آسماں ہوئے جائیں

نظم میں ہم بیاں ہوئے جائیں
دل نے خوشبو کشید کرلی ہے

ہم کہاں رائیگاں ہوئے جائیں
تتلیوں کے پروں پہ لکھے ہم

وقت کی داستاں ہوئے جائیں
گفتگو کی گلی میں ہم اپنی

خامشی سے عیاں ہوئے جائیں
مسجدِ دل کی خالی چوکھٹ پر

ہم عشاء کی اذاں ہوئے جائیں
اُس مکیں کی امید پر منصور
ہم سراپا مکاں ہوئے جائیں
٭
جہاں ازل بھی ابد بھی ،اک ایسے باغ میں ہوں

پڑا ملنگِ علی کے دلِ فراغ میں ہوں
میں جاودانی کا پانی ، میں جرعہِ آبِ حیات

یہ اور بات کہ ٹوٹے ہوئے ایاغ میں ہوں
ستارہ ، قمقمہ ، جگنو ، دیا ہے میرا نام

میں کائنات ِ سیہ کے ہر اک داغ میں ہوں
مری طرف بھی نظر کر ، مجھے بھی دیکھ کہ میں

 ترے مزار کے جلتے ہوئے چراغ میں ہوں
اندھیرے خوف زدہ ہیں مری شہادت سے

کھٹکتا رہتا سدا رات کے دماغ میں ہوں
میں دوپہر کے تسلسل کا سوختہ منصور
چراغ لے کے کسی رات کے سراغ میں ہوں
٭
کھڑکیاں بدلتی ہیں ، در بدلتے رہتے ہیں

یعنی ماہتابوں کے گھر بدلتے رہتے ہیں
موسموں کی تبدیلی معجزے دکھاتی ہے

جسم ایک رہتا ہے سر بدلتے رہتے ہیں
وہ بچھڑ بھی سکتا ہے، میں بدل بھی سکتا ہوں

 کیا کریں محبت کے ڈر بدلتے رہتے ہیں
کائنات کا پنجرہ کوئی در نہیں رکھتا

اور ہم پرندوں کے پر بدلتے رہتے ہیں
ارتقاء کے پردے میں کیا عجیب صورت ہے
ہم نہیں بدل سکتے، پر، بدلتے رہتے ہیں
٭
یونہی ہم بستیوں کو خوبصورت تر بناتے ہیں

جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں
بنا کر فرش سے بستر تلک ٹوٹی ہوئی چوڑی

گذشتہ رات کا تصویر میں منظر بناتے ہیں
لکھا ہے اس نے لکھ بھیجو شبِ ہجراں کی کیفیت

چلو ٹھہرے ہوئے دریا کو کاغذ پر بناتے ہیں
سمندر کے بدن جیسا ہے عورت کا تعلق بھی

لہو کی آبدوزوں کے سفر گوہر بناتے ہیں
مکمل تجربہ کرتے ہیں ہم اپنی تباہی کا

کسی آوارہ دوشیزہ کو اب دلبر بناتے ہیں
شرابوں نے دیا سچ بولنے کا حوصلہ منصور
غلط موسم مجھے کردار میں بہتر بناتے ہیں
٭
ابھی تو شاخ سے اپنی، جدا ہوا ہوں میں

ابھی نہ مجھ پہ شجر رو ‘ ابھی ہرا ہوں میں
یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے

کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں
وصالِ زانوئے جاناں کے انتظار میں رات

خود اپنے ہاتھ پہ سر رکھ کے سو گیا ہوں میں
لہو میں دوڑتی پھرتی ہے لمس کی خوشبو

تیر ے خیال سے شاید گلے ملا ہوں میں
ستم کہ جس کی جدائی میں بجھ رہا ہے بدن

اسی چراغ کی مانگی ہوئی دعا ہوں میں
یہ المیہ نہیں سورج مقابلے پر ہے

یہ المیہ ہے کہ بجھتا ہوا دیا ہوں میں
پڑے ہوئے ہیں زمانوں کے آبلے منصور
بس ایک رات کسی جسم پر چلا ہوں میں
٭
میرا خیال ہے کوئی پردہ اٹھا ہی دوں

اک مستقل فراق کے پہلو میں کیوں رہوں
مے خانۂ حیات میں محرم کوئی نہیں
سورج کو میری آنکھ بجھا ہی نہ دے کہیں

شاید میں کائنات کا پہلا شعور ہوں
پروردگارِ دشت ہوں پیغمبرِ جنوں
دن بھر تلاش کرتا ہوں تعبیر کس لیے

ہر رات ایک خواب کے ہوتا ہوں ساتھ کیوں
بستی سے جا رہی ہے پرندوں بھری ٹرام

تُو ساتھ دے اگر تو کہیں میں بھی چل پڑوں
کیوں آنکھ میں سجا کے سمندر کے ولولے

حیرت سے دیکھتا ہوں کسی چاند کا فسوں
کوئی نشانی میری کسی ہاتھ میں تو ہو
منصور کس کو جا کے میں سونے کا رِنگ دوں
٭
کوئی نہیں مجھے جو بتائے میں کیا کروں

چلتا رہوں سڑک پہ ابھی یا کہیں رکوں
ممکن نہیں ہے اس سے کوئی بات ہو سکے

ممکن نہیں ہے اس کا کہیں نام لے سکوں
اس شہرناشناس میں کوئی نہیں مرا

دستک کہاں پہ دوںمیں کسے جا کے کچھ کہوں
کب تک امیدرکھوں کہ اترے گا وہ ابھی

کب تک میں آسماں کی طرف دیکھتا رہوں
آنچل شبِ فراق کا اب کاٹنے لگا

میرا خیال ہے یہ ستارے میں نوچ لوں
بارش ہوا کے دوش پہ کمروں تک آگئی

 گملے برآمدے کے چھپا کر کہاں رکھوں
منصور مشورہ یہی بہتر ہے دھوپ کا
اب شامِ انتظار اٹھا کرمیں پھینک دوں
٭
یزید زاد الگ، کربلا علیحدہ ہیں

ہمارے اور تمہارے خدا علیحدہ ہیں
نمازِ جسم میں کعبہ کی سمت لازم ہے

نمازِ عشق کے قبلہ نما علیحدہ ہیں
مرے فراق کے جلتے ہوئے سیہ موسم

تمہی کہو مری جاں! تم سے کیا علیحدہ ہیں
سمجھ رہی ہو محبت میں وصل کو تعبیر

ہمارے خواب میں کہتا نہ تھا، علیحدہ ہیں
ہماری دھج کو نظر بھر کے دیکھتے ہیں لوگ

ہجوم شہر میں ہم کج ادا علیحدہ ہیں
سیاہ بختی ٹپکتی ہے ایک تو چھت سے
ترے ستم مری جانِ وفا علیحدہ ہیں
٭
ٹوٹنے والے تارے پر رک جاتے ہیں

آنکھ کے ایک کنارے پر رک جاتے ہیں
وقت کی تیز ٹریفک چلتی رہتی ہے

ہم ہی سرخ اشارے پر رک جاتے ہیں
جب میں سطحِ آب پہ چلتا پھرتا ہوں

دیکھ کے لوگ کنارے پر رک جاتے ہیں
ہم ایسوں کے کون مقابل آئے گا

ہم طوفان کے دھارے پر رک جاتے ہیں
روز نکلتے ہیں مہتاب نگر میں ہم

لیکن ایک ستارے پر رک جاتے ہیں
اڑتے اڑتے گر پڑتے ہیں آگ کے بیچ
شام کے وقت ہمارے پر رک جاتے ہی
٭
باہر کھڑا ہوں کون و مکاں کے قفس سے میں

دیکھا نکل گیا نا… تری دسترس سے میں
دیکھو یہ پھڑپھڑاتے ہوئے زخم زخم پر

لڑتا رہا ہوں عمر بھر اپنے قفس سے میں
اے دوست جاگنے کی کوئی رات دے مجھے

تنگ آ گیا ہوں نیند کے کارِ عبث سے میں
بے وزن لگ رہا ہے مجھے کیوں مرا وجود

بالکل صحیح چاند پہ اترا ہوں بس سے میں
اک سوختہ دیار کے ملبے پہ بیٹھ کر

انگار ڈھانپ سکتا نہیں خار و خس سے میں
جذبوں کی عمر میں نے مجرد گزار دی
منصور روزہ دار ہوں چودہ برس سے میں
٭
در کوئی جنتِ پندار کا وا کرتا ہوں

آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں
رات اور دن کے کناروں کے تعلق کی قسم

وقت ملتے ہیں تو ملنے کی دعا کرتا ہوں
وہ ترا، اونچی حویلی کے قفس میں رہنا

یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں
پہلے خود آپ بناتا ہوں تماشا اپنا

پھر تماشائی کا کردار ادا کرتا ہوں
پوچھتا رہتا ہوں موجوں سے گہر کی خبریں
کبھی آنکھوں سے بھری راہ گزر مجھ پہ گراں

اشکِ گم گشتہ کا دریا سے پتہ کرتا ہوں
دشت پیمائی کبھی آبلہ پا کرتا ہوں
مجھ سے منصور کسی نے تو یہ پوچھا ہوتا
ننگے پائوں میں ترے شہر میں کیا کرتا ہوں
٭
زمانہ… تجھ کو کیا حاصل ہوا قصہ بنانے میں

مری مجذوب خاموشی کو افسانہ بنانے میں
غزل کہنا پڑی ایسے سخن آباد میں مجھ کو

خدا مصلوب ہوتے ہیں جہاں مصرعہ بنانے میں
نجانے کون سے دکھ کی اداسی کا تعلق ہے

مری اس سائیکی کو اتنا رنجیدہ بنانے میں
تجھے دل نے کسی بہتر توقع پر بلایا تھا

لگے ہو تم مسائل اور پیچیدہ بنانے میں
اگر آ ہی گئے ہو تو چلو آئو یہاں بیٹھو

ذرا سی دیر لگنی ہے مجھے قہوہ بنانے میں
کسے معلوم کیا کیا کر دیا قربان آنکھوں نے

یہ تنہائی کی آبادی، یہ ویرانہ بنانے میں
مری صبح منور کی جسے تمہید بننا تھا

کئی صدیاں لگا دی ہیں وہ اک لمحہ بنانے میں
کہاں سے آ گئی اتنی لطافت جسم میں میرے

شبیں ناکام پھرتی ہیں مرا سایہ بنانے میں
کھڑا ہے لاش پر میری وہ کیسی تمکنت کے ساتھ

جسے تکلیف ہوتی تھی مجھے زینہ بنانے میں
مرے منزل بکف جن پہ تُو طعنہ زن دکھائی دے

یہ پائوں کام آئے ہیں ترا رستہ بنانے میں
مجھ ایسے آسماں کو گھر سے باہر پھینکنے والو

ضرورت چھت کی پڑتی ہے کوئی کمرہ بنانے میں
کہیں رہ جاتی تھیں آنکھیں کہیں لب بھول جاتا تھا

بڑی دشواریاں آئیں مجھے چہرہ بنانے میں
پلٹ کر دیکھتے کیا ہو۔ صفِ دشمن میں یاروں کو

بڑے ماہر ہیں اپنے دل کو یہ کوفہ بنانے میں
کسی کرچی کے اندر کھو گیا میرا بدن مجھ سے

جہانِ ذات کو اک آئینہ خانہ بنانے میں
مٹھاس ایسے نہیں آئی مرے الفاظِ تازہ میں

لگی ہے عمر مجھ کو دودھ کا چشمہ بنانے میں
بڑا دل پھینک ہے یہ دل بڑی آوارہ آنکھیں ہیں

کوئی عجلت ہوئی شاید دل و دیدہ بنانے میں
کسی ہجرِ مسلسل کا بڑا کردار ہے منصور

محبت کی کہانی اتنی سنجیدہ بنانے میں
انا الحق کی صدائوں میں کہیں گم ہو گیا میں بھی

اسے منصور اپنی ذات کا حصہ بنانے میں
مرے ہمزاد اپنا آپ نادیدہ بنانے میں
تجھے کیا مل گیا آنکھوں کو لرزیدہ بنانے میں
نذرِ احمد فراز
صحبتِ قوسِ قزح کا کوئی امکاں جاناں

کوئی دلچسپی، کوئی ربط ِ دل و جاں جاناں
میرے اندازِ ملاقات پہ ناراض نہ ہو

مجھ پہ گزرا ہے ابھی موسمِ ہجراں جاناں
جو مرے نام کو دنیا میں لیے پھرتے ہیں

تیری بخشش ہیں یہ اوراقِ پریشاں جاناں
آ مرے درد کے پہلو میں دھڑک کہ مجھ میں

بجھتی جاتی ہے تری یادِ فروزاں جاناں
تیری کھڑکی کہ کئی دن سے مقفل مجھ پر

جیسے کھلتا نہیں دروازئہ زنداں جاناں
تیری گلیاں ہیں ترا شہر ہے تیرا کوچہ

میں، مرے ساتھ ترا وعدہ و پیماں جاناں
پھر کوئی نظم لٹکتی ہے ترے کعبہ پر

پھر مرے صبر کی بے چارگی عنواں جاناں
ہجر کا ایک تعلق ہے اسے رہنے دے

میرے پہلو میں تری یاد ہراساں جاناں
ہم فرشتوں کی طرح گھر میں نہیں رہ سکتے

ہاں ضروری ہے بہت رشتہء انساں جاناں
زخم آیا تھا کسی اور کی جانب سے مگر

میں نے جو غور کیا تیرا تھا احساں جاناں
اس تعلق میں کئی موڑ بڑے نازک ہیں

اور ہم دونوں ابھی تھوڑے سے ناداں جاناں
دشت میں بھی مجھے خوشبو سے معطر رکھے

دائم آباد رہے تیرا گلستاں جاناں
ویسا الماری میں لٹکا ہے عروسی ملبوس

بس اسی طرح پڑا ہے ترا ساماں جاناں
مجھ کو غالب نے کہا رات فلک سے آ کر

تم بھی تصویر کے پردے میں ہو عریاں جاناں
وہ جو رُوٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے ہیں

بس وہی شعرِ فراز اپنا دبستاں جاناں
روشنی دل کی پہنچ پائی نہ گھر تک تیرے

میں نے پلکوں پہ کیا کتنا چراغاں جاناں
کیا کہوں ہجر کہاں وصل کہاں ہے مجھ میں

ایک جیسے ہیں یہاں شہر و بیاباں جاناں
چھت پہ چڑھ کے میں تمہیں دیکھ لیا کرتا تھا

تم نظر آتی تھی بچپن سے نمایاں جاناں
اک ذرا ٹھہر کہ منظر کو گرفتار کروں

کیمرہ لائے ابھی دیدئہ حیراں جاناں
مانگ کر لائے ہیں آنسو مری چشمِ نم سے

یہ جو بادل ہیں ترے شہر کے مہماں جاناں
لڑکیاں فین ہیں میری انہیں دشنام نہ دے

تتلیاں پھول سے کیسے ہوں گریزاں جاناں
آگ سے لختِ جگر اترے ہیں تازہ تازہ

خانہء دل میں ہے پھر دعوتِ مژگاں جاناں
زخم در زخم لگیں دل کی نمائش گاہیں

اور ہر ہاتھ میں ہے ایک نمکداں جاناں
تھم نہیں سکتے بجز تیرے کرم کے، مجھ میں

کروٹیں لیتے ہوئے درد کے طوفاں جاناں
بلب جلتے رہیں نیلاہٹیں پھیلاتے ہوئے

میرے کمرے میں رہے تیرا شبستاں جاناں
رات ہوتے ہی اترتا ہے نظر پر میری

تیری کھڑکی سے کوئی مہرِ درخشاں جاناں
تُو کہیں بستر کمخواب پہ لیٹی ہو گی
پھر رہا ہوں میں کہیں چاک گریباں جاناں
٭
ویسے ہی تمہیں وہم ہے، افلاک نشیں ہیں

تم لوگ بڑے لوگ ہو، ہم خاک نشیں ہیں
خس خانہ و برفاب کی خواہش نہیں رکھتے

ہم دھوپ صفت لوگ ہیں خاشاک نشیں ہیں
امید بغاوت کی ہم ایسوں سے نہ رکھو

ہم ظلم کے نخچیر ہیں ، فتراک نشیں ہیں
اطراف میں بکھری ہوئی ہے سوختہ بستی

ہم راکھ اڑاتے ہوئے املاک نشیں ہیں
معلوم ہے کیا تم نے کہا ہے پسِ تحریر

اسباقِ خفی ہم کو بھی ادراک نشیں ہیں
کیا کوزہ گری بھول گیا ہے کوئی منصور
ہم لوگ کئی سال ہوئے چاک نشیں ہیں
٭
الفاظ پہن کر ہمی اوراق نشیں ہیں

پروازِ مسلسل میں ہیں، براق نشیں ہیں
یہ بات الگ روشنی ہوتی ہے کہیں اور

ہم مثلِ چراغِ شبِ غم طاق نشیں ہیں
سورج کی طرف دیکھنے والوں کی قسم ہم

اک خوابِ عشاء اوڑھ کے اشراق نشیں ہیں
چاہیں تو زباں کھینچ لیں انکار کی ہم لوگ

بس خوفِ خدا ہے ہمیں، اشفاق نشیں ہیں
آتی ہیں شعاعوں سے انا الحق کی صدائیں
ہم نورِ ہیں منصور ہیں آفاق نشیں ہیں
٭
امکان کے صحرا میں کہیں خیمہ نشیں ہیں

ہم سلسلۂ قیس کے سجادہ نشیں ہیں
ہر روز ڈبو دیتے ہیں طوفان بسیرا

ہم دل کے جزیرے میں کہیں گوشہ نشیں ہیں
*پیروں تلے ہر لمحہ نیا طور نئی برق

اک مرحلۂ شوق میں ہم جلوہ نشیں ہیں
پیچھے سے کوئی اچھی خبر آئے تو جائیں

برزخ سے ذرا پہلے ابھی رستہ نشیں ہیں
دوچار نکل آئے ہیں جلباب سے باہر
منصور ابھی دوست کئی پردہ نشیں ہیں
*۔ یونس ایمرے کے ایک شعر کا ترجمہ
٭
میں رابطوں کے مکاں معتبر بناتا ہوں

فصیلیں توڑتا رہتا ہوں، در بناتا ہوں
اڑان دیکھ مرے آہنی پرندوں کی

مسیح میں بھی ہوں لوہے کے پر بناتا ہوں
فروغ دیدئہ ابلاغ کے وسیلے سے

یہ اپنے آپ کو کیا باخبر بناتا ہوں
خدا کی شکل بنانی پڑے گی کاغذ پر

میں اپنا باطنی چہرہ اگر بناتا ہوں
سمٹ گئے ہیں جہاں تو مرے ہتھیلی میں

سو اب میں ذات کے اندر سفر بناتا ہوں
یونہی یہ لفظ چمکتے نہیں اندھیرے میں

جلا جلا کے کتابیں شرر بناتا ہوں
نکل پڑے نہ زمانہ مرے تعاقب میں

سو نقش پا بھی بہت سوچ کر بناتا ہوں
بس ایک صرف سناتا ہوں آیتِ منسوخ

فروغ خیر سے تہذیبِ شر بناتا ہوں
مرے دماغ میں بس عنکبوت رہتے ہیں

میں وہم بنتا ہوں خوابوں میں ڈر بناتا ہوں
اکھیڑ دیتا ہوں نقطے حروف کے منصور
میں قوسیں کاٹ کے تازہ ہنر بناتا ہوں
٭
عدم کو صفحہء  ادراک پر بناتا ہوں

الائو سا خس و خاشاک پر بناتا ہوں
زمیں سے دور بناتا ہوں خاک کے چہرے

خدا بنائوں تو افلاک پر بناتا ہوں
مری زمین کی بنیاد میں شرارے ہیں

مکان سوختہ املاک پر بناتا ہوں
ستارہ لفظ تراشوں میں چاند تحریریں

اک آسمانِ ادب خاک پر بناتا ہوں
لہو کی بوندیں گراتا ہوں اپنے دامن سے

دلِ تباہ کو پوشاک پر بناتا ہوں
مرا وجود مکمل ابھی نہیں منصور
سو اپنے آپ کو پھر چاک پر بناتا ہوں
٭
آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں

عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں
اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل

مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں
درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن

قطرہ پہ گزری ہے کیا، قطرہ گہر ہو تو کہوں
ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے

کوئی بستی، کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں
کوئی شہ نامہء شب، کوئی قصیدئہ ستم

معتبر کوئی کہیں صاحبِ زر ہو تو کہوں
قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا

آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں
کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر

کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں
یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی

موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں
کون بے چہرگیِ وقت پہ تنقید کرے

سر بریدہ ہے یہ دنیا، مرا سر ہو تو کہوں
رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے

کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں
کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے

کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں
ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے

کوئی سایہ سا، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں
دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے

بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں
زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے

زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں
میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا

آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں
سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے

سینہء درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں
میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے

دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں
تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو ا

کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں
رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں

رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں
پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے

کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں
پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں

کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں
عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے

یہ بلائیں ہیں اگر ماہِ صفر ہو تو کہوں
اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری

کوئی سسکاری کوئی دیدئہ تر ہو تو کہوں
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں

 "یہ تو وقفہ ہے کوئی ، ان کو خبر تو کہوں
کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے

نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں
یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے

جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں
مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے

موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں
آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن

قریہء  وقت کبھی زیر و زبر ہو تو کہوں
ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کر پایا

خود کو شاعر کبھی تکمیلِ ہنر ہو تو کہوں
اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور

حاکمِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں
زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور

میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں
پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور
ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں
٭
مرنے سے نکالوں کبھی جینے سے نکالوں ؟

خود کو کبھی بوذر کے مدینے سے نکالوں
کچھ دھوپ چرائوں میں کسی گرم بدن کی

کمرے کو دسمبر کے مہینے سے نکالوں
جراح بلائوں یا کوئی سنت سپیرا

کس طرح ترے درد کو سینے سے نکالوں
آ پھر ترے گیسو کی شبِ تار اٹھا کر

مہتاب سا بالی کے نگینے سے نکالوں
صحرا سا سمندر کی رگ و پے میں بچھا دوں

لیکن میں سفر کیسے سفینے سے نکالوں
ہے تیر جو سینے میں ترازو کئی دن سے

میں چاہتا ہوں اس کو قرینے سے نکالوں
افلاک سے بھی لوگ جنہیں دیکھنے آئیں

وہ خواب خیالوں کے خزینے سے نکالوں
ہر چیز سے آتی ہے کسی اور کی خوشبو

پوشاک سے کھینچوں کہ پسینے سے نکالوں
ہونٹوں کی تپش نے جو ہتھیلی پہ رکھا ہے

سورج میں اُسی آبلہ گینے سے نکالوں
ممکن ہی نہیں پائوں، بلندی پہ میں اتنی

تقویم کے ٹوٹے ہوئے زینے سے نکالوں
نیکی ! تجھے کیا علم کہ کیا لطف ہے اس میں

دل کیسے سیہ کار کمینے سے نکالوں
منصور دہکتے ہوئے سورج کی مدد سے
دریا کو سمندر کے دفینے سے نکالوں
٭
مر گئے ہم، برت ورت کر لیں

فاتحہ پڑھ لیں، تعزیت کر لیں
خواب دفنا کے لوٹ آئے ہیں

اب دعا ہائے مغفرت کر لیں
دائرے میں برے شگون کے، ہم

کیسے معلوم اک جہت کر لیں
کس طرف دوستوں کی منزل ہے

کچھ ہوا سے مشاورت کر لیں
گر چکی ہے زمین پیچھے سے

کس طرح ہم مراجعت کر لیں
من و سلویٰ کی کیا تمنا میں

آسماں سے مفاہمت کر لیں
روگ بنتے ہوئے تعلق سے

یہی بہتر ہے معذرت کر لیں
کوچۂ یار کی مسافت میں

طے حدودِ مسافرت کر لیں
وصل میں اِس لباسِ اطلس کی

ہم ذرا سی مخالفت کر لیں
بے تحاشا کیا ہے خرچ اسے

اب تو دل کی ذرا بچت کر لیں
یہ بھی صورت ہے اک تعلق کی

ہجر سے ہی مطابقت کر لیں
ڈھنگ جینے کا سیکھ لیں ہم بھی

وقت سے کچھ مناسبت کر لیں
طور بھی فتح کر لیں جلوہ بھی

کچھ وسیع اور سلطنت کر لیں
اس نظر کے فریب سے نکلیں

دل سے بھی کچھ مخاصمت کر لیں
کب کہا ہے زبان بندی کا

کلکِ ناخوردہ صرف قط کر لیں
کاٹ دیں راستے، گرا دیں پل

رابطوں سے مفارقت کر لیں
پوچھ لیں کیا کریں مسائل کا

کچھ خدا سے مراسلت کر لیں
جا بسیں قیس کے محلے میں

اک ذرا اپنی تربیت کر لیں
ظلم کا ہے محاصرہ منصور
آخری اب مزاحمت کر لیں
٭
دیکھتے لپک تیرے طنز کی تو ہم بھی ہیں

دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں
کھلتے کھلتے کھلتے ہیں اپنی اپنی دنیا میں

تم اگر تجسس ہو سنسنی تو ہم بھی ہیں
تم سہی سیہ بدلی آنسوئوں کے موسم کی

آس پاس مژگاں کے کچھ نمی تو ہم بھی ہیں
عشق کی شریعت میں کیا جو قیس پہلے تھے

ہجر کی طریقت میں آخری تو ہم بھی ہیں
جانتے ہیں دنیا کو درد کا سمندر ہے

اور اس سمندر میں اک گلی تو ہم بھی ہیں
پیڑ سے تعلق تو ٹوٹ کے بھی رہتا ہے

سوختہ سہی لیکن شبنمی تو ہم بھی ہیں
دو گھڑی کا قصہ ہے زندگی محبت میں

دو گھڑی تو تم بھی ہو دو گھڑی ہم بھی ہیں
جیل کی عمارت ہے عاشقی کی صحبت بھی

بیڑیاں اگر تم ہو ہتھکڑی تو ہم بھی ہیں
نام وہ ہمارا پھر اک کرن کے ہونٹوں پر

وقت کے ستارے پر۔ ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
کیا ہوا جو ہجراں کی رہ رہے ہیں مشکل میں

یار کے شبستاں میں یاد سی تو ہم بھی ہیں
دیدنی زمانے میں بے خبر بہاروں سے

گلستانِ حیرت کی اک کلی تو ہم بھی ہیں
مانا عشق کرنے کا کچھ پتہ نہیں تم کو

دلبری کی بستی میں اجنبی تو ہم بھی ہیں
یہ الگ گوارا ہم وقت کو نہیں لیکن

جس طرح کے ہوتے ہیں آدمی تو ہم بھی ہیں
کربلا کی وحشت سے، سلسلہ نہیں لیکن

ساحلوں پہ دریا کے تشنگی تو ہم بھی ہیں
ہیر تیرے بیلے میں آنسوئوں کے ریلے میں

خالی خالی بیلے میں بانسری تو ہم بھی ہیں
تم چلو قیامت ہو تم چلو مصیبت ہو

بے بسی تو ہم بھی ہیں، بے کسی تو ہم بھی ہیں
صبح کے نکلتے ہی بجھ تو جانا ہے ہم کو

رات کی سہی لیکن روشنی تو ہم بھی ہیں
دیکھتے ہیں پھولوں کو، سوچتے ہیں رنگوں کو

خوشبوئوں کے مکتب میں فلسفی تو ہم بھی ہیں
ایک الف لیلیٰ کی داستاں سہی کوئی
دوستو کہانی اک متھ بھری تو ہم بھی ہیں
٭
آنکھ بنو تم اور ہم منظر بن جائیں

اور وہیں پھر دونوں پتھر بن جائیں
ان پیروں سے کیسے گریزاں منزل ہو

جو آپ ہی رستہ آپ سفر بن جائیں
جن لوگوں کے بیج کجی سے نکلے ہوں

وہ کیسے سایہ دار شجر بن جائیں
گھل جائیں لہروں میں ایک سمندر کی

ریت پہ پھیلی دھوپ کی چادر بن جائیں
مار کے سورج کے سینے میں طنز کے تیر

خود نہ کہیں ہم ایک تمسخر بن جائیں
جنس کے بینر لٹکائیں بازاروں میں

اور فرائیڈ سے دانش ور بن جائیں
جو موجود نہیں تقویم کے اندر بھی

ان تاریخوں کا کیلنڈر بن جائیں
کچھ یاروں کی لاشیں گل سڑ جائیں گی
بہتر ہے منصور فریزر بن جائیں
٭
سورج پہ گلابوں کے تصور کی طرح ہیں

ہم دیدئہ حیرت ہیں، تحیر کی طرح ہیں
چھیڑو نہ ہمیں دوستو پھر تھم نہ سکیں گے

ملہار کے ہم بھیگے ہوئے سُر کی طرح ہیں
صد شکر کہ سینے میں دھڑکتا ہے ابھی دل

ہم کفر کے لشکر میں سہی حر کی طرح ہیں
بجھ جاتا ہے سورج کا ہمیں دیکھ کے چہرہ

ہم شام کے آزردہ تاثر کی طرح ہیں
ہر دور میں شاداب ہیں سر سبز ہیں منصور
وہ لوگ جو موسم کے تغیر کی طرح ہیں
٭
لٹنے کو خزانوں بھرے مندر کی طرح ہیں

ہم لوگ سدھارتھ کے کھلے در کی طرح ہیں
ہم حرفِ زمیں، چیختی صدیوں کی امانت

گم گشتہ ثقافت کے سخنور کی طرح ہیں
ہم پھول کنول کے ہیں ہمیں نقش کھنڈر کے

آثارِ قدیمہ کے پیمبر کی طرح ہیں
فرعون کے اہرام بھی موسیٰ کا عصا بھی

ہم نیل کی تہذیب کے منظر کی طرح ہیں
آدم کے ہمی نقشِ کفِ پا ہیں فلک پر

کعبہ میں ہمی عرش کے پتھر کی طرح ہیں
ہم گنبد و مینار ہوئے تاج محل کے

ہم قرطبہ کے سرخ سے مرمر کی طرح ہیں
ہم عہدِ ہڑپہ کی جوانی پہ شب و روز
دیواروں میں روتی ہوئی صرصر کی طرح ہیں
٭
پلکیں کسی برہن کے کھلے سر کی طرح ہیں

آنکھیں کسی جلتے ہوئے منظر کی طرح ہیں
گرتے ہیں ہمی میں کئی بپھرے ہوئے دریا

ہم وقت ہیں، لمحوں کے سمندر کی طرح ہیں
بس ٹوٹتے پتوں کی صدائیں ہیں ہوا میں

موسم بھی مرادوں کے مقدر کی طرح ہیں
رکھتے ہیں اک اک چونچ میں کنکر کئی دکھ کے

اب حرف ابابیلوں کے لشکر کی طرح ہیں
بکتے ہوئے سو بار ہمیں سوچنا ہو گا

اب ہم بھی کسی آخری زیور کی طرح کی ہیں
یہ خواب جنہیں اوڑھ کے سونا تھا نگر کو

فٹ پاتھ پہ بچھتے ہوئے بستر کی طرح ہیں
ناراض نہ ہو اپنے بہک جانے پہ جاناں

ہم لوگ بھی انسان ہیں، اکثر کی طرح ہیں
اب اپنا بھروسہ نہیں، ہم ساحلِ جاں پر

طوفان میں ٹوٹے ہوئے لنگر کی طرح ہیں
تم صرفِ نظر کیسے، کہاں ہم سے کرو گے

وہ لوگ ہیں ہم جو تمہیں ازبر کی طرح ہیں
منصور ہمیں بھولنا ممکن ہی نہیں ہے
ہم زخم میں اترے ہوئے خنجر کی طرح ہیں
٭
جیتے ہوئے لوگوں کے سوئمبر کی طرح ہیں

ہم ریس کے گھوڑے ہیں، مقدر کی طرح ہیں
ہر لمحہ پیانو سے نئی شکل ابھاریں

یہ انگلیاں اپنی، کسی بت گر کی طرح ہیں
کیا چھائوں کی امید لیے آئے گا کوئی

ہم دشت میں سوکھے ہوئے کیکر کی طرح ہیں
الحمدِ مسلسل کا تسلسل ہے ہمی سے

ہم صبحِ ازل زاد کے تیتر کی طرح ہیں
جلتے ہوئے موسم میں ہیں یخ بستہ ہوا سے

ہم برف بھری رات میں ہیٹر کی طرح ہیں
حیرت بھری نظروں کے لیے جیسے تماشا

ہم گائوں میں آئے ہوئے تھیٹر کی طرح ہیں
یہ بینچ بھی ہے زانوئے دلدار کی مانند

یہ پارک بھی اپنے لیے دلبر کی طرح ہیں
پیاسوں سے کہو آئیں وہ سیرابیِ جاں کو

ہم دودھ کی بہتی ہوئی گاگر کی طرح ہیں
منصور ہمیں چھیڑ نہ ہم شیخِ فلک کے
مسجد میں لگائے ہوئے دفتر کی طرح ہیں
٭
دوبارہ کاٹنے آئو گے… آس ہے سائیاں

ابھی تو کھیت میں دو دن کی گھاس ہے سائیاں
مری دعائوں پہ چیلیں جھپٹنے والی ہیں

یہ ایک چیخ بھری التماس ہے سائیاں
عجیب شہد سا بھرنے لگا ہے لہجے میں

یہ حرفِ میم میں کیسی مٹھاس ہے سائیاں
تمہارے قرب کی مانگی تو ہے دعا میں نے

مگر یہ ہجر جو برسوں سے پاس ہے سائیاں
جسے ملو وہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

بھرا ہوا بھی کسی کا گلاس ہے سائیاں
ترے بغیر کسی کا بھی دل نہیں لگتا

مرے مکان کی ہر شے اداس ہے سائیاں
ٹھہر نہ جائے خزاں کی ہوا اسے کہنا

ابھی شجر کے بدن پر لباس ہے سائیاں
کوئی دیا کہیں مصلوب ہونے والا ہے

بلا کا رات پہ خوف و ہراس ہے سائیاں
نجانے کون سی کھائی میں گر پڑے منصور
یہ میرا وقت بہت بد حواس ہے سائیاں
٭
اپنی نیندوں میں کوئی خواب نہیں

کوئی تمہیدِ انقلاب نہیں
ساحلوں پر برہنہ جوڑے ہیں

پر کوئی آنکھ بے حجاب نہیں
ہم سفر احتیاط، میرا بدن

نیکیوں کی کوئی کتاب نہیں
کچھ دنوں سے بجا ہے شب کا ایک

اور گھڑیال بھی خراب نہیں
عمر گزری ہے ایک کمرے میں

پھر بھی ہم رنگ اپنے خواب نہیں
کس لیے ذہن میں در آتے ہیں

جن سوالات کے جواب نہیں
آنکھ بھی خالی ہو گئی منصور
اور گٹھڑی میں بھی ثواب نہیں
٭
جس کاپھرہوگیااک بوسہ ء  پُرجوش سے میں

کتنا ناراض تھااُس زود فراموش سے میں
سرد آنکھوں میں فقط موت کی ویرانی تھی

کب تلک بولتااُس چہرئہ خاموش سے میں
چاہتا ہوں کہ اٹھا لوں اے مری زیست گزار

بوجھ بے رحم مسائل کاترے دوش سے میں
کیا کوئی تیرے اندھیروں سے نکل سکتا ہے

پوچھ سکتا تو ہوںاُس چشمِ سیہ پوش سے میں
اک طرف پڑتی رہی منظر ِجاناں پہ چمک

اک طرف آتا رہا جاتا رہا ہوش سے میں
رات کھو جائوں میں لتا کے سریلے پن میں

صبح آغاز کروں نغمہ ء گوگوش سے میں
اُس بلندی پہ کہاں ہاتھ پہنچنا تھا مگر

دیکھتا چاند رہا دیدئہ مے نوش سے میں
کیسی ہوتی ہے کسی دورِسگاں کی وحشت

پوچھنا چاہتا ہوں یہ کسی خرگوش سے میں
یہ روایت ہے مرے عہدِسخن پیشہ کی

کرلوںبس صدرنوازی ذرا پاپوش سے میں
ہر طرف ایک جہنم تھا ستم کا منصور
جب نکالا گیا باہر تری آغوش سے میں
٭
یہی دوچار برس آنکھ نے رونا ہے تمہیں

ہو بھی جائو جو کسی اورکا ہوناہے تمہیں
آخری بات کہ کس وقت ملیں گے کل ہم

مجھ کو معلوم ہے اب رات ہے ، سونا ہے تمہیں
یاد رکھنا کہ تمہیں چارہ گری کرنی ہے

زخم سینے ہیں مرے ،چاک پرونا ہے تمہیں
کیا گزاروگے اسی خیمہ ء افلاک میں رات

کیا بنانا یہی فٹ پاتھ بچھونا ہے تمہیں
کوئی خودکُش سا دھماکہ بھی ضروری ہے وہاں

جلدی سے جائے وقوعہ کو بھی دھونا ہے تمہیں
تم سے پہلوں نے جہاں اپنے قدم رکھے تھے

اسی آسیب زدہ غار میں کھونا ہے تمہیں
روح تک دیکھنے کی تم میں بصارت ہی نہیں

صرف کافی یہی مٹی کاکھلونا ہے تمہیں
سرخ فوارہ کی دھاروں کے دمادم کی قسم

رات کی چھاتی میں بس تیر چبھونا ہے تمہیں
دیکھنے ہیں مجھے جذبوں کی صراحی کے خطوط

میں نے وہسکی سے کسی روز بھگونا ہے تمہیں
صرف ہم نصف کے مالک ہیں بحکم ِ ربی

فصل بھی کاٹنی ہے بیج بھی بونا ہے تمہیں
میری باہو سے ملاقات ہے ہونے والی

زندگی !’’ ہو‘‘ کے سمندر میں ڈبونا ہے تمہیں
تم پرندے ہو کسی وقت بھی اڑسکتے ہو

ساتھ رکھنے کے لئے جاں میں سمونا ہے تمہیں
جس میں چلتی چلی جاتی ہے قیامت منصور
اُس دوپٹے کا پکڑنا کوئی کونا ہے تمہیں
٭
دشت کی صدیوں پرانی آنکھ میں

ہے ہوا کی نوحہ خوانی آنکھ میں
اسمِ اللہ کے تصور سے گرے

آبشارِ بیکرانی آنکھ میں
لال قلعے سے قطب مینار تک

وقت کی ہے شہ جہانی آنکھ میں
لکھ رہا ہے اس کا آیت سا وجود

ایک تفسیرِ قرانی آنکھ میں
دودھیا باہیں ، سنہری چوڑیاں

گھومتی ہے اک مدھانی آنکھ میں
دیکھتا ہوں جو دکھاتا ہے مجھے

یار کی ہے حکمرانی آنکھ میں
برف رُت کے اس تعلق کی غزل

دھوپ نے ہے گنگنانی آنکھ میں
اجڑے خوابو!، ٹوٹی امیدو!سنو

ایک بستی ہے بسانی آنکھ میں
چل رہی ہے اپنے کرداروں کے ساتھ

فلم کی اب تک کہانی آنکھ میں
چاہتی ہے کیوں بصارت تخلیہ

کون ہے ظل ِ ’سبحانی‘ آنکھ میں
کپکپاتے ساحلوں سے ہمکلام

دھوپ ہے کتنی سہانی آنکھ میں
آمد آمد شاہِ نظارہ کی ہے

سرخ مخمل ہے بچھانی آنکھ میں
تجھ سے پہلے توہواکرتے تھے اور

روشنی کے کچھ معانی آنکھ میں
پہلے ہوتے تھے مقاماتِ عدم

اب فقط ہے لا مکانی آنکھ میں
دیکھتے رہنا ہے نقشِ یار بس

بزمِ وحشت ہے سجانی آنکھ میں
بس یہی ہیں یادگاریں اپنے پاس

بس یہی آنسو نشانی آنکھ میں
اُس حویلی کے کھنڈر کی آج بھی

چیختی ہے بے زبانی آنکھ میں
زیرِآب آنے لگی تصویرِیار

پھیلتا جاتا ہے پانی آنکھ میں
شکرہے اُس اعتمادِذات کی

آگیا ہوں غیر فانی آنکھ میں
دیکھ آئی ہے کسی کو اُس کے ساتھ
اب نہیں ہے خوش گمانی آنکھ میں
٭
ہجر کی ماری نراسیں آنکھ میں

جمع ہیں سب التماسیں آنکھ میں
چیختی ہیں کیا ہوئی نہرِ فرات

کربلا کی اب بھی پیاسیں آنکھ میں
آخرش تھک ہار کر پتھرا گئیں

انتظاریں اور آسیں آنکھ میں
کس طرح سنولاگئی ہیں صبح کو

رقص کرتی چند یاسیں آنکھ میں
ایک ہیں ، صحرا نوردی کی قسم

مختلف قسموں کی گھاسیں آنکھ میں
اس سے کیا منصور ملنا جب تمام
رنجشیں دل میں براسیں آنکھ میں
٭
فراق کی انتظار گاہ میںکہیں شرابیں کھلی پڑی ہیں

کہیں بجھی سگریٹوں کے ٹکڑے ،کہیں کتابیں کھلی پڑ ی ہیں
کہا تو ہے سر پھری ہوا سے چلے سنبھل کر بہت سنبھل کر

میں خیمہء کائنات ہوں اور مری طنابیں کھلی پڑی ہیں
کوئی توآیا ہے خواب گاہِ دل و نظر میں، یہ چھپ چھپا کے

تجوری ٹوٹی ہوئی ہے غم کی ، تمام خوابیں کھلی پڑی ہیں
جو انتظاروں کے ہم نفس ہیںقفس میں بس ہیں وہی پرندے

ملن کے چڑیاگھروں میں وحشت بھری شتابیں کھلی پڑی ہیں
وہاں ہے رخشِ حیات منصور اپنا پہنچا ، جہاں ابد پر
کہیں پہ ٹوٹی ہوئی ہیں باگیں ، کہیں رکابیں کھلی پڑی ہیں
٭
باندھ کر رکھ آسمانوں کی طنابیں شلیف میں

ٹھیک رہتی ہیں ثوابوں کی کتابیں شیلف میں
سوچتی ہیں کس طرح تھے تیرے پیکر کے خطوط

میری بھیجی تین شرٹیں ، دو جرابیں شیلف میں
آتی صدیوں کے لئے کچھ تو مرے کاٹج میں ہو

میں نے آنکھوں سے چرا کر رکھ دیں خوابیں شلیف میں
میز پر تیرے کرم کی نرم آتش چاہئے

رہنے دے اپنی کہن سالہ شرابیں شیلف میں
بس کے اسٹاپوں پہ چپ ہیں دکھ کتابیں کھول کر

فائلیں ہیں راستوں میں اور جابیں شیلف میں
کچھ سوالوں کی بلند آہنگ سچائی کی خیر

سب دبے لہجے کی رکھ دی ہیں جوابیں شیلف میں
وقت کی دیمک ترے کچھ حاشیوں کے ساتھ ساتھ
درج ہیں تاریخ کی ساری خرابیں شیلف میں
٭
مناسب اتنا نہیں اعتدال کمرے میں

ہرا بھرا کوئی قالین ڈال کمرے میں
کسی ستم زدہ روزن سے آتو سکتی تھی

ذرا سی دیر کو صبحِ وصال کمرے میں
لٹک رہاتھا دریچے میں بھیڑیے کا بت

دکھائی دیتا تھا کوئی غزال کمرے میں
بس اس لئے کہ سپاہی بہت زیادہ تھے

تھی تاج پوشی کی تقریب ہال کمرے میں
اسے بھی زاویے سیدھے کمر کے کرنے تھے

مجھے بھی آیا تھا یہ ہی خیال کمرے میں
بلٹ پروف محافظ تھے ہر طرف لیکن

گزر رہے تھے حکومت کے سال کمرے میں
ہر ایک شے میں اداسی ہے شام کی منصور
اتر رہا ہے نظر سے ملال کمرے میں
٭
طلسم ِ مرگ کے جادومیں محوِ استراحت ہیں

نگر زنبیلِ ظلمت رُو میں محو استراحت ہیں
شبیں چنگاریوں کے بستروںمیںخواب بنتی ہیں

اندھیرے راکھ کے پہلو میں محوِ استراحت ہیں
خموشی کا بدن ہے چادرِ باردو کے نیچے

کراہیں درد کے تالو میں محوِ استراحت ہیں
پہن کر سرسراہٹ موت کی ، پاگل ہوا چپ ہے

فضائیں خون کی خوشبو میں محوِ استراحت ہیں
کہیں سویا ہواہے زخم کے تلچھٹ میں پچھلا چاند

ستارے آخری آنسو میں محوِ استراحت ہیں
ابھی ہو گا شعاعوں کے لہو سے آئینہ خانہ

ابھی شیرِ خدا دارو میں محوِ استراحت ہیں
ابھی ابھریں گے بامِ صبحِ مشرق پر ابھی منصور
مرے سورج ابھی جگنو میںمحو استراحت ہیں
٭
وہ بدن کون ہے کچھ اپنا بتائے بھی نہیں

اور کرنوںکی طرح ہاتھ میں آئے بھی نہیں
دور تک برف بھری رات کے سناٹے ہیں

شہر میں یادکے ڈھلتے ہوئے سائے بھی نہیں
وصل خاموش بھی پُرشوربھی اپنے اندر

آگ محسوس بھی ہو اور جلائے بھی نہیں
کینوس میںمرے رنگوں کو رکھے قید کوئی

اورتصویر تعلق کی بنائے بھی نہیں
کوئی منصورمرے بسترِ آباد کے بیچ
مجھ کو بھی سونے بھی نہ دے اور جگائے بھی نہیں
٭
اب کوئی اورخدا کعبہ میں آباد کریں

جو ہمیںبھول گیا ہے اسے کیا یاد کریں
اتنی بے رحم سلگتی ہوئی تنہائی میں

در کوئی ہے جہاں انصاف کی فریاد کریں
زندگی اور خدا دونوں بڑے تیزمزاج

کس کو ناشاد کریں اور کسے شاد کریں
شب کی تعمیر گرانا کوئی آساں تو نہیں

تھک نہ جائے کہیں آ وقت کی امداد کریں
ہے ازل ہی سے وفا اپنے قبیلے کی سرشت

کیا گلہ تجھ سے ترے خانماں برباد کریں
روک کر ہاتھ سے خورشید کی گردش منصور
وقت کی قید سے آفاق کو آزاد کریں
٭
یاد کی اک نہر پر وہسکی کی بوتل بیریاں

پانیوں میں تیرتی شاداب کومل بیریاں
دیکھتا ہوں دھوپ کی جلتی چتا کے آس پاس

سائباں ، دیوار ، چھتری، زلف، بادل ، بیریاں
ایک دھاگوں سے بھری تعویز در تعویز رات

گہرے پرآسیب سائے ، خوف سے شل بیریاں
 اب تو ڈھیلے پھینکتے لڑکے سے کہہ دو ہنس پڑے

خود ہی تھل کی جھک گئی ہیں پھل سے بوجھل بیریاں
تیز ہو جائے ہوا تو شرٹ اپنی کھول دیں

گرمیوں کے سر پھرے موسم کی پاگل بیریاں
چاہتی ہیں کوئی پتھر مارنے والابھی ہو

اپنے جوبن پر جب آجاتی ہیں کومل بیریاں
جن کے آنچل میں گزار آئے بدن کی دو پہر
یاد ہیں وہ گائوں کی سب شوخ چنچل بیریاں
٭
اپنی بستی میں کہیں امن و اماں ہے کہ نہیں

اس جہنم میں کوئی باغ جناں ہے کہ نہیں
حلقہ زن ہوکے درِ دل پہ پکارے کوئی

زندگی تیرے لئے بارگراں ہے کہ نہیں
جس میں شہزادیاں سوئی تھیں بوقت تقسیم

اب وہ بستی میں تری اندھا کنواں ہے کہ نہیں
جو کسی کو بھی برہنہ نہیں ہونے دیتا

آسماں پر وہ سیہ پوش دھواں ہے کہ نہیں
خانۂ خاک تو آباد بتانِ زر سے

آسماں پر بھی کہیں تیرا مکاں ہے کہ نہیں
میرے جیسوں کو بتاتا ہے جو رستے کا پتہ
اُس ستارے کا کہیں نام و نشاں ہے کہ نہیں
٭
آسماں! بول کہ اُس پار جہاں ہے کہ نہیں

تُو جہاں ہے کوئی موجود وہاں ہے کہ نہیں
اس خلاباز کی آواز میں سناٹے تھے

چاند پر جس نے کہا ’کوئی یہاں ہے کہ نہیں
مجھ میں موجود ہے کیسے ،یہ سمجھنا ہے ابھی

یہ سوال اور ہے ذرہ میں کہاں ہے کہ نہیں
کوئی لوٹا ہی نہیں روح کے تہہ خانے سے

کیسے معلوم ہو وہ مجھ میں نہاں ہے کہ نہیں
سو گئی تھی جو زرِ فاحشہ کے بستر میں

وہ سپہ آج کفِ شعلہ دھاں ہے کہ نہیں
پھر نکل عرشِ محبت کے سفر پر منصور
پہلے یہ دیکھ وہاں جان جہاں ہے کہ نہیں
٭
پھول کا ایک حوالہ ہوا میں

ہجر کے آگ میں ڈالاہوامیں
آنکھ سے دیکھنے والے ہوئے تم

روح سے دیکھنے والا ہوامیں
چن لئے وقت نے موتی میرے

ایک ٹوٹی ہوئی مالا ہوامیں
اس نے مٹی میں دبا رکھا ہے

 سکہ ہوںسونے سے ڈھالاہوا میں
مجھ میں چہکار پرندوں کی ہے

صبح کا سرد اجالاہوا میں
لوٹ کر آیا نہیں ہوں شاید

گیند کی طرح اچھالاہوا میں
پیشوائی کیلئے دنیا اور

اپنی بستی سے نکالا ہوامیں
زندگی نام ہے میرا منصور
موت کا ایک نوالہ ہوا میں
٭
شب کہیں اور شب کے سائے کہیں

کوئی اپنے دئیے جلائے کہیں
ہے کہیں انتظارِ گاہِ حیات

اور ہے موت کی سرائے کہیں
کانچ سے بھی زیادہ نازک ہے

سنگ دل ، دل تو آزمائے کہیں
شخصیت کا یہ خول رہنے دے

میری رائے بدل نہ جائے کہیں
ہرطرف راستے ہیں گلیاں ہیں

گھر کوئی بھی نظر نہ آئے کہیں
جاگ اٹھیں نہ رات کی آنکھیں

کوئی سایہ سا سرسرائے کہیں
دونوں عالم کو خوف ہے منصور
خاک کا دل نہ ٹوٹ جائے کہیں
٭
یہی بس چار نعتیں تھیں جو سینے پر سجالی ہیں

گرہ میں اعترافِ جرم ہے اور ہاتھ خالی ہیں
وہی تیرا تمدن ہے بنو ہاشم کی گلیوں میں

امیہ کے نسب نے تازہ تہذیبیں بنا لی ہیں
ترؐے مذہب میں گنجائش نہیں تھی زرکی سو ہم نے

گھروں سے اشرفیاں، شام سے پہلے نکالی ہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے مدینہ آنے والا ہے

لبوں پر کپکپاہٹ ہے یہ آنکھیںرونے والی ہیں
نگاہیں دیکھتی تھیں کتنے سچے خواب یثرب کے

یہ پہچانے ہوئے گھر ہیں یہ گلیاں دیکھی بھالی ہیں
وہی لاہوتی کیفیت اترتی ہے رگ و پے میں

وہی نوری فضائیں ہیں وہی صبحیں نرالی ہیں
کوئی قوسِ قزح سی بھر گئی منصور آنکھوں میں
حریمِ رحمتِ عالم کے کیا رنگِ جمالی ہیں
٭
آسمانوں کے دفینے کی طرف آنکھیں ہیں

خاک طیبہ کے خزینے کی طرف آنکھیں ہیں
اس میں اک نام دھڑکتا ہے بڑے زور کے ساتھ

اپنی تو اپنے ہی سینے کی طرف آنکھیں ہیں
لوگ مشکل میں عبادت کریں واشنگٹن کی

شکر ہے اپنی ، مدینے کی طرف آنکھیں ہیں
روضے کی جالیاں چھونے کا شرف جس کو ملا

اُس انگوٹھی کے نگینے کی طرف آنکھیں ہیں
آرہا ہے جو سرِ عرش سے میری جانب

اُس اترے ہوئے زینے کی طرف آنکھیں ہیں
جس پہ بطحا کا سفر کرتے تھے عشاقِ رسول

 اُس کرم بار سفینے کی طرف آنکھیں ہیں
جس میں آیا تھا اجالوں کا پیمبر منصور
اُس بہاروںکے مہینے کی طرف آنکھیں ہیں
٭
بے کرانی ، نور سے پُر اور میں

اسمِ اللہ کا تصور اور میں
دور تک حسنِ عدم آباد میں

لامکانی کا تحیر اور میں
منحرف دنیا سے ، اللہ سے وصال

ذکرِ سری کا تاثر اور میں
اک سمندر نور کا پھیلا ہوا

اک سکوت آور تغیر اور میں
اک الوہی ریت پر الہامِ شام

یخ ہوا کا نرم سا سُر اور میں
ہیں مقابل چشمِ باہو کے طفیل
نفس کا جرمِ تکاثر اور میں
٭
اپنے لفظوں کی مہک باد صبا سے پائوں

ٹوٹ کر نعت لکھوں داد خدا سے پائوں
ٹافیاں جیب میں برسوں سے لئے پھرتا ہوں

کاش گلیوں میں کہیں تیرے نواسے پائوں
میرے صحرائے عرب کے اے کرم ور بادل

دور تک بھٹکے ہوئے آدمی پیاسے پائوں
انگلیاں تیرے وسیلے کی مہک دیتی ہیں

اپنی بخشش کا یقیں دستِ دعا سے پائوں
ایک تندور میں محراب کی تعمیر کروں
سایۂ ابر سے منصور دلاسے پائوں
٭
لگا دئیے گئے خطرے کے مارک پانی میں

سنا ہے پھر کوئی پھرتی ہے شارک پانی میں
اے بلدیہ کوئی بارش سے بھی روابط رکھ

کہ کھو گیاہے وہ بچوں کا پارک پانی میں
پڑا ہوا تھا وہ دریا میں اور پیاسا تھا

اتر رہا ہے سو بوتل کا کارک پانی میں
مجھے کرنٹ کنارے پہ لگ رہا تھا رات

ترے بدن کا عجب تھا سپارک پانی میں
میں رو دیا تو اچانک کسی نے آن کیا
ہزار واٹ کا اک بلب ڈارک پانی میں
٭
ٹوٹے پھوٹے،بدنما،فالج زدہ ،بیمار دن

آگئے ہیں زندگی میں پھربڑے بے کار دن
ہم ملیں گے شانزے لیزے پہ رومی بارمیں

طے ہوئی بارہ دسمبر۔۔ ٹھیک ہے اتوار دن
یاد ہے وہ یارکے پہلو میںرنگوں کی بہار

جینا کہتے ہیں جسے ویسے جئے تھے چار دن
مصر کے اہرام سے پیرو کی تصویروں تلک

ہرجگہ کتنے گئی صدیوں کے پُراسرار دن
میری وحشت ہی جہاں تھی فیصلہ کن پھر وہاں

کیا اثر انداز ہوتے غیر جانب دار دن
آخرش منصور کیا تھااُس گذشتہ رات میں
گم ہوئی جذبوں بھری رُت، کھوگئے دلدار دن
٭
یہ راہِ محبت ہے ساتھی اس راہ پہ جو بھی آتے ہیں

وہ راہ کے ہرہر کاٹنے پر کچھ خون ِجگر ٹپکاتے ہیں
اس دور کا ہم سرمایہ ہیں ہم اہل جنوں ہم اہل وفا

ہم کرب میں ڈوبی دنیا کو پھر کرب و بلا میں لاتے ہیں
تم لوگ فرازِ منبر سے شبیر پہ بس تقریر کرو

ہم رند اُتر کر میداں میںپھررسم وہی دھراتے ہیں
تاریخ کا یہ دوراھا ہے اک سمت وفا اک سمت جفا

کچھ جاہ و حشم کے راہی ہیں،، کچھ دارورسن کو جاتے ہیں
یہ لوح و قلم کے مفتی کا منصورازل سے فتویٰ ہے
جو زخمِ جگر کو بوسے دیں وہ لوگ مرادیں پاتے ہیں
٭
یہ دعا کے چند حرف بس قبول ہوں

تمہارے راستے میں روشنی ہو پھول ہوں
گرفت میں کائناتِ ذات کا خرام

تمہارے ذہن پر علوم کے نزول ہوں
لغاتِ کن فکاں کھلے تمہارے نام سے

کتابیں رازداں سخن سرا رسول ہوں
ہمیشہ ہم قدم رہے بہار رقص میں

اداس چاند ہو نہ گل رتیں ملول ہوں
وہاں وہاں پہ تم سے زعفران کھل اٹھیں

جہاں جہاں پہ خار ہوں ببول ہوں
ہوں منزلِ یقیں کے اونٹ دشتِ وقت میں

خیام ِ صبر و انتظار باشمول ہوں
انہیں بھی دیکھنا ضمیرِ عالمین سے

دل و دماغ کے جو طے شدہ اصول ہوں
ہزار حاصلی سہی قیام ، موت ہے

سدا نئے سفر ، نئے حصول ہوں
رکو تو گردشیں رکیں طلسمِ چاک کی

چلو تو چاند تارے راستے کی دھول ہوں
بہشت ماں کی قبر ہوتمہارے کام سے
وہ فاطمہ تھی اس پہ مہرباں بتول ہوں
٭
(اپنے بیٹوں صاحب منصور اور عادل منصور کیلئے)
اتفاقات سے بگڑ کے میں

ملتا خود سے بھی تھا اکڑ کے میں
طشت میں سر بھی اپنا رکھتا تھا

رقص بھی دیکھتا تھا دھڑ کے میں
حل کروں کیسے عقل مندی سے

مسئلے پاگلوں کی بڑ کے میں
کہہ رہا تھا یہ چہرہ لڑکی کا

زندگی ہے بلا کی لڑکے میں
ہجر کی کیفیت ابھی تک تھی

بولتا تھا اکھڑ اکھڑ کے میں
سانس تو لکڑیاں بھی لیتی ہیں

جی رہا ہوں کہاں بچھڑ کے میں
سایوں کے بیچ گزرا کرتا تھا

اُس گلی سے سکڑ سکڑ کے میں
اٹھ کھڑا تھاکسی کی آمد پر

اپنی دیوار کو پکڑ کے میں
دل دھڑکتا تھا ایک دنیا کا

جڑ گیا ہوں کہیں،اجڑ کے میں
کیسے منصور خالی بستر تھا
لوٹ آیا تھا تڑکے تڑکے میں
٭
اڑتی تصویر کی طرح میں

پہنچا تاخیر کی طرح میں
خالی میدان میں پڑا تھا

ٹوٹی شمشیر کی طرح میں
اس کی بک شیلف میں رکھا تھا

دیوانِ میر کی طرح میں
گھر کا رستہ بتا رہا تھا

خود کو اک تیر کی طرح میں
اس کے ہاتھوں میں بولتا تھا
خط کی تحریر کی طرح میں
٭
سنتے ہم ہیںہواکے لہجے میں

بولی وہ تھی خدا کے لہجے میں
 دے رہی ہے ہماری تنہائی

بدعائیں دعا کے لہجے میں
رات کی آنکھ اوس کے آنسو

بھردے بادصبا کے لہجے میں
گفتگو کر رہی تھی بچوںسے

تھا تحیر فنا کے لہجے میں
خامشی کی کہانیاں منصور
لکھ گیا کافکا کے لہجے میں
٭
خوف سا ہے بام و در میں اور تو کچھ بھی نہیں

ایک سناٹا ہے گھر میں اور تو کچھ بھی نہیں
کچھ نمک ہے زخم کا ، کچھ روشنی ہے یاد کی

چشمِ غم کی بوند بھر میں اور توکچھ بھی نہیں
یاد کا ہے سائباں اور زندگی کی دھوپ ہے

اس ستم گر دوپہر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان کی رخشاں مسکراہٹ حاملِ صد مہر و مہ

ایک سورج ہے سحر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان سے رک سکتے ہیں کب دیوانگان ِکوئے یار

کچھ بلائیں ہیں سفر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان کی چاہت کے سوا تاریک ہے فردِ عمل

داغ ہیں قلب و جگر میں اور تو کچھ بھی نہیں
گنبدِ خضرا کا ہر ذرہ بہشت آباد ہے

دہر کے دوزخ نگر میں اور تو کچھ بھی نہیں
نازشِ تخلیق ہے آفاق میں بس ایک ذات
میری فکرِ معتبر میں اور تو کچھ بھی نہیں
٭
نیند کا اک سبز گنبد اور میں

انتظارِ خوابِ احمد اور میں
ذات کی پہچان کا پہلا سفر

منزلِ حیرت کی سرحد اور میں
ساحلِ دل کی ملائم ریت پر

نقشِ پا کی چشم اسود اور میں
لیلیٰ اظہار کے گل پوش لب

نغمۂ اسمِ محمد ﷺ اور میں
جذبہ ء تخلیق کی سر جوشیاں

سوچ کا پر نور معبد اور میں
لاکھ  روشن کائناتوں  کے  ا میں

اک شعورِ ذات کی حد اور میں
قریہ ء ادراک کی جلتی زمیں

ایک سایہ دار برگد اور میں
محرمِ لاہوت کی وسعت میں گم
بوعلی، منصور، سرمد اور میں
٭
اس واسطے یہ شدتیں پھرتی ہیں پیاس میں

ہے عکس ریزچہرہ تمہارا گلاس میں
سبزے پہ رنگ آتے ہیں جاتے ہیں عصر سے

شاید چھپی ہوئی کوئی تتلی ہے گھاس میں
میں کر چکا ہوں اس سے ملاقات کتنی بار

آتا نہیں کسی کے جو پانچوں حواس میں
سرکار کا نہ نام لو اے واعظانِ شہر

موتی جڑے ہوئے ہیں تمہارے لباس میں
لایحزنُ کے ساز کو چھیڑو کہ ان دنوں

لپٹا ہوا ہے عہد ہمارا ہراس میں
آنکھوں سے اشک بن کے بہی ہیں عقیدتیں

محصور ہو سکیں نہ گمان و قیاس میں
تیرے حسیں خیال کی ڈھونڈیں نزاکتیں

تاروں کے نور میں کبھی پھولوں کی باس میں
طیبہ کی مے تو دشمنِ عقل و خرد نہیں

ہم لوگ پی کے آئے ہیں ہوش و حواس میں
عریاں ہے پھول چنتی کہیں زندگی کا جسم
منصور گم ہے گوئی سراپا کپاس میں
٭
ہم واں نہیں وہاں سے نکالے ہوئے تو ہیں

اندھے نگر میں دیکھنے والے ہوئے تو ہیں
آنسو تمام شہر نے افلاک کی طرف

دستِ دعا پہ رکھ کے اچھالے ہوئے تو ہیں
 اس میں کوئی مکان جلا ہے تو کیا ہوا

دوچار دن گلی میں اجالے ہوئے تو ہیں
یادیں بھی یادگاریں بھی لوٹانے کا ہے حکم

تصویریں اور خطوط سنبھالے ہوئے تو ہیں
سچ کہہ رہی ہے صبح کی زر خیزروشنی

ہم لوگ آسمان کے پالے ہوئے تو ہیں
آخر کبھی تو شامِ ملاقات آئے گی

ڈیرے کسی کے شہر میںڈالے ہوئے تو ہیں
منصور کب وہاں پہ پہنچتے ہیں کیاکہیں
کچھ برگِ گل ہواکے حوالے ہوئے تو ہیں
٭
اس نے لئے الاپ وہ بزمِ سماع میں

جائز ہوئی دھمال شبِ امتناع میں
دنیا کی خوبروئی ہے میرے طلسم سے

میرے علاوہ کیا ہے فلک کی متاع میں
بگلا کوئی اکیلا کھڑا تھا مری طرح

مرغابیوں کے ایک بڑے اجتماع میں
یہ جرم ہے تو اس کو کروں گا میں بار بار

کہنا یہی ہے میں نے بس اپنے دفاع میں
لکھی تھیں میرے حسن ِ نظر کی کہانیاں
منصور آفتاب کی پہلی شعاع میں
٭
آگ تھی رنگ تھے اور مے تھی کہیں

روشنی سے بنی کوئی شے تھی کہیں
 سو گئی رات کے سائے گنتی ہوئی

جو ملاقات گلیوں میں طے تھی کہیں
میرے جیسا کوئی اور بیلے میں تھا

بانسری کی فسردہ سی لے تھی کہیں
شور تھا شہر میں عشق کاہر طرف

کوئی تازہ محبت کی نے تھی کہیں
اس کے اندر اترنا ہے گہرائی تک

سیکھتا جا کے ہوںٹیلی پیتھی کہیں
جگمگاتی پھرے عشقِ منصور میں
کوئی سیتی کہیں کوئی کیتھی کہیں
٭
یہ جو جلتے دئیوں کی آنکھیں ہیں

اصل میں نیکیوں کی آنکھیں ہیں
حسنِ گل پوش کے تعاقب میں

پھر کئی تتلیوں کی آنکھیں ہیں
دھند لاہٹ دکھائی دیتی ہے

نم زدہ کھڑکیوں کی آنکھیں ہیں
کافی تنکے ہیں چُن لئے لیکن

چار سو بجلیوں کی آنکھیں ہیں
نیم وا رہتی ہیں محبت سے

کھلتی کب لڑکیوں کی آنکھیں ہیں
یہ جو سیارے ہیں خلائوں میں

جنگجو بستیوں کی آنکھیں ہیں
راستہ ہے مدینہ کا منصور
پھول سی بچیوں کی آنکھیں ہیں
٭
میں سوچتا ہوں کہ شہرِ شب کو ملامتوں سے رفاقتیں ہیں

وہی تمسخر کا اب ہدف ہیں سحر کو جن سے عقیدتیں ہیں
نظر کی رنگیں مسافتوں کا نہ پوچھ انجام کیا رہا ہے

جنوں کے پُرسوزرتجگوں میں کتابِ دل کی تلاوتیں ہیں
بہکتی راتوں کی چاندنی سے بہلتی زرپوش زندگی ہے

قزح کے رقاص شیش محلوں کو صرف شاموں کی چاہتیں ہیں
خزاں کی سرکش جسارتوں نے مرے وطن کی بہار یں لوٹیں

چمن کی خود ساختہ رُتوںمیں منافقت کی حکومتیں ہیں
درندگی کی یہ فکرِ تازہ یہ پاگلوں کے قتال ِخود کُش

خرد کے پرہول فیصلے ہیںستم کی اندھی روایتیں ہیں
وفاکے منصور معبدوں میں دکھوںکی آتش بجھی نہیں ہے
تری نوازش کے سلسلے ہیں تری نظر کی عنایتیں  ہیں
٭
اک بلیک آوٹ ہے روشن دئیے ممنوع ہیں

کربلا کی رات ہے اور مرثیے ممنوع ہیں
ہم محبت کی ریاضی پاس کر سکتے نہیں

اک مثلت لازمی ہے زاویے ممنوع ہیں
کوئی تحفہ تو کجا خط بھی پہنچ سکتا نہیں

اُس گلی میں ہر طرح کے ڈاکیے ممنوع ہیں
ہجر میں ممکن نہیں ہے استراحت کا خیال

راحتوں کے سلسلے میرے لئے ممنوع ہیں
بارشیں منصور برسانے کا آڈر ہے مگر
آسماں پر بادلوں کے حاشیے ممنوع ہیں
٭
جنگلوںمیں جگنوں کے قافلے ممنوع ہیں

پائوں ہیں بے چین لیکن راستے ممنوع ہیں
صرف پروانے کو جلنے کی اجازت بزم میں

رونے پر پابندیاں ہیں ، قہقہے ممنوع ہیں
دشت کی تپتی زمیں پرمعجزہ کوئی کریں

ننگے پائوںچلنا ہے اور آبلے ممنوع ہیں
بام پر اب دل جلائیں اورمژہ پر دھڑکنیں

روشنی بھی کرنی ہے اور قمقمے ممنوع ہیں
موج کومنصورہے چلنا ہوا کے ساتھ ساتھ
ساحلوں پرپانیوں کے بلبلے ممنوع ہیں
٭
برسات میں نمازِ ہوا کاوضوہوں میں

اک خانقاہِ غم کا لبالب کدو ہوں میں
کرتی ہے یاد مجھ کو اشاروں کنایوں سے

مجھ کو یہی بہت ہے پسِ گفتگو ہوں میں
اک دوسرے سے کہتے نہیں جانتے تو ہیں

تُو میرے چار سو ہے ترے چارسو ہوں میں
مجھ کو بھی گنگنائے تہجد گزار دوست

اُس کیلئے تو نغمہ اللہ ھو ہوں میں
پھیلی ہوئی ہے آگ کی دونوں طرف بہار
منصور کیسے آج یہ زیبِ گلو ہوں میں
٭
بڑی سیدھی محبت میں بڑی سادی محبت

خلوصِ زر لٹاتی جائے شہزادی محبت میں
اسے دیوارِ جاں پر کوئی آویزاں کرے کیسے

کہ ہے تصویر کا ہر نقش فریادی محبت میں
نظر میں وصل کی قوسِ قزح ہے ،پائوں میں بادل

سنورتی جاتی ہے پھولوں بھری وادی محبت میں
سنا ہے اپنے گھر کے بام و در تک پھونک آیا ہوں

جہاں تک مجھ سے ممکن تھا ،کی بربادی محبت میں
تیرے بالوں میں میرے انگلیوں کے تار لزراں ہوں
بس اتنی چاہئے منصور آزادی محبت میں
٭
دھوپ میں پھرتا ہوں دن بھر خواب میں رہتا نہیں

میں ہجومِ ریشم و کمخواب میں رہتا نہیں
ہے مناسب بے کسی کی کوٹھری میرے لئے

غم پہن کر میںشب ِ مہتاب میں رہتا نہیں
کھل کے روتا ہوں ہمیشہ بادلوں کے ساتھ میں

یونہی ہجراں کے ادب آداب میں رہتا نہیں
ایک صحرا ہے مرے چاروں طرف پھیلا ہوا

میں مری جاں! قریۂ شاداب میں رہتا نہیں
ہر طرف بکھری ہوئی منصور ویرانی سی ہے
میں مکاں کے عالمِ اسباب میں رہتا نہیں
٭
دریچوں سے سیہ پردوں کو سرکاتا ہوا میں

پسند آیا ،ہوا میں دھوپ پھیلاتا ہوا میں
وہی ہوں میںمجھے پہچان دن کی روشنی میں

وہی تیرے مسلسل خواب میں آتا ہوا میں
کسی منہ زور تتلی کا تعاقب کر رہا ہوں

یہ خوشبو کی طرح پھولوں میں چکراتا ہوا میں
تمنا ہے رہوں جاگیر میں اپنی ہمیشہ

زمیں پر گفتگو کے پھول مہکاتا ہوا میں
جہاں کوکس لئے منصوردیتا ہوں دکھائی
کہیں آتا ہوا میں اور کہیں جاتا ہوا میں
٭
اداسی پیش کریں اضطراب پیش کریں

کسی کو کیا دلِ خانہ خراب پیش کریں
طلائی طشت ِ جواہر کے بیچ میں رکھ کر

خیال گاہِ محبت میں خواب پیش کریں
بتائیں کیسے کہ کس کس جگہ مراسم تھے

گذشتہ عمر کا کیسے حساب پیش کریں
کسی طرح اسے اپنے قریب لے آئیں

ملازمت کا کہیں کوئی جاب پیش کریں
طوافِ کوچہ ء جاناں سے جو ملامنصور
چلو وہ شہر کو حج کا ثواب پیش کریں
٭
اے کوچہ ء دل کے بخت ورو میں عشق میں ہوں

اب گلیوں میں اعلان کرو میں عشق میں ہوں
تم شہر کی سب دیوار وںاورپوشاکوں پر

دل پینٹ کرو تصویر گرو میں عشق میں ہوں
بازار کی ساری رقاصائو گلیوں میں

اب ڈھول بجا کر رقص کرو میں عشق میں ہوں
کچھ رنگ ِچراغاں اور کرو کچھ اور کرو

کچھ سرخ غبارے اور بھرو میں عشق میں ہوں
اب ہاتھ بڑھاکر سب کے گربیاں چاک کرو
اب زور سے تم منصور کہو میں عشق میں ہوں
٭
میں عشق میں ہوںخاموش رہومیں عشق میں ہوں

میں عشق میں ہوںآشفتہ سرومیں عشق میں ہوں
اے شعلۂ گل کے سرخ لبوں کی شوخ شفق

چپ چاپ رہو آوازنہ دو میں عشق میں ہوں
اے صحن چمن کے پچھلے پہر کی تیز ہوا

مت پھولوں کے اب ہار پُرومیں عشق میں ہوں
آوازنہ دے اب کوئی مجھے چپ رنگ رہیں

اے قوسِ قزح کے نرم پرو میں عشق میں ہوں
ہے تیز بہت یہ آگ لہو کی پہلے بھی

اے جلوۂ گل بیباک نہ ہو میں عشق میں ہوں
ہے نام لکھا معشوقِ ازل کا ماتھے پر

اے ظلم و ستم کے شہر پڑھو میں عشق میں ہوں
اب حالتِ دل کو اور چھپانا ٹھیک نہیں
منصور اسے یہ کہہ کر رو میں عشق میں ہوں
٭
رات جن کاجلی آنکھوں سے لڑی آنکھیں ہیں

ننگی تلواریں ہیں دونوں وہ کوئی آنکھیں ہیں
آنکھ جھپکوں تو نکل آتی ہیں دیواروں سے

میرے کمرے میں دو آسیب بھری آنکھیں ہیں
ہجر کی جھیل ترا دکھ بھی ہے معلوم مگر

یہ کوئی نہر نہیں ہے یہ مری آنکھیں ہیں
دیکھتے ہیں کہ یہ سیلاب اترتا کب ہے

دیر سے ایک ہی پانی میں کھڑی آنکھیں ہیں
جن کی مژگاں پہ نمی دیکھ کے تُو روتی تھی

تیز بارش میں ترے در پہ وہی آنکھیں ہیں
کون بچھڑا ہے کہ گلیوںمیں مرے چاروں طرف

غم زدہ چہرے ہیں او ر ر وتی ہوئی آنکھیں ہیں
انتظاروں کی دو شمعیںہیں کہ بجھتی ہی نہیں

میری دہلیز پہ برسوں سے دھری آنکھیں ہیں
اب ٹھہر جا اے شبِ غم کہ کئی سال کے بعد

اک ذرا دیر ہوئی ہے یہ لگی آنکھیں ہیں
باقی ہر نقش اُسی کا ہے مرے سنگ تراش

اتنا ہے اس کی ذرا اور بڑی آنکھیں ہیں
خوف آتا ہے مجھے چشمِ سیہ سے منصور
دیکھ تو رات کی یہ کتنی گھنی آنکھیں ہیں
٭
آسماں ہم کلام کر لوں میں

پانیوں پر خرام کرلوں میں
تم گلی سے سنا ہے گزرو گے

گھر میں کچھ اہتمام کرلوں میں
چاہتا ہوں کہ سایۂ گل میں

دھوپ اپنی تمام کرلوں میں
پھر کریں گے بہار کی باتیں

پہلے تھوڑاسا کام کرلوں میں
تیرے رخسار سے چرا کے شفق

سرخ رو اپنی شام کرلوں میں
بخش اتنی اجازتیں منصور
تیرے دل میں قیام کرلوںمیں
٭
پڑھتا رہا ہوں قیس کا نوحہ فراق میں

جاری رہا ہے دشت کا جلسہ فراق میں
دو موم بتیاں تھیں، ستارے تھے فرش پر

اک دیکھنے کی چیز تھا کمرہ فراق میں
میں باندھ باندھ دیتا تھا کھونٹے سے اپنا آپ

وحشت کامجھ پہ ایسا تھا غلبہ فراق میں
جس میں بھری ہو نیند سے مری سلگتی آنکھ

دیکھا نہیں ہے میں نے وہ عرصہ فراق میں
شاید مرا لباس تھا وہ دلربا وصال

میں دیکھتا تھا خود کو برہنہ فراق میں
منصوراُس چراغِ بدن سے وصال کا
آسیب بن گیا تھا ارادہ فراق میں
٭
کرتا ہوں اپنے آپ سے جھگڑا فراق میں

رہتا نہیں ہوں دوستو اپنا فراق میں
میں دیکھتا ہوں تیرے خدو خال کے چراغ

آئینہ دیکھتا ہے تماشا فراق میں
بڑھتی ہے اس کے صحن میں آشفتگی مری

کرتا ہوں چاند رات کا پیچھا فراق میں
یاجانتے ہیں راستے یاجانتا ہوں میں

کیسے یہ ایک سال گزارا فراق میں
میں تو بناتا رہتا ہوں تصویر ِخواب کی

تُو بول کیا ہے مشغلہ تیرا فراق میں
ساحل پہ دیکھتے ہیں کئی درد اور بھی

میں اور انتظار کادریا فراق میں
منصور پھیربس وہی آنکھوں پہ دھجیاں
وہ یادگارِ دستِ زلیخا فراق میں
٭
ریت کی شال پہ بھیگا ہوا ساجن اور میں

لمس کی آگ میں جلتا ہوا ساون اور میں
تھا یہ اندیشہ کہ سبقت نہ کرے موت کہیں

کچھ اسی واسطے جلدی میں تھے دشمن اور میں
شہرِ لاہور میں داتا کی گلی کے باہر

ایک مٹیار کا ہوتا ہوا درشن اور میں
نیپ ریکارڈ پہ بجتا ہوا غمگین نغمہ

رات کی کالی اداسی ،مرا انگن اور میں
شور برپا تھا بلائیں تھیں فضا میں منصور
آمنے سامنے جیسے تیرا جوبن اور میں
٭
پلیز جمع کرومت ملال کی آنکھیں

ڈرائیں گی یہ غمِ ذوالجلال کی آنکھیں
جواب دو کہ فریضہ یہی تمہارا ہے

ہیں انتظار میں ، میرے سوال کی آنکھیں
بڑا ہے شوق مسافر نوازیوں کا انہیں

بچھا رہے ہیں شجر اپنی چھال کی آنکھیں
مرا خیال ہے تارے نہیں یہ آنکھیں ہیں

شبِ فراق میں صبحِ وصال کی آنکھیں
حنوط کرنا پڑے گا چراغِ شام مجھے

کھلی ہوئی افق پر زوال کی آنکھیں
کٹا ہوا یہ کوئی کیک تو نہیں منصور
پڑی ہیں تھال میں اک اور سال کی آنکھیں
٭
ہیں کسی تکلیف کی کیا خوبرو تبدیلیاں

سن رہا ہوں شب کی تیرہ ساعتوں کی سسکیاں
چھڑ گئے ہیں پھر مسائل ایک کالی رات کے

آرہی ہیں یاد پھر سے زندگی کی تلخیاں
میں نے مصرع کی کلائی کو نئے کنگن دئیے

شانِ دوشیزہ سخن میں ہوگئیں گستاخیاں
آخری تاریکیاں ہیں قریہء امکان میں

گن رہا ہوں ہچکیاںپچھلے پہر کی ہچکیاں
اک اشارہ چاہئے حرفِ کرم کا صبح کو

دیدۂ تقویم میں ہیں وقت کی بے تابیاں
امتِ مرحومہ کو پھر بخش دے روحِ حیات

سربکف تیرے لئے ہے ظالموں کے درمیاں
میں نے جو منصور لکھا اُس پہ شرمندہ نہیں
مجھ سے پائندہ ہوئی ہیں حرف کی رعنائیاں
٭
نشاں بناتی تھیں پشت پر جووہی پرانی چٹائیاں تھیں

عجیب تھا ان پہ سونے والاکہ پائوں میں کل خدائیاں تھیں
شبِ برگزیدہ دراز گیسو،ہمہ آفتاب نگاہ اس کی

چراغ ایسے تھے ہاتھ اس کے ، بہار ایسی کلائیاں تھیں
رتوں نے قوسِ قزح پہن لی تھی رنگ خوشبوسے مل گئے تھے

زمین پھولوں سے بھر گئی تھی کچھ ایسی چہرہ نمائیاں تھیں
جو لفظ مچلے زبانِ کُن پر،جو بات نکلی لبِ کرم سے

لکھوک ہا اس میںفائدے تھے کروڑ وںاس میں بھلائیاں تھیں
غلام شاہِ جہاں ہوئے ہیںجو خاک تھے آسماں ہوئے ہیں
پہاڑ اس کے ہوئیں کرم سے وہی جو محکوم رائیاں تھیں
٭
زمیں سے آسماں تک دیکھتا ہوں

اندھیرا ہے جہاں تک دیکھتا ہوں
جہاں تک ذہن و دل کی دسترس ہے

میں منظر کو وہاں تک دیکھتا ہوں
یونہی صحرا کہاں دیتے ہیں خبریں

ہوا کے میں نشاں تک دیکھتا ہوں
پرندے کھیلتے ہیں تیلیوں میں

قفس سے آشیاں تک دیکھتا ہوں
بجز دل ہے کہاں منصور ٹھہرا
مکاں سے لامکاں تک دیکھتا ہوں
٭
پڑی ہیں ہر طرف وابستگانِ دید کی آنکھیں

نکل آئی ہیں ہرگل سے کئی امید کی آنکھیں
مکمل ہو چکا ہے آخری پیراگراف اپنا

ابھر آئی ہیں کاغذ پر نئی تمہید کی آنکھیں
خدا جانے تجھے کیسی بڑی مجبوری لاحق تھی

مسلسل کھاتی تھیں چغلی تری تردید کی آنکھیں
ستاروںسے صدائیں آتی تھی سبحان اللہ کی

لپکتی تھیں عجب اُس غیرتِ ناہید کی آنکھیں
پلٹ آتی ہیںباغوں کی بہاریں تو مگرمنصور
بھری رہتی ہیں اشکوں سے ہر آتی عید کی آنکھیں
٭
دیارِ گل میں بھیانک بلا ئیں حاکم ہیں

طلسمِ شب ہے سحر تک بلا ئیںحاکم ہیں
سفید پوش ہیںسہمے ہوئے مکانوں میں

گلی میں پھرتی ہے کالک بلا ئیں حاکم ہیں
یہاں سے ہجرتیں کرنی ہیں خوش دماغوں نے

یہاں ہے موت کی ٹھنڈ ک بلا ئیںحاکم ہیں
یہ گفتگو سے سویرے طلوع کرتی ہیں

وطن پہ رات کی زیرک بلا ئیںحاکم ہیں
نکل پڑے ہیں ہزاروں سگانِ آدم خور

کھلے ہیں موت کے پھاٹک بلا ئیں حاکم ہیں
وہ ساری روشنیوں کی سہانی آوازیں

تھا اقتدار کا ناٹک بلا ئیں حاکم ہیں
جو طمطراق سے جالب کے گیت گاتی ہیں

 وہ انقلاب کی گاہک بلا ئیں حاکم ہیں
کسی چراغ میں ہمت نہیں ہے جلنے کی

بڑا اندھیرا ہے بے شک بلا ئیں حاکم ہیں
سعودیہ سے ہواہے نزولِ پاک ان کا

چلو وطن میں مبارک بلا ئیں حاکم ہیں
خدا کے نام دھماکے نبیؐ کے نام فساد

بنام ِ دین ہے بک بک بلائیں حاکم ہیں
یہ مال و زر کی پجاری ہیں وقت کی قارون

نہیں ہے مذہب و مسلک بلائیں حاکم ہیں
نظر نہ آئیں سہولت سے آنکھ کو منصور
لگا کے دیکھئے عینک بلائیں حاکم ہیں
٭
میںکوئی اداس سکوت ہوںمیں کسی بروگ کی چیخ ہوں

کہیںبے کسی کا کلام ہوںکہیں دل کے روگ کی چیخ ہوں
کہیں ٹوٹ پھوٹ نہ جائے وہ مجھے آسمان کا خوف ہے

کوئی آہ ہوں میں فقیر کی ،کسی’ اللہ لوگ‘ کی چیخ ہوں
مرے صحنِ دل میں پڑی ہوئی بڑی خوفناک سی شام ہے

کوئی بین ہوں کسی رات کا کسی تازہ سوگ کی چیخ ہوں
کبھی حسرتوں کے زبان سُن کبھی اشک و آہ کی تان سُن

کبھی بھیرویں کا الاپ میںکبھی راگ جوگ کی چیخ ہوں
کبھی گفتگو کروں نرگ سے کبھی بات چیت سورگ سے
کوئی ڈائیلاگ ہوں کشف کا،میں کسی ابھوگ کی چیخ ہوں
٭
افسردگی کی پھیلتی جھاڑی تھی اور میں

حد سے بڑھی ہوئی مری داڑ ھی تھی اور میں
ضد میں تھا کہ پہنچنا ہے بس دوسری طرف

ناقابل عبور پہاڑی تھی اور میں
بے سمت جا رہا تھا بہت ہی سپیڈ میں

پچھلا پہر تھا رات کا، گاڑی تھی اورمیں
پہنے ہوئے تھاکوئی فقیرانہ سا لباس

اس کے بدن پہ قیمتی ساڑھی تھی اور میں
منصور سرد و گرم چشیدہ تھا ہجر میں
وہ بزمِ عاشقاں میںاناڑی تھی اور میں
٭
زندگی ہے دیدۂ سفاک کی جلتی زمیں

قریۂ خوں ریزہے ادراک کی جلتی زمیں
ٹوٹتے جاتے ہیں قسمت کے ستارے ان دنوں

گر رہی ہے خاک پر افلاک کی جلتی زمیں
ہر طرف خودکُش دھماکے ہر طرف ظالم فساد

مانگتی ہے رحم ارضِ پاک کی جلتی زمیں
بند کمرے میں در آئی ہے کسی دیوار سے

ہجر میں دشتِ گریباں چاک کی جلتی زمیں
دیکھتا ہوں خواب میں منصور بمباری کے بعد
سوختہ شہروں سے اڑتی خاک کی جلتی زمیں
٭
نقشہ بنا نا ہے نئی دھرتی کا دیس میں

تخلیق کرناملک ہے مرضی کا دیس میں
ڈاکوہوئے امیر تو مفلس غریب چور

عفریت ہے حرام پرستی کا دیس میں
لوگوں نے رکھ لیا ہے اندھیرے کا نام صبح

ہوگا کہاں ظہور سفیدی کا دیس میں
کب تن پہ کپڑے ہونگے کب سر پہ ہوگی چھت

کب ختم ہوگا مسئلہ روٹی کا دیس میں
زینہ بہ زنیہ جاتے ہیں پائوں فلک کی سمت

اک سلسلہ ہے دھند کی سیڑھی کا دیس میں
پستی کی انتہا پہ مسافر پہنچ گئے

اک  راستہ عجب تھابلندی کا دیس میں
کیکر کے پھول دارپرانے درخت کا

پھر سے مقابلہ ہے چنبیلی کا دیس میں
منصور لکھ’’جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
منظر وہی ہے غالب و دہلی کا دیس میں
٭
ایک جیسی روشنی ہو،لامکانوں میں دیے ہوں

سب پہ اتریں کہکشائیںسب زمانوںمیں دیے ہوں
قمقمے ہوں پانیوں میں جگمگائیں شاہراہیں

شہر ہوں تہذیب گاہیں ، گلستانوں میں دیے ہوں
فکرِ مال وزر بدل دے ،آگہی کے در بدل دے

یہ نظامِ شربدل دے،درس خانوں میں دیے ہوں
اب نہ غربت ہو کہیں بس،دے مساواتِ حسیں بس

روٹی کپڑا ہی نہیں بس،سب مکانوں میں دیے ہوں
ایک ازلوںکی کہاوت ،بھوک اور رج میں عداوت

ظلم طبقاتی تفاوت ،سب خزانوںمیں دیے ہوں
سندھ دریا کی ہوں نظمیںاور روہی کی ہوں بزمیں

جگنوئوں کے حاشیے ہوں، آسمانوں میں دیے ہوں
دے بسروچشم سب کو موت لیکن دیکھ اتنا

 لوگ جیون میں جیے ہوں،آشیانوں میں دیے ہوں
لفظ سچا ہی نہ ہو بس ،نام اچھا ہی نہ ہو بس

کام اچھے بھی کیے ہوںسب گمانوں میں دیے ہوں
رات تاروں کیلئے ہو چاند ساروں کے لیے ہو
نور کی منصور شب ہو داستانوں میں دیے ہوں
٭
تم نے کھینچا وہ افسون ہر دور میں

ہر گھڑی غم کا مضمون ہر دور میں
صبحِ جمہوریت کے اجالوں پہ بس

تم نے مارا ہے شب خون ہردور میں
نور و نکہت پہ طاقت سے نافذ ہوا

ظلمتِ شب کا قانون ہر دور میں
بس لہو فاختہ کا گرایا گیا

اور کٹی شاخِ زیتون ہردور میں
زندگی چیختی اور سسکتی رہے

ہے یہی کارِ مسنون ہردور میں
ملتی لوگوں کو منصور روٹی نہیں
اور فیاض قارون ہر دور میں
٭
کھلتی ہوئی کلی کودل سے سراہتے ہیں

رنگوں کے ہم ہیں عاشق ، خوشبو کو چاہتے ہیں
ہم چھوڑتے نہیں ہیںچلتے ہوئے کسی کو

ممکن جہاں تلک ہورشتہ نباہتے ہیں
لگتا ہے میری جاںسے اٹھتی ہیں یہ صدائیں

پت چھڑ کی جب رتوں میں پتے کراہتے ہیں
ہو جاتی ہے خبرکہ اکتا گئے ہیں ہم سے

محفل میں اپنی ساجن جب بھی جماہتے ہیں
منصور تازہ روگ سے خود کو تباہتے ہیں
جی کو مثالِ میر  ذرا ہم بساہتے ہیں
٭
اپنے جینے کے فوائد کچھ تو ہوں

زندگانی کے مقاصد کچھ تو ہوں
میرے گیتوں کو پہن لو تتلیو!

پھول میرے بھی مقلد کچھ تو ہوں
کوئی اچھا کام کرنا چاہتا ہوں

شہر میں میرے بھی حاسد کچھ تو ہوں
جن کی جنگیں زندگی کے واسطے

ایسے بھی تیرے مجاہد کچھ تو ہوں
تیرے قبضے میںزمین و آسماں

کچھ اِ دھر بھی ذاتِ واحد! کچھ تو ہو
اس کی آنکھیں تیغ تیورہی سہی

قتل کے لیکن شواہد کچھ تو ہوں
لرزہ بر اندام جن سے دیوتا

ایسے منکر ایسے ملحد کچھ تو ہوں
کچھ تو ہوں منصور باتیں دین کی
نور پھیلاتے عقائد کچھ تو ہوں
٭
یہ مسجدوں میں جوخود کُش شہید ہوتے ہیں

قسم خدا کی ۔۔ جہنم رسید ہوتے ہیں
طلب بھی پاتی ہے ترتیب ٹیلی ویژ ن سے

جہاں کو دیکھ کے ہم بھی جدید ہوتے ہیں
ہر اک دور کا اک شاہ حسین ہوتا ہے

ہرایک دور میں خواجہ فرید ہوتے ہیں
نکل کے گھر سے یونہی رات رات چلتا ہوں

بڑے ہی یا د کے حملے شدید ہوتے ہیں
یزید کوئی بھی ہوتا نہیں حسین مزاج

حسین نام کے لیکن یزید ہوتے ہیں
میں جتنی کرتا ہوں کوشش درست کرنے کی

خراب اتنے مسائل مزید ہوتے ہیں
نکلتی ہے یہ مصائب سے شاعری منصور
یہ مصرعے خونِ جگرسے کشید ہوتے ہیں
٭
اک پرانا برآمدہ اور میں

پھر مصلیٰ پہ ہیں خدا اور میں
جس میں ساقی ہیں حضرت ا ِ قبال

وہی رومی کا میکدہ اور میں
کیا کنارِ ابد کلام کریں

وہ ازل زاد کج ادا اور میں
کوہ سے آرہے ہیں بستی میں

ایک بہتی ہوئی ندا اور میں
آقائے دو جہاںﷺ کی حرمت پر

میرے ماں باپ بھی فدا اور میں
آسماں سے ابھی ابھی منصور
اطلاعاتِ آمدہ اور میں
٭
دل نہیں مانتا میں پھرتجھے چھوڑ آیا ہوں

یہ الگ بات بظاہر تجھے چھوڑ آیا ہوں
پائوں پتھر تھے پہاڑوں کی طرح لگتے ہیں

سچ یہی ہے تری خاطر تجھے چھوڑ آیا ہوں
تُو جہاں بھول گیا تھا مجھے رکھ کر جاناں

میں اسی جگہ پہ آخر تجھے چھوڑ آیا ہوں
تُو جہنم کی گلی میںمجھے چھوڑآیا تھا

میں تو جنت میںمسافر تجھے چھوڑ آیا ہوں
جتنا ممکن تھا ترا ساتھ دیا ہے لیکن
آخرش میں بھی اے کافر تجھے چھوڑ آیا ہوں
٭
زمانے سے بچھڑنا چاہتا ہوں

میں فائل بند کرنا چاہتا ہوں
مقام صفر سے ملنے کی خاطر

کسی ٹاور سے گرنا چاہتا ہوں
لہومیں کالے کتے بھونکتے ہیں

کسی کے ساتھ سونا چاہتا ہوں
یہ کیوں پستی سے کرتا ہے محبت

میں پانی کو سمجھنا چاہتا ہوں
کبھی وحشی مسائل سے نکل کر

تجھے کچھ دیر رونا چاہتا ہوں
ذرا اونچی کرو آواز اس کی

 ہوا کی بات سننا چاہتا ہوں
میں ہلکی ہلکی نیلی روشنی میں

بدن کا بورڈ پڑھنا چاہتا ہوں
پڑا ہوں بند اپنی ڈائری میں

کہیں پہ میںبھی کھلنا چاہتا ہوں
ازل سے پائوں میں ہے ریل گاڑی
کہیں منصور رکنا چاہتا ہوں
٭
وقت ساکت ہے ،جامد یہ حالات ہیں

بس بدلتے نمازوں کے اوقات ہیں
میری رائے پہ اے زندگی رحم کر

تیرے بارے میں اچھے خیالات ہیں
دے رہاہے مرا چہرہ سب کے جواب

تیری آنکھوں میں جتنے سوالات ہیں
پائوں آگے بڑھا ، دار پر وار کر

موت کے کھیل میںہم ترے ساتھ ہیں
گھاس کھاتے رہو بم بناتے رہو

اپنی باقی ابھی کچھ فتوحات ہیں
تیری زلفوں کی کرنیں تلاوت کریں

 تیرے چہرے کی آنکھوں میں آیات ہیں
آتے جاتے ہیں اکثرشبِ تار میں

یہ ستارے تو اپنے مضافات ہیں
غم ہے تنہائی ہے ، ہجر ہے رات ہے
ہم پہ منصور کیا کیا عنایات ہیں
٭
مرتے ہوئے سورج پر دو شعر کہے جائیں

اِس بجھتی چتا کے بھی شعلے تو گنے جائیں
گل کرتا ہوں اب شمعیں ا ے قافلے والومیں

جو چاہتے ہیں جانا ،وہ لوگ چلے جائیں
چل سندھ کے ساحل پرہر موجہ ء طوفاں میں

دریا کے مغنی سے کچھ گیت سنے جائیں
پھر پائے محمد ﷺکے مصحف کی تلاوت ہو

پھر نقشِ کفِ پا کے الہام پڑھے جائیں
سو زخم اثاثہ ہوں اک پائوں دھروں جب بھی

خنجر مرے رستے میں اس طرح چنے جائیں
ہم دار ستادوں سے منصور نہیں ممکن
جس سمت زمانہ ہو اس سمت بہے جائیں
٭
مقید ہوں میں کن فکاں کے قفس میں

مری ذات کب ہے مری دسترس میں
خبر ہے مگر ڈالتا ہوں کمندیں

اڑانیں تمہاری نہیں میرے بس میں
مری لوحِ تقدیر پر تُو نے لکھا

مسرت کا لمحہ ہزاروں برس میں
تری سرد راتوں کو آغوش دوں گا

بڑی شعلہ افشانیاں ہیں نفس میں
نمل جھیل کے ایک پتھر نے پوچھا

کہاں تیرے وعدے کہاں تیری قسمیں
خزاں خیز موسم میں منصور تجھ سے
ہوئیں پُر نمو قتل گاہوں کی رسمیں
٭
درد کیوں چہرہ نمائی میں نہیں

یہ عمل تو پارسائی میں نہیں
آسماں ہیں میرے اندر ہی کہیں

ہاں مگر میری رسائی میں نہیں
فاقہ مستی کائناتوں پر محیط

معجزہ کوئی گدائی میں نہیں
میرے بنجاروں تمہاری خیر ہو

ایک بھی چوڑی کلائی میں نہیں
وقت میری وحدتوں میں ہے مقیم

میں زمانے کی اکائی میں نہیں
صرف میں منصور اک موجود ہوں
کوئی بھی پوری خدائی میں نہیں
٭
گلی کے موڑ پہ ٹھہری ہوئی بہار میں ہوں

میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے انتظار میں ہوں
مرے مزاج میں ہرجائی پن ہی آنا تھا

مقیم روزِ ازل سے میں کوئے یار میں ہوں
تمہارے تاج محل سے جو پے بہ پے ابھرے

میں خستہ بام انہی زلزلوں کی مار میں ہوں
ہے آنے والے زمانوں پہ دسترس لیکن

میں اپنے ماضی ء مرحوم کے جوار میں ہوں
تمہارا پوچھتے رہتے ہیں لوگ مجھ سے بھی

یہی بہت ہے کہ میں بھی کسی شمار میں ہوں
جو مجھ پہ اٹھی تھی لطف و کرم میں بھیگی ہوئی

اُس اک نظر کے مسلسل ابھی خمار میں ہوں
میرا مقام یہ اہل خرد کہاں جانیں

سوادِ حسنِ نظرمیں، نواحِ یار میں ہوں
مرے سوا جو کسی اور کا نہ ہو منصور
 اک ایسے شخص کے برسوں سے انتظار میں ہوں
٭
نکھری صبحیں ، بکھری شامیں ، راتیں ہیں سنسان

کیا جانے کس اور گئے ہیں خوابوں کے مہمان
سرمایہ ہیں تیرے سپنے ، حاصل تیرے خواب

تیری یاد کا چہرہ میری ذات کی ہے پہچان
کاش کوئی آ،تاپے اپنی نرم و ملائم شام

روح میں جلتا دیکھوں دن بھر غم کا آتش دان
کس کا چہرہ جنس زدہ ہے ، کس کا جسم غلیظ

کون زمیں کی پیٹھ پہ پھوڑا تُو یا پاکستان
تیس برس کی اک لڑکی کا جیسے کومل جسم
دوبالشت جب ہوجائے منصور سنہری دھان
٭
گم تھے سرگم لاکھ اس کے چہرہ ء معصوم میں

اور میں بالکل اکیلا تھا ڈرائنگ روم میں
رات کے بستر پہ خالی جسم اپنا پھینک کر

روح پھر رہنے چلی ہے ماضی ء مرحوم میں
ایک فوٹو پر اچانک پڑ گئی میری نظر

اور میں بہتا گیا پھر نغمۂ کلثوم میں
بن رہی ہیں ہر قدم پر رات کا اک دائرہ

اک تھکے سورج کی کرنیں قریۂ معدوم میں
چار بھیڑیں ایک بکری ایک گائے ایک میں

اور رکھوالی کو چرواہی شبِ مخدوم میں
جل پری آگے بڑھی شوقِ وصال انگیز سے

اور میں لوٹ آیا یکدم ساعتِ معلوم میں
دل دھڑکتا جا رہا ہے دیکھئے منصور کا
اک تھکی ہاری غزل کے پیکرِ منظوم میں
ردیف و
ہوائے نرم خُو کو اپنی عادت کم نہ ہونے دو

شجر ایسے تعلق کی ضرورت کم نہ ہونے دو
ابھی گلدان میں رہنے دو یہ بکھری ہوئی کلیاں

ابھی اس کے بچھڑنے کی اذیت کم نہ ہونے دو
دئیوں کی لو رکھو اونچی دیارِ درد میں منصور
اندھیروں کے خلاف اپنی بغاوت کم نہ ہونے دو
ق
مرے دھکے ہوئے جذبوں کی شدت کم نہ ہونے دو

تعلق چاہے کم رکھو، محبت کم نہ ہونے دو
ذرا رکھو خیال اپنے نشاط انگیز پیکر کا

مری خاطر لب و رخ کی صباحت کم نہ ہونے دو
مسلسل چلتے رہنا ہو طلسمِ ذات میں مجھ کو

رہو آغوش میں چاہے مسافت کم نہ ہونے دو
مجھے جو کھینچ لاتی ہے تری پُر لمس گلیوں میں

وہ رخساروں کی پاکیزہ ملاحت کم نہ ہونے دو
رکھو موجِ صبا کی وحشتیں جذبوں کے پہلو میں
تلاطم خیز دھڑکن کی لطافت کم نہ ہونے دو
٭
اجنبی ہے کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو

یہ تو منصور کا چہرہ نہیں لگتا مجھ کو
اتنے ناپاک خیالات سے لتھڑی ہے فضا

حرفِ حق کہنا بھی اچھا نہیں لگتا مجھ کو
قتل تو میں نے کیا رات کے کمرے میں اسے

اور یہ واقعہ سپنا نہیں لگتا مجھ کو
پھر قدم وقت کے مقتل کی طرف اٹھے ہیں

یہ کوئی آخری نوحہ نہیں لگتا مجھ کو
وقت نے سمت کو بھی نوچ لیا گھاس کے ساتھ

چل رہا ہوں جہاں رستہ نہیں لگتا مجھ کو
کیسی تنہائی سی آنکھوں میں اتر آئی ہے

میں ہی کیا کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو
موت کا کوئی پیالہ تھا کہ وہ آبِ حیات

جسم سقراط کا مردہ نہیں لگتا مجھ کو
اب تو آنکھیں بھی ہیں سورج کی طنابیں تھامے

اب تو بادل بھی برستا نہیں لگتا مجھ کو
ٹین کی چھت پہ گرا ہے کوئی کنکر منصور
شور ٹوٹے ہوئے دل کا نہیں لگتا مجھ کو
٭
تُو لائے یار کی خوشبو، سدا سلامتی ہو

سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو
میں دھڑکنوں کے تلاطم سے لطف لیتا ہوں

ہزار وحشتِ موجِ ہوا سلامتی ہو
مری حیاتِ گذشتہ سے لوٹ آتی ہوئی

صباحتِ لب و رخ کی صدا سلامتی ہو
ملالِ شامِ مسلسل کی حکمرانی ہے

الم نصیب، دلِ باوفا سلامتی ہو
تمام کون و مکاں کے لیے دعائے خیر

فقط یہاں ہی نہیں جا بجا سلامتی ہو
وہاں بچھانی ہے اک جانماز میں نے بھی

کنارِ چشمہء  حمد و ثنا سلامتی ہو
میں چل رہا تھا کسی بد کلام بستی میں

کسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہو
سیاہ دن سے گزرتی ہوئی سفید قبا

اٹھے ہوئے ہیں یہ دست دعا سلامتی ہو
پڑوس میں بھی ترے دم سے کچھ اجالا ہے

سلامتی مرے گھر کا دیا سلامتی ہو
میں خوشہ چین ہوں غالب ترے گلستاں کا

اے کائناتِ سخن کے خدا سلامتی ہو
شبِ فراق چمکتی ہے تیرے جلووں سے

اے مہتاب کی دھیمی ضیا سلامتی ہو
یہیں پہ خیر بھی رہتی ہے شر بھی ہے آباد
مری زمین پہ منصور کیا سلامتی ہو
٭
خوابِ گل کی جو پہیلی دیکھتی ہو

وصل کی پہلی چنبیلی دیکھتی ہو
پتھروں کو کاٹتا رہتا ہوں دن بھر

کیا مری چھو کر ہتھیلی دیکھتی ہو
بات کر سکتے ہیں ہم دونوں یہاں پر

ہے سڑک کتنی اکیلی دیکھتی ہو
غم کی صدیوں کا کھنڈر ہوں تیرے بعد

جسم کی خالی حویلی دیکھتی ہو
یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے چشم و لب میں

بولتی ہو رت، چنبیلی دیکھتی ہو
بات خوشبو کی اچانک موسموں نے

چھین اس کے ہونٹ سے لی، دیکھتی ہو
مجھ میں دیکھو بیٹھ کر اس کو کوئی دن
خود میں کیا دلہن نویلی دیکھتی ہو
٭
وہ امریکا تھی ہر بات روا تھی اس کو

کیسے سمجھ لیتا میں اپنا ساتھی اس کو
جنگ نہیں ہو سکتی تھی اس بے پرواسے

میں نے فنا ہونا تھا اور بقا تھی اس کو
میرے ساتھ جہاں تھا پھر بھی ہار گیا میں

ایک مقدس ماں کی صرف دعا تھی اس کو
انجانے میں بھیگ گئی تھیں جلتی پلکیں

کچھ کہنے کی اور ضرورت کیا تھی اس کو
اپنے پیٹ پہ پتھر باندھ کے جو پھرتا تھا

بخش دیا ہے ایک سخی نے ہاتھی اس کو
دیکھ کے چہرہ کو منصور کہا پھولوں نے
راس میانوالی کی آب و ہوا تھی اس کو
٭
وردِ دل اللہ ہو ، وردِ زباں اللہ ہو

اسمِ جاں اللہ ہو جانِ جہاں اللہ ہو
ایک ہی آہنگ میں موجِ صبا کے ساتھ ساتھ

کہہ رہا ہے صبح دم آبِ رواں اللہ ہو
گونجتا ہے اس لئے دائود سے باہو تلک

نغمۂ ہو کے تکلم میں نہاں اللہ ہو
عابدوں کا اپنا تقوی ، زاہدوں کا اپنا زہد

رندِ درد آمیز کی آہ و فغاں اللہ ہو
لفظِ ہو میں گم ہواہے ہست کا سارا وجود

یہ زمیں اللہ ہو یہ آسماں اللہ ہو
خاک اور افلاک کو واپس بھی لے سکتا ہے وہ

ہیں جہاں دونوں فنا اک جاوداں اللہ ہو
قبر کی دعوت میں باہو کہہ گیا منصور سے
جس کا میں شہباز ہوں وہ لامکاں اللہ ہو
٭
رنگ لے کر نئے، دھنک سے تُو

ڈر رہا ہے دریچے تک سے تُو
یہ تجھے بھی مسافرت دے گی

مانگتا کیاہے اِس سڑک سے تُو
کھنکھناتی ہوئی زمیں سے میں

اور آیا ہوا فلک سے تُو
دل پہ تصویر ہوگیا کیسے

اپنی بس ایک ہی جھلک سے تُو
شور آنکھوں کا کیسا تھا منصور
بھر گیا لمس کی مہک سے تُو
٭
مصحفِ دل کی تلاوت روز و شب کرتے رہو

ان کے دروازے کھلے ہیں تم طلب کرتے رہو
شاملِ توفیق ان کی رحمتیں ہو جائیں گی

مسئلے جو بھی بیاں کرنے ہیں سب کرتے رہو
زندگی ممنون ہے جس کی ، اُسی کے نام سے

اپنے دل کے بھی دھڑکنے کا سبب کرتے رہو
نام ہو ان کا تو مایوسی سراسر کفر ہے

اپنی بخشش کی دعا ساغر بہ لب کرتے رہو
اک ذرا بس ان کا ذکرِ خیر پہلے دوستو

بات اپنی جو تمہیں کرنی ہے ، اب کرتے رہو
عزم زندہ ہو تو ساری بیڑیاں کٹ جائیں گی

کوششیں اپنی بصد رنج و تعب کرتے رہو
آنکھ میں منصور روشن ہوں ستارے اور دئیے
آنسوئوں سے تم بپا شامِ طرب کرتے رہو
٭
بھردیا اجنبی فضائوں کو

ہم نے ابلاغ سے خلائوںکو
آخری سانس تک لڑیں گے ہم

پھر دیوں نے کہا ہوائوں کو
لوگ ابلیس سے بھی بڑھ کے ہیں

پوجتے ہیں کئی خدائوں کو
سانپ بننے لگی ہے شاخِ گل

دھوپ ڈسنے لگی ہے چھائوں کو
دشتِ غم سے نکال لائے ہیں

چومتے ہیں ہم اپنے پائوں کو
دے گئی پھر سنبھالاموسیقی

اور دعادی غزل سرائوں کو
اپنے خالی گھڑے لئے منصور
کوئی دریا چلا ہے گائوں کو
٭
ہوتے ہیں کیسے گال ، گلابی سمجھتے ہو

تم لمسِ زندگی کی خرابی سمجھتے ہو
تم مجھ سے پوچھتے ہو الف کی کہانیاں

کیا مجھ کو کوئی کرمِ کتابی سمجھتے ہو
کیاگفتگو ہو تم سے فقیہ ِعجم کہ تم

غالب سی شخصیت کو شرابی سمجھتے ہو
اے دوست یہ بھی آتی ہے فردِ علوم میں

کیوں دوستی کو غیر نصابی سمجھتے ہو
عبدالرسول ! چھائوں کی نرمی تو کم نہیں

کیوں نیم کے شجر کو وہابی سمجھتے ہو
منصور یہ لہو ہے پروں پر لگا ہوا
تم فاختہ کا رنگ عنابی سمجھتے ہو
٭
گزرتا ہے کوئی برسوں میں تارہ دیکھتے کیا ہو

محبت کا یہ کم آباد رستہ دیکھتے کیا ہو
مرے برجِ جدی تم ہو یہ خوش بختی تمہی سے ہے

لکیریں دیکھتے کیا ہو ستارہ دیکھتے کیا ہو
محبت وہ نہیں حاصل جہاں لاحاصلی بس ہو

جو کھلتا ہی نہیں ہے وہ دریچہ دیکھتے کیا ہو
یہاں کاغذ پہن کر صرف میرے خواب رہتے ہیں

یہ بے ترتیب سا نظموں کا کمرہ دیکھتے ہو
ہے بندو بست ، لمس و ذائقہ کی پیاس کا منصور
نگاہوں سے کسی کا صرف چہرہ دیکھتے کیا ہو
٭
یہ لب سمیٹ لیں صحرا کی پیاس ایسا ہو

کہ آپ چل کے کنواں آئے پاس ایسا ہو
کری گلاس میں ڈالے پلیٹ میں پانی

میں چاہتا ہوں کہ وہ بدحواس ایسا ہو
تمام رات رہے مال روڈ پر بجلی

تمام رات یہ چیرنگ کراس ایسا ہو
مری گلی میں شعاعوں کی بھیڑ لگ جائے

اُس آئینے سے کوئی انعکاس ایسا ہو
وہ خوش خرام بدن نرم گرم جیسا ہے

مرے بدن کا بھی کوئی لباس ایسا ہو
ملال سسکیاں گلیوں میں بھرتے پھرتے ہوں

یہ شہر ہجر میں تیرے اداس ایسا ہو
کوئی بھی راستہ پائوں کی دسترس میں نہ ہو

ہرایک راہ میں اگ آئے گھاس ایسا ہو
جو دیکھ سکتا ہومنظر نہیں پسِ منظر

کوئی تو شہر میں چہرہ شناس ایسا ہو
وہ بار بار پڑھے رات دن جسے منصور
کتابِ دل کا کوئی اقتباس ایسا ہو
٭
تہذیب کو فرسودہ دلائل سے نکالو

مرتے ہوئے لوگوں کومسائل سے نکالو
تم ملک خدا داد کا لوٹا ہوا گلشن

اب زردمعیشت کے خصائل سے نکالو
خیرات پہ جینا توکوئی جینا نہیں ہے

اک تازہ سحر اپنے وسائل سے نکالو
قانون کو نافذ کرو ہر ایک گلی پر

تم قاتلوں کو اپنے قبائل سے نکالو
منصور لٹیروں کو سرِعام دو پھانسی
اب دیس کرپشن کی شمائل سے نکالو
٭
صلیبیں دور یہ گاڑو کہیں ،معافی دو

نہیں نہیں میں مسیحا نہیں معافی دو
اتار سکتا نہیں ہوںمیں قرض مٹی کے

اے میرے دیس اے میری زمیں معافی دو
کسی کے سامنے جھکنا مجھے نہیں آتا

سجودِ خاک سے عاری جبیں معافی دو
خدا سے میرے مراسم میں تم نہیں موجود

بہشتِ نہر مہ و انگبیں معافی دو
 نہیں ہے سانپ کو بھی مارناروا مجھ پر

لپکتے مارِ کفِ آستیں معافی دو
وجودِ وحدت ِ کل سے جدا نہیںہوں میں

شہودِ شر کے بزرگِ لعیں معافی دو
نکلنے کو مرے ہاتھوں سے ہے نماز ِ عشا

عکاظِ نو کی شبِ آتشیں معافی دو
یہاں گنہ ہے تمنا، یہ ہے رہِ منصور
دیارِ دست طلب کے نگیں معافی دو
٭
حرام ہم پہ خیالِ طلب معافی دو

امیرِ شہر! چلو جائو اب، معافی دو
فقیرلوگ ابھی کربلا نہیں بھولے

اٹھو یہاں نکل جائو سب، معافی دو
وجود جھرجھری کھاتے ہیں بادشاہوں کے

سوال ترش ہیںلیموں بلب ،معافی دو
تم اہل ِ زر سے تباہی تمام بستی میں

ہر ایک دکھ کا تمہی ہو سبب معافی دو
نفاذِ دین محمد ﷺکہیں نہیں منصور
عجم معاف کرو اے عرب معافی دو
٭
ملک کے ٹوٹے کواڑوں کو شہیدوں کا لہو

وہ سنوارآیا بگاڑوں کو شہیدوں کا لہو
موسم ِ گل کی سہانی شام لاتا ہے یہی

دھوپ رُو کرتا ہے جاڑوں کو شہیدوںکالہو
کرچکا ہے خوشنما تاریخ کے ہردور میں

موت کی پُر خار باڑوں کو شہیدوں کا لہو
دے چکا ہے زندگی کی دلربا آبادیاں

دشت کے کالے اجاڑوں کو شہیدوں کا لہو
کر چکا ہے ہمتوں سے سرفراز و جاوداں

آسماں آسا پہاڑوں کو شہیدوں کا لہو
دے چکا ہے روشنی ظلمات میں بکھری ہوئی

کتنی بارودی دراڑوں کو شہیدوں کا لہو
ہرقیامت خیز موسم میں رواںرکھتا رہا

زندگی کی کٹتی ناڑوں کو شہیدوں کا لہو
عمر بھر انجام تک منصور پہنچاتا رہا
ظلمتِ شب کے کراڑوں کو شہیدوں کا لہو
٭
رات کے بوٹ کی تم تو تاریخ ہو

اک غلط روٹ کی تم تو تاریخ ہو
میں نے سمجھا تھا تم کو محافظ مگر

اک بڑی لوٹ کی تم تو تاریخ ہو
تم لٹیروں کا سفاک سرکش گروہ

ظلم کی جھوٹ کی تم تو تاریخ ہو
اپنی بربادیوں کی کہانی ہو تم

ٹوٹ کی پھوٹ کی تم تو تاریخ ہو
کتنے منصور تم نے کئے قتل ہیں
جرم میں چھوٹ کی تم تو تاریخ ہو
٭
مسافرت ہی ہے رنج و محن ، وطن والو

کہے یہ بات غریب الوطن ، وطن والو
سویر ے پھرتے ہیں باغ ِ جناح میں کیا کیا

بڑی حسین ہے صبحِ چمن وطن والو
جہاں کی ساری بہاروں سے خوبصورت ہیں

ہمارے اپنے یہ برگ و سمن وطن والو
زمانے بھرسے ملائم ہیں نرم و نازک ہیں

زبانیں اپنی یہ اپنے سخن وطن والو
یہ شاعری ہے تمہاری ، تمہاری خاطر ہے

یہ گفتگو یہ جگرکی جلن وطن والو
تم اس سے تازہ زمانہ خرید سکتے ہو

اٹھالو میرے قلم کایہ دھن وطن والو
تمہیں مٹانے کی کوشش میں کیا جہاںوالے

تم آپ خودسے ہوشمشیرزن وطن والو
وطن میں ایک نئے دور کیلئے منصور
ضروری ہو گیا دیوانہ پن وطن والو
ردیف ہ
پرانے غم کے نئے احتمال بسم اللہ

آ انتظار کے اک اور سال بسم اللہ
بس ایک تیری کمی تھی جنوں کے صحرا میں

خوش آمدید اے میرے غزال، بسم اللہ
آ دیکھ زخم ترو تازہ ہیں مہکتے ہیں

آ مجھ سے پوچھنے پرسانِ حال بسم اللہ
اندھیرے کروٹیں لیتے ہیں مجھ میں پہلے بھی

بہ سرو چشم شبِ ذوالجلال بسم اللہ
سنا ہے آج اکیلا ہے اپنے کمرے میں

چل اس کے پاس دلِ خوش خیال بسم اللہ
لگی تھی آنکھ ذرا ہجر کی تھکاوٹ سے

میں اٹھ گیا میرے دشتِ ملال بسم اللہ
یہ کیسے خانۂ درویش یاد آیا ہے

بچھائوں آنکھیں ؟ اے خوابِ وصال بسم اللہ
پھر اپنے زخم چھپانے کی رُت پلٹ آئی

شجر نے اوڑھ لی پتوں کی شال بسم اللہ
کھنچا ہوا ترا ناوک نہ جان ضائع ہو

ہے جان پہلے بھی جاں کا وبال بسم اللہ
یہ تیرے وار تو تمغے ہیں میری چھاتی کے

لو میں نے پھینک دی خود آپ ڈھال بسم اللہ
یہ لگ رہا ہے کہ اپنے بھی بخت جاگے ہیں

کسی نے مجھ پہ بھی پھینکا ہے جال بسم اللہ
نہیں کچھ اور تو امید رکھ ہتھیلی پر

دراز ہے مرا دستِ سوال بسم اللہ
کسی فقیر کی انگلی سے میرے سینے پر
لکھا ہوا ہے فقید المثال بسم اللہ
٭
یہی تیرے غم کا کِتھارسس، یونہی چشمِ نم سے ٹپک کے پڑھ

یونہی رات رات غزل میں رو، یونہی شعر شعر سسک کے پڑھ
جو اکائی میں نہیں ذہن کی اسے سوچنے کا کمال کر

یہ شعور نامۂ خاک سن، یہ درود لوحِ فلک کے پڑھ
یہی رتجگوں کی امانتیں ہیں بیاضِ جاں میں رکھی ہوئی

جو لکھے نہیں ہیں نصیب میں وہ ملن پلک سے پلک کے پڑھ
مرے کینوس پہ شفق بھری نہ لکیریں کھینچ ملال کی

کوئی نظم قوسِ قزح کی لکھ کوئی رنگ ونگ دھنک کے پڑھ
ترے نرم سر کا خرام ہو مری روح کے کسی راگ میں

مجھے انگ انگ میں گنگنا، مرا لمس لمس لہک کے پڑھ
یہ بجھا دے بلب امید کے، یہ بہشتِ دیدِ سعید کے

ابھی آسمان کے بورڈ پر وہی زخم اپنی کسک کے پڑھ
او ڈرائیور مرے دیس کے او جہاں نما مری سمت کے

یہ پہنچ گئے ہیں کہاں پہ ہم، ذرا سنگ میل سڑک کے پڑھ
کوئی پرفیوم خرید لا، کوئی پہن گجرا کلائی میں

نئے موسموں کا مشاعرہ کسی مشکبو میں مہک کے پڑھ
ہے کتابِ جاں کا ربن کھلا کسی واڈکا بھری شام میں

یہی افتتاحیہ رات ہے ذرا لڑکھڑا کے، بہک کے پڑھ
یہ ہے ایک رات کا ناولٹ، یہ ہے ایک شام کی سرگزشت

یہ فسانہ تیرے کرم کا ہے، اسے اتنا بھی نہ اٹک کے پڑھ
کئی فاختائوں کی ہڈیاں تُو گلے میں اپنے پہن کے جا
وہ جو عہد نامۂ امن تھا اسے بزم شب میں کھنک کے پڑھ
٭
صدیوں پہ ہے محیط سکونت کا واقعہ

مت پوچھ ایک پل کی طوالت کا واقعہ
ممکن نہیں ہے صبحِ ازل پھر اسے لکھے

جیسا تھا بزمِ شمعِ ہدایت کا واقعہ
ہم اہلِ عشق ہیں سو بڑے جلد باز تھے

عجلت میں ہم نے لکھا محبت کا واقعہ
وہ دلنواز چیخ مری گود میں گری

یہ کاکروچ کی ہے خباثت کا واقعہ
جا خانۂ وراق پہ آواز دے کے دیکھ

مت پوچھ مجھ سے اس کی عنایت کا واقعہ
پاؤں رکھا جہاں پہ وہیں پھول کھل اٹھے

پھیلا ہے سارے دشت میں وحشت کا واقعہ
منصور اعتقاد ضروری سہی مگر
ہونا نہیں ہے کوئی قیامت کا واقعہ
٭
عالمی بنک کے اک وفد کی تجویز پہ وہ

بم گراتا رہا خود اپنی ہی دہلیز پہ وہ
کیا بتاتا کہ مرا اس سے تعلق کیا تھا

رو بھی سکتا نہ تھا تکفین پہ تجہیز پہ وہ
کھوجنی پڑتی ہے ماتھے سے وہ قیمت لیکن

ایک لیبل سا لگا دیتا ہے ہر چیز پہ وہ
ہو نہیں سکتا شب و روز کا مالک کوئی
جانے کیا دیکھ کے کل شام کتابِ دل میں
خوش تھی مٹی کہ مجھے مل گئے صدیوں کے خطوط

عمر ہر شخص کو دیتا ہے فقط لیز پہ وہ
خامشی چھوڑ گیا صفحۂ تقریظ پہ وہ
چیخ اٹھی تھی مگر ذہن کی تفویض پہ وہ
اس نئے دور کا منصور عجب عامل ہے
نام خود اپنا ہی لکھ دیتا ہے تعویز پہ وہ
٭
یا بدن کے سرخ گجروں کی مہک محدود رکھ

یا مجھے اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رکھ
دھن کوئی کومل سی بس ترتیب کے لمحے میں ہے

اے محافظ کالے بوٹوں کی دھمک محدود رکھ
سو رہا ہے تیرے پہلو میں کوئی غمگین شخص

چوڑیوں کی رنگ پروردہ کھنک محدود رکھ
باغباں ہر شاخ سے لپٹے ہوئے ہیں زرد سانپ

گھونسلوں تک اپنی چڑیوں کی چہک محدود رکھ
جاگنے لگتے ہیں گلیوں میں غلط فہمی کے خواب

آئینے تک اپنی آنکھوں کی چمک محدود رکھ
لوگ چلنے لگتے ہیں قوسِ قزح کی شال پر
اپنے آسودہ تبسم کی دھنک محدود رکھ
٭
چل رہی ہے زندگی کی اک بھیانک رات ساتھ

پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ
میں نے سوچا کیا کہیں گے میرے بچپن کے رفیق

اور پھر رختِ سفر میں رکھ لیے حالات ساتھ
میں اکیلا رونے والا تو نہیں ہوں دھوپ میں

دے رہی ہے کتنے برسوں سے مرا برسات ساتھ
چاہیے تھا صرف تعویذِ فروغِ کُن مجھے

دے دیا درویش نے اذنِ شعورِ ذات ساتھ
یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے

یونہی بے مقصد ہوائوں کے ہیں سوکھے پات ساتھ
ایک بچھڑے یار کی پرسوز یادوں میں مگن
کوئی بگلا چل رہا تھا پانیوں کے ساتھ ساتھ
٭
اور اب تو میرے چہرے سے ابھر آتا ہے وہ

آئینہ میں دیکھتا ہوں اور نظر آتا ہے وہ
حالِ دل کہنے کو بارش کی ضرورت ہے مجھے

اور میرے گھر ہوا کے دوش پر آتا ہے وہ
رات بھر دل سے کوئی آواز آتی ہے مجھے

جسم کی دیوار سے کیسے گزر آتا ہے وہ
وقت کا احساس کھو جاتا تھا میری بزم میں

اپنے بازو پر گھڑی اب باندھ کر آتا ہے وہ
میں ہوا کی گفتگو لکھتا ہوں برگِ شام پر

جو کسی کو بھی نہیں آتا ہنر آتا ہے وہ
سر بریدوں کو تنک کر رات سورج نے کہا
اور جب شانوں پہ رکھ کر اپنا سر آتا ہے وہ
٭
مل جائو تھوڑی دیر تو آ کر کسی جگہ

میں جا رہا ہوں شہر سے باہر کسی جگہ
میں روزنامچہ ہوں تری صبح و شام کا

مجھ کو چھپا دے شیلف کے اندر کسی جگہ
جادو گری حواس کی پھیلی ہوئی ہے بس

ہوتا نہیں ہے کوئی بھی منظر کسی جگہ
کچھ دن گزارتا ہوں پرندوں کے آس پاس

جنگل میں چھت بناتا ہوں جا کر کسی جگہ
منصور اس گلی میں تو آتی نہیں ہے دھوپ
گھر ڈھونڈ کوئی مین سڑک پر کسی جگہ
٭
پائوں کی وحشت بچھاتی جا رہی ہے راستہ

جیپ جنگل میں بناتی جا رہی ہے راستہ
احتراماً چل رہا ہوں میں سڑک کے ساتھ ساتھ

اور سڑک ہے کہ بڑھاتی جا رہی ہے راستہ
اک بڑی اونچی پہاڑی رفتہ رفتہ ہاتھ سے

میرے پائوں میں گراتی جا رہی ہے راستہ
سوچتا ہوں میری پُر آشوب بستی کس لیے

اپنا دریا سے ملاتی جا رہی ہے راستہ
پیچھے پیچھے پائوں اٹھتے جا رہے ہیں شوق میں

آگے آگے وہ بتاتی جا رہی ہے راستہ
رہ بناتا جا رہا ہوں وقت میں منصور میں
عمر کی آندھی اڑاتی جا رہی ہے راستہ
٭
قوسِ قزح کے لکھے ہوئے تبصرے بھی دیکھ

مہکے ہوئے بدن کے ذرا حاشیے بھی دیکھ
رنگوں بھرے لباس کی مہکار پر نہ جا

میرے خیال و خواب کے ویراں کدے بھی دیکھ
تْو نے گرا دیا تھا فلک سے تو اب مجھے

بادِ صبا کے رنگ پہ چلتے ہوئے بھی دیکھ
دونوں طرف وجود ترا ہی کہیں نہ ہو

گردن ذرا گھما کے تُو کُن کے سرے بھی دیکھ
بے شک گلے لگا کے سمندر کو، رو مگر

ساحل کے پاس بنتے ہوئے بلبلے بھی دیکھ
ہر چند تارکول ہے پگھلی ہوئی تمام

میں بھی تو چل رہا ہوں سڑک پر، مجھے بھی دیکھ
سورج مرے قدم ہیں ستارے ہیں میری گرد

تسخیر کائنات کے یہ مرحلے بھی دیکھ
اک دلنواز خواب کی آمد کے آس پاس

آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے قمقمے بھی دیکھ
کھینچی ہیں تم نے صرف لکیریں ہوا کے بیچ

بنتے ہوئے خطوط کے یہ زاویے بھی دیکھ
میں جل رہا ہوں تیز ہوائوں کے سامنے
اے شہرِ شب نژاد مرے حوصلے بھی دیکھ
٭
جلتی ہوئی چتا سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ

صبحِ فلک پہ اب مجھے چلتے ہوئے بھی دیکھ
جس کو بلا کا زعم تھا اپنے مزاج پر

وہ آہنی چٹان پگھلتے ہوئے بھی دیکھ
چھو کر کسی گلاب کو موجِ بدن کے رنگ

بہتی ہوئی ندی میں مچلتے ہوئے بھی دیکھ
اے بادِ تندِ یار تجھے اور کیا کہوں

بجھتے ہوئے چراغ کو جلتے ہوئے بھی دیکھ
پاگل سا ہو گیا تھا جسے دیکھ کر کبھی

اس چودھویں کے چاند کو ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
مجھ کو گرا دیا تھا زمیں پر تو کیا ہوا

سطحِ زمیں سے گیند اچھلتے ہوئے بھی دیکھ
وہ بھی تو ایک پیڑ تھا اپنے نصیب کا

موسم کے ساتھ اس کو بدلتے ہوئے بھی دیکھ
منصور پھر کھڑا ہے خود اپنے ہی پائوں پر
جو گر گیا تھا اس کو سنبھلتے ہوئے بھی دیکھ
٭
انداز گفتگو کے، مدارات کے بھی دیکھ

فوٹو گراف ہوتی ہوئی بات کے بھی دیکھ
ممکن نہیں ہے قید میں رکھنا چراغ کو

یہ اضطراب اپنی سیہ رات کے بھی دیکھ
بادل پہن لیے ہیں درختوں کے جسم نے

یہ معجزے پہاڑ پہ برسات کے بھی دیکھ
اک آخری امید تھی مٹی میں مل گئی

کچھ روز اب تُو سختیِ حالات کے بھی دیکھ
قربت کی انتہا پہ ہیں صدیوں کے فاصلے
منصور سلسلے یہ ملاقات کے بھی دیکھ
٭
قبر سے تاریک تر جیون گلی چشم توجہ

روشنی اے روشنی اے روشنی چشم توجہ
چھپ نہیں سکتا خدا اگلی صدی تک آدمی سے

ہے ابھی افلاک پر کچھ سرسری چشم توجہ
وقتِ رخصت دیر تک جاتی ہوئی بس کا تعاقب

دھول میں پھر کھو گئی اشکوں بھری چشم توجہ
آپ جیسی ایک لڑکی پر لکھی ہے نظم میں نے

اک ذرا سی چاہیے بس آپ کی چشم توجہ
وہ اندھیرا تھا کہ میلوں دور چلتی گاڑیوں کی

روشنی کے ساتھ فوراً چل پڑی چشمِ توجہ
بیل بجی مدھم سروں میں در ہوا وا دھیرے دھیرے

اس کو دیکھا اور پھر پتھرا گئی چشمِ توجہ
اپنے چہرے پر سیاہی تھوپ دے منصور صاحب
اس کی ساری نیگرو کی سمت تھی چشم توجہ
٭
دھڑکنوں کی بدزبانی تخلیہ

تخلیہ اے زندگانی تخلیہ
ظلِ سبحانی ہیں آئے درد کے

اے کنیزِ شادمانی تخلیہ
آرہا ہے وہ چراغِ صبح پا

چاند تارو ، مہربانی ، تخلیہ
مہ وشو!اب یاسمن کے باغ کی

دیکھتے ہیں گل فشانی ، تخلیہ
بجلیو! موسیٰ کلیم اللہ سے میں

سن رہاہوں لن ترانی تخلیہ
بارگاہِ دل میں شرمندہ نہ کر

لمس کی اندھی جوانی تخلیہ
ہے دمِ عارف نسیمِ صبح دم

اے کلیمی اے شبانی تخلیہ
زندگی سے بھر گیا دل حسرتو!

اب کہانی کیا بڑھانی تخلیہ
واہ ، آئی ہے کئی صدیوں کے بعد

پھر صدائے کن فکانی تخلیہ
جائیے کہ آئینے کے سامنے

شکلِ ہستی ہے بنانی تخلیہ
جارہا ہوں میں عدم کے باغ میں

موسموں کی میزبانی تخلیہ
آرہا ہے مجھ سے ملنے آفتاب

بادلوں کی سائبانی تخلیہ
ملنا ہے منصور نے منصور سے
گم کرو اب شکل یعنی تخلیہ
٭
وہ جھوٹ بولتے پھرتے ہیں آیتیں پڑھ پڑھ

قرار دیں ہمیں کافر روایتیں پڑھ پڑھ
یہ چاہتے ہیں کہ کچھ دن گزاریں مرضی سے

جی تھک گیا ہے فلک کی ہدایتیں پڑھ پڑھ
شکار ہونا ہے احساسِ کمتری کا ہمیں

عجائبات ِ جہاں کی حکایتیں پڑھ پڑھ
یہ لگ رہا ہے کہ جبریل اپنے اندر ہے

ورق ورق پہ اترتی عنایتیں پڑھ پڑھ
یہ ارتقاء کا تماشا ابھی ادھورا ہے

خیال آتا ہے ہستی کی غایتیں پڑھ پڑھ
یہ سوچتے ہیں ازل کتنا خوبصورت تھا

تباہ حال ابد کی نہایتیں پڑھ پڑھ
خزاں رسیدہ ہواکے خلاف ہونا تھا

گرے ہوئے کی مسلسل شکایتیں پڑھ پڑھ
حسابِ خرچۂ تدفین کر رہے ہیں ہم

بنک کاروں کی بھیجی کفایتیں پڑھ پڑھ
اے اہل کوفہ ہمیں یاد کربلا آئے

خطوط میں یہ ہزاروں حمایتیں پڑھ پڑھ
بڑھا سکے ہیں نہ قوت خرید کی منصور
ہر ایک چیز پہ اتنی رعایتیں پڑھ پڑھ
٭
میں دیکھتا ہوں جھیل میں مہتاب ہمیشہ

یعنی کہیں پانی میں ترا خواب ہمیشہ
برسات کے موسم نے دعا دی مرے غم کو

آباد پرندوں سے ہو تالاب ہمیشہ
اجڑے ہوئے لوگوں کی دعا ہے کہ تمہارا

یہ تازہ تعلق رہے شاداب ہمیشہ
جاں سوختہ ہو جائے بھلے آگ میں میری

تجھ کو ملے خسخانہ و برفاب ہمیشہ
  منصور شبِ غم کے سیہ پوش سفر میں
یادیں رہیں سرچشمۂ اسباب ہمیشہ
٭
جو پھیرتا تھا تہجد کے کینوس پہ وہ ہاتھ

پڑا ہے شیخ کا پھر گنبدِ ہوس پہ وہ ہاتھ
بنا رہا ہے جو قوسِ قزح کی تصویریں

دکھائی دے مجھے بادل کے کارنس پہ وہ ہاتھ
نگار خانۂ جاں کی نمائشِ کُن میں

لکیر کھینچ رہا ہے برس برس پہ وہ ہاتھ
یہ سوچتے ہوئے میری کہاں علامت ہے

کبھی پروں پہ رکھے وہ ،کبھی قفس پہ وہ ہاتھ
کسی کو خواب میں شایدپکڑ رکھا تھا کہیں

جمے ہوئے تھے مسہری کے میٹرس پہ وہ ہاتھ
عجیب بجلیاں بھر دیں ، عجیب کیف دیا

بنام ِ زندگی ،ہائے اک ایک نس پہ وہ ہاتھ
نئے وصال دکھاتی ہے رات بھر منصور
کچھ ایسے رکھتی ہے گزرے ہوئے قصص پہ وہ ہاتھ
٭
صبا طیبہ سے آئے تو کہے ہر پھول بسم اللہ

سحر جب مسکرائے تو کہے ہر پھول بسم االلہ
قدم لینے لگے سبزہ ، شجر بھیجیں سلام اس پر

وہ گلشن میں جو آئے تو کہے ہر پھول بسم اللہ
کبھی ساون کے میٹھے انتظار انگیز لمحوں میں

ہوا ہولے سے گائے تو کہے ہر پھول بسم اللہ
کشادہ رکھتے ہیں اتنا درِ دل ہم چمن والے

کہ سایہ سرسرائے تو کہے ہر پھول بسم اللہ
محبت کے بلکتے چیختے بے چین موسم میں

جو بلبل گنگنائے تو کہے ہر پھول بسم اللہ
پہاڑی راگ کی بہتی ہوئی لے میں کہیں کوئی

ندی جب دکھ سنائے تو کہے ہر پھول بسم اللہ
یہ انکا رنگِ فطرت ہے ، یہ انکا ظرف ہے منصور
کہ کانٹا زخم کھائے تو کہے ہر پھول بسم اللہ
٭
اپنے بارے میں کسی سے پوچھنا بے فائدہ

نقشِ پا اپنے کہیں پر کھوجنا بے فائدہ
جا کہیں دفنا دے گزرے موسموں کی میتیں

دیکھ مردہ مسئلوں پر سوچنا بے فائدہ
جب نظر میں صبح ِ دوشیزہ کا ہو حسنِ خرام

چاند کی گردن میں باہیں ڈالنا بے فائدہ
کیا تعلق کی لحد پر فاتحہ خوانی کروں

ایک پتھر کے بدن سے بولنا بے فائدہ
اب یہی بہتر ہے دونوں بھول جائیں گزرے دن

اب کہیں کچھ دیر مل کر بیٹھنا بے فائدہ
ہیر کو منصور کھیڑے لے گئے ہیں اپنے ساتھ

آنسوئوں سے اب ستارے ڈھالنا بے فائدہ
تیری خوشبوئے بدن سے ساونی کے رنگ ہیں

تُو نہ ہو تو بارشوں میں بھیگنا بے فائدہ

ق

صبح کے یخ بستہ خالی صحن میںتیرے بغیر

نرم و نازک دھوپ کے پر کھولنا بے فائدہ
جز ترے کیا موج ِ دریا، جز ترے کیابادِ شام

تُو نہ ہو تو ساحلوںپر گھومنابے فائدہ
تیرے بن کیا عکس اپنا، تیرے بن تمثال کیا

تُو نہیں تو پانیوں میں دیکھنا بے فائدہ
تیرے ہونے سے یہ گندم کی سنہری بالیاں

ورنہ بیجوں کا تہوں سے پھوٹنا بے فائدہ
تُو نہ ہو توکیا درختوں سے ہوا کی گفتگو

شاخِ گل پہ کونپلوں کا جاگنا بے فائدہ
تُونہ ہو تو راستوں میں بھولنے کا لطف کیا

اب مرا پگڈنڈیوں کو ناپنا بے فائدہ
جز ترے سندر رتیںبے کار ،بے مصرف تمام
تُو نہیں تو موسموں کا سامنا بے فائدہ
٭
جسم نا پاک پر جامہء پاک بے فائدہ

دل میں ہو غیر تو سجدہ ِ خاک بے فائدہ
صاحبِ فہم ہو توتمہیںاک الف کافی ہے

 یہ کتابوں بھرا عقل و ادراک بے فائدہ
آدمی آخری حد ہے تشکیل و تخلیق کی

گردشِ وقت کا گھومتا چاک بے فائدہ
اس کی ساری توجہ رہی اپنی تلوار کی دھار پر

  میں نے پہنی ہے زخموں کی پوشاک بے فائدہ
اِس دماغِ شرر خیز میں جھوٹ کے ڈھیر ہیں

   تیری دستار کے اتنے پیچاک بے فائدہ
 کون سا ا س نے منصور کمرے میں آ جانا ہے
گریۂ شب کا شورِ المناک بے فائدہ
٭
اجلا ہے بہت شام کے منظر سے ستارہ

آیا ہے نکل کر یہ سمندر سے ستارہ
یک لخت نگاہوں میں کئی رنگ ہیں آئے

گزرا ہے ابھی میرے برابر سے ستارہ
قسمت کہیں یخ بستہ رویوں میں جمی ہے

نکلا ہی نہیں اپنا دسمبر سے ستارہ
ہر شام نکلتا تھا کسی شاخِ حسیں سے

رکھتا تھا تعلق وہ صنوبر سے ستارہ
تم اندھی جوانی کی کرامات نہ پوچھو

وہ توڑدیا کرتی تھی پتھر سے ستارہ
میں کس طرح لے جائوں اسے اپنی گلی میں
منصور شناسا ہے جہاں بھر سے ستارہ
٭
طویل و تیرہ سہی شب مگر تسلی رکھ

ہے ساتھ ساتھ کوئی ہمسفر تسلی رکھ
اسے گزرنا انہی پتھروں سے ہے آخر

اومیری شوق بھری رہگزر تسلی رکھ
ابھی سے صبحِ جدائی کا خوف کیا کرنا

ہے مہتاب ابھی بام پر تسلی رکھ
کسی کا ساتھ گھڑی دو گھڑی بھی کافی ہے

او زندگی کی رہِ مختصر تسلی رکھ
نہیں نکلتی ترے منظروں سے بینائی

یہیں کہیں ہے ، گرفتِ نظر تسلی رکھ
شکست عشق میں ہوتی نہیں کبھی منصور
یہ ہار ، ہار نہیں ، ہار کر تسلی رکھ
٭
ہے محیطِ جاں شبِ محبوس کی قربان گاہ

دور تک ہے عزت و ناموس کی قربان گاہ
بہہ رہا ہے مقتلِ احساس سے تازہ لہو

زندگی ہے عالم محسوس کی قربان گاہ
آ مجھے دے زخم پھر سے ، آ چلا تیغ ِ ادا

سرخ کر میرے دلِ مایوس کی قربان گاہ
پائوں پر مہندی لگاسکتی ہے خوں کی ہم نفس

کرچیاں ہوتے ہوئے فانوس کی قربان گاہ
چل رہے ہیں الٹے پائوں سارے لوگ

یہ نگر ہے منزل معکوس کی قربان گاہ
خوبصورت لوگ بھی اور خوبصورت پھول بھی

خوشبوئوں کے دلربا ملبوس کی قربان گاہ
سعد پل آیا نہیں کوئی کہیں بھی راہ میں

ہر گھڑی ہے ساعتِ منحوس کی قربان گاہ
وہ لگا دی شیخ نے سیدھی جہنم میں چھلانگ

حسن بھی تھامحشرِ مخصوص کی قربان گاہ
پھر اناالحق کی صدائے دلربا تجسیم کر
ڈھونڈھ پھرمنصور دشتِ سوس کی قربان گاہ
٭
الف ہے حرفِ الہ، لاالہ الااللہ

ہے لام حرکتِ لا ، لاالہ الااللہ
یہ میم ،میمِ محمد رسول اللہ ہے

یہی خدا نے کہا،لاالہ الااللہ
یہی ہے برقِ تجلی،یہی چراغ طور

یہی زمیں کی صدا،لاالہ الااللہ
کرن کرن میں مچلتی ہے خوشبوئے لولاک

 خرام ِ بادصبا،لاالہ الااللہ
نگارِ قوسِ قزح کے جمیل رنگوں سے

وہ بادلوں نے لکھا،لاالہ الااللہ
سنائی دے یہی غنچوں کے بھی چٹکنے سے

کھلے ہیںدستِ دعا،لاالہ الااللہ
وہی وجودہے واحد،وہی اکیلا ہے

کوئی نہ اُس کے سوا ،لاالہ الااللہ
وہ کس کے قربِ مقدس کی دلربائی تھی

تھاکنکروں نے پڑھا ،لاالہ الااللہ
ہر ایک دل کے غلافِ مہین پر منصور
کشید کس نے کیا ، لاالہ الااللہ
٭
نجاتِ خلقتِ جاں لا الہ الا اللہ

کلید ِ باغِ جناں لا الہ الا اللہ
یہ خوفِ آتشِ دوزخ یہ خطرۂ ابلیس

وہاں کہاں کہ جہاں لا الہ الا اللہ
 بگاڑ سکتی ہے کیا اس کا چرخ کی گردش

ہے جس کی جائے اماں  لا الہ الا اللہ
یہ جائیدادِ جہاں کچھ نہیں ہے اُس کے لئے

ہے جس کے دل میں نہاں  لا الہ الا اللہ
یہ کائنات یہ عالم نہیں وہاں باہو
جہاں جہاں پہ عیاں  لا الہ الا اللہ
( سلطان باہو کی فارسی غزل کا ترجمہ)
٭
دکھائی دے نگاہوںکو چراغِ طور کا چہرہ

مرے سرمد کی رعنائی ، مرے منصور کا چہرہ
مسلسل ابر وباراں میںکئی صدیاں گزار آئیں

دمشقِ صبح کی آنکھیں ، فراتِ نور کا چہرہ
جناب ِ شیخ کو غلمان کی آنکھیںپسند آئیں

مجھے اچھا لگا اک کھکھلاتی حور کاچہرہ
مری تہذیب کا نغمہ ، اذاں میرے تمدن کی

یہی میلاد کی آنکھیں یہی عاشور کا چہرہ
اندھیری رات سے اُس زلف کوتشبیہ کیسے دوں

بھرا ہے غم کی کالک سے شبِ دیجور کا چہرہ
سنو جنت کے پھولوں سے کہیں بڑھ کر ہے پاکیزہ

 کڑکتی دھوپ میں کھلتا ہوا مزدور کا چہرہ
ستم ہے لوگ پاکستان کہتے ہیں اسے منصور
بدلتاہے جہاں اقدار کا دستور کا چہرہ
ردیف ی
چراغ ہو گیا بدنام کچھ زیادہ ہی

کہ جل رہا تھا سرِ بام کچھ زیادہ ہی
ترے بھلانے میں میرا قصور اتنا ہے

کہ پڑ گئے تھے مجھے کام کچھ زیادہ ہی
میں کتنے ہاتھ سے گزرا یہاں تک آتے ہوئے

مجھے کیا گیا نیلام کچھ زیادہ ہی
ملال گن لئے ہیں ، درد کر لئے ہیں شمار

فسردہ ہے یہ مری شام کچھ زیادہ ہی
تمام عمر کی آوارگی بجا لیکن

لگا ہے عشق کا الزام کچھ زیادہ ہی
بس ایک رات سے کیسے تھکن اترتی ہے

بدن کو چاہیے آرام کچھ زیادہ ہی
سنبھال اپنی بہکتی ہوئی زباں منصور
تُو لے رہا ہے کوئی نام کچھ زیادہ ہی
٭
اک شخص نے ہونٹوں سے کوئی نظم کہی تھی

ہے یاد مجھے رنگوں بھری سات مئی تھی
میں انگلیاں بالوں میں یونہی پھیر رہا تھا

وہ کمرے کی کھڑکی سے مجھے دیکھ رہی تھی
اس شخص کے گھر وہی حالت تھی مگر اب

بِڈ روم کی دیوار پہ تصور نئی تھی
آئی ہے پلٹ کر کئی صدیوں کے سفر سے

اس گیٹ کے اندر جو ابھی کار گئی تھی
موسم کے تغیر نے لکھا مرثیہ اس کا
منصور ندی مل کے جو دریا سے بہی تھی
٭
کھڑکیوں کے شیشوں سے دیکھتی سڑک پر تھی

کمرے میں اندھیرا تھا روشنی سڑک پر تھی
قمقموں کی آنکھیں تھیں جھلملاتی کاروں میں

قہقہے تھے پیڑوں پر اک ہنسی سڑک پر تھی
سائرن بجاتی تھیں گاڑیاں قطاروں میں

فائروں کی گونجیں تھیں سنسنی سڑک پر تھی
آتے جاتے لوگوں پر موسم ِ بہارا ں تھا

منتظر پرندوں کی ،ٹاہلی سڑک پرتھی
روڈ پر سپاہی بھی پھینکتے تھے آنسو گیس

احتجاجی ریلی بھی ناچتی سڑک پر تھی
سرخ سے اشارے پر چیختے سلنسر تھے

 اور دھواں کے پہلو میں دھول بھی سڑک پر تھی
ہیرہ منڈی جانا تھا کچھ عرب سفیروں نے

کس قدر ٹریفک اُس اک رکی سڑک پر تھی
جمع ایک دنیا تھی دیکھتی تھی کیا منصور
ایک چھوٹی سی بچی گر پڑی سڑک پر تھی
٭
عشق میں مبتلا ہوں ویسے ہی

میں کسی سے ملا ہوں ویسے ہی
آج میرا بہت برا دن تھا

یار سے لڑ پڑا ہوں ویسے ہی
اس لیے آنکھ میں تھکاوٹ ہے

ہر طرف دیکھتا ہوں ویسے ہی
بارشِ سنگ ہوتی رہتی ہے

آسماں لیپتا ہوں ویسے ہی
مجھ کو لا حاصلی میں رہنا ہے

میں تجھے سوچتا ہوں ویسے ہی
ایک رہرو سے پوچھتے کیا ہو

اک ذرا رک گیا ہوں ویسے ہی
پھول یوں ہی یہ پاس ہیں میرے

راستے میں کھڑا ہوں ویسے ہی
تُو بہت خوبرو سہی لیکن

میں تجھے مل رہا ہوں ویسے ہی
وہ کبھی پوچھنے نہیں آیا

آسماں سے جڑا ہوں ویسے ہی
مجھ کو جانا نہیں کہیں منصور
تار پر چل رہا ہوں ویسے ہی
٭
آشنا سا لگتا ہے اپنی پُر خواب چاپ سے کوئی

ہے مرے تعاقب میں، نیند کے بس سٹاپ سے کوئی
موسمِ جدائی کی تنگ تھا زرد سی طوالت سے

رُت خرید لایا ہے وصل کی، لمس شاپ سے کوئی
قوس قوس آوازیں دور تک دائرے بناتی تھیں

لکھ رہا تھا کمرے میں گیت سا کیا الاپ سے کوئی
رقص کے الائو میں ڈوب کر پائوں سے کلائی تک

جل اٹھا تھا ڈھولک کی نرم سی تیز تھاپ سے کوئی
سردیوں کی برفانی صبح میں گرم گرم سے بوسے

پھینکتا تھا ہونٹوں کی برف سی سرد بھاپ سے کوئی
جو کہیں نہیں موجود، روح کے آس پاس میں منصور
پوچھتا رہا اس کا، دیر تک اپنے آپ سے کوئی
٭
کلی لبادۂ تزئین سے نکل آئی

سفید آگ سیہ جین سے نکل آئی
دکھائی فلم کسی نے وصال کی پہلے

پھر اس کے بعد وہی سین سے نکل آئی
مرے خدا کی بھی قربان گاہ مٹی تھی

بہار پھول کی تدفین سے نکل آئی
اسے خرید لیا مولوی کفایت نے

جو نیکی سیٹھ کرم دین سے نکل آئی
چراغ لے کے میں بیٹھا ہی تھا کہ صبحِ ازل

خرامِ آبِ اباسین سے نکل آئی
مریدِ خاص ہوئی تخلیے کی آخرکار

خرد نصیحت و تلقین سے نکل آئی
حروف وردِ انا الحق پہ کرتے تھے مجبور

سو میری آنکھ طواسین سے نکل آئی
مجھے جگایا کسی نے یوں حسنِ قرات سے

کہ صبح سورۃ یاسین سے نکل آئی
گریزاں یار بھی تکرار سے ہوا کچھ کچھ

طبعیت اپنی بھی توہین سے نکل آئی
گزر ہوا ہے جہاں سے بھی فوج کا منصور
زمین گھاس کے قالین سے نکل آئی
٭
ساری پوشاک خون سے تر تھی، دور سے بھی دکھائی دیتی تھی

جانے کیوں میری بے گناہی کی پھر بھی بستی گواہی دیتی تھی
دن نکلتے ہی بجنے لگتا تھا ایک ڈھولک کا کیروا مجھ میں

رات بھر وائلن کے ہونٹوں سے بھیرویں سی سنائی دیتی تھی
ایک ہوتی تھی تجھ سی شہزادی ا لف لیلیٰ کی داستانوں میں

جو گرفتاریوں کے موسم میں قیدیوں کو رہائی دیتی تھی
ایک امید مجھ میں ہوتی تھی، خواب بوتی تھی پھول کھلتے تھے

تیلیاں توڑتی قفس کی تھی آسماں تک رسائی دیتی تھی
کیا کہوں کھو گئی کہاں مجھ سے شام ہوتے ہی جو بڑے دل سے

موتیے کے سفید گجروں کو اپنی نازک کلائی دیتی تھی
ایک کیفیتِ عدم جس میں جنتِ خواب کے خزانے تھے

روح کل کی شراب سے بھر کر وہ بدن کی صراحی دیتی تھی
ایک ٹوٹے ہوئے کوارٹر میں وہ تمنا بھی مر گئی آخر
وہ جو منصور کے تخیل کو شوقِ عالم پناہی دیتی تھی
٭
عمر دھویں سے پیلی ہو گی

یہ لکڑی بھی گیلی ہو گی
موت مرا معمول رہے گا

کوئی کہاں تبدیلی ہو گی
پھیل رہا ہے سرد رویہ

رات بڑی برفیلی ہو گی
ہجر کا اپنا ایک نشہ ہے

غم کی شام نشیلی ہو گی
میں نے سگریٹ سلگانا ہے

ماچس میں اک تیلی ہو گی
غالب کے قہوہ خانے میں

بات ذرا تفصیلی ہو گی
اچھی طرح سے بال سکھا لے

تیز ہوا سردیلی ہو گی
ہفتوں بعد ہے نکلا سورج

دھوپ بہت نوکیلی ہو گی
کال آئی ہے امریکہ سے

موسم میں تبدیلی ہو گی
گرم دسمبر کے پہلو میں

جسم کی آگ لجیلی ہو گی
نوٹ پیانو کے سُن سُن کر

رم جھم اور سریلی ہو گی
دن بھی ہو گا آگ بگولا

رات بھی کالی نیلی ہو گی
اک اتوار ملے گی مجھ سے

اور بڑی شرمیلی ہو گی
شعر بنانا چھوڑ دے لیکن
یہ منصور بخیلی ہو گی
٭
اتاریں اب بدن کی شرم تھوڑی سی

محبت ہے تو ہو کنفرم تھوڑی سی
ضروری ہے لہو میں آگ بھی لیکن

سبک اندام تھوڑی، نرم تھوڑی سی
چل اپنے سادہ و معصوم سے دل پر

چڑھا لے بھیڑے کی چرم تھوڑی سی
اب اپنا قتل کرنا چاہتا ہوں میں

اجازت دے مجھے اے دھرم تھوڑی سی
’بیا جاناں بصد سامانِ رسوائی ‘

خموشی ہے، خبر ہو گرم تھوڑی سی
کسی کے نرم و نازک جسم سے مل کر

ہوئی ہے آتما بھی پرم تھوڑی سی
سکوتِ شام جیسی ایک دوشیزہ
محبت میں ہوئی سرگرم تھوڑی سی
٭
بس کسی اعتراض میں رکھ دی

جاں لباس مجاز میں رکھ دی
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط

پھر محبت دراز میں رکھ دی
یادِ یاراں نے پھر وہ چنگاری

ایک مردہ محاذ میں رکھ دی
یوں تو سب کچھ کہا مگر اس نے

راز کی بات راز میں رکھ دی
تان لی تھی رقیب پر بندوق

ربطِ جاں کے لحاظ میں رکھ دی
کس نے تیرے خیال کی دھڑکن

دست طبلہ نواز میں رکھ دی
شرٹ ہینگر پہ ٹانک دی میں نے

اور لڑکی بیاض میں رکھ دی
اس نے پستی گناہ کی لیکن

ساعتِ سرفراز میں رکھ دی
مرنے والا نشے میں لگتا تھا

کیسی مستی نماز میں رکھ دی
رات آتش فشاں پہاڑوں کی

اپنے سوز و گداز میں رکھ دی
کس نے سورج مثال تنہائی

میری چشم نیاز میں رکھ دی
داستاں اور اک نئی اس نے

میرے غم کے جواز میں رکھ دی
مسجدوں میں دھمال پڑتی ہے

کیفیت ایسی ساز میں رکھ دی
پھر ترے شاعرِ عجم نے کوئی

نظم صحنِ عکاظ میں رکھ دی
کس نے پہچان حسن کی منصور
دیدۂ عشق باز میں رکھ دی
٭
بڑی اداس بڑی بے قرار تنہائی

ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی
مجھے اداسیاں بچپن سے اچھی لگتی ہیں

مجھے عزیز مری اشکبار تنہائی
فراق یہ کہ وہ آغوش سے نکل جائے

وصال یہ کرے بوس و کنار تنہائی
پلٹ پلٹ کے مرے پاس آئی وحشت سے

کسی کو دیکھتے ہی بار بار تنہائی
مرے مزاج سے اس کا مزاج ملتا ہے

میں سوگوار … تو ہے سوگوار تنہائی
کوئی قریب سے گزرے تو جاگ اٹھتی ہے

شبِ سیہ میں مری جاں نثار تنہائی
مجھے ہے خوف کہیں قتل ہی نہ ہو جائے

یہ میرے غم کی فسانہ نگار تنہائی
نواح جاں میں ہمیشہ قیام اس کا تھا

دیارِ غم میں رہی غمگسار تنہائی
ترے علاوہ کوئی اور ہم نفس ہی نہیں

ذرا ذرا مجھے گھر میں گزار تنہائی
یونہی یہ شہر میں کیا سائیں سائیں کرتی ہے

ذرا سے دھیمے سروں میں پکار تنہائی
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق

کسی کا پھر بھی مجھے انتظار، تنہائی
جو وجہ وصل ہوئی سنگسار تنہائی

تھی برگزیدہ ، تہجد گزار تنہائی
مری طرح کوئی تنہا اُدھر بھی رہتا ہے

بڑی جمیل، افق کے بھی پار تنہائی
کسی سوار کی آمد کا خوف ہے، کیا ہے

بڑی سکوت بھری، کوئے دار، تنہائی
دکھا رہی ہے تماشے خیال میں کیا کیا

یہ اضطراب و خلل کا شکار تنہائی
بفیضِ خلق یہی زندگی کی دیوی ہے

کہ آفتاب کا بھی انحصار تنہائی
اگرچہ زعم ہے منصور کو مگر کیسا
تمام تجھ پہ ہے پروردگار تنہائی
٭
سونی سونی پورٹ کی جھلمل چھوڑ گئی تھی

آنکھ کھلی تو فیری ساحل چھوڑ گئی تھی
فلم کا ہیرو دیکھ کے بھولی بھالی لڑکی

سینما ہال کی کرسی پر دل چھوڑ گئی تھی
شاید ملک سے باہر ننگ زیادہ تھا کچھ

مزدوروں کو کپڑے کی مل چھوڑ گئی تھی
اس نے میرے ہاتھ پہ رکھا تھا اک وعدہ

جاتے ہوئے کچھ اور مسائل چھوڑ گئی تھی
میں نے اپنے جسم سے پردہ کھنچ لیا تھا
اور مجھے پھر ساری محفل چھوڑ گئی تھی
٭
گھر لوٹنے میں اک ذرا تاخیر کیا ہوئی

سب کچھ بدل کے رہ گیا تقصیر کیا ہوئی
کمرے میں سن رہا ہوں کوئی اجنبی سی چاپ

دروازے پر لگی ہوئی زنجیر کیا ہوئی
وہ درد کیا ہوئے جنہیں رکھا تھا دل کے پاس

وہ میز پر پڑی ہوئی تصویر کیا ہوئی
جو گیت لا زوال تھے وہ گیت کیا ہوئے

وہ ریت پر وصال کی تحریر کیا ہوئی
ہر صبح دیکھتا ہوں میں کھڑکی سے موت کو

گرتے ہوئے مکان کی تعمیر کیا ہوئی
منصور اختیار کی وحشت کے سامنے
یہ جبرِ کائنات یہ تقدیر کیا ہوئی
٭
ایک ٹوٹی ہوئی مسجد میں رہائش کیا تھی

مجھ سے موسیٰ کو ملاقات کی خواہش کیا تھی
شامیانوں سے نگر ڈھانپ رہی تھی دنیا

حاکمِ شہر کی جادو بھری بارش کیا تھی
اپنے خالق کی بھی تفہیم وہ رکھ سکتا تھا

مجھ سے مت پوچھ کہ روبوٹ کی دانش کیا تھی
ناچتی پھرتی تھی اک نیم برہنہ ماڈل

خالی بوتیک تھا کپڑوں کی نمائش کیا تھی
جل گئی تھی مری آغوش گلوں سے منصور
رات وہ بوسۂ سرگرم کی سازش کیا تھی
٭
پہلو میں آ کہ اپنا ہو عرفان سائیکی

یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی
میرے سگار میں رہے جلتے تمام عمر

احساس، خواب، آگہی، وجدان، سائیکی
اٹکا ہوا ہے خوف کے دھڑ میں مرا دماغ

وحشت زدہ خیال، پریشان سائیکی
باہر مرے حریمِ حرم سے نکل کے آ

اپنے چراغِ طور کو پہچان سائیکی
رستہ نجات کا ترے لاکٹ میں بند ہے

باہر کہیں نہیں کوئی نروان سائیکی
لاکھوں بلیک ہول ہیں مجھ میں چھپے ہوئے

میری خلائوں سے بھی ہے سنسان سائیکی
کیا تُو برہنہ پھرتی ہے میری رگوں کے بیچ

میرے بدن میں کیسا ہے ہیجان سائیکی
خالی ہے دیکھ یاد کی کرسی پڑی ہوئی

سونا پڑا ہے شام کا دالان سائیکی
دریا نکل بھی سکتا ہے صحرائے چشم سے

تجھ میں دھڑکتا ہے کوئی طوفان سائیکی
یہ گیت یہ بہار یہ دستک یہ آہٹیں

یہ کیا کسی کا رہ گیا سامان سائیکی
یہ حسرتیں یہ روگ یہ ارماں یہ درد و غم

کرتی ہو جمع میر کا دیوان، سائیکی
شاخوں سے بر گ و بارکی امید کیا کروں

پہنچا ہوا جڑوں میں ہے سرطان سائیکی
ممکن ہے تجھ سے اپنی ملاقات ہوکبھی

موجود ہیں بڑے ابھی امکان سائیکی
گرداب کھینچ سکتے ہیں پاتال کی طرف

کوئی جہاز کا نہیں کپتان سائیکی
پھر ڈھونڈتا ہے تیرے خدو خال روح میں
منصور کا ہے پھر نیا رومان سائیکی
٭
گرا کے پھول اٹھائے کوئی کڑی تھل کی

کھلے گلے کی پہن کر قمیض ململ کی
ابھی تو پائوں میں باقی ہے ہجر کا ہفتہ

پڑی ہے راہ ابھی ایک اور منگل کی
حنائی ہاتھ پہ شاید پلیٹ رکھی تھی

ہوا کے جسم سے خوشبو اٹھی تھی چاول کی
بچھی ہوئی ہیں سحر خیزیوں تلک آنکھیں

ملی ہوئی ہے شبوں سے لکیر کاجل کی
لیا ہے شام کا شاور ابھی ابھی کس نے

گلی میں آئی ہے خوشبو کہاں سے جل تھل کی
شفق کے لان میں صدیوں سے شام کی لڑکی

بجا رہی ہے مسلسل پرات پیتل کی
نکھر نکھر گیا کمرے میں رنگ کا موسم

ذرا جو شال بدن کے گلاب سے ڈھلکی
کسی کو فتح کیا میں نے پیاس کی رت میں

اڑے جو کارک تو شمپین جسم پر چھلکی
چھتوں پہ لوگ اٹھائے ہوئے تھے بندوقیں

تمام شہر پہ اتری تھی رات جنگل کی
جھلس گیا تھا دسمبر کی رات میں منصور
وہ سرسراتی ہوئی آگ تیرے کمبل کی
٭
وہ بر گزیدہ خطا رات عاصیوں سے ہوئی

کہ اوس اوس کلی بے لباسیوں سے ہوئی
ہر ایک صبح منور ہوئی ترے غم سے

ہر ایک شام فروزاں اداسیوں سے ہوئی
میں کھوجنے کے عمل میں شکار اپنا ہوا

مری اکیلگی چہرہ شناسیوں سے ہوئی
لپک کے بھاگ بھری نے کسی کو چوم لیا

گھٹا کی بات جو روہی کی پیاسیوں سے ہوئی
بہت سے داغ اجالوں کے رہ گئے منصور
جہاں میں رات عجب بد حواسیوں سے ہوئی
٭
ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہونی تھی

میں بڑا تھا میری مشکل بھی بڑی ہونی تھی
سایہ ء ابرِ رواں ساتھ کہاں تک چلتا

میں مسافر تھا مسافت تو کڑی ہونی تھی
موت کی سالگرہ آج منانی تھی مجھے

آج تو دس تھی محرم کی جھڑی ہونی تھی
صبحِ تقریب! ذرا دیر ہوئی ہے ورنہ
بورڈ پر سرخ سا اک پن بھی لگا ہونا تھا

یہ گھڑی اپنے تعارف کی گھڑی ہونی تھی
اور اس میں کوئی تتلی بھی گڑی ہونی تھی
اور کیا ہونا تھا دروازے سے باہر منصور
دن رکھا ہونا تھا یا رات پڑی ہونی تھی
٭
روشنی سائے میں کھڑی ہے ابھی

شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی
دیکھنا ہے اسے مگر اپنی

آنکھ دیوار میں گڑی ہے ابھی
آسماں بھی مرا مخالف ہے

ایک مشکل بہت بڑی ہے ابھی
ایک بجھتے ہوئے تعلق میں

شام کی آخری گھڑی ہے ابھی
ہم سے مایوس آسماں کیا ہو

موتیوں سے زمیں جڑی ہے ابھی
ایک ٹوٹے ہوئے ستارے کی

میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی ہے ابھی
موسمِ گل ہے میرے گلشن میں

شاخ پر ایک پنکھڑی ہے ابھی
وہ کھلی ہے گلاب کی کونپل

میری قسمت کہاں سڑی ہے ابھی
سایہء زلف کی تمازت ہے

رات کی دوپہر کڑی ہے ابھی
اس میں بچپن سے رہ رہا ہوں میں

آنکھ جس خواب سے لڑی ہے ابھی
میں کھڑا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں

ایک دیمک زدہ چھڑی ہے ابھی
آگ دہکا نصیب میں منصور
برف خاصی گری پڑی ہے ابھی
٭
میں نے کیا دیکھنا تھا ویسے بھی

میں وہاں سو رہا تھا ویسے بھی
اس کی آنکھیں بدلنے والی تھیں

اور میں بے وفا تھا ویسے بھی
اس نے مجھ کو پڑھانا چھوڑ دیا

میں بڑا ہو گیا تھا ویسے بھی
کچھ مزاج آشنا نہ تھی دنیا

کچھ تعلق نیا تھا ویسے بھی
کچھ ضروری نہیں تھے درد و الم

میں اسے پوجتا تھا ویسے بھی
چاند شامل ہوا صفِ شب میں

دن اکیلا کھڑا تھا ویسے بھی
ذکر چل نکلا خوبروئی کا

یاد وہ آ رہا تھا ویسے بھی
میں اکیلا کبھی نہیں سویا

میں نے اس کو کہا تھا ویسے بھی
اس نے چاہا نہیں مجھے منصور
میں کسی اور کا تھا ویسے بھی
٭
ابھی پرکھ اسے کچھ دن، ہوا کو جانچ ابھی

تُو سرد رہنے دے اپنے بدن کی آنچ ابھی
او دل کو توڑنے والی ذرا خیال سے چل

چٹخ رہا ہے مری کرچیوں کا کانچ ابھی
جنہیں وسیلہ بناتا ہوں میں یقین کے ساتھ

ہیں مہربان مری ذات پر وہ پانچ ابھی
وہاں سے دور مرے زاویے کی اونچائی

جہاں نصیب کی جاری ہے کھینچ کھانچ ابھی
سجا کے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے افسانے

اٹھائے پھرتی ہے تہذیب اپنا خوانچ ابھی
خراب سمت نما نے کنارے چھین لیے

بھٹک رہی ہے سمندر میں اپنی لانچ ابھی
مرے غزال یہ منظر سمیٹ لینے دے

نہ بھر زقند ابھی تُو، نہ بھر قلانچ ابھی
بڑے سکون سے بستی میں لوگ رہتے تھے

کھلی نہیں تھی کسی بنک کی برانچ ابھی
نئی غزل کا زمانہ ابھی نہیں آیا

ڈھا رہے ہیں پرانی غزل کا ڈھانچ ابھی
کسی کا وصل مکمل نہ کر سکا منصور
ادھوری ہے مرے جلتے بدن کی سانچ ابھی
٭
اک ایک سایہ ء ہجراں کے ساتھ پوری کی

پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی
میں ایک کُن کی صدا تھا سو عمر بھر میں نے

ادھوری جو تھی پڑی کائنات پوری کی
عجیب عالمِ وحشت، عجیب دانائی

کبھی بکھیرا، کبھی اپنی ذات پوری کی
تھلوں کی ریت میں بو بو کے پیاس کے کربل

پھر آبِ سندھ نے رسمِ فرات پوری کی
پلک پلک پہ ستارے رکھے سہاگ کی رات

نہ پوچھ چاند کی کیسے برات پوری کی
کئی برس سے ادھوری پڑی تھی، سو میں نے

یہ مانگ تانگ کے سانسیں، حیات پوری کی
یہ اور بات کہ دل میں اتر گیا پھر بھی

کسی سے ملتے ہوئے احتیاط پوری کی
یہ اور بات کہ آنسو ورق ورق پہ رکھے

کتابِ فلسفہء انبساط پوری کی
یہ اور بات کہ کام آ گئی کوئی نیکی

اُس اجنبی نے مگر واردات پوری کی
ہزار کہہ کے بھی میں کچھ نہ کہہ سکا منصور
کہا نہ کچھ بھی مگر اس نے بات پوری کی
٭
اک تعلق کی شروعات تھی ہونے والی

اٹھ گئے ہم کہ کوئی بات تھی ہونے والی
لوح پر دیکھ لیا مشرق و مغرب کا نصیب

بس کہیں صبح ، کہیں رات تھی ہونے والی
دیکھنے والا تھا، پھر مڑکے، کوئی ایک نظر

کیا ہوا ، دید کی خیرات تھی ہونے والی
اپنے قہوے کا سماوار ابھی ٹھنڈا تھا

اور مسجد میں مناجات تھی ہونے والی
لینے آئے ہوئے تھے رومی و اقبال ہمیں

اپنی باہو سے ملاقات تھی ہونے والی
کیا ہوا ، وقت بدلنے کی خبر آئی تھی

وا کہیں چشمِ سماوات تھی ہونے والی
تم نہ ملتے تو یہاں سے بھی ہمیں جانا تھا

ایسی کچھ صورتِ حالات تھی ہونے والی
اب جہاں دھوپ نکل آئی ہے کنجِ لب سے

کچھ ہی پہلے یہاں برسات تھی ہونے والی
اس کے کہنے پہ بدل آئے ہیں رستہ اپنا

جب محبت میں اسے مات تھی ہونے والی
ہم چلے آئے ہیں اُس حسن کے دستر خواں سے

جب ہماری بھی مدارات تھی ہونے والی
قتل نامہ تھا کہ جلاد نے ڈھاڑیں ماریں

کیسی اک مرگِ مفاجات تھی ہونے والی
ارتقاء آخری منزل پہ تھا میرا اُس وقت

خلق جب جنس ِجمادات تھی ہونے والی
میں پلٹ آیا ہوں منصور ’’مقامِ ہو‘‘ سے
اک عجب بات مرے ساتھ تھی ہونے والی
٭
قریب ہونے کے رستے تلاشے اُس نے بھی

مری طرح سے اٹھائے بتاشے اُس نے بھی
مجھے بھی اپنی وجاہت کے زعم نے روکا

تمام رات بہانے تراشے اُس نے بھی
مری بھی پیٹھ پہ رکھی ہے حسرتوں کی صلیب

اٹھائے اپنی تمنا کے لاشے اُس نے بھی
سناہے میری طرح رات رات دیکھے ہیں

شکست و ریخت کے وحشی تماشے اُس نے بھی
اگرچہ عشق ہے مجرم مگر بنائے ہیں

دیارِ ہجرکے اجڑے مہاشے اُس نے بھی
حساب درد کا جس رات کر رہا تھا میں

شماراپنے کئے تولے ماشے اُس نے بھی
نکل سکی نہ اداسی مزاج سے میرے

اگرچہ خواب ہشاشے بشاشے اُس نے بھی
پلٹ کے دشت سے آئی نہ میری تنہائی

نگاہِ ناز کے ریشم فراشے اُس نے بھی
میں خوش دماغوںکی بستی کو ساتھ لایا تھا

بلا رکھے تھے کئی خوش معاشے اُس نے بھی
مجھے بھی چیخ سنائی دی لمس کی منصور
خیال میں مرے شانے خراشے اُس نے بھی
٭
مری طرح سے کیا ہے فراڈ اُس نے بھی

کہ خالی بھیج دیا عید کاڈ اُس نے بھی
مجھے بھی ضد ہے مسیحا کے دل میں رہنے کی

تہی رکھا ہے مریضوں سے واڈ اُس نے بھی
پہن لی جسم پہ میں نے بھی کھال چیتے کی

سیاہ فام رکھا باڈی گاڈ اُس نے بھی
مجھے بھی شوق ہے نخروں کا چانج کرنے کا

ہزار دیکھے ہیں بچپن میں لاڈ اُس نے بھی
مجھے بھی بیچنا آزادی کا مجسمہ ہے

فروخت کرنا ہے لینن گراڈ اُس نے بھی
نکل گیا تھا بڑھا کے سپیڈ میں جس پر

خرید لی وہی ہنڈا اکاڈ اُس نے بھی
گھری تھی غنڈوں میں رضیہ وہاں مگر منصور
بس اندھا دھند گھمائی تھی راڈ اُس نے بھی
٭
کالکیں چہرے سے چھل کے صبح شرمندہ ہوئی

اک سیہ مورت سے مل کے صبح شرمندہ ہوئی
جس کی نس نس میں اندھیرے تھے تبسم آفریں

اس کلی کے ساتھ کھل کے صبح شرمندہ ہوئی
وہ مجسم رات وہ کالی صراحی کے خطوط

دامنِ خوباں میں سل کے صبح شرمندہ ہوئی
حسرتوں کی ٹھیکرے تھے، ڈھیر تھے افسوس کے

پھر کھنڈر میں آکے دل کے صبح شرمندہ ہوئی
اس نے زلفوں کو بکھیرااور سورج بجھ گیا

سامنے لہراتے ظل کے صبح شرمندہ ہوئی
ہر نمو مٹی کی کالی قبر سے آباد تھی

بیچ شہرِآب و گل کے صبح شرمندہ ہوئی
یار کے رخسار پر ہے اک عجب کالا گلاب

پھر مقابل ایک تل کے صبح شرمندہ ہوئی
کنج ِ لب سے ہی نکلتی یار کے تو بات تھی

بس افق کے پاس کھل کے صبح شرمندہ ہوئی
جھانک سکتی ہی نہیں مٹی کے اندر روشنی
خاک پہ منصور پل کے صبح شرمندہ ہوئی
٭
پڑائو کیسے بدن کے مسافتیں کیسی

ہر ایک لمس پہ اتریں مصیبتیں کیسی
مخالفین میں لختِ جگر بھی شامل ہیں

مرے نصیب میں آئیں رقابتیں کیسی
کسی کو بیٹھنے اٹھنے کا کیا سلیقہ ہے

یہ گفتگو میں کسی کی نزاکتیں کیسی
نگار خانہ جاں کے فراق سے پہلے

میں کہہ رہا تھا کسی سے محبتیں کیسی
بس اک فریب سے بہلا رہا ہوں چشم ولب

ترے بغیر جہاں بھر کی راحتیں کیسی
اگر ہے جرم، تجھے چھو کے دیکھ لینا بھی

تو ساتھ رہنے کی مجھ کو اجازتیں کیسی
جلو میں گھومتی پھرتی ہے نازنینوں کے

مری غزل کی پری چہرہ صحبتیں کیسی
کسی مقام پہ رکتا نہیں کوئی منصور
تعلقات ہیں کیسے رفاقتیں کیسی
٭
شیخ صاحب کہے افلاک نشیں ہے کوئی

عشق فرمائے جہاں میں ہوں وہیں ہے کوئی
پائوں پڑتی ہے ازل کی صبح انوار فروش

چہرۂ برقِ تجلیٰ کی جبیں ہے کوئی
جانتا ہوں میں محمدﷺکے وسیلے سے اسے

مجھ کو محسوس نہیں ہوتا کہیں ہے کوئی
ذرے ذرے میں دھڑ کتا ہے وہ مشعوقِ ازل

کرسی و عرش و سموات و زمیں ہے کوئی
کیسی یکتائی کا احساس مجھے ہے منصور
ایک بس اس کے سوا میرا نہیں ہے کوئی
٭
خون سے اتنی سنورتی تو نہ تھی

میری ایسی کبھی دھرتی تو نہ تھی
چاند کھڑکی سے نکل آتا تھا

رات سیڑھی سے اترتی تو نہ تھی
موج ٹکراتی تھی ساحل سے مگر

ایسے سینے سے ابھرتی تو نہ تھی
یہ درِ یار پہ کیسا تھاہجوم

نئے عشاق کی بھرتی تو نہ تھی
لوگ کہتے ہیں محبت پہلے
اتنی آسانی سے مرتی تو نہ تھی
٭
ہے توقع درِ انکار کے کھل جانے کی

یعنی اُس یارِ طرح دار کے کھل جانے کی
چلنا ہے بادِ محبت کی بلاخیزی میں

ہم کو پروانہیں دستار کے کھل جانے کی
ہم معاشرتی شبِ جبر میں کیا لکھیں گے

بات ہے دستِ گرفتار کے کھل جانے کی
شعلہ ء گل کا ابھی رقص دکھاتی ہوں تجھے

اک ذرادیر ہے بازار کے کھل جانے کی
لوگ منصور پلٹ جاتے ہیں دروازوں سے
ہم کو امید ہے دیوار کے کھل جانے کی
٭
پیر فرید کی بانگ ہوئی

روہی دو فرلانگ ہوئی
آنکھ سے دیکھا باہو کی

دنیا ایک سوانگ ہوئی
شاہ حسین کی بستی میں

مادھولال کی مانگ ہوئی
بول وہ بلھا بول گیا

پار جگر کے سانگ ہوئی
اربوں سال کی تنہائی

اپنی ایک چھلانگ ہوئی
بات ہوئی بس اوروں سے

کال ہمیشہ رانگ ہوئی
کوئی کہاں منصور ملا
عمر سراپا تانگ ہوئی
٭
جب اُس جمالِ صبح کی بوتیک چل پڑی

پھر زندگی کی شہر میں تحریک چل پڑی
اُس دلنواز شخص کی آمد کے ساتھ ساتھ

میرے مکان سے شبِ تاریک چل پڑی
نکلا بس ایک اسم افق کی کتاب سے

تاویلیں سب سمیٹ کے تشکیک چل پڑی
جس کیلئے سڑک پہ لڑا تھا میں وقت سے

بس بھیج کے وہ ہدیہ ء تبریک چل پڑی
  منصور  بس  اتر  کے  گیا  تھا  وہ  کج  نہاد
گاڑی پھر اس کے بعد مری ٹھیک چل پڑی
٭
اس عہدِ بے شرف میں شرف کیش آدمی

یعنی کہ میں اکیلا ہوں درویش آدمی
مانا ہیں آسماں سے مراسم رکھے ہوئے

میرا قبیلہ خاک ، مرا خویش آدمی
جو کاٹتا رہا ہے مجھے سانپ کی طرح

لگتا تھا آنکھ سے تو کم و بیش آدمی
اس کو خبر نہیں ہے حیات و ممات کی

جو کائنات کے نہیں درپیش آدمی
کچھ بول اس شعور کی اندھی گپھا میں
منصور کوئی دیتا ہے اپدیش آدمی
٭
ہر قدم پر کوچہ ء جاناں میں گو مشکل رہی

اس مسافت پر طبعیت شوق سے مائل رہی
ایک اک گنتا رہا ضربِ مسلسل ایک اک

دل کی دھڑکن کپکپاتی یاد میں شامل رہی
اک طرف کتنے مسافر راستے میں رہ گئے

اک طرف پائے طلب کی منتظر منزل رہی
آخری الہام کی پہلی کرن سے پیشتر

چارہ گر آتے رہے بیچارگی بسمل رہی
یہ بنامِ امن جنگیں یہ ہلاکت خیز خیر

زندگی تہذیب کی دہلیز پر گھائل رہی
خشک پتے کی طرح اڑنا مجھے اچھا لگا

سچ یہی ہے عمر کا آوارگی حاصل رہی
ڈوبنے سے جو بچالیتی ہے اپنی زندگی

بس وہی کشتی سمندر کا سدا ساحل رہی
تنگ کرتی جا رہی ہے بس یہی الجھن مجھے

کوئی شے تھی پاس میرے جونہیں اب مل رہی
پھر کوئی منصور خوشبو ملنے والی ہے مجھے
ان دنوں باغیچے میں پھرہے چنبلی کھل رہی
٭
پائے طلب کو جستجو آسودگی کی تھی

یعنی ہمیں تلاش تمہاری گلی کی تھی
یہ سرفرازیوں کی کہانی عجیب ہے

جو اپنے پائوں میں ہے یہ منزل کسی کی تھی
برسی گھٹائے فیض رساں جیسے آج ہے

ویسی امید آپ سے دریا دلی کی تھی
بے رحم باسیوں نے ٹھہرنے نہیں دیا

اُس شہر سے تمنا کہاںواپسی کی تھی
کوئی خبر لا آتے دنوں کی غیاب سے

یہ ساری داستان تو گزری ہوئی کی تھی
ابھری جبینِ شیخ پہ کیوں غیظ کی شکن
منصور کے لبوں پہ صدا یانبی کی تھی
٭
کچھ کہہ رہی ہے مجھ سے ترے ہاتھ کی گھڑی
چلتی ہے کتنے پہر کسی ذات کی گھڑی

لیکن میں روک سکتانہیںرات کی گھڑی
دیوار پر لگادی ہے اوقات کی گھڑی
باہر سے لوٹ جائے وہ مہتاب کی کرن

اب ختم ہوچکی ہے ملاقات کی گھڑی
اچھی ہیں یار کی متلون مزاجیاں

ممکن ہے پھر وہ آئے مدارات کی گھڑی
بہتا ہے میرے سینے میںاک چشمۂ دعا

ٹھہری ہوئی ہے مجھ میں مناجات کی گھڑی
یہ اور بات دیکھ کے پہچانتے نہیں

آتی ہے روز، روزِ مکافات کی گھڑی
دیکھو ازل نژاد ہے چلتی ہوئی ہوا

سمجھو ابد خرام ہے آیات کی گھڑی
اب ختم ہورہی ہے مشقت نصیب کی

چلنے پہ آگئی ہے حوالات کی گھڑی
گھڑیال مسجدوں کے بتاتے ہیں اور وقت

کچھ اور کہہ رہی ہے سماوات کی گھڑی
اعمال دیکھ کر مرے آقائے لوح نے

امت سے چھین لی ہے فتوحات کی گھڑی
منصور بہہ رہا ہے مرے وقت سے لہو
چلتی سدا ہے زخم میں حالات کی گھڑی
٭
گزری تمام ماہِ محرم میں زندگی

یعنی ہے ایک کوچۂ ماتم میں زندگی
کیسا عجب تھا اس کی اچٹتی نظر کا فیض

ساری بدل گئی ہے مری دم میں زندگی
صحرا کی دو پہر سے مسلسل میں ہم کلام

پھرتی ہے دشت دشت شبِ غم میں زندگی
کچھ کچھ سرکتی ہے کوئی ٹوٹی ہوئی چٹان

چلتی نہیں فراق کے موسم میں زندگی
ہرشام ایک مرثیہ ہر صبح ایک بین

اک چیخ ہے شعور کے عالم میں زندگی
منصور دوگھروں میںہے آباد ایک جسم
تقسیم آدھی آدھی ہوئی ہم میں زندگی
٭
آب رواں میں پھر نئی شامت دکھائی دی

اُس جیسی ایک اور قیامت دکھائی دی
اس کے خیال بھی تھے پرانے ، بہت قدیم

اس کے لباس میں بھی قدامت دکھائی دی
تقریبِ گل میں سرو کئی آئے تھے مگر

ہر سمت تیری رونقء قامت دکھائی دی
پہلے بدن کا معجزہ دیکھا نگاہ نے

پھر گفتگو میں ایک کرامت دکھائی دی
میںنے بھلا دیںساری گذشتہ کی تلخیاں

تھوڑی سی اُس نظر میں ندامت دکھائی دی
جاری ہے ٹوٹ پھوٹ وجود و شہود میں

کوئی کہیںبھی شے نہ سلامت دکھائی دی
منصور چپ کھڑی تھی کہیں شام کی کرن
چھیڑا توزندگی کی علامت دکھائی دی
٭
چاہتا ہوں کہیں ملے کوئی

آنکھ میں گلستاں کھلے کوئی
رکھ گیا ہاتھ کی لکیروں میں

راستوں کے یہ سلسلے کوئی
میرے دل کا بھی بوجھ ہلکا ہو

میرے بھی تو سنے گلے کوئی
اس لئے میں بھٹکتا پھرتا ہوں

مجھ کو گلیوں میں ڈھونڈھ لے کوئی
کیا کروںہجر کے جزیرے میں

لے گیا ساتھ حوصلے کوئی
اس کے آنے کی صرف افواہ پر

دیکھتا دل کے ولولے کوئی
یار آتا میرے علاقے میں

خیمہ زن ہوتے قافلے کوئی
گرمیٔ لمس کے مجھے منصور
بخش     دے    پھر  سے  آ بلے  کوئی
٭
اسے بدلتے ہوئے دیکھتے رہے ہم بھی

پھر اس کے بعد کسی دن بدل گئے ہم بھی
اکیلے رہنے کی عادت نہ تھی سو عرصے تک

بغیر اس کے پریشاں بہت رہے ہم بھی
سمیٹ رکھے تھے بارش کے اشک پتوں نے

کچھ ایسا پارک کا موسم تھا رو پڑے ہم بھی
لپیٹ رکھی ہے پت چھڑ کی شال برسوں سے

کبھی بہارمیں ہوتے ہرے بھرے ہم بھی
 قریب ہوتے گئے ایک خالی رستے پر

ملول وہ بھی بہت تھی اداس تھے ہم بھی
اسے بھی نیند سے شاید کوئی عداوت تھی

پرانے جاگنے والے تھے رات کے ہم بھی
وہ آتے جاتے ہمیں  دیکھنے  لگی  منصور
پھر اس کے بارے میں کچھ سوچنے لگے ہم بھی
٭
تشریف آوری تھی چراغِ خیال کی

بہنے لگی رگوں میں کرن اشتعال کی
شاید جنم جنم کی اداسی ہے میرے ساتھ

صدیاں پڑی ہیں صحن میں شامِ ملال کی
میں نے تمام عمر گزاری شبِ فراق

میں شکل جانتا نہیں صبحِ وصال کی
ہے کوئی مادھولال میرے انتظارمیں

آواز آرہی ہے کہیں سے دھمال کی
پچھلے پہر میں گزری ہے منصور زندگی
میری شریکِ عمر ہے ساعت زوال کی
٭
معصوم ،دلرباسی شروعات میں لگی

اچھی مجھے اداسی شروعات میں لگی
چاروں طرف سیاہ سمندر تھا بعد میں

بھیگی ہوئی ہوا سی شروعات میں لگی
پھر ڈر گیا چڑیل کی بدروح دیکھ کر

اچھی وہ خوش لباسی شروعات میں لگی
پھر جھرجھری سی آگئی سایوں کے خوف سے

تنہائی کچھ خداسی شروعات میں لگی
پھر ہوگئی سموتھ سمندر سی کیفیت

جذبوں کوبدحواسی شروعات میں لگی
پھر اپنی تشنگی کا مجھے آگیا خیال

صحرا کی ریت پیاسی شروعات میں لگی
کچھ دیر میں میڈونا کی تصویر بن گئی

وہ ناصرہ عباسی شروعات میں لگی
پھر یوں ہوا کہ مجھ کو پجاری بنا دیا

وہ مجھ کو دیو داسی شروعات میں لگی
خانہ بدوش تھی کوئی منصور زندگی
وہ بستیوں کی باسی شروعات میں لگی
٭
بانسری بانس کے جنگل سے سنوں غم کی یونہی

اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی
کوئی امکان بظاہر تو بچھڑنے کا نہیں

یاد آئی ہے مجھے ہجر کے موسم کی یونہی
دشت کی دھوپ کوئی چیز نہیں میرے غزال

گفتگو تجھ سے ہوئی سایہ ء شیشم کی یونہی
میں نے جانا نہیں برفاب تہوں میں اس کی

بات سنتا ہوں میں بہتے ہوئے جہلم کی یونہی
برف گرتی ہے تو آتی ہے نظر خوابوں میں

اک پری زاد مجھے وادی ء نیلم کی یونہی
صبر کرتا رہا قربان حسین ابن علی

ظلم کہتا رہا حرمت ہے محرم کی یونہی
مجھ کو معلوم نہیں کون کہاں روتا ہے

بات کی سبزہ پہ بکھری ہوئی شبنم کی یونہی
اک موبائل سے بنا لینے دو تصویر مجھے

پہنے رکھو ذرا پوشاک یہ ریشم کی یونہی
ذکر ہوتا رہے لیلائے وطن کا منصور
آگ جلتی رہے بس نوحۂ ماتم کی یونہی
٭
یہ کیا کہ ہجر کا موسم کرے دراز وہی

جسے ہے ترکِ مراسم پہ اعتراض ۔وہی
جسے فراق کی راتیں گزار لیتی ہیں

وصالِ صبح سے ہوتا ہے سرفراز وہی
میں چھوڑآیاتھا جس کوکسی کے چہرے میں

دکھارہا ہے کوئی چشمِ بدلحاظ وہی
میں جانتا ہوں اب ہارنا ضروری ہے

میں مانتا ہوں کہ ہے جنگ کا محاذوہی
جسے پسندنہیں تھی اداس رت کی غزل

سرھانے رکھتی اب کیوں مری بیاض وہی
وہی خیال کی مسجد وہی حریمِ حرم

مرا وضو وہی ، سجدہ وہی ، نماز وہی
جسے ملی تیرے رخسار و لب کی گیرائی
ہوا خدائی سے منصور بے نیاز وہی
٭
پہنچنے والی ہے انگریز کی گرانٹ ابھی

بچا جو دیس میں تھوڑا بہت ہے بانٹ ابھی
میں تیری فونڈری بیچوں گا وقت آنے پر

تُو میرے بیج دے اسٹیل کے پلانٹ ابھی
تجھے کلاس کے کچھ چور مل بھی سکتے ہیں

فریب کار بہت ہیں کچھ اور چھانٹ ابھی
او بادشاہِ ٹھگاں! میں ترا مخالف ہوں

اکھیڑ نی ہے جومیری اکھیڑ جھانٹ ابھی
امیرِ شہر نے امپوٹ کھالیں کردی ہیں

غریبِ شہروہی اپنے جوتے گانٹھ ابھی
نئے چراغ جلا صبح کیلئے منصور
ہے تیرے ملک پہ قابض وہی خرانٹ ابھی
٭
قیامت خیز طوفانوں سے لڑ جانے کی جلدی تھی

نجانے کیوںتجھے جڑ سے اکھڑ جانے کی جلدی تھی
ابھی تو ہم ملے ہی تھے ابھی تو گل کھلے ہی تھے

تجھے کیا اس قدر جاناں بچھڑنے کی جلدی تھی
نئی رُت سے بہت پہلے فقظ تُو ہی نہیں بدلی

یہاں پر تو درختوںکو بھی جھڑ جانے جلدی تھی
مجھے تو ہجر میں رہنے کی عادت تھی مگر جاناں

تجھے بھی ایسا لگتا ہے اجڑ جانے جلدی تھی
بجا ہے ہاتھ کو میرے تمنا تیری تھی لیکن

ترے دامن کو بھی شاید ادھڑ جانے کی جلدی تھی
فقط دوچار لمحوں میں سمت آئی ہتھیلی پر

زمیں کے وسعتوں کو بھی سکڑ جانے کی جلدی تھی
ابھی تو اس نے بدلا تھا لباسِ جسم ہی منصور
مری قسمت کو بھی کتنی بگڑ جانے کی جلدی تھی
٭
خموشی سے گلہ تھا اور قراروں سے شکایت تھی

ندی کو کچھ پرانے کوہساروں سے شکایت تھی
کہاں بادِ خزاں کی بادشاہی جانے والی ہے

یونہی گلزاروںکو آتی بہاروں سے شکایت تھی
لہو برسا دیا ہے مسجدِ اقصیٰ کے سجدوں پر

جنہیں آزاد جیون کی پکاروں سے شکایت تھی
کوئی قاتل بلایاہے شبِ غم کے مغنی نے

اسے تیور سروں کی بجتی تاروں سے شکایت تھی
ہمیں توکربلا کے ریگ زاروں سے شکایت ہے

ہمیں توکربلا کے ریگ زاروں سے شکایت تھی
ابھی تک اشہبِ دوراں کی خالی پیٹھ ہے منصور
گذشتہ کو بھی مشرق کے سواروں سے شکایت تھی
٭
آثارِ قدیمہ ، مری تہذیب مٹا دی

بمباری نے کرنوں بھری تاریخ بجھا دی
وہ بھی تو درِ کعبہ پہ سجاآتے تھے نظمیں

میں نے بھی اباسین میں اک نظم بہادی
جو علم کے معروف سمندر ہیں انہوں نے

اک آگ کتب خانۂ دجلہ میں لگادی
اطلاع کی کوئی بیل نہ بجی خانۂ دل میں

اخبار بھی کرتے رہے تصویری منادی
یہ ڈیڑھ ارب بھوک زدہ آدمی کیوں ہیں

 کچھ بول چناروں بھری کشمیر کی وادی
پھر رات کی چادر پہ ابھر آئے ستارے
پھر روشنی منصور اندھیرے میں ملادی
٭
تحقیق کہ دنیا میںبس وسعتیں اتنی ہیںادراک کے دامن کی

تاریک مکانوں میںجتنی کہیں حیثیت دیوار کے روزن کی
میں شکل بناتا ہوںتعمیری رویوں کی کیوں اسکی وساطت سے

صحرائی بگولوں میںجو گھومتی رہتی ہے اک آنکھ توازن کی
سفاک پہاڑوں پراگتی ہوئی بھیڑوں سے جو اون نکلتی ہے

تقویم کے چرخے پرمیں اس سے بناتا ہوںاک شال تمدن کی
پھر ہاتھ میں دل لے کرٹکراتا ہو ں ممکن سے موجود کے کمرے میں

تقدیر کے فرغل سے بس موت دکھائی دے تصویر میںجیون کی
تہذیبِ محمد ﷺکی کرتا ہوں نگہبانی اقراء کی علامت سے
منصور جہاں بھی ہے یہ حرف کا سرمایہ میراث ہے مومن کی
٭
قربانی کر قبول، اے مولا شہید کی

وہ جان دے کے اپنی کسی نے ہے عید کی
اب تو معاف امتِ وسطی کا جرم کر

کر دے جہاں میں ختم حکومت یزید کی
روہی کی ایک صبح کا درشن سا ہو گیا

میں سن رہا تھا رات کو کافی فرید کی
آتی ہوئی رتوںکا کسی کو نہیں خیال

کرتے ہیں گفتگو سبھی ماضی بعید کی
لعنت ہزار ایسی حکومت پہ بار بار

جمہوریت کی اس نے ہے مٹی پلید کیٍ
لے کر ہوا اڑے گی کسی روز تو اسے

میں نے تمام عمر جو خوشبو کشید کی
میں پڑھ رہا ہوںپچھلے زمانے کی سرگزشت

میں نے مگرکتاب غزل کی خرید کی
منصور بے چراغ مکانوں کی سمت دیکھ
وہ سو گئی ہے آخری بستی امید کی
٭
مقیم صبح مری چاند کے شرف میں بھی

قیام روشنی کرتی رہی صدف میں بھی
میں تیرا ساتھ صداقت کو چھوڑ کر دونگا

کہا نہیں ہے یہ میں نے کسی حلف میں بھی
لڑائی ایک صلیب و ہلال میں بھی ہے

ہے اس طرف میں بھی پیکار اس طرف میں بھی
ہے گولہ باری مسلسل غزہ کی پٹی میں

بپا ہے معرکۂ خیر و شر نجف میں بھی
تمام عمر کی خود پہ ہی فائرنگ منصور
قیام میرا رہا ہے مرے ہدف میں بھی
٭
کسی کے ساتھ چلا آیا اختتام پہ بھی

اسے تھا مسئلہ محفل کے اہتمام پہ بھی
اثر پذیری کے قصے میں کتنی باتیں ہیں

کلام پہ بھی ہے موقوف ہم کلام پہ بھی
دورد آیتِ الہام پہ کروڑوں ہوں

سلامتی ہو مرے مصرعِ دوام پہ بھی
مرے وجود میں مدغم وجود کیا کرتا

وہ میرے ساتھ جھگڑتا رہا ہے نام پہ بھی
رواں ہے اشہب ِ دوراں خدا کی مرضی سے

ہیں پا رکاب میں اور ہاتھ ہیں لگام پہ بھی
ہے جنگ فلسفۂ فکر کے پہاڑوں پر

تصادم ایک نئے عالمی نظام پہ بھی
بپا ہے وادئ تاریخ میں بھی آویزش

لڑائی محنت و سرمایہ کے مقام پہ بھی
وطن بھی میرے ملالوں کی داستاں منصور
اداسیوںکی حکومت خرامِ شام پہ بھی
٭
حجاب پہ بھی ہے اور چادرِ مہین پہ بھی

ہے اعتراض فلسطین کے مکین پہ بھی
جدال ایک نظامِ معاش پر بھی ہے

جہاد قضیۂ ملکیتِ زمین پہ بھی
ہے پیداوار کے سرچشموں پہ بھی ٹکرائو

ہے ایک غزوہ جہاں میں فروغِ دین پہ بھی
وہ کور چشم مرے عہد کے خدا جن کو

دکھائی داغ دئیے صبحِ بہترین پہ بھی
مرے لئے تو وہ پیشانیاں سیہ منصور
شکن شکن ہوئیں جو لہجۂ متین پہ بھی
٭
ایک امید کھڑکی سے آئی ، گئی

چاندکی شمع آخر بجھائی گئی
اپنے اندر ہی روتے سمندر رہے

کب کہانی کسی کو سنائی گئی
اس کے جانے پہ احساس کچھ یوں ہوا

اپنے پہلو سے اٹھ کر خدائی گئی
اپنے مژگاں میں آنسو پروتا رہا

یوں غزل بزم میں رات گائی گئی
تم یہود و نصاریٰ کی زرگاہ میں

بک گئے جب بھی بولی لگائی گئی
تم کرائے کے قاتل ہو حاکم نہیں

تم سے اپنوں پہ گولی چلائی گئی
آگ تھی غم کی منصور کافر نژاد
اس سے مسلم کی میت جلائی گئی
٭
یاد کے فلور پرچائے ہے پڑی ہوئی

دل کے قہوہ خانے میں بحث بھی بڑی ہوئی
 پھانسیوں پہ جھولتی اک خبرہے موت کی

اپنی اپنی طے شدہ سوچ میں گڑی ہوئی
بدمزاج وقت ہے کچھ ملال خیز سا

اختتامِ سال سے شام ہے لڑی ہوئی
آتے جاتے دیکھ کر درد کچھ مرے ہوئے

اک الست مست کی ذات میں جھڑی ہوئی
 بولتے تھے عادتاً کم بھرے ہوئے دماغ

دانش و شعور کی شوخ پنکھڑی ہوئی
آتی جاتی گاڑیاںموڑ کاٹنے لگیں

چلتے چلتے وہ گلی روڈ پر کھڑی ہوئی
چلنے والا تار پرمسخروںمیں کھو گیا

جب صراطِ وقت پر آخری گھڑی ہوئی
 آدمی کے گوشت کی ریشہ رشہ داستاں
صدرِ امن گاہ کے دانت میں اڑی ہوئی
٭
جاگ اٹھی جو قسمت تھی پھوٹی ہوئی

صحن میں اک چنبلی کی بوٹی ہوئی
صحن ِ باغِ ارم کی ہیں رہداریاں

ہاتھیوں کے پڑائو سے ٹوٹی ہوئی
ہر طرف ہیں کھجوروں کے زخمی درخت

بستیاں ہیں مدینے کی لوٹی ہوئی
آسماں ہوگیا مہرباں خاک پر

لوٹ آئی ہے رُت کوئی روٹھی ہوئی
دل میںمنصور خودکُش دھماکہ ہوا
اور  پھر اپنی   بن  اطلاع  جھوٹی    ہوئی ٭
اس کی حرافہ یاد ہے آفت بنی ہوئی

نیندوں کی بستیوں پہ مصیبت بنی ہوئی
جلتی جہاں تھی آگ وہاںدیکھ تو سہی

اڑتی ہے راکھ، نوحۂ عبرت بنی ہوئی
وہ جمع لوگ ہیں کسی پاگل کے آس پاس

کوئی ہے انقلاب کی صورت بنی ہوئی
لگتا ہے تم ملائو گی اس کو بھی خاک میں

تھوڑی سی جو ہے شہر میں عزت بنی ہوئی
وہ اپنی خواہشوں کی ہے تکمیل کا چلن

جو چیز ہے جہاں میں محبت بنی ہوئی
ہر رات نظم ِ تازہ اترتی ہے صحن میں

کیاہے جدائی باعث ِ برکت بنی ہوئی
منصور رکھ د یا ہے اٹھا کرسٹور میں
پھرتی تھی وہ جو میری ضرورت بنی ہوئی
٭
ذبح خانے سی بنالی ہے شریعت اپنی

یہ عجب تم نے نکالی ہے شریعت اپنی
قتل منسون ،دھماکے جائز، تاوان حلال

ان دنوں دیکھنے والی ہے شریعت اپنی
کعبۂ دل کی ہے بس فرض مسلسل صلوات

عشق میں کیسی مثالی ہے شریعت اپنی
ہم غلامانِ محمدﷺ ہیں، علی کے بھی غلام

بس طریقت میں بلالی ہے شریعت اپنی
کون مسجد میں در آیا ہے ہماری منصور
کس نے منبر سے چرالی ہے شریعت اپنی
٭
دستکیں کہتی ہیں پھر وہی قیامت ہوگی

پھر وہی قوسِ قزح جیسی مصیبت ہوگی
اگلا پھر بے بسی کا ہوگا وزیرِ اعظم

اگلی پھر بے کسی کی کوئی حکومت ہوگی
پھر غلط بول پڑے اپنے ذرائع ابلاغ

میڈیا والوں کی پھر ایک ضیافت ہوگی
پھر ہمیں فول بنائیں گے ہمارے  ہیرو

پھر نیا قصہ ء غم پھرنئی آفت ہوگی
ریٹ ڈالر کا بڑھا دیں گے فرشتے منصور
پھر کسی کوٹھی پہ اللہ کی رحمت ہوگی
٭
پکڑے گئے ہم محشر میں اور ایسی غلط تفتیش ہوئی

جس کی جیب سے سگریٹ نکلے اس کے نام حشیش ہوئی
جاتے جاتے اس نے مڑ کرمیری جانب دیکھا تھا

گھنٹہ بھر تقریب تھی لیکن ایک نظر بخشیش ہوئی
دیواروں میں دیکھ کے اپنی شکل کے اتنے زیادہ عکس

اک بھولی بھالی سی ناگن شیش محل میں شیش ہوئی
دیوانے پن کے جنگل میںآنکھ کھلی تو علم ہوا

کپڑے لیراں لیراں اور بے ہنگھم اپنی ریش ہوئی
کس کی حکومت آئی ہے یہ کالک کیسی ہے منصور
آدھے دن تک رات جو دیکھی سورج کو تشویش ہوئی
٭
آب و دانہ کے لئے آئے پرندویہ سکونت کیا ہوئی

کچھ کہو وہ رت بدلنے پر پلٹ جانے کی عادت کیا ہوئی
چند دن وہ ساحلوں پر رکنے والے کیا ہوئے بحری جہاز

دور دیسوں کے سفر سے لوٹ آنے کی روایت کیا ہوئی
دیکھنے آئے تھے ہم کافر تو حسنِ کافرانہ کو مگر

اس گنہ آباد بستی میں مسلمانوں کی ہجرت کیا ہوئی
ساحلوں پر ڈوبتے سورج پہ اتری ہے کوئی پیتل کی کونج

سیپیاں چنتی ہوئی سر گرم کرنوں کی حرارت کیا ہوئی
ہو گئی بچی کی چھاتی تو سلگتے سگریٹوں سے داغ داغ

وہ جو آنی تھی زمیں پر آسمانوں سے قیامت کیا ہوئی
کیا ہوا وہ جنگ سے اجڑاہوابچوں بھرا منصورپارک
وہ کتابوںسے بھری تہذیب کی روشن عمارت کیا ہوئی
٭
دریچے یاد کے شفاف کر رہا ہے کوئی

پھر آنسوئوں کا وہ اسراف کررہا ہے کوئی
نکھرتی جاتی ہے شبنم اداس آنکھوں میں

کسی گلاب کو سی آف کر رہا ہے کوئی
گرا رہے ہیں در و بام چند بلڈوزر

سنا ہے شہر مرا ، صاف کر رہا ہے کوئی
بتا رہا ہے بدن کی نزاکتوں کا ناپ

بیان حسن کے اوصاف کر رہا ہے کوئی
بڑھا رہا ہے سرِشام وصل کی خواہش

وہ روشنی کا سوئچ آف کر رہا ہے کوئی
وہ لکھ رہا ہے کہ کرنا ہے رات کو کیا کیا

شب ِفراق کااصراف کر رہا ہے کوئی
بڑھارہا ہے محبت کے وائرس منصور
شب ِ وصال سے انصاف کر رہا ہے کوئی
٭
مجھ ایسا غیر پسندیدہ بے محل کوئی

نہیں ہے اور کہ میرا نہیںبدل کوئی
گزار اعمرنہ سنجیدگی کے صحرا میں

ضروری ہے تری محفل میں بیربل کوئی
پھٹی ہوئی کسی چادر سے ڈھانپ دیتے ہیں

تلاش کرتے نہیںمسئلے کا حل کوئی
فنانژاد علاقہ ہے میری مٹی کا

نکال سکتا نہیں خاک سے اجل کوئی
یہ پوچھتا تھا کوئی اور بھی ہے میرے سوا

ملاتھا دشتِ جنوں میں مجھے پنل کوئی
اسی جریدۂ کون و مکاں کی سطروں میں

چھپی ہوئی ہے مرے واسطے غزل کوئی
نجانے کون شہادت سے سرفراز ہوا

کنارِ چشمۂ کوثر بنا محل کوئی
ٹھہر گیا ہے ستم ناک وقت میرے لئے

یا کائنات کی گردش میںہے خلل کوئی
مری شکست کے اسباب پوچھتے کیا ہو

ہے کھیل ہی کے قواعد گیا بدل کوئی
اجل حیات کا پہلا سرا نہیں منصور
مراجعت کی مسافت کا ہے عمل کوئی
٭
رات کے پچھلے پہر ، دور الائو کوئی

سرِ کہسار مسافت کا پڑائو کوئی
ہار جائوں گا تو دنیاسے بھی اٹھ جائوں گا

بس لگانا ہے مجھے آخری دائو کوئی
ٹوٹ جانے میں بھلا کونسی اچھائی ہے

نرمگی کوئی، سرِ شاخ جھکائو کوئی
لوگ کہتے ہیں کہ باہو کے ہے دوہوں میں شفا

بیٹھ کے میرے سرہانے ذرا گائو کوئی
چاند کے روپ میں اک طنزِ مسلسل کی طرح

سینہ ء شب میں سلگتا ہوا گھائو کوئی
لوگ مرجاتے ہیں ساحل کی تمنا لے کر

اور سمندر میں چلی جاتی ہے نائو کوئی
کاش بچپن کی بہشتوں سے نہ باہر آئوں

روک لے عمر کے دریا کا کٹائو کوئی
لڑکھڑانا ہے نشیبوں میں ہمیشہ منصور
 روک سکتا نہیں پانی کا بہائو کوئی
٭
نیلگوں دیوار پر اک بے صدا دستک ہوئی

پھر مری مجذوبیت افلاک کی گاہک ہوئی
پھر مجھے ابدال ہونے کا یقیں ہونے لگا

جب تلاش اپنی مکمل عرش کی حدتک ہوئی
میری چیخیں اپنی دھڑکن میں چھپا لیتی رہی

کس قدر اپنی سلگتی خامشی زیرک ہوئی
چاند تارے حسنِ فطرت کے تحائف ہوگئے

آسماں پر جب مکمل رات کی کالک ہوئی
میں نے جب سوچا، نہیں کوئی نہیں اسکا شریک

وہم ٹھہرا جسم اپنا جاں سراپا شک ہوئی
جس کے چاروں سمت ڈھلوانیں ہوں منہ کھولے ہوئے

زندگی اپنی وہی وحشت زدہ بالک ہوئی
ہم نفس میرے رہے منصور سقراط و حسین
روشنی مذہب ہوا اور چاندنی مسلک ہوئی
ردیف ے
دشت کو ابر نہ دے ، دھوپ پہ سایہ نہ کرے

اُس س کہہ دو کہ مرے ہجر کو رسوا نہ کرے
ایک امید کی کھڑکی سی کھلی رہتی ہے

اپنے کمرے کا کوئی، بلب بجھایا نہ کرے
میں مسافر ہوں کسی روز تو جانا ہے مجھے

کوئی سمجھائے اسے میری تمنا نہ کرے
روز ای میل کرے سرخ اِمج ہونٹوں کے

میں کسی اور ستارے پہ ہوں، سوچا نہ کرے
حافظہ ایک امانت ہی سہی اس کی مگر
شب کبھی وصل کی دے وہ تو گھڑی بھر کی ہو

وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے
رات ہجراں کی جو آئے تو سویرا نہ کرے
بال بکھرائے ہوئے درد کے خالی گھر میں

یاد کی سرد ہوا شام کو رویا نہ کرے
چھو کے بھی دیکھنا چاہتی ہیں یہ پوریں اس کو

آ نہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے
چاند کے حسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصور
میں اسے کیسے کہوں رات کو نکلا نہ کرے
٭
دل کو کچھ دن اور بھی برباد رکھنا چاہیے

اور کچھ اس بے وفا کو یاد رکھنا چاہیے
کونج کی سسکاریاں سُن کر کھلا رخصت کی شام

گھر بڑی شے ہے اسے آباد رکھنا چاہیے
ریل میں جس سے ہوئی تھی یونہی دم بھر گفتگو

خوبصورت آدمی تھا، یاد رکھنا چاہیے
موسم گل ہے کہیں بھی لڑکھڑا سکتا ہے دل

ہر گھڑی اندیشۂ افتاد رکھنا چاہیے
فربہ بھیڑوں کی چراگاہوں میں خیمہ زن نہ رہ

اک سفر جاری سفر کے بعد رکھنا چاہئے
باغ چاہے کہر میں گم ہے تجھے آنکھوں کے بیچ

بس وہی خوش قامتِ شمشاد رکھنا چاہئے
مت پکڑ منصور پتوں میں یہ چھپتی تیتری
ایسی نازک چیز کو آزاد رکھنا چاہیے
٭
میں خود پہلو میں ہوں اپنے بدن اپنا مکمل ہے

اسے کہنا بغیر اس کے مری دنیا مکمل ہے
گلی کی برف پر کھنچیں لکیریں بے خیالی میں

ادھورے نقش ہیں کچھ کچھ مگر چہرہ مکمل ہے
مجھے روکا ہوا ہے جسم کی دہلیز پر اس نے

ادھوری ہے وفا اپنی، تعلق نامکمل ہے
لکیر اپنے لہو کی ہے ابھی اِن دونوں ٹکڑوں میں

خزانے تک پہنچنے کا کہاں نقشہ مکمل ہے
مجھے شہر نگاراں سے نئے کچھ زخم لینے ہیں

وہ جو دل میں رفو کا کام نکلا تھا مکمل ہے
بلا کا خوبصورت ہے کوئی اُس بالکونی میں

ہے بے مفہوم سا مکھڑا مگر کتنا مکمل ہے
محبت کا سفر بھی کیا کرشمہ ساز ہے منصور
ادھر منزل نہیں آئی ادھر رستہ مکمل ہے
٭
بھر گئی تھی بیسمنٹ نیکیوں کے شور سے

کہہ رہا تھا کون کیا ساتویں فلور سے
نیم گرم دودھ کے ٹب میں میرے جسم کا

روشنی مساج کر اپنی پور پور سے
زاویہ وصال کا رہ نہ جائے ایک بھی

شاد کام جسم ہو لمس کے سکور سے
فاختہ کے خون سے ہونٹ اپنے سرخ رکھ

فائروں کے گیت سن اپنی بارہ بور سے
بام بام روشنی پول پول لائٹیں

رابطے رہے نہیں چاند کے چکور سے
وحشتِ گناہ سے نوچ لے لباس کو

نیکیوں کی پوٹلی کھول زور زور سے
واعظوں کی ناف پر کسبیوں کے ہاتھ ہیں

کوتوالِ شہر کی دوستی ہے چور سے
شیر کے شکار پر جانے والی توپ کی

رات بھر بڑی رہی بات چیت مور سے
خوابِ گاہِ یاد کی ایک الف داستاں
سُن پرانی رات میںاُس نئی نکور سے
٭
گھونٹ بھرا چائے کا تیرے گھر کچھ دیر رکے

جیسے موٹر وے کی سروس پر کچھ دیر رکے
حیرانی سے لوگ بھی دیکھیں میری آنکھ کے ساتھ

کیمرہ لے کے آتا ہوں… منظر کچھ دیر رکے
اتنی رات گئے تک کس ماں کے پہلو میں تھا

کتے کا بچہ اور اب باہر کچھ دیر رکے
کیسی کیسی منزل ہجرت کرتی آتی ہے

دیس سے آنے والی راہ گزر کچھ دیر رکے
چاروں طرف بس خاموشی کی چاپ سنائی دے

یہ لاکھوں سال پرانی صرصر کچھ دیر رکے
وہ منصور کبھی تو اتنی دیر میسر ہو
اس کی جانب اٹھے اور نظر کچھ دیر رکے
٭
فراق بیچتے کیسے، پلان کیا کرتے

بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے
ہمیں خبر ہی نہ تھی رات کے اترنے کی

سو اپنے کمرے کا ہم بلب آن کیا کرتے
نکل رہی تھی قیامت کی دھوپ ایٹم سے

یہ کنکریٹ بھرے سائبان کیا کرتے
تھلوں کی ریت پہ ٹھہرے ہوئے سفینے پر

ہوا تو تھی ہی نہیں بادبان کیا کرتے
بدن کا روح سے تھا اختلاف لیکن ہم

خیال و واقعہ کے درمیان کیا کرتے
فلک نژاد تھے اور لوٹ کے بھی جانا تھا

زمیں کے کس طرح ہوتے، مکان کیا کرتے
نمازاوڑھ کے رکھتے تھے، حج پہنتے تھے

ترے ملنگ تھے ہم ،دو جہان کیا کرتے
دکانِ دین فروشی پہ بِک رہا تھا تُو

تجھے خریدتے کیسے ، گمان کیا کرتے
نہ ہوتی صبحِ محمدثبوتِ حق کیلئے

تو یہ چراغوں بھرے آسمان کیا کرتے
پھر اس کے بعد بلندی سے کیا ہمیں منصور
مقامِ عرش سے کوئی اڑان کیا کرتے
٭
یہ سچ کی آگ پرے رکھ مرے خیالوں سے

بھرا ہوا ہوں سلگتے ہوئے سوالوں سے
مکانِ ذات کے دیمک زدہ کواڑ کھلے

بھری ہوئی ہیں چھتیں مکڑیوں کے جالوں سے
مجھے پسند ہے عورت، نماز اور خوشبو

انہی کو چھینا گیا ہے مرے حوالوں سے
عمل کے اسم سے بابِ طلسم کھلنا ہے

اتار رینگتی صدیوں کا زنگ تالوں سے
بھٹک رہا ہے سرابوں کی شکل میں پانی

قضا ہوا کوئی چشمہ کہیں غزالوں سے
نہ مانگ وقت کی باریش چھائوں سے دانش
لٹکتے کب ہیں ثمر برگدوں کے بالوں سے
٭
بدل رہی ہے کچھ ایسے گلوب کی گردش

ڈرے ہوئے ہیں ستارے خود اپنی چالوں سے
مکاں بھی اپنے مکینوں سے اب گریزاں ہیں

گلی بھی خود کو چھپاتی ہے چلنے والوں سے
وہ تیرگی کہ لرزتے ہیں بام و در شب کے

وہ روشنی ہے کہ سورج ڈرے اجالوں سے
یہ روز و شب ہیں تسلسل سے منحرف منصور
یہ ساعتیں کہ الگ ہو گئی ہیں سالوں سے
٭
فروغِ کُن کو صوتِ صورِ اسرافیل ہونا ہے

پہاڑوں کا بھی اب جغرافیہ تبدیل ہونا ہے
زمیں پر خیر و شر کے آخری ٹکرائو تک مجھ کو

کبھی ہابیل ہونا ہے کبھی قابیل ہونا ہے
کہاں معلوم ہوتا ہے تماشا ہونے سے پہلے

کسے پردے میں رہنا ہے کسے تمثیل ہونا ہے
ابھی تعلیم لینی ہے محبت کی، ابھی میں نے

بدن کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہونا ہے
دماغِ کوزہ گر میں ہیں ابھی تک خال وخد میرے

ابھی تک ایسا لگتاہے مجھے تشکیل ہونا ہے
کوئی ہے نوری سالوں کی طوالت پر کہیں منصور
مجھے رفتار سر کرتی ہوئی قندیل ہونا ہے
٭
رک گئے پیر فرید اور وارث باہو چلتے چلتے

لفظ کے در پر جب آئے ہم سادھو چلتے چلتے
یاد تھکن ہے ایک سڑک کی، یاد ہے دکھ کا رستہ

بیٹھ گیا تھا میرے کاندھوں پر تُو چلتے چلتے
تیرا میرا نام بھی شاید لافانی کر جائے

برگد کے مضبوط تنے پر چاقو چلتے چلتے
وار قیامت خیز ہوئے دو دھاری تلواروں کے

رخساروں کو چیر گئے ہیں آنسو چلتے چلتے
ایک محل کے بند کواڑوں سے منصور نکل کر
میرے صحن تلک آئی ہے خوشبو چلتے چلتے
٭
وہ چوک میں کھڑا ہے پھریرا لیے ہوئے

یہ اور بات فوج ہے گھیرا لیے ہوئے
آنکھیں کہ رتجگوں کے سفر پر نکل پڑیں

اک دلنواز خواب سا تیرا لیے ہوئے
اللہ کے سپرد ہے خانہ بدوش دوست

وہ اونٹ جا رہے ہیں "بسیرا " لیے ہوئے
اندر کا حبس دیکھ کے سوچا ہے بار بار

مدت ہوئی ہے شہر کا پھیرا لیے ہوئے
چلتے رہے ہیں ظلم کی راتوں کے ساتھ ساتھ

آنکھوں میں مصلحت کا اندھیرا لیے ہوئے
رہنا نہیں ہے ٹھیک کناروں کے آس پاس

پھرتا ہے اپنا جال مچھیرا لیے ہوئے
گردن تک آ گئے ہیں ترے انتظار کے

لمبے سے ہاتھ، جسم چھریرا لیے ہوئے
لوگوں نے ڈھانپ ڈھانپ لیا درز درز کو
منصور پھر رہا تھا سویرا لیے ہوئے
*گھیرا لیے ہوئے… اعتراض کی گنجائش موجود ہے۔
٭
ساتھ نہ تھا کوئی اپنے ساتھ سے پہلے

دھند تھی دنیا شعورِ ذات سے پہلے
بزمِ سخن یعنی چہرہ بول پڑا تھا

غم کی تلاوت تھی، حمد و نعت سے پہلے
نیند بھری رات ! انتظار کسی کا

ہوتا تھا ترکِ تعلقات سے پہلے
کہتے ہیں خالی نگر میں رہتی ہیں روحیں

لوٹ چلیں گھر کو آئو رات سے پہلے
کیسا تھا سناٹا تیرے عہدِ عدم میں

کیسی خموشی تھی پہلی بات سے پہلے
خواب تھے پنہاں شکستِ زعم میں شاید
فتح کی باتیں کہاں تھیں مات سے پہلے
٭
تیرے کرنوں والے ہٹ میں رات کرنا چاہتی ہے

ساحلوں پر زندگی سن باتھ کرنا چاہتی ہے
اپنے بنگلوں کے سوئمنگ پول کی تیراک لڑکی

میرے دریا میں بسر اوقات کرنا چاہتی ہے
وقت کی رو میں فراغت کا نہیں ہے کوئی لمحہ

اور اک بڑھیا کسی سے بات کرنا چاہتی ہے
چاہتا ہوں میں بھی بوسے کچھ لبوں کی لاٹری کے

وہ بھی ملین پونڈ کی برسات کرنا چاہتی ہے
مانگتا پھرتا ہوں میں بھی آگ کا موسم کہیں سے

وہ بھی آتشدان کی خیرات کرنا چاہتی ہے
کیسے کی اس نے نفی جوبات کرنا چاہتی  ہے
جو نہیں وہ ذات کیا اثبات کرنا چاہتی ہے
٭
کتاب ہاتھ میں ہے اور کج، کلاہ میں ہے

مگر دماغ کسی جہل کی سپاہ میں ہے
بلند بام عمارت کی آخرش منزل

مقامِ صفر کی بے رحم بارگاہ میں ہے
پڑی ہے ایش ٹرے میں سلگتے لمس کی راکھ

ملن کی رات ابھی عرصہء گناہ میں ہے
بھٹکتا پھرتا ہوں ظلمات کے جزیرے میں
پسِ فراق ہے موجود وصل کا چہرہ
ترے وصال کی راتوں کی خیر ہو لیکن
کبھی تو ہو گا تمنا کی منزلوں سے پرے

بڑا اندھیرا کسی دیدئہ سیاہ میں ہے
چراغ صبحِ ازل سے مزارِ آہ میں ہے
وہ بات تجھ میں نہیں ہے جو تیری چاہ میں ہے
ابھی تو تیرا مسافر طلب کی راہ میں ہے
رکا نہیں ہوں کسی ڈاٹ کام پر منصور
گلوب پائوں تلے تو خلا نگاہ میں ہے
٭
کوئی نرم نرم سی آگ رکھ مرے بند بند کے سامنے

چلے فلم کوئی وصال کی دلِ ہجر مند کے سامنے
یہ عمل ومل کے کمال چپ، یہ ہنروری کے جمال چپ

یہ ہزار گن سے بھرے ہیں کیا، ترے بھاگ وند کے سامنے
کھلی کھڑکیوں کے فلیٹ سے ذرا جھانک شام کو روڈ پر

ترے انتظار کی منزلیں ہیں مری کمند کے سامنے
کئی ڈاٹ کام نصیب تھے جسے زینہ زنیہ معاش کے

وہ منارہ ریت کا دیوتا تھا اجل پسند کے سامنے
ابھی اور پھینک ہزار بم، مرے زخم زخم پہاڑ پر
کوئی حیثیت نہیں موت کی، کسی سر بلند کے سامنے
٭
ہجر کو تاپتے تاپتے جسم سڑنے لگا ہے

اس لِونگ روم کا وال پیپر اکھڑنے لگا ہے
گھر کے باہر گلی میں بھی بکھرے ہیں پتے خزاں کے

کیسا تنہائی کے پیڑ سے درد جھڑنے لگا ہے
خواب جیسے دریچے میں آتی ہے دوشیزہ کوئی

کچھ دنوں سے مرا چاند پر ہاتھ پڑنے لگا ہے
اک تو بالشتیے ہم، پلازوں کی اونچائی میں ہیں

دوسرا شہر میں آسماں بھی سکڑنے لگا ہے
آندھیاں اور بھی تیز رفتار ہونے لگی ہیں
اب تو یہ لگ رہا ہے کہ خیمہ اکھڑنے لگا ہے
٭
آسماں کے حرا پہ اترا ہے

اک محمد خدا پہ اترا ہے
بول ! زنجیر ریل گاڑی کی

کون کیسی جگہ پہ اترا ہے
سوچتا ہوں کہ رحم کا بادل

کب کسی کربلا پہ اترا ہے
کس کے جوتے کا کھردرا تلوا

سدرئہ المنتہیٰ پہ اترا ہے
خیر کی آرزو نہ راس آئی

قہر دستِ دعا پہ اترا ہے
جھونک دے گی ہر آنکھ میں منصور
راکھ کا دکھ ہوا پہ اترا ہے
٭
گنبدوں سی کچھ اٹھانیں یاد آتی ہیں مجھے

گفتگو کرتی چٹانیں یاد آتی ہیں مجھے
میرے گھر میں تو کوئی پتیل کا برتن بھی نہیں

کس لیے سونے کی کانیں یاد آتی ہیں مجھے
ان نئی تعمیر کردہ مسجدوں کو دیکھ کر

کیوں شرابوں کی دکانیں یاد آتی ہیں مجھے
یاد آتی ہے مجھے اک شیرنی سے رسم و راہ

اور دریچوں کی مچانیں یاد آتی ہیں مجھے
جب کبھی جائوں میانوالی تو عہدِدردکی

کچھ پرانی داستانیں یاد آتی ہیں مجھے
شام جیسے ہی اترتی ہے کنارِ آب ِ سندھ

دو پرندوں کی اڑانیں یاد آتی ہیں مجھے
سیکھتی تھی کوئی اردو رات بھر منصور سے
ایک ہوتی دو زبانیں یاد آتی ہیں مجھے
٭
وہ لپیٹ کر نکلی تولیے میں بال اپنے

بوند بوند بکھرے تھے جسم پر خیال اپنے
درد کے پرندوں کو آنکھ سے رہائی دی

آخرش وہ دن آیا رو پڑے ملال اپنے
یہ صدا سنائی دے کوئلے کی کانوں سے

زندگی کے چولھے میں جل رہے ہیں سال اپنے
دیکھ دستِ جانانہ ! کھلنے کی تمنا میں

جینز کے اٹیچی میں بند ہیں جمال اپنے
قتل تو ڈرامے کا ایکٹ تھا کوئی منصور
کس لیے لہو سے ہیں دونوں ہاتھ لال اپنے
٭
حرکت ہر ایک شے کی معطل دکھائی دے

جاگا ہوا نگر بھی مجھے شل دکھائی دے
آتے ہوئے منٹ کی طوالت کا کیا کہوں

گزری ہوئی صدی تو مجھے پل دکھائی دے
پلکوں کے ساتھ ساتھ فلک پر کہیں کہیں

مجھ کو کوئی ستارہ مسلسل دکھائی دے
برسات کی پھوار برہنہ کرے تجھے

تیرے بدن پہ ڈھاکہ کی ململ دکھائی دے
پیچھے زمین ٹوٹ کے کھائی میں گر پڑی

آگے تمام راستہ دلدل دکھائی دے
ہجراں کی رات نرم ملائم کچھ اتنی ہے

مجھ کو ترا خیال بھی بوجھل دکھائی دے
برفاب موسموں میں مرے جسم پر تری

بھیڑوں کی گرم اون کاکمبل دکھائی دے
اُس چشم کے اندھیرے میںسورج کی خیر ہو

دیکھوں جہاں تلک مجھے کاجل دکھائی دے
دیکھا ہے رکھ کے اپنی ہتھیلی پہ کتنی بار

وہ پھول ہر طرف سے مکمل دکھائی دے
نقشِ قدم سے پاک جزیرہ کہیں ملے
منصور ان چھوا کوئی جنگل دکھائی دے
٭
زیادہ بے لباسی کے سخن اچھے نہیں ہوتے

جو آسانی سے کھلتے ہیں بٹن اچھے نہیں ہوتے
کئی اجڑے ورق خوشبو پسِ ملبوس رکھتے ہیں

کئی اچھی کتابوں کے بدن اچھے نہیں ہوتے
کبھی ناموں کے پڑتے ہیں غلط اثرات قسمت پر

کبھی لوگوں کی پیدائش کے سن اچھے نہیں ہوتے
غزالوں کے لیے اپنی زمینیں ٹھیک رہتی ہیں

جو گلیوں میں نکل آئیں ہرن اچھے نہیں ہوتے
محبت کے سفر میں چھوڑ دے تقسیم خوابوں کی

کسی بھی اک بدن کے دو وطن اچھے نہیں ہوتے
بڑی خوش چہرہ خوشبو سے مراسم ٹھیک ہیں لیکن
گلابوں کے بسا اوقات من اچھے نہیں ہوتے
٭
اک سین دیکھتے ہیں زمیں پر پڑے پڑے

پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے
کیسا ہے کائنات کی تہذیبِ کُن کا آرٹ

شکلیں بدلتے رہتے ہیں پتھر پڑے پڑے
اے زلفِ سایہ دار تری دوپہر کی خیر

جلتا رہا ہوں چھائوں میں دن بھر پڑے پڑے
ویراں کدے میں جھانکتے کیا ہو نگاہ کے

صحرا سا ہو گیا ہے سمندر پڑے پڑے
سوچا تھا منتظر ہے مرا کون شہر میں

دیکھا تو شام ہو گئی گھر پر، پڑے پڑے
شکنوں کے انتظار میںاے کھڑکیوں کی یار

بوسیدہ ہو گیا مرا بستر پڑے پڑے
منصور کوئی ذات کا تابوت کھول دے
میں مر رہا ہوں اپنے ہی اندر پڑے پڑے
٭
اجل پہننی ہے بھونچال اوڑھنا ہے مجھے

جوکھل نہیں سکا دروازہ توڑنا ہے مجھے
کسی سے میلوں پرے بیٹھ کر کسی کے ساتھ

تعلق اپنی نگاہوں کا جوڑنا ہے مجھے
نکالنا ہے غلاظت کو زخم کے منہ سے

یہ اپنے ملک کا ناسور پھوڑنا ہے مجھے
کسی کا لمس قیامت کا چارم رکھتا ہے

مگر یہ روز کا معمول توڑنا ہے مجھے
مجھے زمیں کو تحفظ فراہم کرنا ہے

رخ آسمانی بلائوں کا موڑنا ہے مجھے
فش اینڈ چپس سے اکتا گیا ہوں اب منصور
بس ایک ذائقے کا وصل چھوڑنا ہے مجھے
٭
اچھے بزنس مین کی پہچان ہے

ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے
دوڑتی پھرتی ہوئی بچی کے پاس

دور تک اک گھاس کا میدان ہے
صبح تازہ کی اذاں کے واسطے

میرے کمرے میں بھی روشن دان ہے
پتھروں سے مل نہ پتھر کی طرح

سنگ میں بھی روح کا امکان ہے
چند ہیں ابرِ رواں کی چھتریاں

باقی خالی دھوپ کادالان ہے
اتنا ہے پاکیزگی سے رابطہ

میرے گھر کا نام پاکستان ہے
موت آفاقی حقیقت ہے مگر

زندگی پر بھی مرا ایمان ہے
جتنی ممکن ہے جگہ دامن میں دے
روشنی منصور کی مہمان ہے
٭
یہ عمر جیل کے اندر گزار سکتے تھے

جو چاہتے تو اسے جاں سے مار سکتے تھے
یہ اور بات کہ راتیں رہی ہیں ہم بستر

ہم اپنے ہاتھ پہ سورج اتار سکتے تھے
بہت تھے کام کسی ڈاٹ کام پر ورنہ

غزل کی زلفِ پریشاں سنوار سکتے تھے
وہ ایک کام جو ممکن تھا رہ گیا افسوس

جو ایک جاں تھی اسے تجھ پہ وار سکتے تھے
ہمیشہ ربط کے پندار کا بھرم رکھا

صباحتِ لب و رخ تو وسار سکتے تھے
یہ بار بند نہ ہوتا تو ہم شرابی لوگ

تمام رات کسینو میں ہار سکتے تھے
کسی سے کی تھی محبت کی بات کیا منصور
کہ ایک مصرعے میں جیسے ہزار سکتے تھے
٭
کچھ ہڈیاں پڑی ہوئی، کچھ ڈھیر ماس کے

کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے
فٹ پاتھ بھی درست نہیں مال روڈ کا

ٹوٹے ہوئے ہیں بلب بھی چیرنگ کراس کے
پھر ہینگ اوور ایک تجھے رات سے ملا

پھر پائوں میں سفر وہی صحرا کی پیاس کے
ہنگامہء شراب کی صبحِ خراب سے

اچھے تعلقات ہیں ٹوٹے گلاس کے
کیوں شور ہو رہا ہے مرے گرد و پیش میں

کیا لوگ کہہ رہے ہیں مرے آس پاس کے
صحراکا حسن لے گئے مجنون کے نقشِ پا

پیوند لگ چکے ہیں وہاں سبز گھاس کے
منصوربس یقین کی گلیاں ہیں اور میں
دروازے بند ہوچلے وہم و قیاس کے
٭
ننگ کا بھی لباس اگ آئے

کچھ بدن پر کپاس اگ آئے
ہم نفس کیا ہوا سوئمنگ پول

پانیوں میں حواس اگ آئے
آتے جاتے رہو کہ رستے میں

یوں نہ ہو پھر سے گھاس اگ آئے
سوچ کر کیا شجر قطاروں میں

پارک کے آس پاس اگ آئے
گائوں بوئے نہیں اگر آنسو

شہر میں بھوک پیاس اگ آئے
کوئی ایسی بہار ہو منصور
استخوانوں پہ ماس اگ آئے
٭
باہر نکل لباس سے کچھ اور دھوم سے

میں آشنا نہیں ہوں بدن کے علوم سے
لگتا ہے تو بھی پارک میں موجود ہے کہیں

مہکی ہوئی ہے شام ترے پرفیوم سے
میں چاہتا ہوں تیرے ستارے پہ ایک شام

ای میل اور بھیج نہ شہرِ نجوم سے
کس نے بنایا وقت کا پہلا کلوز شارٹ

آنکھوں کے کیمرے کے فسوں کار زوم سے
نکلا ہی تھا دماغ سے اک شخص کا خیال
منصور بھر گئیں مری آنکھیں ہجوم سے
٭
حصارِ جبہ و دستار سے نکل آئے

فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے
دکھائی کیا دیا اک خطِ مستقیم مجھے

کہ دائرے مری پر کار سے نکل آئے
خبر ہو نغمہء گل کو، سکوت کیا شے ہے

کبھی جو رنگ کے بازار سے نکل آئے
پہن لے چھائوں جو میرے بدن کی تنہائی

تو دھوپ سایہء دیوار سے نکل آئے
اُدھر سے نیم برہنہ بدن کے آتے ہی

امامِ وقت، اِدھر، کار سے نکل آئے
ذرا ہوئی تھی مری دوستی اندھیروں سے

چراغ کتنے ہی اس پار سے نکل آئے
کبھی ہوا بھی نہیں اور ہو بھی ہو سکتا ہے

اچانک آدمی آزار نکل سے آئے
یہ چاہتی ہے حکومت ہزار صدیوں سے

عوام درہم و دینار سے نکل آئے
دبی تھی کوئی خیالوں میں سلطنت منصور
زمین چٹخی تو آثار سے نکل آئے
٭
لکھنے والوں میں محترم کیا ہے

چیک پہ چلتا ہوا قلم کیا ہے
ہے بلندی کا فوبیا ورنہ

یہ حریمِ حرم ورم کیا ہے
مسئلے تو ہزار ہیں لیکن

تیری موجودگی میں غم کیا ہے
روز پانی میں ڈوب جاتا ہوں

ایک دریا مجھے بہم کیا ہے
اے سٹیچو بشیر بابا کے

بول کیا ؟ دید کیا ؟ قدم کیا ہے ؟
مرہمِ لمس بے کنار سہی

صحبتِ انتظار کم کیا ہے
موت منصور پر نہیں آتی
کھینچ لے جو کوئی وہ دم کیا ہے
٭
آنکھوں سے منصور شباہت گر جاتی ہے

ٹوٹے جو شیشہ تو صورت گر جاتی ہے
روز کسی بے انت خزاں کے زرد افق میں

ٹوٹ کے مجھ سے شاخِ تمازت گر جاتی ہے
باندھ کے رکھتا ہوں مضبوط گرہ میں لیکن

پاکستانی نوٹ کی قیمت گر جاتی ہے
اک میری خوش وقتی ہے جس کے دامن میں

صرف وہی گھڑیال سے ساعت گر جاتی ہے
لیپ کے سوتا ہوں مٹی سے نیل گگن کو

اٹھتا ہوں تو کمرے کی چھت گر جاتی ہے
ہجر کی لمبی گلیاں ہوں یا وصل کے بستر

آخر اک دن عشق میں صحت گر جاتی ہے
برسوں ظلِّ الہی تخت نشیں رہتے ہیں
خلقِ خدا کی روز حکومت گر جاتی ہے
٭
پھر شام دشت روح و بدن تک اتار کے

اس نے بچھا دی ریت پہ اجرک اتار کے
کس نے نمازیوں کو بلانے سے پیش تر

رکھا زمیں پہ عرش کا پھاٹک اتار کے
پھرتی ہے رات ایک دیے کی تلاش میں

باہر نہ جانا چہرے سے کالک اتار کے
کرتی ہیں مجھ سے اگلے جہاں کا مکالمہ

آنکھیں میرے دماغ میں اک شک اتار کے
صدیوں سے دیکھ دیکھ کے شامِ زوال کو

رکھ دی ہے میں نے میز پہ عینک اتار کے
بے رحم انتظار نے آنکھوں میں ڈال دی

دروازے پر جمی ہوئی دستک اتار کے
دیوار پہ لگی ہوئی تصویر یار کی
گلیوں میں سرد رات اکیلی تو ہونی تھی
بستی میں آ گئے ہیں آخر جنابِ قیس

اک لے گیا دوکان سے گاہک اتار کے
میری اداس روح میں ٹھنڈک اتار کے
صحرا میں اپنے نقشِ مبارک اتار کے
منصور کیا ہوا ہے تعلق کے شہر کی
دل نے پہن لی خامشی ڈھولک اتار کے
٭
پتھر کے رتجگے میری پلکوں میں گاڑ کے

رکھ دیں ترے فراق نے آنکھیں اجاڑ کے
اتنی کوئی زیادہ مسافت نہیں مگر

مشکل مزاج ہوتے ہیں رستے پہاڑ کے
آنکھوں سے خدو خال نکالے نہ جا سکے

ہر چند پھینک دی تری تصویر پھاڑ کے
یہ بھولپن نہیں ہے کہ سورج کے آس پاس

رکھے گئے ہیں دائرے کانٹوں کی باڑ کے
مٹی میں مل گئی ہے تمنا ملاپ کی

کچھ اور گر پڑے ہیں کنارے دراڑ کے
بے مہر موسموں کو نہیں جانتا ابھی

خوش ہے جو سائباں سے تعلق بگاڑ کے
دو چار دن لکھی تھی جدائی کی سرگزشت
منصور ڈھیر لگ گئے گھر میں کباڑ کے
٭
دیکھتا ہوں خواب میں تیرے محل کے آئینے

یہ کہاں تک آ گئے ہیں ساتھ چل کے آئینے
میں نے دیواروں پہ تیری شکل کیا تصویر کی

آ گئے کمرے میں آنکھوں سے نکل کے آئینے
آدمی نے اپنی صورت پر تراشے دیوتا

آپ اپنی ہی عبادت کی، بدل کے آئینے
ساڑھی کے شیشوں میں میرا لمسِ تازہ دیکھ کر

تیرے شانوں سے نظر کے ساتھ ڈھلکے آئینے
آخری نقطے تلک دیکھا تھا اپنی آنکھ میں

اور پھر دھندلا گئے تھے ہلکے ہلکے آئینے
ایک سورج ہے ترے مد مقابل آج رات

دیکھ اس کو دیکھ لیکن کچھ سنبھل کے آئینے
سینہء شب میں حرارت تھی کچھ اتنی چاند کی

پارہ پارہ ہو گئے ہیں دو پگھل کے آئینے
پھر برہنہ شخصیت ہونے لگی دونوں طرف
جب شرابوں سے بھرے کچھ دیر چھلکے آئینے
٭
مراسلے دیارِ غیب کے قلی کے دوش پر پڑے رہے

بڑے بڑے بریف کیس شانہء سروش پر پڑے رہے
پیانو پہ مچلتی انگلیوں کے بولتے سروں کی یاد میں

تمام عمر سمفنی کے ہاتھ چشم و گوش پر پڑے رہے
ہزار ہا کلائیاں بہار سے بھری رہیں ہری رہیں

نصیب زرد موسموں کے دستِ گل فروش پر پڑے رہے
برہنہ رقص میں تھی موت کی کوئی گھڑی ہزار شکر ہے

کہ سات پردے میرے دیدئہ شراب نوش پر پڑے رہے
اٹھا کے لے گئی خزاں تمام رنگ صحن سے حیات کے
کسی نے جو بنائے تھے وہ پھول میز پوش پر پڑے رہے
٭
یہ مارکر سے لکھا گیٹ پر بڑا کرکے

میں جا رہا ہوں گلی سے معانقہ کر کے
تُو زود رنج ہے لیکن برا نہیں دل کا

فریب دیتا ہوں خود کو ترا گلہ کرکے
میں کیا بتائوں شبِ التفات کا قصہ

گلی میں چھوڑ دیا اس نے باولا کرکے
میں فلم کا کوئی ہیرو نہیں مگر اس کو

بھلا دیا ہے قیامت کا حوصلہ کر کے
سپیڈ میں نے بڑھا دی ہے کار کی منصور
قریب ہونے لگی تھی وہ فاصلہ کر کے
٭
بزمِ مے نوشاں کے ممبر تو کئی تھے

آئینہ خانے میں سوبر تو کئی تھے
دل ہی کچھ کرنے پہ آمادہ نہیں تھا

ڈائری میں فون نمبر تو کئی تھے
میں نے بچپن میں کوئی وعدہ کیا تھا

ورنہ گائوں میں حسیں بر تو کئی تھے
صبح تنہائی تھی اور خالی گلاس

ہم زباں ہم رقص شب بھر تو کئی تھے
تیرے آتش دان کی رُت ہی نہیں تھی

لمس کے دھکے دسمبر تو کئی تھے
ایک اک کمرے میں بستر موت کا تھا

آس کی بلڈنگ میں چیمبر تو کئی تھے
گیسوئوں کے آبشار آنکھوں کی جھیلیں

ہم پکھی واسوں کے امبر تو کئی تھے
خاک کا الہام تنہا ایک تُو تھا

آسمانوں کے پیمبر تو کئی تھے
شہر میں منصور بس کوئی نہیں تھا
رونقِ محراب و منبر تو کئی تھے
٭
شہر کی فتح بابِ شک پر ہے

منحصر لوگوں کی کمک پر ہے
کلمہ کا ورد کر رہے ہیں لوگ

آخری شو کا رش سڑک پر ہے
فیملی جا رہی ہے لے کے اسے

گھر کا سامان بھی ٹرک پر ہے
پڑھ رہا ہوں ہزار صدیوں سے

کیا کسی نے لکھا دھنک پر ہے
بھیج مت پرفیوم جانِ جاں

حق مرا جسم کی مہک پر ہے
چاند ہے محوِ خواب پہلو میں

یعنی بستر مرا فلک پر ہے
میری پلکوں کی ساری رعنائی

موتیوں کی چمک دمک پر ہے
آس کا شہر ہے سمندر میں

اور بنایا گیا نمک پر ہے
دل کی موجودگی کا افسانہ

بادلوں کی گرج چمک پر ہے
چاند کی ہاتھ تک رسائی بھی

دلِ معصوم کی ہمک پر ہے
کس نے ہونا ہے شہر کا حاکم

فیصلہ بوٹ پر دھمک پر ہے
کون قاتل ہے فیصلہ، منصور
فائروں کی فقط لپک پر ہے
٭
آنکھ کے قطرۂ عرق پر ہے

علم بس عشق کے سبق پر ہے
منزلِ ہجر سے ذرا آگے

اپنا گھر چشمۂ قلق پر ہے
کوئی آیا ہے میرے آنگن میں

ابر صحرائے لق و دق پر ہے
ایک ہی نام ایک ہی تاریخ

ڈائری کے ورق ورق پر ہے
شامِ غم کے نگار خانے میں

زخم پھیلا ہوا شفق پر ہے
سن رہا ہوں کہ میرے ہونے کی

روشنی چودھویں طبق پر ہے
دیکھ کر کارِ امت شبیر
لگ رہا ہے یزید حق پر ہے
٭
یہ کیا چراغِ تمنا کی روشنی ہوئی ہے

ہر ایک چشمِ تماشا سے دشمنی ہوئی ہے
تُو چشمِ ہجر کی رنگت پہ تبصرہ مت کر

یہ انتظار کے جاڑے میں جامنی ہوئی ہے
نہ پوچھ مجھ سے طوالت اک ایک لکنت کی

یہ گفتگو کئی برسوں میں گفتنی ہوئی ہے
چمکتی ہے کبھی بجلی تو لگتا ہے شاید

یہیں کہیں کوئی تصویر سی بنی ہوئی ہے
ابھی سے کس لیے رکھتے ہو بام پر آنکھیں

ابھی تو رات کی مہتاب سے ٹھنی ہوئی ہے
ابھی نکال نہ کچھ انگلیوں کی پوروں سے

ابھی یہ تارِ رگ جاں ذرا تنی ہوئی ہے
شراب خانے سے کھلنے لگے ہیں آنکھوں میں

شعاعِ شام سیہ، ابر سے چھنی ہوئی ہے
نظر کے ساتھ سنبھلتا ہوا گرا پلو

مری نگاہ سے بے باک اوڑھنی ہوئی ہے
کچھ اور درد کے بادل اٹھے ترے در سے

کچھ اور بھادوں بھری تیرگی گھنی ہوئی ہے
کلی کلی کی پلک پر ہیں رات کے آنسو

یہ میرے باغ میں کیسی شگفتنی ہوئی ہے
اک ایک انگ میں برقِ رواں دکھائی دے

کسی کے قرب سے پیدا وہ سنسنی ہوئی ہے
جنوں نواز بہت دشتِ غم سہی لیکن

مرے علاوہ کہاں چاک دامنی ہوئی ہے
میں رنگ رنگ ہوا ہوں دیارِ خوشبو میں

لٹاتی پھرتی ہے کیا کیا، ہوا غنی ہوئی ہے
سکوتِ دل میں عجب ارتعاش ہے منصور
یہ لگ رہا ہے دوبارہ نقب زنی ہوئی ہے
٭
عشق میں کوئی کہاں معشوق ہے

دل مزاجاً میری جاں معشوق ہے
جس سے گزرا ہی نہیں ہوں عمر بھر

وہ گلی وہ آستاں معشوق ہے
رفتہ رفتہ کیسی تبدیلی ہوئی

میں جہاں تھا اب وہاں معشوق ہے
ہے رقیبِ دلربا اک ایک آنکھ

کہ مرا یہ آسماں معشوق ہے
مشورہ جا کے زلیخا سے کروں

کیا کروں نامہرباں معشوق ہے
صبحِ ہجراں سے نشیبِ خاک کا

جلوۂ آب رواں معشوق ہے
ہیں مقابل ہر جگہ دو طاقتیں

اور ان کے درمیاں معشوق ہے
گھنٹیاں کہتی ہیں دشتِ یاد کی

اونٹنی کا سارباں معشوق ہے
وہ علاقہ کیا زمیں پر ہے کہیں

ان دنوں میرا جہاں معشوق ہے
میں جہاں دیدہ سمندر کی طرح

اور ندی سی نوجواں معشوق ہے
ہر طرف موجودگی منصور کی
کس قدر یہ بے کراں معشوق ہے
٭
ہجراں کے بے کنار جہنم میں ڈال کے

پلکیں سفید کر گئے دو پل ملال کے
میں آنکھ کی دراز میں کرتا ہوں کچھ تلاش

گہرے سیاہ بلب سے منظر اجال کے
دفنا نہیں سکا میں ابھی تک زمین میں

کچھ روڈ پر مرے ہوئے دن پچھلے سال کے
بستر پہ کروٹوں بھری شکنوں کے درمیاں

موتی گرے پڑے ہیں تری سرخ شال کے
تصویر میں نے اپنی سجا دی ہے میز پر

باہر فریم سے ترا فوٹو نکال کے
پازیب کے خرام کی قوسیں تھیں پائوں میں

کتھک کیا تھا اس نے کناروں پہ تھال کے
اڑنے دے ریت چشمِ تمنا میں دشت کی

رکھا ہوا ہے دل میں سمندر سنبھال کے
سر پہ سجا لیے ہیں پرندوں کے بال و پر

جوتے پہن لیے ہیں درندوں کی کھال کے
آنکھوں تلک پہنچ گئی، دلدل تو کیا کروں

رکھا تھا پائوں میں نے بہت دیکھ بھال کے
حیرت فزا سکوت ہے دریائے ذات پر

آبِ رواں پہ اترے پرندے کمال کے
میں سن رہا ہوں زرد اداسی کی تیز چاپ

جھڑنے لگے ہیں پیڑ سے پتے وصال کے
منصور راکھ ہونے سے پہلے فراق میں
سورج بجھانے والا ہوں پانی اچھال کے
٭
تھی کہاں اپنے میانوالی سے بیزاری اسے

لے گئی ہے اِک سڑک کی تیز رفتاری اسے
نہر کے پل پر ٹھہر جا اور تھوڑی دیر، رات

روک سکتی ہے کہاں اِک چار دیواری اسے
کوئی پہلے بھی یہاں پر لاش ہے لٹکی ہوئی

کہہ رہی ہے دل کے تہہ خانے کی الماری اسے
پوچھتی پھرتی ہے قیمت رات سے مہتاب کی

تازہ تازہ ہے ابھی شوقِ خریداری اسے
جو طلسم حرف میں اترا ہے اسمِ نعت سے
قریہء شعر و سخن کی بخش سرداری اسے
٭
نیم عریاں کر گئی ہے رقص کی مستی اسے

دیکھنے کو جمع ہے ترسی ہوئی بستی اسے
جیسے حرکت کا بہائو، جیسے پانی کا مزاج

کھینچتی ہے اپنی جانب اس طرح پستی اسے
ایک ہی بیڈ روم میں رہتے ہوئے اتنا فراق

چوم لینا چاہیے اب تو زبردستی اسے
کھینچ لایا میرے پہلو کی سنہری دھوپ میں

شامِ شالا مار کا باغیچہء  وسطی اسے
اس سیہ پاتال میں ہیں سورجوں کی بستیاں
زینہ در زینہ کہے، بجھتی ہوئی ہستی اسے
٭
جاگتے دل کی تڑپ یا شب کی تنہائی اسے

کون سی شے میرے کمرے کی طرف لائی اسے
اس قدر آنکھوں کو رکھنا کھول کر اچھا نہیں

لے گئی تاریکیوں میں اس کی بینائی اسے
ڈوبنا اس کے مقدر میں لکھا ہے کیا کروں

اچھی لگتی ہے مری آنکھوں کی گہرائی اسے
بجھ گیا تھا چاند گہرے پانیوں میں پچھلی رات

ڈھانپتی اب پھر رہی ہے دور تک کائی اسے
جو برہنہ کر گیا ہے ساری بستی میں مجھے
میں نے اپنے ہاتھ سے پوشاک پہنائی اسے
٭
لے گئی ہے دور اتنا، ایک ہی غلطی اسے

سوچتا ہوں کیا کروں کیسے کہوں سوری اسے
رفتہ رفتہ نیم عریاں ہو گئی کمرے میں رات

لگ رہی تھی آگ کی تصویر سے گرمی اسے
ایک بستر میں اکیلی کروٹیں اچھی نہیں

بھول جانی چاہیے اب شام کی تلخی اسے
لوگ کتنے جگمگاتے پھر رہے ہیں آس پاس

ہے یہی بہتر بھلا دو تم ذرا جلدی اسے
اُتنا ہی مشکل ہے یہ کارِ محبت جانِ من
تم سمجھتے پھر رہے ہو جس قدر ایزی اسے
٭
تری تعمیر کی بنیاد اپنی بے گھری پر ہے

مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے
جسے حاصل کیا ہے تُو نے اپنی بیچ کر لاشیں

مرا تھو ایسی صدرِ مملکت کی نوکری پر ہے
فقط میری طرف سے ہی نہیں یہ پھولوں کا تحفہ

خدا کی لعنتِ پیہم بھی تیری قیصری پر ہے
جلوس اپنا ابھی نکلے گا کالی کالی قبروں سے

نظر اپنی بھی زر آباد کی خوش منظری پر ہے
قسم مجھ کو بدلتے موسموں کے سرخ رنگوں کی

ترا انجام اب لوگوں کی آشفتہ سری پر ہے
نظامِ زر !مجھے سونے کے برتن دے نہ تحفے میں

مرا ایمان تو خالی شکم کی بوزری پر ہے
زیادہ حیثیت رکھتی ہے پانی پت کی جنگوں سے

وہ اک تصویر بابر کی جو تزکِ بابری پر ہے
فرشتے منتظر ہیں بس سجا کر جنتیں اپنی

مرا اگلا پڑائو اب مریخ و مشتری پر ہے
وہ جو موج سبک سر ناچتی ہے میری سانسوں میں

سمندر کا تماشا بھی اسی بس جل پری پر ہے
اسے صرفِ نظر کرنے کی عادت ہی سہی لیکن

توقع، بزم میں اپنی مسلسل حاضری پر ہے
یقینا موڑ آئیں گے مرے کردار میں لیکن

ابھی تو دل کا افسانہ نگاہِ سرسری پر ہے
عجب تھیٹر لگا ہے عرسِ حوا پر کہ آدم کی

توجہ صرف اعضائے بدن کی شاعری پر ہے
وفا کے برف پروردہ زمانے یاد ہیں لیکن
یقیں منصور جذبوں کی دہکتی جنوری پر ہے
٭
مجھے کیا اعتماد الفاظ کی جادوگری پر ہے

تری توصیف اک احسان میری شاعری پر ہے
ترے دربار سے کچھ مانگنا گر کفر ٹھہرا ہے

تو میں کافر ہوں مجھ کو ناز اپنی کافری پر ہے
تری رفعت تفکر کی حدودِ فہم سے بالا

ترا عرفان طنزِ مستقل دانش وری پرہے
سراپا ناز ہو کر بھی نیازِ عشق کے سجدے

خدا کو فخر بس تیرے خلوصِ دلبری پر ہے
صلائے عام ہے وہ نبضِ ہستی تھام لے آ کر

جو کوئی معترض آقا تری چارہ گری پر ہے
مجھے تسخیرِ یزداں کا عمل معلوم ہے منصور
کرم خاکِ مدنیہ کا مری دیدہ وری پر ہے
بنامِ میر
کون درزوں سے آئے رس رس کے

میرا کمرہ کرے سخن کس کے
میں گلی میں سلگتا پھرتا ہوں

جل رہے ہیں چراغ مجلس کے
بازوئوں پر طلوع ہوتے ہی

کٹ گئے دونوں ہاتھ مفلس کے
کیا ہے میک اپ زدہ طوائف میں

جز ترے کیا ہیں رنگ پیرس کے
میں بھی شاید مُہِنجو داڑو ہوں

اب بھی سر بند راز ہیں جس کے
متحرک ہیں غم کی تصویریں

چل رہے ہیں بدن حوادث کے
دیکھ چھو لے مجھے ذرا اے دوست

دیکھنا پھر کرشمے پارس کے
وقت کے ساتھ میرے سینے پر

بڑھتے جاتے ہیں داغ نرگس کے
تم سمجھ ہی کہاں سکے منصور
مسئلے عشق میں ملوث کے
بنام غالب
مان لیا وہ بھی میرا یار نہیں ہے

اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے
جاگ رہا ہوں میں کتنے سال ہوئے ہیں

کیسے کہوں اس کا انتظار نہیں ہے
ٹوٹ گئے ہیں دو پھر امید بھرے دل

ٹکڑے ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہے
میرا بدن برف ہے یا تیرِ نظر میں

پہلے پہل والی اب کے مار نہیں ہے
عہدِ خزاں میں ہے میرا باغ کہ جیسے

دامنِ تقدیر میں بہار نہیں ہے
سنگ اچھالے ہیں اس نے بام سے مجھ پر

جیسے گلی اس کی رہگزار نہیں ہے
ایک دعا بس ہے میرے پاس عشاء کی

رات! مرا کوئی غمگسار نہیں ہے
صرف گھٹا ہے جو دل میں روئے برس کے

اور کوئی چشمِ اشکبار نہیں ہے
سرخ ہے بے شک نمود چہرئہ تاریخ

دامنِ تہذیب داغ دار نہیں ہے
سنگ زدہ اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن

آدمی ہے کوئی کوہسار نہیں ہے
پار کروں گا میں اپنی آگ کا دریا

دیکھ رہا ہوں یہ بے کنار نہیں ہے
وقت نہیں آج اس کے پاس ذرا بھی

اور یہاں رنگِ اختصار نہیں ہے
مست ہوائیں بھی ماہتاب بھی لیکن

رات بھری زلفِ آبشار نہیں ہے
گھوم رہا ہوں فصیلِ ذات کے باہر

کوئی بھی دروازئہ دیار نہیں ہے
ایک نہیں قحط عشق صرف یہاں پر

شہر میں کوئی بھی کاروبار نہیں ہے
پھیر ہی جا مجھ پہ اپنا دستِ کرامت

 آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے"
درج ہے نیلی بہشتِ خواب کا منظر
آنکھ میں منصور کی غبار نہیں ہے
٭
میں نے ذرا جو دھوپ سے پردے اٹھا دیے

پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دیے
پوچھی پسند یار کی میں نے فراق سے

آہستگی سے رات نے مجھ کو کہا، دیے
کہہ دو شبِ سیاہ سے لے آئے کالکیں

ہاتھوں پہ رکھ کے نکلی ہے خلقِ خدا دیے
ہر دل چراغ خانہ ہے ہر آنکھ آفتاب

کتنے بجھا سکے گی زمیں پر، ہوا، دیے
بڑھنے لگی تھی دھوپ مراسم کی آنکھ میں

دریا کے میں نے دونوں کنارے ملا دیے
بالوں میں میرے پھیر کے کچھ دیر انگلیاں

کیا نقش دل کی ریت پہ اس نے بنا دیے
بھادوں کی رات روتی ہے جب زلفِ یار میں

ہوتے ہیں میری قبر پہ نوحہ سرا دیے
کافی پڑی ہے رات ابھی انتظار کی

میرا یقین چاند، مرا حوصلہ دیے
اتنا تو سوچتے کہ دیا تک نہیں ہے پاس

مٹی میں کیسے قیمتی موتی گنوا دیے
کچھ پل ستم شعار کی گلیوں میں گھوم لے

عرصہ گزر گیا ہے کسی کو دعا دیے
میں نے بھی اپنے عشق کا اعلان کر دیا

فوٹو گراف شیلف پہ اس کے سجا دیے
منصور سو گئے ہیں اجالے بکھیر کر
گلیوں میں گھومتے ہوئے سورج نما دیے
٭
یہ بے ضمیر قوم و وطن بیچتے ہوئے

کچھ سوچتے نہیں ہیں کفن بیچتے ہوئے
کچھ دیکھتے کہاں ہیں یہ سوداگرانِ خاک

دریا، پرند، برگ و سمن بیچتے ہوئے
گنتے ہیں غیر ملکی کرنسی کے صرف نوٹ

حکام بیٹیوں کے بدن بیچتے ہوئے
خوش ہیں امیر شہر محلات میں بہت

ابلیس کو دیارِ عدن بیچتے ہوئے
اس عہدِ زر پرست کی آواز بن گئے

اپنے قلم کو اہلِ سخن بیچتے ہوئے
ہیں اہتمامِ رقصِ طوائف میں منہمک
منصور باغبان چمن بیچتے ہوئے
٭
شاخِ بدن پہ کوئی تعلق کھلے ہوئے

عرصہ گزر گیا ہے کسی سے ملے ہوئے
میں کیا کروں کہ مجلسِ دل میں تمام رات

تیری شکایتیں ہوئیں تیرے گلے ہوئے
میں نے مقامِ طور پہ دیکھا خود اپنا نور

صبحِ شعورِ ذات کے کچھ سلسلے ہوئے
پہلے ہی کم تھیں قیس پہ صحرا کی وسعتیں

ہجراں کے مدرسے میں نئے داخلے ہوئے
منصور دو دلوں کی قرابت کے باوجود
اپنے گھروں کے بیچ بڑے فاصلے ہوئے
٭
دل میں پڑی کچھ ایسی گرہ بولتے ہوئے

ناخن اکھڑ گئے ہیں اسے کھولتے ہوئے
سارے نکل پڑے تھے اسی کے حساب میں

بچوں کی طرح رو پڑی دکھ تولتے ہوئے
میں کیا کروں کہ آنکھیں اسے بھولتی نہیں

دل تو سنبھل گیا ہے مرا ڈولتے ہوئے
کہنے لگی ہے آنکھ میں پھر مجھ کو شب بخیر

پانی میں شام اپنی شفق گھولتے ہوئے
کنکر سمیٹ لائے ہمیشہ مرا نصیب
منصور موتیوں کو یونہی رولتے ہوئے
٭
یہ کائناتِ روح و بدن چھانتے ہوئے

میں تھک گیا ہوں تجھ کو خدا مانتے ہوئے
اک دو گھڑی کا تیرا تعلق کہے مجھے

صدیاں گزر گئی ہیں تجھے جانتے ہوئے
پھرتا ہوں لے کے آنکھ میں ذرے کی وسعتیں

صحرا سمٹ گئے ہیں مجھے چھانتے ہوئے
برکھا کے شامیانے سے باہر ندی کے پاس

اچھا لگا ہے دھوپ مجھے تانتے ہوئے
یہ بھول ہی گیا کوئی میرا بھی نام تھا

ہر وقت نام یار کا گردانتے ہوئے
اس کے کمالِ ضبط کی منصور خیر ہو
صرفِ نظر کیا مجھے پہچانتے ہوئے
٭
زمیں سے عرش پہ نازل کلام کیا کرتے

ادھورے گیت سے حاصل دوام کیا کرتے
اُدھر بلاوا تھا اُس کا کہ میں اکیلی ہوں

اِدھر ادھورے تھے دفتر کے کام کیا کرتے
ہر آسماں سے نیا آسماں دکھائی دے

جہاز عرش کا رستہ تمام کیا کرتے
ازل تھا میز پہ جن کی، ابد تھا جیب کے بیچ

حیات و موت کا وہ احترام کیا کرتے
ہوا نے رنگ بکھیرے نہ پھول نے خوشبو

ترے بغیر ادھوری تھی شام کیا کرتے
زمین ہوتی توہم بھی کہیں قدم رکھتے

مقام ہی نہ تھا کوئی، قیام کیا کرتے
ہم اپنی ذات کی سڑکوں کے گم شدہ منصور
وصال و فاصلہ کا اہتمام کیا کرتے
٭
خراب و خستہ و ناکام کو ترے غم نے

بنایا خاص کسی عام کو ترے غم نے
یہ جانتا ہی نہیں ہے فراق کے آداب

لگا دی آگ درو بام کو ترے غم نے
کھلے ہوئے ہیں درختوں کے بال وحشت سے

رلا دیا ہے عجب شام کو ترے غم نے
میں آنسوئوں کے گہر ڈھونڈتا تھا پہلے بھی

بڑھایا اور مرے کام کو ترے غم نے
بنا دیا ہے جہاں بھر میں معتبر کیا کیا

مجھ ایسے شاعرِ بے نام کو ترے غم نے
بدل دیا ہے یقیں کے گمان میں منصور
فروغِ ہجر کے الزام کو ترے غم نے
٭
ٹہل رہا تھا کوئی سنگ سنگ رنگوں کے

بدل رہے تھے تسلسل سے رنگ رنگوں کے
وہ آسمان پہ شامِ وصال پھرتی ہے

بچھے ہیں قوسِ قزح پہ پلنگ رنگوں کے
اتر نہ جائے درختوں سے گل رتوں کی شال

پہن لے کپڑے ذرا شوخ و شنگ رنگوں کے
تری گلی سے نکلتے نہیں ہیں جانِ بہار
مٹا رہی ہے پہاڑوں سے خامشی کے داغ

فقیر عارضِ گل کے ملنگ رنگوں کے
بجا رہی ہے ندی جل ترنگ رنگوں کے
تری مہک سے بڑھاتے ہیں اپنی توقیریں
میں جانتا ہوں سبھی رنگ ڈھنگ رنگوں کے
٭
دستکوں کی آس پر لکڑی کے در بوڑھے ہوئے

اور ہم مغرور مجنوں اپنے گھر بوڑھے ہوئے
یہ الگ ہے گھٹ گئی فصلِ ثمر باری مگر

بڑھ گئی کچھ اور چھائوں جب شجر بوڑھے ہوئے
جس کی تزئین کے لیے اپنی جوانی صرف کی

دوست ہم اس شہر کے فٹ پاتھ پر بوڑھے ہوئے
صبح کی تجسیم کرنا غیر ممکن ہو گیا
مصلحت سازوں کی بستی برگزیدہ ہو گئی

رات کو جو کاٹتے تھے کاریگر بوڑھے ہوئے
گردنوں پر رکھے رکھے مردہ سر بوڑھے ہوئے
رو پڑی منصور دریا کے گلے لگ کر ہوا
جب کسی ساحل پہ مرغابی کے پر بوڑھے ہوئے
٭
ہوتے مرے بھی خال و خد، آئینہ دیکھتا مجھے

سنگِ جہاں نزاد ہوں، کوئی تراشتا مجھے
کشفِ وصال و ہجر میں کیسا شعورِ ذات ہے

عشق کہے میں کون ہوں حسن کہے وفا مجھے
اس کے خرامِ ناز پر کوئی چراغ کیا جلا

شب کے نگار خانے میں بادِ صبا لگا مجھے
لکھی غزل ہے میر نے میرے چُرا چُرا کے خواب

غالبِ خستہ حال نے بارِ دگر کہا مجھے
قریہء  ماہ تاب تک چھان کے آگیا ہوں میں

منزلِ وصل کے لیے اتنا نہ اب پھرا مجھے
اس کو حیات بخش دی، مہر منیر ہو گیا

شاخِ صلیبِ شام پر جس نے کہا خدا مجھے
جانا جہاں تھا اس طرف اپنی ازل سے پیٹھ ہے

چلنا ابد تلک پڑا یوں ہی بے فائدہ مجھے
کتنے ہزار سال سے تجھ کو منا رہا ہوں میں

میرے قریب بیٹھ کر تُو بھی کبھی منا مجھے
مجھ سے ترا فروغ کن مجھ سے ہے گردشِ فلک

میرا مقام و مرتبہ، پستی نہیں، اٹھا مجھے
میرے علاوہ اور بھی کچھ ہے ترے خیال میں

میرے مزاج آشنا! تجھ سے یہی گلہ مجھے
ٹوٹ کے شاخِ سبز سے دشت ستم خرام میں

لکھنا ہے گرم ریت پر پھولوں کا مرثیہ مجھے
میں نے کہا کہ آنکھ میں دھند بھری ہے رنگ کی

اس کے مہیں لباس پر کرنا تھا تبصرہ مجھے
خیمۂ کائنات کی ٹوٹی ہوئی طناب کو

حرف صدائے کن بتا، کیسے ہے تھامنا مجھے
اس کی طلب کے حکم پر رہنا جہاں پڑا مجھے

لوگ برے برے لگے شہر خراب سا مجھے
میرا طلسم جسم بس میرے محاصرے میں ہے

اپنے نواحِ ذات میں کھینچ دیا گیا مجھے
ایک کرن شعور کی، ایک بہار نور کی

اپنے چراغِ طور کی بخش کوئی چتا مجھے
مجھ سے بڑا کوئی نہیں‘ رات کے اک چراغ نے

کھنچی ہوئی لکیر میں رہ کے یہی کہا مجھے
آمدِ یار کے لیے جمع چراغِ چشم ہیں

کھینچنا ہے گلی گلی نور کا حاشیہ مجھے
پائوں میں ہے غبارِ رہ، آنکھ میں منظرِ سیہ

دل ہے مرا طلب کدہ کوئی دیا دکھا مجھے
اس کے وجودِ سنگ میں دل ہی نہیں رکھا گیا

پھر بھی گماں یہی کہ ہے دل پہ لکھا ہوا مجھے
کوئی نہیں بتا سکا کیسے جیوں ترے بغیر

دیتا تمام شہر ہے، جینے کا مشورہ مجھے
رستہ تھا روشنی بکف، گھر تھا چمن بنا ہوا

تیرے مگر فراق کے دکھ نے جگا دیا مجھے
میرا وہاں ہے آسماں تیری جہاں ہیں پستیاں

میرے بدن پہ پائوں رکھ، قوس قزح بنا مجھے
کہتی ہے داستانِ نور، آ کے سیہ لباس میں

مرتے ہوئے دیار کی بجھتی ہوئی چتا مجھے
سنگ صفت دیار کی شام سیہ نصیب میں

چھوٹے سے اس مکان کا کتنا ہے آسرا مجھے
مستی سے بھر، ترنگ دے، دل کو کوئی امنگ دے
اپنے بدن کا رنگ دے، خود سے ذرا ملا مجھے
٭
تُو پہلے لوح پہ لکھا ہوا بدل چل کے

پھر اس کے بعد زمانوں کو روند چل چل کے
اکیلا دیکھ کے تالاب کے کنارے پر

تسلی دینے مجھے آ گیا کنول چل کے
مجھے دکھا نہ دہکتے ہوئے پہر کا جلال

جا اپنی شام کی عبرت سرا میں ڈھل چل کے
صدائوں سے وہ سفینہ پلٹ نہیں سکتا

اِسی جزیرہ وحشت میں ہاتھ مل چل کے
نکال دشتِ تعلق سے اپنی تنہائی

کسی حبیب کے گھر جا، ذرا سنبھل چل کے
وہ سنگ زاد پگھلتا نہیں مگر پھر بھی

اسے سنا کوئی جلتی ہوئی غزل چل کے
طلوعِ حسن کی ساعت پہ تبصرہ کیا ہو

نکل رہا ہے کوئی آسماں کے بل چل کے
مزاجِ خانہء درویش کو خراب نہ کر

چراغ! اپنے حریمِ حرم میں جل چل کے
فسادِ خلقِ خدا پہ امید صبحوں کی

بغاوتوں کی کرن ہیں تماشے ہلچل کے
رکی ہے چرخ کی چرخی کسی خرابی سے

نکال وقت کے پہیے سے اب خلل چل کے
مثالِ تیر لپکتے ہوئے تعاقب میں

ابد میں ہو گیا پیوست خود ازل چل کے
اب اس کے بعد کہانی ترے کرم کی ہے

خود آ گیا ہے یہاں تک تو بے عمل چل کے
ندی کی پیاس بجھا ریت کے سمندر سے

کسی پہاڑ کی چوٹی سے پھر ابل چل کے
سنا ہے کھڑکیاں کھلتی ہیں چاند راتوں میں

کسی کو دیکھ مرے دل، کہیں مچل چل کے
مجھے بھی آتے دنوں کا شعور حاصل ہو

پڑھوں کہیں پہ گذشتہ کا ماحصل چل کے
بس ایک فون کی گھنٹی، بس ایک ڈور کی بیل

کسی کی آگ میں پتھر بدن !پگھل چل کے
عجب ہے حسنِ تناسب کی داستاں منصور
بنا ہے ـ‘ تاج محل‘ موت کا محل چل کے
٭
چیزوں سے گرد جھاڑتے، لان کی باڑ کاٹتے

کیسے نکلتے زخم سے، کیسے پہاڑ کاٹتے
پچھلی گلی کی نیند سے آتے طبیب خواب کے

ہجر کی فصد کھولتے، درد کی ناڑ کاٹتے
چلتیں گھڑی کی سوئیاں، اپنے بدلتے روز و شب

دن کا ملال ٹوٹتا، شب کا بگاڑ کاٹتے
قیدی نظام زر کے ہیں دست بریدہ لوگ ہم

دانتوں سے کیسے لوہے کے بھاری کواڑ کاٹتے
قوسِ قزح بچھا کے ہم کنجِ صبا میں بیٹھ کر

دیدئہ صادقین سے تھور کا جھاڑ کاٹتے
یاد کے راٹ وائلر، ہوتے اگر نہ آس پاس

بھیڑے دشتِ درد کے جسم کو پھاڑ کاٹتے
حسنِ طلب کے شہر میں گنتے بدن کے لوتھڑے

تیغِ سکوتِ مرگ سے من کا کراڑ کاٹتے
بیج نئے وصال کے بوتے کہ ہم سیہ نصیب

کشتِ خرابِ عمر سے پچھلا کباڑ کاٹتے
لاتے کہیں سے ہم کوئی ابرِ حیات کھنچ کر

شاخِ خزاں تراشتے، دکھ کا اجاڑ کاٹتے
آتی تری ہوا اگر اپنی گلی کے موڑ تک

چیت کے صحنِ سبز میں عمر کا ہاڑ کاٹتے؟
اچھے دنوں کو سوچتے دونوں کہیں پہ بیٹھ کر
ہاتھوں کو تھام تھام کے لمبی دیہاڑ کاٹتے
۔۔۔ پھاڑ کاٹنا خالصتاً میانوالی کا محاورہ ہے۔۔۔
٭
وہ تعلق ہیں زمیں زاد سے دانائی کے

سلسلے عرش تلک حسنِ پذیرائی کے
میرے سینے سے بھی دھڑکن کی صدا اٹھی تھی

اس کی آنکھوں میں بھی تھے عکس شناسائی کے
حرف نے باندھ رکھا ہے کوئی پائوں سے سروش

مجھ پہ ہیں کشفِ مسلسل سخن آرائی کے
بادلوں سے بھی ٹپکتی ہیں لہو کی بوندیں

دیکھ لو چارہ گرو زخم مسیحائی کے
سیٹیاں بجتی ہیں بس کان میں سناٹوں کی

رابطے مجھ سے زیادہ نہیں تنہائی کے
روشنی اتنی چراغِ لب و رخ سے نکلی

ختم یک لخت ہوئے سلسلے بینائی کے
آخرش میں نے بھی تلوار اٹھا لی منصور
حوصلہ ختم ہوئے میری شکیبائی کے
٭
یہ گہرے سبز سے کہسار مجھ سے

ندی بھی ہے سبک رفتار مجھ سے
زمانہ ہے سحر آثار مجھ سے

ملو آ کے افق کے پار مجھ سے
اسے ہر بار ایسے دیکھتا ہوں

ملا ہے جیسے پہلی بار مجھ سے
طلب کی آخری حد آ گئی ہے

وہ آئے اور سنے انکار مجھ سے
مری تقدیر میں بربادیاں ہیں

کہے ٹوٹا ہوا اوتار مجھ سے
سمجھ کر دھوپ مجھ کو زندگی کی

گریزاں سایہء  دیوار مجھ سے
درختوں پر میں بارش کی طرح ہوں

ہوا میں خاک کی مہکار مجھ سے
مسلسل لفظ ہیں کرب و بلا میں

سرِ نوکِ سناں اظہار مجھ سے
منائیں لوگ جشن فتح مندی

فقط نسبت ہے تیری ہار مجھ سے
پڑا کوئے ملامت میں کہیں ہوں

تعلق کیا رکھے دستار مجھ سے
میں شب بھر چاند کو منصور دیکھوں
یہ چاہے دیدئہ بیدار مجھ سے
٭
خواہ یہ دل برباد رہے

اس میں تُو آباد رہے
شکر ہے دشتِ حسرت میں

پائوں مسافت زاد رہے
برسوں غم کے مکتب میں

میر مرے استاد رہے
اک لمحے کی خواہش میں

برسوں ہم ناشاد رہے
ایک دعا دکھیارے کی

غم سے تُو آزاد رہے
اشکوں سے تعمیر ہوئی

درد مری بنیاد رہے
جیسا بھی ہوں تیرا ہوں

اتنا تجھ کو یاد رہے
تیری گلی میں سانس سدا

مائل بر فریاد رہے
زخم نہ چاٹے کوئی بھی

مر جائے یا شاد رہے
میں برمنگھم قید رہا

وہ اسلام آباد رہے
میرے نواحِ جاں منصور
کتنے ستم ایجاد رہے
٭
دماغِ کائنات کے خلل سے ساتھ ساتھ ہے

اجل کو جانتا ہوں میں، ازل سے ساتھ ساتھ ہے
فلک ہے مجھ پہ مہرباں کہ ماں کی ہے دعا مجھے

زمیں مرے ہرے بھرے عمل سے ساتھ ساتھ ہے
یہ کس نے وقت کو اسیر کر لیا ہے خواب میں

یہ آج کس طرح گذشتہ کل سے ساتھ ساتھ ہے
قدم قدم پہ کھینچتی ہے مجھ کو رات کی طرف

یہ روشنی جو شاہ کے محل سے ساتھ ساتھ ہے
جو گا رہی ہے کافیاں لہو میں شاہ حسین کی

وہ مادھو لال آگ گنگا جل سے ساتھ ساتھ ہے
کہے، کہاں نظامِ زر تغیرات کا امیں؟

وہ جدلیات جو جدل جدل سے ساتھ ساتھ ہے
کچھ اس کے ہونے کا سبب بھی ہونا چاہیے کہیں

وہ جو نمودِ علت و علل سے ساتھ ساتھ ہے
جہاں پہ پہلے علم تھا کہ کیا عمل کروں گا میں

یہ حال اُس مقامِ ماحصل سے ساتھ ساتھ ہے
ابھی فلک کی زد میں ہے سری نگر کا راستہ
یہ برف پوش رُت  تراڑ کھل سے ساتھ ساتھ ہے
٭
یہ اپنا آپ مسلسل نثار کرتے ہوئے

رہا نہیں میں، تجھے اختیار کرتے ہوئے
ازل نژاد نظر اور اب کہاں جائے

ابد گزار دیا انتظار کرتے ہوئے
وہ جانتا ہے مقابل ہے آئینہ اس کے

ہزار بار وہ سوچے گا وار کرتے ہوئے
چراغ بھول گئی بام پر وہ آنکھوں کے

شبِ فراق! تجھے بے کنار کرتے ہوئے
گزر گیا مرے کوچے سے وہ مثالِ صبح

اک ایک آئینہ تمثال دار کرتے ہوئے
میں کانپ جاتا ہوں اس پر یقین اتنا تھا

کسی بھی شخص پہ اب اعتبار کرتے ہوئے
لبِ فرات پہ ہار آئی آلِ ابراہیم

فلک ولک پہ زمیں انحصار کرتے ہوئے
ہر ایک بار ترے بارے سوچتا ہوں میں

تعلقات کہیں استوار کرتے ہوئے
بیاض اپنی اسے دے دی میں نے تحفے میں

یہی کلام کیا اختصار کرتے ہوئے
یہ شہرِ دل کا لٹیرا بھی لٹ گیا منصور
شکار ہو گیا آخر شکار کرتے ہوئے
٭
کوئی دہلیزِ جاں سے اٹھتا ہے

چاند جب آسماں سے اٹھتا ہے
ہے ابھی کوئی خالی بستی میں

وہ دھواں سا مکاں سے اٹھتا ہے
چھوڑ آتا ہے نقشِ پا کا چراغ

پائوں تیرا جہاں سے اٹھتا ہے
جس بلندی کو عرش کہتے ہیں

ذکر تیراؐ وہاں سے اٹھتا ہے
اس نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہا

درد سا کچھ یہاں سے اٹھتا ہے
اک ستارہ صفت سرِ آفاق

دیکھتے ہیں کہاں سے اٹھتا ہے
ہم ہی ہوتے ہیں اس طرف منصور
پردہ جب درمیاں سے اٹھتا ہے
٭
اوس سے اخذ ہوئے، پہلی کرن سے نکلے

ہم عجب پھول ترے صحنِ چمن سے نکلے
ہم نے اس کے گل و گلزار سے کیا لینا ہے

اپنے اجداد تھے جس باغِ عدن سے نکلے
رات بھر قوسِ قزح پھیلی رہی کمرے میں

رنگ کیا کیا تری خوشبوئے بدن سے نکلے
دیکھ اے دیدئہ عبرت مرے چہرے کی طرف

ایسے وہ ہوتا ہے جو اپنے وطن سے نکلے
سائباں دھوپ کے ہی صرف نہیں وحشت میں

درد کے پیڑ بھی کچھ سایہ فگن سے نکلے
بستیاں ہیں مری، ماضی کے کھنڈر پر آباد

ذہن کیسے بھلا آسیبِ کہن سے نکلے
فوج اب ختم کرے اپنا سیاسی کردار

یہ مرا ملک خداداد گھٹن سے نکلے
یوں جہنم کو بیاں کرتے ہیں کرنے والے

جیسے پھنکار لپکتے ہوئے پھن سے نکلے
تیرے اشعار تغزل سے ہیں خالی منصور
ہم سخن فہم تری بزم سخن سے نکلے
٭
ناچنے والے وہ درویش وہ گانے والے

جانے کس شہر گئے شہر بسانے والے
بامِ تالاب پہ آباد کتابیں اور ہم

کیا ہوئے شمس وہ تبریز سے آنے والے
اب کہاں غالب و اقبال، کہاں فیض و فراز

رہ گئے ہم ہی فقط راکھ اڑانے والے
لفظ زندہ رہے شہ نامہء  فردوسی کے

طاقِ نسیاں ہوئے ایران بنانے والے
کیا ہوئے درد کسی یاد کے مہکے مہکے

رات کے پچھلے پہر آ کے جگانے والے
اپنی صورت ہی نظر آنی تھی چاروں جانب

دیکھتے کیسے ہمیں آئنہ خانے والے
غزوئہ  آتشِ نمرود ہو یا آتشِ دل

ہم ہمیشہ رہے بس آگ بجھانے والے
یہ شکاری نہیں حاسد ہیں، ہماری زد میں

دیکھ کر حسنِ چمن شور مچانے والے
عشق کیا تجھ سے کیا جرم کیا ہے ہم نے

اب تو دہلیز تلک آگئے تھانے والے
اب کہاں شہرِ خموشاں میں ہم ایسے منصور
مردہ قبروں پہ چراغوں کو جلانے والے
٭
کچھ خبر بھی ہے تجھے آنکھ چرانے والے

کس لیے روٹھ گئے ہم سے زمانے والے
ہم نے خوابوں کے دریچوں سے یونہی جھانکا تھا

تم تھے فنکار فقط گیت سنانے والے
روٹھنے  والے ہمیں اب تو اجازت دے دے

اور مل جائیں گے تجھ کو تو منانے والے
بجھ گئے درد کی پلکوں پہ سسکتے دیپک

ہو گئی دیر بہت دیر سے آنے والے
ہم تو ہاتھوں کی لکیروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں

یہ تجھے علم نہ تھا ہاتھ ملانے والے
راس آئے نہیں منصور کو پھر دار و رسن
تم جو زندہ تھے ہمیں چھوڑ کے جانے والے
٭
مجھے شوخ و شنگ لباس میں کوئی دلربا نہ ملا کرے

مرا دل تو جیسے جنازہ گہ کہیں مرگ ہو تو بسا کرے
بڑی سر پھری سی ہوا چلے کہیں شامِ دشت خیال میں

مرے راکھ راکھ سے جسم کو کوئی ریت پر نہ لکھا کرے
تری کائنات میں قید ہوں بڑے مختصر سے قفس میں ہوں

بڑی سنگ زاد گھٹن سی ہے مجھے کوئی اس سے رہا کرے
مرے ہر گناہ و ثواب کو یہ چھپا لے اپنے لباس میں

بڑی لاج پال ہے تیرگی، کوئی رات کا نہ گلہ کرے
مرا ذکر و فکر ہوا کرے تری بارگاہِ خیال میں

مرے داغِ سجدہ کو چومنے تری جا نماز بچھا کرے
اسے پوچھنا کہ وصال کا کوئی واقعہ بھی عدم میں ہے

وہ جو خامشی کے دیار میں کسی ان سنی کو سنا کرے
ترا وصل آبِ حیات ہے ترے جانتے ہیں محب مگر

ہے طلب درازیِ عمر کی کوئی موت کی نہ دعا کرے
مرے جسم و جاں سے پرے کہیں بڑی دور خانہء لمس سے

کوئی خانقاہی کبوتری کہیں گنبدوں میں رہا کرے
کوئی قم بہ اذنی کہے نہیں کوئی چارہ گر نہ نصیب ہو
مرا اور کوئی خدا نہ ہو ترے بعد جگ میں خدا کرے
٭
جام کے بادہ کے خوشبو کے کلی کے کیسے

تیرے ہوتے ہوئے ہو جاتے کسی کے کیسے
زخم مرہم کی تمنا ہی نہیں کر سکتا

ہیں یہ احسان تری چارہ گری کے کیسے
نقشِ پا تیرے نہ ہوتے تو سرِ دشتِ وفا

جاگتے بخت یہ آشفتہ سری کے کیسے
اپنے کمرے میں ہمیں قید کیا ہے تُو نے

سلسلے تیرے ہیں آزاد روی کے کیسے
اتنے ناکردہ گناہوں کی سزا باقی تھی

ہائے در کھلتے بھلا بخت وری کے کیسے
صفر میں صفر ملاتے تھے تو کچھ بنتا تھا

جمع کر لیتے تھے اعداد نفی کے کیسے
 جیپ آتی تھی تو سب گائوں نکل آتا تھا

کیا کہوں بھاگ تھے اس بھاگ بھری کے کیسے
ہجر کی رات ہمیں دیکھ رہی تھی دنیا

بند ہو جاتے درے بارہ دری کے کیسے
ڈاک کے کام میں تو کوئی رکاوٹ ہی نہیں

سلسلے ختم ہوئے نامہ بری کے کیسے
موت کی اکڑی ہوئی سرد رتوں میں جی کر

یہ کھنچے ہونٹ کھلیں ساتھ خوشی کے کیسے
کون روتا ہے شبِ ہجر کی تنہائی میں

پتے پتے پہ ہیں یہ قطرے نمی کے کیسے
موج اٹھتی ہی نہیں کوئی سرِ چشمِ وفا

یہ سمندر ہیں تری تشنہ لبی کے کیسے
موت کی شکل بنائی ہی نہیں تھی اس نے

نقش تجسیم ہوئے جان کنی کے کیسے
آ ہمیں دیکھ کہ ہم تیرے ستم پروردہ

کاٹ آئے ہیں سفر تیرہ شبی کے کیسے
بس یہی بات سمجھ میں نہیں آتی اپنی

جو کسی کا بھی نہیں ہم ہیں اسی کے کیسے
آنکھ کہ چیرتی جاتی تھی ستاروں کے جگر

موسم آئے ہوئے ہیں دیدہ وری کے کیسے
کجکلاہوں سے لڑائی ہے ازل سے اپنی

دوست ہو سکتے ہیں ہم لوگ کجی کے کیسے
ہم چٹانوں کے جگر کاٹنے والے منصور
سیکھ بیٹھے ہیں ہنر شیشہ گری کے کیسے
٭
سحر سورج سے، شب تاروں سے خالی ہے

مری تمثیل کرداروں سے خالی ہے
نکالیں کوئی کیا ابلاغ کی صورت

خلا مصنوعی سیاروں سے خالی ہے
چھتوں پر آب و دانہ ڈال جلدی سے

فضا بمبار طیاروں سے خالی ہے
مزاجِ حرص کو دونوں جہاں کم ہیں

سرشتِ خوف انکاروں سے خالی ہے
اس آوارہ مزاجی کے سبب شاید

فضلیت اپنی، دستاروں سے خالی ہے
کہیں گر ہی نہ جائے نیلی چھت منصور
کہ سارا شہر دیواروں سے خالی ہے
٭
امید ِ وصل ہے جس سے وہ یار کیسا ہے

وہ دیکھنا ہے جسے بار بار کیسا ہے
اٹھانیں کیسی ہیں اسکی ، خطوط کیسے ہیں

بدن کا قریۂ نقش و نگار کیسا ہے
ادائیں کیسی ہیں کھانے کی میز پر اس کی

لباس کیسا ہے اْس کا، سنگھار کیسا ہے
وہ کیسے بال جھٹکتی ہے اپنے چہرے سے

لبوں سے پھوٹتے دن کا نکھار کیسا ہے
وہ شاخیں کیسی ہے دامن کے پھول کیسے ہیں

مقام ِوصل کا قرب و جوار کیسا ہے
وہ پائوں گھومتے کیسے ہیں اپنی گلیوں میں

طلسمِ شوق کا پھیلا دیار کیسا ہے
سیاہی گرتی ہے دنیا پہ یا سنہرا پن

وہ زلفیں کیسی ہیں وہ آبشار کیسا ہے
طواف کرتا ہے جس کا یہ کعبہ ِاعظم

وہ پاک باز ، تہجد گزار کیسا ہے
یہ کس خیال کی مستی ہے میری آنکھوں میں

شراب پی ہی نہیں ہے…خمار کیسا ہے
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق

کسی کا پھر یہ مجھے انتظار کیسا ہے
یہ اجنبی سی محبت کہاں سے آئی ہے

یونہی جو روح سے نکلا ہے ، پیار کیسا ہے
بس ایک سایہ تعاقب میں دیکھتا ہوں میں

کسی کے ہونے کا یہ اعتبار کیسا ہے
وہ پھول جس کی مہک سے مہک رہا ہوں میں

کھلا ہوا کہیں ، دریا کے پار ،کیسا ہے
وہ جس کی نرم تپش سے دھک رہا ہے دل

وہ آسمان کے پیچھے شرار کیسا ہے
یہ آپ دھول اڑاتی ہے کس لئے منزل

یہ راستے پہ مسلسل غبار کیسا ہے
نواحِ جاں میں فقط چاند کی کرن منصور
بدن میں آگ ہے کیسی ، بخار کیسا ہے
٭
وہ پور پورہے کیسی، علاج کیسا ہے

بخار بستہ بدن کا مساج کیسا ہے
مثالِ دانہ ء گندم غذائیں کیسی ہیں

کسی بہشت کا تازہ اناج کیسا ہے
کیا اب بھی ذہن کشادہ ہے آنکھیں روشن ہیں

گزر ہے کیسی بتا ، کام کاج کیسا ہے
عجب جلوس نکالے ہیں دھڑکنیں مجھ میں

یہ تیز ہوتا ہوا احتجاج کیسا ہے
ہمیشگی کیلئے موت کیوں ضروری ہے

اے آسمان یہ تیرا رواج کیسا ہے
مٹھاس بھی ہے نشہ بھی ہے اس کے پہلو میں

شراب و شہد کا وہ امتزاج کیسا ہے
دھمال ڈالنی ماتم کی تال پر ہے مجھے

یہ رسم کیسی ہے غم کی ، رواج کیسا ہے
گلے میں کھوپڑیوں کی قدیم مالا سی

ہر ایک شخص ہے کاہن ، سماج کیسا ہے
نظر سنا نہیں سکتی لہو کی آوازیں

بدن سے پوچھ بدن کا مزاج کیسا ہے
یہ پوچھتی ہے مسافت بھری ہوئی گاڑی

مرے فلیٹ کا خالی گیراج کیسا ہے
گذشتہ شب کی اداسی نکال دے گھر سے

بس اتنا ذہن میں رکھ تیرا آج کیسا ہے
میں رو پڑا ہوں اسے سوچ کر کہاں منصور
یہ بزم ِغیر میں غم کا خراج کیسا ہے
٭
ہر شام شعاعیں بجھتی ہیں ہر صبح سیاہی ڈھلتی ہے

پر طاقِ شب تنہائی میں اک شمع مسلسل جلتی ہے
کچھ رنگ اِدھر سے آتے ہیں کچھ رنگ اُدھر سے جاتے ہیں

تاریکی دباتی ہے پائوں جب روشنی پنکھا جھلتی ہے
تجدید محبت کی کوشش بے سود ہے مجھکو بھول بھی جا

کب راکھ سے شعلے اٹھتے ہیں کب ریت میں کشتی چلتی ہے
یہ کس نے حسیں دوشیزہ کے خوابوں کا تسلسل توڑ دیا

اب چونک کے نیند سے اٹھی ہے گھبرا کے وہ آنکھیں ملتی ہے
ہم لوگ ستم کے شہروں میں مصروف عمل ہیں زیرِ زمیں

آغوشِ شبِ نادیدہ میں تحریک سحر کی پلتی ہے
کیوں اس کا لکھا ہے نام بتا۔۔اس شہر کی سب دیواروں پر
ناراض یونہی وہ شخص نہیں منصوریہ تیری غلطی ہے
٭
کشف کے قہر میں ہم برہنہ ہوئے

موج میں لہر میںہم برہنہ ہوئے
رنگ گرتے رہے رقصِ مجذوب پر

نور کی نہر میں ہم برہنہ ہوئے
دیکھنے والا کوئی دکھائی نہ دے

اس لئے شہر میںہم برہنہ ہوئے
واعظِ سگ بیاں سے نکلتی ہوئی

جھاگ کے زہر میں ہم برہنہ ہوئے
اک ابھی خاک سے شخص ڈھانپا گیا

اور پھر دہر میںہم برہنہ ہوئے
اسم اللہ کا بس تصور کیا

پھر اُسی سحر میں ہم برہنہ ہوئے
ایک چہرہ اچانک گریزاں ہوا

غم کی دوپہر میںہم برہنہ ہوئے
اور کیا کہتے منصور طوفان سے
شورشِ بحر میں ہم برہنہ ہوئے
٭
آگ میںبرگ وسمن کی جھڑی لگ سکتی ہے

شاخ پر اب بھی کوئی پنکھڑی لگ سکتی ہے
یہ بھی ہوسکتا ہے آنے کی خوشی میں اسکے

بام پہ قمقموں کی اک لڑی لگ سکتی ہے
اس کے وعدہ پہ مجھے پورا یقیں ہے لیکن

لوٹ آنے میں گھڑی دو گھڑی لگ سکتی ہے
رک بھی سکتی ہے یہ چلتی ہوئی اپنی گاڑی

میخ ٹائر میں کہیں بھی پڑی لگ سکتی ہے
جب کوئی ساتھ نہ دینے کا ارداہ کر لے

ایک نالی بھی ندی سے بڑی لگ سکتی ہے
دامِ ہمرنگ زمیںغیر بچھا سکتے ہیں

کوچۂ یار میں دھوکا دھڑی لگ سکتی ہے
اِس محبت کے نتائج سے ڈر آتا ہے مجھے

اِس شگوفے پہ کوئی پھلجھڑی لگ سکتی ہے
میں میانوالی سے آسکتاہوں ہر روز یہاں

خوبصورت یہ مجھے روکھڑی لگ سکتی ہے
جرم یک طرفہ محبت ہے ازل سے منصور
اِس تعلق پہ تجھے ہتھکڑی لگ سکتی ہے
٭
رات کی جھیل سے علت کوئی لگ سکتی ہے

تجھ کو آوارہ نظرچاند کی لگ سکتی ہے
میں کوئی میز پہ رکھی ہوئی تصویر نہیں

دیکھئے بات مجھے بھی بری لگ سکتی ہے
ایک ہی رات پہ منسوخ نہیں ہو سکتا

یہ تعلق ہے یہاں عمر بھی لگ سکتی ہے
انگلیاں پھیر کے بالوں میں دکھائیں جس نے

اس سے لگتا ہے مری دوستی لگ سکتی ہے
آپ کی سانس میں آباد ہوں سانسیںمیری

یہ دعا صرف مجھے آپ کی لگ سکتی ہے
یہ خبرمیرے مسیحا نے سنائی ہے مجھے

شہرِ جاناں میں تری نوکری لگ سکتی ہے
یہ کوئی گزری ہوئی رت کی دراڑیں سی ہیں

اس جگہ پر کوئی تصویر سی لگ سکتی ہے
پارک میں چشمِ بلاخیز بہت پھرتی ہیں

تجھ کو گولی کوئی بھٹکی ہوئی لگ سکتی ہے
ہے یہی کار محبت۔۔۔۔ سو لگا دے منصور
دائو پہ تیری اگر زندگی لگ سکتی ہے
٭
کسی کے صرف چھولینے سے ا یسے آگ لگ جائے

کسی پٹرول اسٹیشن کو جیسے آگ لگ جائے
کسی بیلے میں اشکوں کے دئیے تک بھی نہ روشن ہوں

کہیں پر بانسری کی صرف لے سے آگ لگ جائے
ہوائوں کے بدن میں سرخ موسم کے سلگنے سے

گلابو ں کے لبوںکی تازہ مے سے آگ لگ جائے
کبھی جلتے ہوئے چولہے میں جم جائے بدن کی برف

کبھی بہتے ہوئے پانی میں ویسے آگ لگ جائے
کسی کے بھیگنے سے کس طرح جلتی ہیں برساتیں
کسی کے چلنے سے رستے میں کیسے آگ لگ جائے
٭
کاسہ ء اجر کو امکان سے بھر دیتا ہے

کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے
خیر امکانِ تباہی سے تو انکار نہیں

عشق کی موج ہے آباد بھی کر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ یہ دکھ قابلِ برداشت نہیں

وہ جو تکلیف میں پتھر کا جگر دیتا ہے
وہ جو کل ہاتھ پہ سر رکھ کے ادھر آیا تھا

وہ برا شخص سہی ساتھ مگر دیتا ہے
میں نے تقسیم کی منزل پہ اسے وصل کہا

ایک لمحہ جو مجھے میری خبر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ مجھے روشنی ای میل کرے

اپنے جلووں سے جو مہتاب کو بھر دیتا ہے
عمر سوجاتی ہے ساحل کی طلب میں منصور
کیا وہ قطرے میں سمندر کا سفر دیتا ہے
٭
مانا مرے سورج کو نظر بند کیا ہے

کیا تم نے اجالوں کا سفر بند کیا ہے
جسموں کیلئے تم نے اٹھائی ہیں فصیلیں

بتلائو کہ احساس کا در بند کیا ہے
ہر روز نکلتا ہے بڑی شان سے سورج

راتوں نے کہاں بابِ سحر بند کیا ہے
کمبخت چہکتے ہوئے رازوں کی امیں تھی

اس واسطے بوتل کو بھی سر بند کیا ہے
اب لوٹ کے جاتا نہیں یادوں کی گلی میں

گم گشتہ زمانوں میں گزر بند کیا ہے
اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا

اس عہد نے جذبوں کا سفر بند کیا ہے
کچھ دن تو درِ دل بھی مقفل کرو منصور
دروازہ روابط کا اگر بند کیا ہے
٭
ہمسایہ ہے ہمارا ، یہیں پر مقیم ہے

یعنی خدا ، مقامِ نہیں پر مقیم ہے
ہم کیا کہ گنج بخش وہ ہجویرکا فقیر

لاہور ! تیری خاکِ بریں پر مقیم ہے
جائے نمازِ سنگ سے جس کی طلب ہمیں

وہ داغِ سجدہ اپنی جبیں پر مقیم ہے
کمپاس رکھ نہ عرشے پہ لا کر زمین کے

وہ عرشِ دل کے فرشِ حسیں پر مقیم ہے
تم آسماں نورد ہو جس کی تلاش میں
منصور مان لو وہ زمیں پر مقیم ہے
٭
زخمِ گریہ رفو نہیں کرتے

دید کو بے وضو نہیں کرتے
کام کرتے ہیں جتنا ہوتا ہے

بے سبب گفتگو نہیں کرتے
ہم روایت شکن عقیدوں کے

طوق زیبِ گلو نہیں کرتے
جنگ کرتے ہیں موت سے لیکن

خودکشی جنگجو نہیں کرتے
اس قدر شہر میں ہے سناٹا

خوف بھی گفتگو نہیں کرتے
اپنے ہوتے ہوئے کبھی منصور
اور کی آرزو نہیں کرتے
٭
لوٹ آئی ہوئی اک گزری گھڑی حیرت سے

دیکھتی تھی مجھے ٹیرس پہ کھڑی حیرت سے
کوئی آیا کسی کمرے میں کرامت کی طرح

اور تصویر کوئی بول پڑی حیرت سے
اک بگولے کی طرح اڑتے ہوئے دیکھتی تھی

درد کی دھول کو ساون کی جھڑی حیرت سے
تک رہی تھی کسی بنتے ہوئے ہیکل کے کلس

ایک دیمک زدہ لکڑی کی چھڑی حیرت سے
عشق اسرارِ لب و رخ سے کیا ہجر کی رات

رات بھر اپنی تو بس آنکھ لڑی حیرت سے
جلد میں اتنی بھی ہوتی ہے سفیدی منصور
چھو کے دیکھا تھا اسے میں نے بڑی حیرت سے
٭
پھر دسترس سے دور ثریا دکھائی دے

چوکور اپنی کار کا پہیہ دکھائی دے
ہیٹر تو بالکونی کا بھی آن ہے مگر

کیوں اتنا سرد گھر کا رویہ دکھائی دے
سرکار نے فقیرکی خیرات لوٹ لی

گرتی کرنسیوں میںروپیہ دکھائی دے
کتنے دنوں سے خواب میں ملاح کے بغیر

دریا میں تیرتی ہوئی نیا دکھائی ے
منبر پہ بوجہل کی ہے اولاد جلوہ گر

منصب پہ خاندانِ امیہ دکھائی دے
دل نے ترے وصال کی ٹھائی ہوئی ہے دوست

جی میں ترے ملن کاتہیہ دکھائی دے
منصور ایک موت کاکوئی نہیں علاج
ہر چیز اس زمیں پہ مہیا دکھائی دے
٭
تیرہ غاروں میں کھڑی ہوتی نمازوں والے

آنشیبوں میں اتر آ اے فرازوں والے
میں تجھے اپنے رگ و پے سے نکل کر دیکھوں

تُو کہا ں ہے ، اے سلگتے ہوئے رازوں والے
کس لئے رکھا ہے مٹی میں تجسس کافسوں

میں تجھے ڈھونڈوں کہاں ،لاکھ جوازوں والے
اے مسافر یہ نگر سنگ نژادوں کا ہے

دل نہیں ہوتے یہاں سوزوں گدازوں والے
ایک آواز بغاوت کی سنائی تو دے

زندہ ہوجائیں گے سب مردہ محاذوں والےٍ
ایسے ممکن کہاں اُس اصل حقیقت سے وصال
سلسلے چھوڑ دے منصورمجازوں والے
٭
شب گزار آئے گلیوں میں روتے ہوئے

صبح چپ ہے پرندوں کے ہوتے ہوئے
ہم نے دریا کا پانی بھی کالا کیا

دکھ کے کپڑے کناروں پہ دھوتے ہوئے
چاپ مانوس سی،صحنِ دل میں اٹھی

غم نکل آئے کمروں میں سوتے ہوئے
ہم نے ہر ایک کانٹے کا دکھ سن لیا

پائوں کے آبلوں میں چبھوتے ہوئے
ہم نے دیکھا تھا کتنی جگہ ہے ابھی

تیراغم اپنے دل میں سموتے ہوئے
اب یہ دنیا بچوں کے حوالے کریں

بیج سچ کے دماغوں میں بوتے ہوئے
رفتہ رفتہ کیا راکھ بینائی کو

اپنی پلکوں میں سورج پروتے ہوئے
اپنی شادی شدہ زندگی کی قسم

جیسے کولہو میں دو بیل جوتے ہوئے
خالی فائر گیا اُس نظر کا مگر

جو اڑے میرے ہاتھوں کے طوتے ہوئے
ہم نے منصور مانگا ہے اذنِ کلام
آسماں کو دعا سے بھگوتے ہوئے
٭
پانیوں کو منجمد ہوناتھا آخر ہوگئے

رُت بدلنے پر پرندے پھر مسافر ہوگئے
ہر طرف گہری سفیدی بچھ گئی ہے آنکھ میں

ایک جیسے شہر کے سارے مناظر ہوگئے
پھیر دی چونے کی کوچی زندگی کے ہاتھ نے

جو مکاں ہوتے تھے لوگوں کے مقابر ہوگئے
کھڑکیاںجیسے مزاروں پر دئیے جلتے ہوئے

چمنیاں جیسے کئی آسیب ظاہر ہوگئے
بین کرتی عورتوں کی گائیکی لپٹی ہمیں

روح کے ماتم کدے کے ہم مجاور ہوگئے
برف کی رُت سے ہماری سائیکی لپٹی رہی

اک کفن کے تھان میںسپنے بھی شاعر ہوگئے
بے پنہ افسردگی کی ایک ٹھنڈی رات میں
کم ہوئیں منصور آنکھیں خواب وافر ہوگئے
٭
لوگ کچھ سویروں سے

مل گئے اندھیروں سے
چمنیاں چمکتی ہیں

راکھ کے پھریروں سے
دوستی کی خواہشمند

مچھلیاں مچھیروں سے
دھوپ مانگتے کیا ہو

برف کے بسیروں سے
خالی ہوتی جاتی ہیں

بستیاں سپیروں سے
آئے شہر میں بارود

دین دارڈیروں سے
خوف کھائیں کیا منصور
ہم پرند شیروں سے
٭
اے با انوار خویش سر مستے

آدمی ہو گئے ہیں کیوں سستے
سنگ پڑتے نہ خوش دماغوں پر

کاش تیری گلی میں جا بستے
تیرے ہی گلستاںسے لائے ہیں

دہر کے گل فروش، گلدستے
تیرے ہی در پہ ختم ہوتے ہیں

آزمائے ہیں ہم نے سب رستے
تیرے رحم و کرم پہ زندہ ہیں

جاں شکستے دل و جگر خستے
تیری رحمت بھری نظر ہوتی

ہم غریبوںپہ لوگ کیوں ہنستے
دشت کی ریت یاد آتی ہے

ہم بھی اپنی کبھی کمر کستے
تیرے عشاق کی تلاش میں ہیں

پھر مسلمان فوج کے دستے
میں نے منصور دار دیکھی ہے
عشق پراں بود بیک جستے
٭
زمیں و آسماں کے رازتم جانو یا و ہ جانے

یہ اسرارِ نیاز و نازتم جانو یا وہ جانے
ہمارا کام ہے آقا فقط جلوئوں میں کھو جانا

 چھیڑا کیوں زندگی کا سازتم جانو یاجانے
تکلم اب خموشی کا گریباں گیر کب ہو گا

جہاں ہے گوش بر آواز تم جانو یا وہ جانے
بدن کو بعد لیکن ہر نفس معراج کا حامل

فراق و وصل کے انداز تم جانو یا وہ جانے
ضمیر ِکن فکاں سے ایسے عقدے حل نہیں ہوتے

خود اپنی قوتِ پرواز تم جانو یا وہ جانے
وصالِ نور کاقصہ ہم اہل طور کیا جانیں
حدِ قوسین کا اعجاز تم جانو یا وہ جانے
٭
میرے دل میں بڑی اداسی ہے

یہی میری خدا شناسی ہے
جانتا ہوں میں ایک ایسا مکاں

لامکاں بھی جہاں کا باسی ہے
میں ہی اِس عہد کا تعارف ہوں

جسم شاداب ، روح پیاسی ہے
زندگی نام کی ہے اک لڑکی

واجبی سی ہے بے وفا سی ہے
جس سے دریارواں دواں منصور
مرے ساغر میں بھی ذرا سی ہے
٭
وہ تیری چشمِ ناز ہے قبلہ کہیں جسے

صبحوں کی کالی کملی کا جلوہ کہیں جسے
تیری عظیم ذات سے منسوب اگر نہ ہو

پتھر کا اک مکان ہے کعبہ کہیں جسے
اک تیرا نام ہے کہ مدینہ صبا کا ہے

شہرِ بہارِ دل کا دریچہ کہیں جسے
گونجے نمازِ عصر کی آسودہ دھوپ میں

قوسِ قزح کے رنگوں کا نغمہ کہیں جسے
منصور دیکھتا ہوںمیںتیرے جمال میں
صبحِ ازل نژاد کا چہرہ کہیں جسے
٭
کوئی کہیں نہیں ترے جیسا کہیں جسے

بعد از خدا تُو وہ کہ اکیلا کہیں جسے
یہ دل ہے انتظار کا جلتا ہواا دیا

یہ چشم وہ مزارِ تمنا کہیں جسے
ہے مظہرِ جمال خدا پرتوِ صفات

وہ آئینہ کہ تیرا سراپا کہیں جسے
شیخِ حرم کو آج تک آیا نہیں خیال

طیبہ کی اک گلی ہے وہ عقبیٰ کہیں جسے
عرقاب روح و جسم اُس اسم ِ خرام میں
منصورصبحِ عرش کا دریا کہیں جسے
٭
مشکل کشا کہیں جسے، چارہ کہیں جسے

تُو ہے سمندروں کا کنارہ کہیں جسے
تُو صرف ایک آخری امید کی کرن

ہر گمشدہ سحر کا ستارہ کہیں جسے
حاصل ہے تیرا نام ہی حرف و کلام کا

مِل مِل کے اپنے ہونٹ دوبارہ کہیں جسے
ہم سے زیادہ اورمکرم کوئی نہیں

ہے دو جہاں کا والی ،ہمارا کہیں جسے
ایسا تو اور کوئی نہیں کائنات میں
منصور بے کسوں کا سہاراکہیں جسے
٭
آنکھیں نہیں شرارِ تمناخراب ہے

تم سادہ لوح شخص ہو ، دنیا خراب ہے
پانی کھڑاہے دل میںگڑھے ہیں جگہ جگہ

میں آرہاہوں ، ٹھہرو، یہ رستہ خراب ہے
مسجد کے بیچ اس کی کہانی کچھ اور ہے

حجرے کے بیچ صاحبِ حجرہ خراب ہے
سیلاب آئے گا میری چشم پُرآب میں

کتنے دنوں سے نیت ِ دریا خراب ہے
بازو کو مت پکڑ ، مرے پہلو ست دوررہ

اے لمسِ یار !میرا ارادہ خراب ہے
برسوں ہوئے ہیں یاد سے باہر نہیں گیا

جاتا کہاں کہ سارازمانہ خراب ہے
منصور کچھ بچا نہیں اب جس کے واسطے
دروازے پر کھڑا وہی خانہ خراب ہے
٭
چیخ کے دائرے میں تگ و تاز موجود ہے

کوہ کی بازگشتوں میں اک راز موجود ہے
ویری سوری کہ تیری سماعت کا ہے مسئلہ

میری خاموشی میںمیری آواز موجود ہے
وقت کرتالب و لہجے کی صرف کاپی نہیں

اس کے چلنے میں بھی میرا انداز موجود ہے
خواہشِ زلف دستِ بریدہ سے جاتی نہیں

ٹوٹے پیروں میں بھی شوقِ پرواز موجود ہے
خاتمہ کی کہانی فسانہ ہے امکان کا

ہر نہایت پہ اک اور آغاز موجود ہے
خاکِ منصور!تجھ پہ کوئی حرف کیا آئیگا
تیرے پہلو میں یہ تیرا جاں باز موجود ہے
٭
برما بہارِ جاں کو بدن کے بریم سے

ہم آشنا نہیں ہیں ابھی تک پریم سے
کچھ دیر ہی رکھی ترے نعلین پر نگاہ

باہر نکل نکل پڑیں صدیاں فریم سے
پھر چل پڑے ٹھٹھرتی ہوئی روشنی کے ساتھ

کچھ پہلے گفتگو کی دریائے ٹیم سے
آباد صادقین کی رنگوں بھری زمیں

فرہنگِ تھور سے کہیں آہنگ ِسیم سے
بٹوارہ ہو رہا تھا ہوائوں کا پارک میں

یہ اور بات پھول ہی باہر تھے گیم سے
ٹوٹے ہوئے مکان میں کھلتا ہوا گلاب

اک جھوپڑی کی جیسے ملاقات میم سے
اِک خامشی نگار کو روکے کہاں تلک

یہ شور،جائیدادِ سخن کے کلیم سے
منصورہم فقیرہیں،کرتے نہیں کلام
عورت سے،مال و زر سے،حکومت سے فیم سے
٭
کنارِ چشمۂ حمد و ثنا پہ چلتے ہوئے

ملا تھا خود سے میں بادِ صبا پہ چلتے ہوئے
عدالت ِ لب و رخ کا ملا طلب نامہ

کہ لڑکھڑا گیا نقشِ وفا پہ چلتے ہوئے
کوئی ستارہ بھی تیری خبر نہیں دیتا

میں تھک گیا ہوں فصیلِ سما پہ چلتے ہوئے
تمام راستے مسدود تھے رسائی کے

کوئی پہنچ گیا دستِ دعا پہ چلتے ہوئے
مری نگاہ میں قطبین ہی سہی لیکن

گرائی برف خطِ استوا پہ چلتے ہوئے
گرا ہوا بھی چمکتا تھا جھیل میں منصور
میں ماہتاب تھا راہ فنا پہ چلتے ہوئے
٭
دکھا رہا ہے بدن پھر نیا نکور مجھے

جگا رہا ہے سحر کا سفید شور مجھے
مقابلہ کا کہے موسموں کی وحشت سے

نکل کے دھوپ کی پیٹنگ سے تازہ تھور مجھے
میں رات رات نہاتا تھا جس کی کرنوں سے

وہ بھولتا ہی نہیں ہے سیہ بلور مجھے
مثالِ مصرع ِ غالب مرے بدن پہ اتر

لبِ سروش صفت اور کر نہ بور مجھے
یا مری ذات کا کوئی وجودہے ہی نہیں

یا زندگی میں ملے لوگ چشم کور مجھے
عجب ہیں میری محبت مزاجیاں منصور
سمجھ رہا ہے کوئی چاند پھر چکور مجھے
٭
نماز لمحوں میں آئے مجھ کو خیال عالی جناب والے

تو ورد کرنے لگے لہو میںنزول زندہ کتاب والے
خدا بھی محشر میں منتظر ہے اسی کی پلکوں کی جنبشوں کا

وہ جس کی رحمت کو دیکھتے ہیں تمام عیب و صواب والے
لبوں پہ مہکیں دلوں میں چہکیںجو قرآئتوںکی ہرے پرندے

دھنک دھنک رنگ سرسرائیںنظرنظر میں گلاب والے
جنابِ غالب یہ کہہ گئے ہیںبہت مسائل سہی جہاں کے

بہت ہیں کوثر کی نہر والے بہت ہیں حوضِ شراب والے
مرے مکاں میں کھلے ہوئے ہیں مری دعامیں ملے ہوئے ہیں

وہ نیکیوں والے سبز پتے وہ پھول باغِ ثواب والے
مری نظر کو سویردے بس حسیں تبسم بکھیرے دے بس
نئے زمانوں کے خواب والے نئی بہاروں کے باب والے
٭
زمیں پر رحمتہ العالمیں تشریف لے آئے

مبارک ہو دو عالم کے امیں تشریف لے آئے
منائے عیدِ میلاد النبی ہرشے کہ دنیا میں

امامِ اولیں و آخریں تشریف لے آئے
مبارک باد وہ آئے جو حسنِ غیر فانی ہیں

وہی سب سے حسین و دلنشیں تشریف لے آئے
کروڑوں سال پہلے جو چمکتے تھے ستارے میں

وہی نورِ مجسم اے زمیں تشریف لے آئے
درود پاک جس پر بھیجتا ہے خود خدائے پاک

وہی محبوبِ رب المسلمیں تشریف لے آئے
نویدیں جن کی دیتے آئے سارے انبیا ء منصور
وہ آخر کار ختم المرسلیں تشریف لے آئے
٭
باغِ جہاں میں لالہ و گل کی جھڑی لگے

لیکن نہ میرے ہاتھ کوئی پنکھڑی لگے
ہوتی مکین سے ہے مکانوں کی اہمیت

اُس کا نیا محل بھی مجھے جھوپڑی لگے
جو خواب میں دکھائی دے پچھلے سمے مجھے

اس کے بریدہ دھڑ پہ کوئی کھوپڑی لگے
عیار ہی نہیں ہے وہ دلدار نازنیں

کچھ شکل سے بھی رنگ بھری لومڑی لگے
میری گلی میں ہوکوئی تازہ کہکشاں

دوچار قمقموں کی اِ دھر بھی لڑی لگے
ہوتے ہیں بس غریب گرفتار آئے دن
منصور اہلِ زر کو کبھی ہتھکڑی لگے
٭
گوش بر آواز، کم آمیز کے پیچھے رہے

عمر بھر ہم خوابِ شب انگیز کے پیچھے رہے
ہاتھ چھونے کا کہاںموقع فراہم ہوسکا

اک طرف وہ اک طرف ہم میز کے پیچھے رہے
اونٹنی چلتی رہی تاروں سے رستہ پوچھ کر

رات بھر ہم صبح دل آویز کے پیچھے رہے
وہ سمندر سے لپٹ جاتی رہی ہر ایک بار

بس یونہی ہم موجِ تند و تیز کے پیچھے رہے
روح کی شب زندہ داری کی بہشتیں چھوڑ کر

جسم کی ہم وحشتِ شب خیز کے پیچھے رہے
چشمۂ دل سے نکل کر آنسوئوں کے ساتھ ہم

آنکھ کو آتی ہوئی کاریز کے پیچھے رہے
دوصدی پہلے مجھے کھینچا گیا تھا باندھ کر

پھر ہمیشہ یہ قدم انگریز کے پیچھے رہے
مسئلہ کشمیرکا منصور یہ ہے ، سب قزاق
زعفراں کی وادی ء زرخیر کے پیچھے رہے
٭
لوگ موسیٰ جیسے دست ِبیض کے پیچھے رہے

ہم وفا کے برگزیدہ فیض کے پیچھے رہے
زندگی کے اونٹ صحرائے بدن آباد میں

موت کے وحشی غضب کے غیظ کے پیچھے رہے
انگلیاں لیکن برابر ہو سکیں نہ ہاتھ کی

ہم تفاوت کی گلی میںایض کے پیچھے رہے
جس کی آنکھیں برکتوں کی گہری نیلی جھیلیں ہیں

زندگی بھربس اُسی بے فیض کے پیچھے رہے
عمر بھر منصور دنیا دار ،کتوں کی طرح
مال کے ناپاک مردہ حیض کے پیچھے رہے
٭
سلوک خود سے کیا دھر کی طرح میںنے

اسے بھی چھوڑ دیا شہر کی طرح میں نے
گزار دی ہے طلب کی سلگتی گلیوں میں

تمام زندگی دوپہر کی طرح میں نے
اُس ایک لفظ سے نیلاہٹیں ابھرآئی

اتار دل میں لیازہر کی طرح میں نے
بسر کیا ہے جدائی کی تلخ راتوں میں

اسے بھی مرگ نما قہر کی طرح میں نے
وہ بند توڑنے والا تھا ، چشمۂ احساس

بہا دیا ہے کسی نہر کی طرح میں نے
وہ چل رہی تھی سمندرکی ریت پر منصور
جسے سمیٹ لیا لہر کی طرح میں نے
٭
جا نہیں سکتے کہیں ظلمات کے مارے ہوئے

 رہ رہے ہیں رات میںہم رات کے مارے ہوئے
رات کے پچھلی گلی میں ایک میں اور ایک چاند

جاگتے پھرے ہیں دو حالات کے مارے ہوئے
دیدۂ شب میں پہن کر بارشوں کے پیرہن

پھر رہے ہیں موسمِ برسات کے مارے ہوئے
لوگ تھے اور فیض جاری تھی کسی درگاہ پر

 لوٹ آئے ہم شعورِ ذات کے مارے ہوئے
ہم بھارت اور پاکستان کے منصور لوگ
دونوںکشمیری علاقہ جات کے مارے ہوئے
٭
کہا جو ہوتا تو جاں سے گزر گئے ہوتے

کہ مرنا تو ہے محبت میں مرگئے ہوتے
کسی شراب کدے نکل کے پچھلی رات

 یہ چاہئے تھا ہمیںاپنے گھر گئے ہوتے
اکیلگی نے ہمیں اپنی جوڑ رکھا ہے

سمیٹ لیتا کوئی تو بکھر گئے ہوتے
تُو ایک بار برس پڑتا میری روہی پر

تو سارے پیاس کے تالاب بھر گئے ہوتے
ہمیں زمین نے رکھا گرفت میں منصور
جو پائوں اٹھتے تو افلاک پر گئے ہوتے
٭
کسی گل پوش بنگلے میں کھلے ہیں در محبت کے

دکھائی دے رہے ہیں پھر نئے منظر محبت کے
انگیٹھی پر سجا رکھا ہے جن کو اُس گلی کے ہیں

کئے ہیں جمع برسوں میں یہی پتھر محبت کے
سدا رختِ سفر کی ہے گراں باری پہاڑوں پر

گلے میں طوق غم کے پائوں میں چکر محبت کے
ابھی کچھ دیر دیکھوں گا ابھی کچھ دیر سوچوں گا

مسائل ہیں کئی مجھ کو ، کئی ہیں ڈر محبت کے
مجھے منصور پہلا تجربہ ہے تبصرہ کیا ہو
کئی حیرت بھرے موسم ملے اندر محبت کے
٭
پاس ہیں چار پل محبت کے

زندگی ساتھ چل محبت کے
نت نئے دائرے بناتے ہیں

پانیوں میں کنول محبت کے
کیسے کیسے گلاب کھلتے ہیں

کیا ہیں سندرعمل محبت کے
شاہزادی نکلنے والی ہے

سج چکے ہیں محل محبت کے
جب بھی نروان کے سفر پہ نکل

داغ لے کے نکل محبت کے
یہی خونِ جگرکا حاصل ہے

ہے لبوں پر غزل محبت کے
اب کہانی کو موڑ دے منصور
زاویے کچھ بدل محبت کے
٭
وہ کسی کا ہدف نہیں ہوتے

جو غلامِ نجف نہیں ہوتے
خاک کچھ اور لوگ ہوتے ہیں

میرے جیسے تلف نہیں ہوتے
بس یونہی اعتبار ہوتا ہے

دوستی میں حلف نہیں ہوتے
ان فقیروں کا احترام کرو

جو کسی کی طرف نہیں ہوتے
یہ قطاریں ہیں کیسی مژگاں پر

تارے تو صف بہ صف نہیں ہوتے
اک سمندر ہے قطرۂ جاں میں

ہم صدف در صدف نہیں ہوتے
بات آخر پہنچتی ہے منصور
ایسے جملے حزف نہیں ہوتے
٭
داتا ترے کمال کے ہم معترف ہوئے

اس شہر یک مثال میں کچھ مختلف ہوئے
آنکھوں کا چار سو ہے تماشا لگا ہوا

کیا مجھ میں آئینے کے سخن متصف ہوئے
تسخیرِکائنات کی تکمیل کیلئے

ہم لوگ اپنی ذہن میں خود معتکف ہوئے
آخر بس ایک ذات کو تسلیم کرلیا

پہلے ہر ایک شے مگر منحرف ہوئے
منصور لاشعور کی سر بند بوتلیں
پھر کھل گئیں کہ خود پہ ہمی منکشف ہوئے
٭
فقیر اپنا ستارہ خدا کی رحمت سے

نکال لایا ہے حرص و ہواکی صحبت سے
ثبات ِذات کا اثبات کرلیا لیکن

گریزپا ہوں نفی سے فنا کی چاہت سے
مری گلی سے سویرے گزارنے والو

میں زخم زخم ہوں بادِ صبا کی نکہت سے
دکھائی دیتا ہے طوفان کوئی آیا ہوا

کواڑ ٹوٹ نہ جائیں ہوا کی وحشت سے
خدا نہیں ہے کہ اس کا شریک کوئی نہ ہو

اسے بھی چاہوں تمہیں بھی بلا کی شدت سے
کچھ اور ہوتے روشن ستم کی راہوں میں

دئیے،مصیبتِ بے انتہا کی ظلمت سے
بڑے وقار سے ٹکرا رہے ہیں پھرمنصور
ضمیر وقت کے، فرماروا کی قوت سے
٭
بستی سے تری ،کمزور چلے

اور پائوں کئی چوکور چلے
صحرا میں کہیں بھی ابر نہیں

دریا پہ گھٹا گھنگھور چلے
پھر میرے میانوالی نے کہا

تم لوگ کہاں لاہور چلے
یادوں میں مثالِ قوسِ قزح

رنگوں سے بھرا بلور چلے
گلیوں میں کہیںبندوق چلی

حکام مرے پُر شور چلے
دوچار پرندے ساتھ گریں

جس وقت یہ بارہ بور چلے
اب رنگ بدل کر پھول کھلیں

اب چال بدل کر مور چلے
میں اور جہاں خاموش رہا

سامان اٹھا کر چور چلے
منصور کہانی روندی گئی
کردار بڑے منہ زور چلے
٭
ملالِ عمر! ترا لخت لخت کون گنے

فلک پہ تارے زمیںپہ درخت کون گنے
شمار ہوتا اگرسلطنت کہیں ہوتی

میوزیم میں پڑے تاج وتحت کون گنے
انہیں کتابوں میں رکھو عدالتوں کیلئے

یہ بے نفاذ قوانینِ سخت کون گنے
مجھے تو عارض و لب کا حساب رکھناتھا

یہ خوبروں کے لہجے کر خت کون گنے
جو پاس ہے وہی رستے کا بس اثاثہ ہے

جو کھو گیا ہے اسے سازو رخت کون گنے
طلوع ہوتے نصیبوں کا دور ہے منصور
غروب ہوتے ہوئے بخت وخت کون گنے
٭
زخم دل کی ،چشم نم کی سر بلندی کیلئے

 جان دی خالی شکم کی سربلندی کیلئے
جاں ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں تیرے سرفروش

دہر میں تیرے علم کی سر بلندی کیلئے
ہم چلے شہرِ شہادت کی طرف ہنستے ہوئے

روشنی کے ہر قدم کی سربلندی کیلئے
لکھ رہے ہیں روشنی لوحِ افق پر خون سے

ہم ترے علم و قلم کی سربلندی کیلئے
نیل سے اقبال اب بھی تابخاکِ کاشغر

جمع ہیں مسلم ،حرم کی سر بلندی کیلئے
عمر بھر منصور ٹکراتے رہے ہیں کفر سے
تیرے اسمِ محترم کی سر بلندی کیلئے
٭
ہر لمحہ تازہ قتل کا امکان کس لئے

وحشت میں مبتلا ہواانسان کس لئے
میں سوچتا ہوں دیکھ کے اڑتے ہوئے پرند

لایا ہوں ہفتہ بھر کا یہ سامان کس لئے
شاخیں لدی ہوئی ہیںگلابوں سے غیر کی

خالی ہے میری ذات کا گلدان کس لئے
جنت نما ہیںاہل ستم کی ریاستیں

اپنے دیار ِ زندگی ویران، کس لئے
رائج جہاں میںکیوں ہوئی جنگل کی شہریت

کچھ بھیڑیاصفت ہوئے سلطان کس لئے
کیا جانوں کس نے پیٹھ لگائی تھی اس کے ساتھ

پھیلا ہوا پیڑ میں سرطان کس لئے
آخر کہاںگئی ہیں وہ کرنیںوہ گرم دھوپ

ویراں پڑا ہوا ہے یہ دالان کس لئے
آسیب پھر رہا ہے کوئی میرے ساتھ ساتھ

ہونے لگا ہے روزہی نقصان کس لئے
جاتے نہیں ہیں لوٹ کے اپنے ستاروں پر
منصور کائنات کے مہمان کس لئے
٭
یہ کائناتِ بدن چھاونی بنادی ہے

کسی نے جنگ مری زندگی بنادی ہے
دماغ اسلحہ خانہ بنا دیا ہے مرا

تمام جلد مری آہنی بنا دی ہے
یہ پانچ وقت شہادت کی بولتی انگلی

مشین گن کی سیہ لبلبی بنادی ہے
یہ نقشِ پا نہیں بارود کی سرنگیں ہیں

بموں کی آگ مری روشنی بنا دی ہے
یہ کس نے کافری منصور کی ہے بستی میں
حلال ،ظلم بکف خود کشی بنا دی ہے
٭
گئی رتوں کے جو ہمسفر تھے چراغ لے کر کھڑے ہوئے تھے

پلٹ کے ہم جو گئے توگلیوں میں چاند تارے پڑے ہوئے تھے
اداس کتنا وہی مکاں تھاخود آپ گزروںکی داستاں تھا

بڑے بڑوںکی کہانیاں ہم جہاں پہ سن کر بڑے ہوئے تھے
جہاں جہاں سے گزر رہا تھا خزاں کی باچھیںکھلی ہوئی تھی

مرے نظر کے شجر برہنہ تھے مردہ پتے جھڑے ہوئے تھے
یہ کیسے ممکن تھا ساتھ چلتے ،یہ کیسے ممکن رات ڈھلتی

انہیں چراغوں سے بیر ساتھامجھے اندھیرے لڑے ہوئے تھے
 جو عمر میں نے بسر نہیں کی، سنائی دیتی تھی ہر گلی سے

کئی فسانے بنے ہوئے تھے ہزار قصے گھڑے ہوئے تھے
وہیں پہ راتوں پچھلے پہروں خدا سے ہوتی تھی گفتگو بھی
وہ ایک کمرہ کہ جس کی چھت پرتنے شجر کے چڑھے ہوئے تھے
٭
یخ ہوا ہے برف کا برفیلا پن ہے

لبلبی پرانگلیوں کا نیلا پن ہے
یہ بھی پیوستہ گزشتہ سے ہے موسم

برگِ گل میں زرد رُت کا پیلا پن ہے
میں مزاجاً دھیمے پن کا آدمی ہوں

تیرے کپڑوں میں بہت بھڑکیلا پن ہے
کینچلی ہے سانپ کی بھی خوبصورت

اس کے بھی اندر کہیں زہریلا پن ہے
اونٹی پر پیاس کا ہے ساتواں دن

آندھیاں ہیں دشت کا سوتیلا پن ہے
محوِ حیرت ہوں کہ اُس بازار میں بھی

کیسے باقی اب تلک شرمیلا پن ہے
راستے مدِ مقابل آکھڑے ہیں

کیسا میرے پائوں کا پتھریلا پن ہے
تبصرہ اس کے رویے پر کروں کیا

خار کی پہچان ہی نوکیلاپن ہے
ہم نفس منصور برسوں سے ہے سورج
گیلے من میںکچھ ابھی تک گیلا پن ہے
٭
ہر قدم تلوار پر ہے ، ہر نگہ نیزے پہ ہے

آگ میں انسانیت ہے کربلا نیزے پہ ہے
دوپہر ہے موت کی گرمی ہے کالی رات میں

ظلم کا مصنوعی سورج پھرسوا نیزے پہ ہے
جاہلوں کے شہر میں ہے بے دماغوں کا خرام

علم کی دستار مٹی میں، قبا نیزے پہ ہے
میں اسی کے راستے پر چل رہا ہوں دشت میں

ہاں وہی جس شخص کی حمدو ثنا نیزے پہ ہے
ہے محمد ﷺکے نواسے سی شبیہ منصور کچھ
 دیکھ کچھ نزدیک جاکر، دیکھ کیا نیزے پہ ہے
٭
آگ کے پاگل بگولے رقص میں ہیں موت ہے

آگ کے پاگل بگولے رقص میں ہیں موت ہے
رہ رہا ہے آنکھ میںجس کی فرشتۂ اجل

سب عمل دجال کے اُس شخص میں ہیں موت ہے
ورنہ کمرے کم بہت ہی اپنی آبادی سے تھے

 خوبیاں بھی کچھ مکاں کے نقص میں ہیں موت ہے
پھر بھی دل ہے کہ مسلسل مانگتا ہے اس کا قرب

کتنے خطرے صحبت ِ برعکس میں ہیں موت ہے
سہل انگاری مزاجاًحضرت ِمنصور میں
رقص کرتی بجلیاں ہمرقص میں ہیں موت ہے
٭
دریچوں پر اذانِ وقت کی دستک برابر ہے

زمیں اللہ کی ہے اور سب کا حق برابر ہے
خدا پر رزق کی تقسیم کا الزام صدیوں سے

مساواتِ محمد میں مقدر تک برابر ہے
جہاں ہم خود نہیں رہتے وہ گھر اپنا نہیں ہوتا

کرایہ خاک کا اور سود کی کالک برابر ہے
تمہیں اے صاحبانِ زر ،ہے دوزخ کی وعیدِ خاص

ڈرو۔دنیا میں بھی اس کی پکڑبے شک برابر ہے
کبھی گزرے نہ وہ تجھ پرجوگزری مجھ پہ سوگزری

قیامت ہجر کی اورموت کی ٹھنڈک برابر ہے
مجھے لگتا ہے تم سوئے نہیں ہو رات بھر منصور
تمہاری چار پائی پر پڑی اجرک برابر ہے
٭
دیکھوں میں سبز گنبد تسکین ہے تو یہ ہے

اسلام ہے تو یہ ہے، کچھ دین ہے تو یہ ہے
ان پر درود بھیجوں ان پر سلام بھیجوں

ان کی میں نعت لکھوںتحسین ہے تو یہ ہے
وقت ِ قضا تب آئے جب میں مدنیہ پہنچوں

تجہیز ہے تو یہ ہے تکفین ہے تو یہ ہے
میرے نصیب میں ہوشہرِ نبیﷺ کی مٹی

تقدیر ہے تو یہ ہے تدفین ہے تو یہ ہے
چہرے پہ نور برسے،ہونٹوں سے پھول برسیں

ان کی نظر میں آئوں تزئین ہے تو یہ ہے
قرآن کہہ رہا ہے منصور ہرسخن میں
فرقان ہے تو یہ ہے یٰسین ہے تو یہ ہے
٭
ستم گرو نہ کہو یہ جہاد جاری ہے

گلی گلی ہیں دھماکے، فساد جاری ہے
مری بہشت کو دوزخ بنا رہے ہیں لوگ

بنامِ دین غضب کا عناد جاری ہے
کسی قیامتِ صغریٰ میں جی رہاہوں میں

حسیں دنوں پہ مگر اعتقاد جاری ہے
غزل کی آخری ہچکی اُدھرسنائی دے

مشاعروں کا ادھر انعقاد جاری ہے
نظر میں خواب تو برفیں جمی ہے جھیلوں میں

ہر ایک شے میںکوئی انجماد جاری ہے
وہ جس کے ہجرکی وحدت ملی مجھے منصور
اُس ایک حسنِ مکمل کی یاد جاری ہے
٭
ذرا سا زخم آئے تو یہ مرہم مانگنے والے

گزرتے ہی نہیں جاں سے محرم مانگنے والے
بناتے پھرتے ہیں کیسے تعلق قیس سے اپنا

بدن کے واسطے کمخواب و ریشم مانگنے والے
سب اُس بازار کے دلال ہیںرشتوںزمینوںتک

یہ استعمال کی چیزوں پہ کسٹم مانگنے والے
بھلا کیسے یہ ہوسکتے ہیںخادم کعبہ اللہ کے

یہ حج کو بیچنے والے یہ درہم مانگنے والے
کبھی منصور جا کر پوچھتے احوال کانٹوں کا
گلستان کیلئے پھولوں کا موسم مانگنے والا
٭
محیطِ کون مکاں تم فروغِ کن تم سے

رسولِ صبح تبسم فروغ کن تم سے
تمہی کتاب زماں ہو تمہی ِ کتابِ مکاں

تمہی خدا کا تکلم فروغ کن تم سے
تمہی ہوصبحِ ازل سے ابد تلک روشن

جہانِ نور کے قلزم فروغ کن تم سے
تمہی ہوا کا چلن ہو تمہی خدا کا ہاتھ

تمہی ندی کاترنم فروغ کن تم سے
تمہاری چشم ِ کرم سے نکلتا ہے سورج

تمہی سحر کا تلاطم فروغ کن تم سے
جہاں سے گنبدِ خضرا دکھائی دیتا ہے

ہے کائنات وہاں گم فروغ کن تم سے
تمہارے ہونے سے میخانہ ِجہاں موجود

تمہی ہو ساقی تمہی خم فروغ کُن تم سے
تمہارارحم و کرم کہ تمہارا ہے منصور
تمہی شعور کاترحم فروغ کن تم سے
٭
صبحِ وطن کی کرنوں والے شام سے ڈرنا بھول گئے

زندہ ہوئے کچھ اور اجالے مرنا ورنابھول گئے
سری نگر کے رستے پر تو موت ابھی تک راج کرے

جہلم کے ماتھے سے دن کے نور ابھرنابھول گئے
ابھی تو کیرن سے آگے ہر پھول لہو کی خوشبو دے

آب رواں میں قوسِ قزح کے رنگ اترنابھول گئے
سیبوں جیسے چہروں پر کہساروں کی برفاہٹ ہے

پیر چناسی پر اخروٹ کے پیڑ نکھر نا بھول گئے
اس کی یادیں سوچوں کو بکھرانے والامحشر تھیں

رات ہوئی تودیپ جلا کر طاق میںدھرنا بھول گئے
آنکھ اٹھا کر دیکھنے والی آنکھیں سجدہ ریز ہوئیں

اس کے آگے ہم سے سخنور بات بھی کرنا بھول گئے
موت زدہ کشمیر کا چہرہ پھولوں سا منصور کہاں
ایسی وحشت ناک فضا میںلوگ سنورنا بھول گئے
٭
نکلا ہے اپنا حسن ِنگارش چراغ سے

ہوتی ہے روشنی بھری بارش چراغ سے
بجھنا نہیں ہے تجھ کو اندھیروں کے راج میں

کرتا ہوں صرف اتنی گزارش چراغ سے
روشن پلیز! رکھنامری رات کا خرام

وہ چاند کر رہا ہے سفارش چراغ سے
ابلیس کے لئے ہیں اندھیرے پناہ گاہ

ہے خار خاررات کو خارش چراغ سے
منصورہر جگہ یہ فروزاں ہوں مہتاب
ہوتی ہے تیرگی کی فرارش چراغ سے
٭
مصرع! شبِ نزول تہجد کا وقت ہے

لفظوں کا کوئی پھول تہجد کا وقت ہے
کوئی دعا قبول ہو میرے ملال کی

ہر چیز ہے ملول تہجد کا وقت ہے
جی چاہتا ہے آنکھ کو مل جائے لمحہ بھر

اک ساعتِ رسول تہجد کا وقت ہے
دونوں جہاں کے واسطے مجھ کو چراغ کر

کرالتجا قبول تہجد کا وقت ہے
منصور آسمان سے اتریں مرے نصیب
اپنے بدل اصول تہجد کا وقت ہے
٭
ہر بزم قہقہوں سے بھرے تذکروں کی ہے

اب زندگی ہماری نہیں مسخروں کی ہے
جو خوش دماغ لوگ ہیںبستی پہ بوجھ ہیں

کچھ ہے توبات بس یہاں خالی سروں کی ہے
وہ باغِ شالامار خرید یں جو بس چلے

فطرت کچھ ایسی دیس کے سودا گروں کی ہے
گلیوں میں ایک سے ہیںمکانوں کے خدوخال

غلطی کہیں ہماری نہیں منظروں کی ہے
منصور حاکموں کی توجہ کہیں ہے اور
قسمت ابھی ہمارے عجائب گھروں کی ہے
٭
اعمال میں اپنے حسن و خوبی ساتھ رہے

سلطان صلاح الدیں ایوبی ساتھ رہے
یہ پیڑ شریعت کے سایہ دار ہیںلیکن

کچھ ہوش کی وادی میں مجذوبی ساتھ رہے
دلدار کے نقشِ پاپیشانی پر چہکیں

محبوب کی گلیوں میں محبوبی ساتھ رہے
پُر وجد قوالی ہو یا عشق کی باتیں ہوں

ہر ایک عمل میں خوش اسلوبی ساتھ رہے
یہ ایک بروزِحشر گواہی کافی ہے

ظلمات کی جانب سے معتوبی ساتھ رہے
منصوراکیلا چھوڑا نہیںہے رستے میں
اس شہرِ طلب میںدرد بخوبی ساتھ رہے
٭
موجوں کو اٹھتی بھاپ کے لالے پڑے رہے

دریا میں اک ذرا میرے چھالے پڑے رہے
منہ کو کلیجہ آئے جب آئے کسی کی یاد

کیا کیا حسیں چڑیلوں سے پالے پڑے رہے
پھر چاند نے بھی چھوڑ دیا رات کادیار

جب بستروں میں دیکھنے والے پڑے رہے
چیزیںتو جھاڑتا رہا جاروب کش مگر

ذہنوں پہ عنکبوت کے جالے پڑے رہے
تاریخ جھوٹ کا ہی اثاثہ بنی رہی

تحقیق کے مکانوں پہ تالے پڑے رہے
حلقے پڑے رہے مری آنکھوں کے ارد گرد

مہتاب کے نواح میں ہالے پڑے رہے
تسخیرِاسم ذات مکمل ہوئی مگر
منصوراپنے کان میں بالے پڑے رہے
٭
لوگوں کی بے وفائی کب اختیار میں ہے

گاڑی مسافروں کے پھر انتظار میں ہے
اعلان جا کے کردومسجد کی چھت پہ چڑھ کر

میں چاہتاہوں جس کو وہ میری کار میں ہے
اک کونج رو رہی ہے سوکھی ہوئی ندی پر

سہمی ہوئی سی لرزش اس کی پکار میں ہے
میں چاہتا ہوں اس سے وعدہ نبھانا لیکن

غم سے نجات جو ہے خود سے فرار میں ہے
بے شک ہزاروں میں نے اشعار کہہ دئیے ہیں

سچ پوچھ تو ابھی تک بات اختصار میں ہے
میرے یہ لفظ بھی تو کرلاہٹیں ہیں میری

میرا وجود شامل کونجوں کی ڈار میں ہے
تقدیر کے طلسم سے سورج نکل گیا

دیکھو کئی دنوں سے راتوں کے غار میں ہے
اٹھ چل کنارِ سندھ پہ کرتے ہیں کچھ شکار
مچھلی کی بھی ضرورت منصور جار میں ہے
٭
جانے کیسے جرم کئے ہیں اِس امتِ تجدید طلب نے

فکر و نظر تک چھین لئے ہیں رحمت ِکل کے قہرو غضب نے
اپنے غم کے ساتھ جہاں کے دکھ بھی پیش کئے ہیں میں نے

بے شک دل تحریر کئے ہیں اپنی اپنی نعت میں سب نے
پاس پڑا ہے ایٹم بم اور خوفزدہ ہیںہم دشمن سے

چھوڑا نہیں افسوس کہیں کا مال و زر نے عیش و طرب نے
شوقِ شہادت رکھنے والے تیرے مجاہد قاتل ٹھہرے

صبح کے سچے متوالوں کو دہشت گرد کہا ہے شب نے
ویراں موٹر وے یورپ کے ، بس اسٹاپ بھی خالی خالی
تہذبیوں کی جنگ ہے جاری ، بند کیا ہے تیل عرب نے
٭
قاتل بھی شریکِ صفِ ماتم ہے عجب ہے

افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے
بہتے ہیں کئی طرح کے افسوس نظر سے

یہ آنکھ بھی دریائوں کا سنگم ہے عجب ہے
پھولوں کے مراسم ہیں کہیں آتشیں لب سے

شعلوں کی مصاحب کہیںشبنم ہے عجب ہے
کل تک وہی شداد تھا نمرود تھا لیکن

اب وہی مسیحاوہی گوتم ہے عجب ہے
منظر ہے وہی لوگ مگر اور کوئی ہیں

دیکھو وہی دریا وہی شیشم ہے عجب ہے
وہ جس نے نکالا تھا بہشت آباد سے ہم کو

خوابوں میں وہی دانہ ء گندم ہے عجب ہے
ہم ڈھونڈتے نکلے تھے جسے عرشِ بریں پر

گلیوں میں وہی حسنِ مجسم ہے عجب ہے
منصور مجھے چھوڑا ہے اک شخص نے لیکن
ہر آنکھ میںانکار کا موسم ہے عجب ہے
٭
محرم دل، غیر محرم کیا ہوئے

کچھ تو کہیے آپ کے ہم کیاہوئے
کیا ہوئے وہ بانسری کے نرم سُر

وہ کنارِ آب شیشم کیا ہوئے
کس گلی میں رک گیا سچ کا جلوس

سرپھروں کے اونچے پرچم کیا ہوئے
رک گیا دل ، تھم گئی نبضِ حیات

وقت کے سنگیت مدہم کیا ہوئے
گائوں کے چھتنار پیڑوں کے تلے

وہ جوتھے سوچوں کے سنگم کیا ہوئے
خوبرو تھی جو محبت کیا ہوئی

وہ ہمارے دلرباغم کیا ہوئے
کیا ہوا آہنگ بہتی نظم کا

لفظ جو ہوتے تھے محکم کیا ہوئے
سنگ باری کی رتیں کیوں آگئیں

قربتوں کے سرخ ریشم کیا ہوئے
کیا ہوئی منصوررنگوں کی بہار
شوخ دوپٹوں کے موسم کیا ہوئے
٭
بادِ خوشبو کو ہم کلام کرے

زندگی لمسِ رنگ عام کر ے
رزق میرا بھی کچھ کشادہ ہو

کوئی میرے بھی گھر قیام کرے
میں کہ رومانیت کا پیغمبر

کون کافر مجھے امام کرے
ایک شاعرکی حیثیت کیا ہے

اس سے کہہ دو کہ کوئی کام کرے
سندھ دریا کے ٹھنڈے پانی میں

میری خاطر وہ سرد آم کرے
دشت کی آتشیں شعاعوں پر

شامِ قوسِ قزح خرام کرے
غم سے کہنا کہ آج پلکوں پر

محفلِ شب کا اہتمام کرے
کوئی منصور روز و شب میرے
اپنی آسودگی کے نام کرے
٭
رات بھر نازل ہوں فٹ پاتھوں پہ چاند الہام کے

شاعرو! اونچے گھروں میں رتجگے کس کام کے
خواب گہ میں ایک آتش دان روشن تھا مگر

سرد لمحے کانپتے تھے جنوری کی شام کے
بانس کے کمرے میں دھڑکن بج رہی تھی گیت کی

لان میں چپ برف اوڑھے پیڑ تھے بادام کے
قید ہیں کتنے برس سے جانتا کوئی نہیں

دکھ کی غاروں میںمسافر منزلِ خوشگام کے
بن گئے اپنی محبت کی وہ شریں یادگار

جو نواحِ کوچہ ء گل میں شجر تھے آم کے
اپنا کیا تھا کس لئے ہوتے خدا کے ہم نفس
اپنے تو منصور سے بھی رابطے تھے نام کے
٭
صدیوں کے آسیب زدہ دیوار ودر آباد ہوئے

دار ورسن کی منزل پر کچھ بخت آور آباد ہوئے
دریا تیرے ساحل تو جاگیر ہیں تیری گائوں کا کیا

گائوں ادھر برباد ہوئے تو گائوں ادھر آباد ہوئے
خواب سنانے والوں کا اب دیس میں رہنا جرم ہوا

سات سمندر پار کہیں جا شہر بدر آباد ہوئے
شام کی بھیگی نرم ہوا نے لہروں سے سرگوشی کی

اور پرندوں کے کچھ جوڑے ساحل پر آباد ہوئے
جب بھی اپنے گائوں گئے ہم ، بند مکاں کا دروازہ

پوری تیس برس تک دیکھا آخر گھر آباد ہوئے
عمر گزاری جا سکتی تھی خاک نگر منصور مگر
عرش پہ ہونگے ہم آوارہ گرد اگر آباد ہوئے
٭
رسن کا سامنے رستہ پڑا ہے

مرے آگے مرا سجدہ پڑا ہے
ازل کی جاگتی آنکھوں میں آکر

کہاں سے نیند کا جھونکا پڑا ہے
ابھی کچھ اور جینا چاہتا ہوں

ابھی اجداد کا قرضہ پڑا ہے
یزیدوں سے میں کیسے صلح کرلوں

مرے گھر تازیہ میرا پڑا ہے
خدا سے عین ممکن ہے ملاقات

ابھی تو آخری زینہ پڑا ہے
سبھی عشاق ہیںاک روحِ کل کے

فقیروں میں کبھی جھگڑا پڑا ہے
بھلا مایوس کیوں ہوں آسماں سے

جسے مارا گیا زندہ پڑا ہے
اک ایسی مملکت میں جی رہا ہوں

جہاں آسیب کا سایہ پڑا ہے
بصد افسوس تیرانامِ نامی

مجھے دیوار پر لکھنا پڑا ہے
جہالت کے جہاں بہتے ہیں دریا

اسی اسکول میں پڑھنا پڑا ہے
یہ شام ِزرد رُو کا سرخ فتنہ

ہے باقی جب تلک دنیا، پڑا ہے
اسی پل کا ہوں میں بھی ایک حصہ

جہاں خاموش دریا سا پڑا ہے
ابھی آتش فشاں کچھ اور بھی ہیں

پہاڑوں میں ابھی لاوا پڑا ہے
پڑا تہذیب کے منہ پر طمانچہ

سڑک پہ پھر کوئی ننگا پڑا ہے
زمانے سے چھپا رکھی ہیں آنکھیں

مگر وہ دیکھنے والا پڑا ہے
نہیں ہے تیری لافانی کہانی
مجھے منصور سے کہنا پڑا ہے
٭
وہ صحرا میں سفر روکے ہوئے تھے

 شجر شاخوں کے پر کھولے ہوئے تھے
ہم ایسے تھے سمندر میں بھی موتی

گراں قیمت ہمی قطرے ہوئے تھے
بڑی تقریر کی تھی زندگی نے

خلافِ مرگ کچھ جلسے ہوئے تھے
مجھے کیوںدیکھتے تھے بے رخی سے

گلی میں لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے
ہمیں تحریر تھے موجوں کے اوپر

چٹانوں پر ہمی لکھے ہوئے تھے
اُدھر عزت کسی کی لٹ رہی تھی

اِدھر دستِ دعا اٹھے ہوئے تھے
کہاں آنکھیں اکیلی رو رہی تھیں

وہاں پتھر کئی پگھلے ہوئے تھے
شہیدوں کی قطاریں لگ گئی تھیں

خدا کے نام پر جھگڑے ہوئے تھے
لگا تھا ایک دروازے پہ تالا

مگر اس کے کواڑکھڑے ہوئے تھے
نہ تھا پروازِ جاں کا اذن لیکن

پرندے اپنے پر تولے ہوئے تھے
کوئی پرہول منظر تاک میں تھا

کبوتر کس لئے سہمے ہوئے تھے
اٹھائے پھرتے تھے ہم ساتھ منزل

ازل کی شام کے بھٹکے ہوئے تھے
ہوا کے اونٹ پر منصورمیں تھا
تھلوں کے راستے بھولے ہوئے تھے
٭
ذہن اللہ کا ادراک پہن کر آئے

آدمی خاک سے افلاک پہن کر آئے
لوگ تو ننگ لباسوں میں چھپا کر نکلے

ہم گریباں کے فقط چاک پہن کر آئے
فصلِ گل ہاتھ پہ رکھ کر کوئی تھل سے نکلا

ہم چمن سے خس و خاشاک پہن کر آئے
نور و سایہ کی کثافت سے منزہ تھے مگر

میری دنیا کی طرف خاک پہن کر آئے
ہم عمامہ و قبا روند کے باہر نکلے

شیخ دستاروں کے پیچاک پہن کر آئے
کیا ڈبوئے گی اسے موجۂ وحشت منصور
 چشمِ گرداب جو پیراک پہن کر آئے
٭
خالی پھر بچھونا ہے

پھر کسی نے سونا ہے
سربلند لوگوں کا

بادشاہ بونا ہے
پوری کیسے ہو تعبیر

خواب آدھا’ پونا‘ ہے
دوسروں کے ماتم پر

اپنا اپنا رونا ہے
اجنبی ہے دنیا سی

کون مجھ سا ہونا ہے
انتظارِ جاری نے

کیا کسی کو کھونا ہے
آنسوئوں کی بارش سے

قیقہوں کو دھونا ہے
وقت ایک بچہ سا

آدمی کھلونا ہے
زخم زخم دامن کا

چاک کیا پرونا ہے
میں ہوں اور تنہائی

گھر کا ایک کونا ہے
چائے کی پیالی میں

آسماں ڈبونا ہے
کائنات سے باہر

کیا کسی نے ہونا ہے
عرش کا گریباں بھی

آگ میں بھگونا ہے
موت کو بھی آخر کار

قبر میں سمونا ہے
آبلوں کے دریا کو

دشت بھر چبھونا ہے
تیرے دل میں میرا غم

پھر مجھے کہونا، ہے
حسن دھوپ میں منصور
سانولا سلونا ہے
٭
اون بھیڑوں کی فقط ساتھ تھی گرمی بن کے

دھار گرتی تھی تو رہ جاتی تھی قلفی بن کے
شب زدوںکیلئے کرنوں بھری نظمیں لکھوں

ظالموں سے میں لڑوں دیس کا فوجی بن کے
کرچیاں شہر میں اڑتی ہوئی دیکھوں اس کی

جو مجھے دیکھتا پھرتا تھا بلندی بن کے
گفتگو اس کی ترو تازہ مجھے رکھتی ہے

ملنے آتی ہے ہمیشہ وہ تسلی بن کے
شہر میں پھرتا ہے دھیما سا وہی گرد و غبار

جو گزر آیا ہے صحرائوں سے آندھی بن کے
کوئی سمجھائے اسے چھوڑ دے پیچھا میرا

روز آجاتی ہے قسمت کی جو سختی بن کے
ڈوبتے جاتے ہیں پانی کے تلاطم مجھ میں

پھیلتا جاتا ہوں دریائوں میں خشکی بن کے
طے شدہ وقت پہ ہر روز جگا دیتا ہے

مجھ میں موجود ہے گھڑیال خرابی بن کے
ڈھونڈے ماخد ہیںکئی قبروںکے کتبے پڑھ کر

یعنی تاریخ لکھی عہد کی طبری بن کے
میری بربادی کی سامان کئے جاتے ہیں

دیکھتا رہتا ہوں لوگوں کو میں بستی بن کے
ان میں کتنے ہیں جو آئندہ بھی ہونگے موجود

دفن مٹی میں ہوئے لوگ جو ماضی بن کے
جس کے رنگوں سے جلے قوسِ قزح بھی منصور
کرتی ہے میرا تعاقب وہی تتلی بن کے
٭
اک دیے کا ہوانے کیا قتل ہے

زندگی کا کہیں ہوگیا قتل ہے
تیرے کالر پہ جو سج گیا ہے گلاب

تیلیوں کیلئے پھول کا قتل ہے
دین نے ایک انسان کے قتل کو

ساری انسانیت کا کہا قتل ہے
دل نے چاہا اسی وقت اس کاقصاص

جب کسی بے گنہ کا ہوا قتل ہے
اپنے نزدیک انسانی اعمال میں

جرم کی آخری انتہا قتل ہے
بے گناہی کا جو شخص قاتل ہوا
صرف منصور اس کا روا قتل ہے
٭
زندگی شہرِ دل کی خرامی سے ہے

یہ مدینے میں اپنی سلامی سے ہے
اُس سراپا عنایت پہ بھیجیں دورد

اپنی آزادی جس کی غلامی سے ہے
یہ مناظر کی میٹھی حسیںدلکشی

ایک پاکیزہ اسم گرامی سے ہے
کائناتِ شبِ تیرہ و تار میں

روشنی اُس کی قرآں کلامی سے ہے
جس کے ہونے سے ظاہر خدا ہوگیا

اپنا ہونا تواُس نامِ نامی سے ہے
جوبھی اچھاہے اس کی عطاسے لکھا

جو لکھا ہے غلط میری خامی سے ہے
ان سے منصور پہلو تہی جن کا بھی
ربط ابلیس جیسے حرامی سے ہے
٭
تباہی ہے شبِ آئندگاں تباہی ہے

یہ لگ رہا ہے مجھے ناگہاں تباہی ہے
کوئی معاشرہ ممکن نہیں بجز انصاف

 جہاں جہاں پہ ستم ہے وہاں تباہی ہے
میں ٹال سکتا نہیں آیتوںکی قرآت سے

لکھی ہوئی جو سرِ آسماں تباہی ہے
گزر گیا ہے جو طوفاں گزرنے والاتھا

یہ ملبہ زندگی ہے، اب کہاں تباہی ہے
بچھے ہوئے کئی بھونچال ہیں مکانوں میں

دیارِ دل میں مسلسل رواں تباہی ہے
دعا کرو کہ قیامت میں دیکھتا ہوں قریب

مرے قریب کوئی بے کراں تباہی ہے
فراز مند ہے ابلیس کا علم منصور
گلی گلی میں عجب بے نشاں تباہی ہے
٭
وہ دیکھنے کے نہیں آنکھ کے خرابہ سے

انہیں میں دیکھتا کیا دیدۂ صحابہ سے
تھا چاروں آنکھوں میں حدِ نگاہ تک پانی

نکل کے آیا ہوں ڈوبے ہوئے دوآبہ سے
فرشتو! جاؤ کہ حکمِ طواف آیا ہے

اٹھا لے آؤ وہ کمرہ مقامِ کعبہ سے
وہ جس کا اسم ہے یاھو ، جو میرا باھو ہے

اسی نے مجھ کو ملایا ندیم بھابھہ سے
وہ اور ہیں جنہیں سورج ملا وراثت میں

مجھے تو ورثے میں راتیں ملی ہیں آبا سے
یہ کیسے روح ہوئی ہے ہری بھری منصور
یہ کس نے جا کے کہا ہے دعا کا بابا سے